مایہ ناز کرکٹر اور مبصر رچی بینو کے پسندیدہ 11کھلاڑی
کرکٹ کی تاریخ میں رچی بینوکو منفرد مقام حاصل ہے۔
کرکٹ کی تاریخ میں رچی بینوکو منفرد مقام حاصل ہے۔
مایہ نازکھلاڑی اور ممتاز مبصرکے طور پرانھیں جو تکریم ملی، وہ کرکٹ میں شاید ہی کسی اور شخصیت کے حصے میں آئی ہو۔کھلاڑی کی حیثیت سے وہ کئی تاریخ ساز لمحات کا حصہ رہے مثلاً،1956ء میں جم لیکر نے جس ٹیسٹ میںانیس وکٹیں حاصل کیں،اس میں وہ شریک رہے، اور1960ء میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تاریخِ کرکٹ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ میں بھی ،وہ اپنی ٹیم کی قیادت کررہے تھے ۔
مبصر کی حیثیت سے پچاس برس پر پھیلے سفر میں، جن تاریخی واقعات کے وہ شاہد ہیں، ان کا توکوئی شمار ہی نہیں۔بہترین بیٹسمین،زبردست لیگ اسپنر،عمدہ فیلڈر،عظیم کپتان،اور مایہ ناز مبصر،یہ سب حوالے انھیں عبقری شخصیت بناتے ہیں۔ ایسی پہلودارشخصیت کرکٹ میں دوسری کوئی نظر نہیں آتی۔ معروف کرکٹ تاریخ دان گائیڈن ہیگ انھیں دوسری جنگ عظیم کے بعد کا سب سے بااثرکرکٹر اور شخصیت قرار دیتاہے۔ممتاز کرکٹر اور کمنٹیٹر بل لاری کے خیال میں رچی بینو دنیا کے نمبر ون کمنٹیٹر ہیں۔
پچاس کی دہائی کے آخر میں جب ٹیسٹ کرکٹ ڈل ہونے کے باعث کشش کھوتی جارہی تھی، اسے دوبارہ سے شائقین میں مقبول بنانے میں 1960ء میںآسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والی سیریز سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔اس سیریز میں رچی بینو اوران کے ہم منصب فرینک ووریل نے ٹیسٹ میچوں میں جارحانہ طرزکو فروغ دے کر کرکٹ کو نئی راہ پر ڈال دیا۔تاریخِ کرکٹ میں ان مقابلوں کو یادگار حیثیت حاصل ہے۔ کرکٹ سے جڑے معاملات میں ان کی فراست سے کیری پیکر نے فائدہ اٹھایا،اور آئن چیپل اور شین وارن جیسے نامور انھیں گرو تسلیم کرتے ہیں۔
وہ پچاس برس سے کمنٹری باکس میں ہیں، اس عرصے میںان کا قلم بھی حرکت میں رہا،اخبارات میں مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ رچی بینو کی کتاب Over But Not Out میںان کی انتخاب کردہ ورلڈ الیون دیکھی تو خیال گزرا، اس میں شامل ناموں سے قارئین کو بھی آگاہ کیا جائے۔رچی بینو کا انتخاب، اس لیے زیادہ توجہ کا مستحق ہے کہ وہ بڑے کھلاڑی ہی نہیںکرکٹ کے مفکر اور مبصر بھی ہیں، قدیم اور جدید کرکٹ پر ان کی گہری نظرہے ، اس لیے ان کی منتخب کردہ ٹیم میں جگہ پانا کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔
اپنی اس تصوراتی ٹیم کے لیے بارھویں کھلاڑی اور مینجر کا انتخاب بھی انھوں نے کیا ہے۔سچن ٹنڈولکر اس ٹیم میں شامل واحد کھلاڑی ہیں، جو اس وقت بین الاقوامی کرکٹ سے وابستہ ہیں۔رچی بینو نے اپنی ٹیم میں ایسے بڑے کھلاڑیوں کوشامل کیاہے، جن کے کھیل نے کرکٹ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔زیادہ تر کھلاڑی وقت گزرنے کے ساتھ ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں، چند نام البتہ ایسے ضرور ہوتے ہیں، جن کے نام کو دوام ملتا ہے، رچی بینو کی ٹیم میں ایسے نامیوں کو ہی جگہ ملی ہے۔وہ مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے اس ٹیم میں شامل تمام کھلاڑیوں سے ملاقات کرچکے ہیں۔
فائنل الیون میں کیتھ ملر جگہ نہ بناسکے اوروہ بارھویں کھلاڑی بنادیے گئے، گیری سوبرز کو ان پر ترجیح دی گئی۔ وہ اس بات کو اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں کہ انھیں دنیا کے چار عظیم آل رائونڈروں عمران خان، رچرڈ ہیڈلی، آئن بوتھم اور کیپل دیو کا کھیل کمنٹری باکس سے دیکھنے کا موقع ملااورچاروں سے ان کی بات چیت بھی رہی۔
رچی بینو سمجھتے ہیں کہ ایڈم گلکرسٹ نے اپنے شاندار کھیل سے وکٹ کیپر اور ساتویں نمبر کے بیٹسمین کی پوزیشن کو بدل کر رکھ دیا۔بیرون ملک کپتانی کرنے والے ویسٹ انڈیز کے پہلے کالے کپتان فرینک ووریل ان کے محبوب کھلاڑی ہیں۔ان کے خیال میں وہ اس زمانے میں کپتان بنے، جب ویسٹ انڈین ٹیم کو سنبھالنا خاصا مشکل کام تھا مگرانھوں نے بڑی حکمت سے ٹیم کو کنٹرول کیا۔وہ انھیں بہترین کپتان اور ایڈمنسٹریٹر قرار دیتے ہیں، یہی وجہ ہے ، ٹیم منیجر کے طور پر ان کا تقرر کیا گیاہے۔
مایہ نازکھلاڑی اور ممتاز مبصرکے طور پرانھیں جو تکریم ملی، وہ کرکٹ میں شاید ہی کسی اور شخصیت کے حصے میں آئی ہو۔کھلاڑی کی حیثیت سے وہ کئی تاریخ ساز لمحات کا حصہ رہے مثلاً،1956ء میں جم لیکر نے جس ٹیسٹ میںانیس وکٹیں حاصل کیں،اس میں وہ شریک رہے، اور1960ء میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تاریخِ کرکٹ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ میں بھی ،وہ اپنی ٹیم کی قیادت کررہے تھے ۔
مبصر کی حیثیت سے پچاس برس پر پھیلے سفر میں، جن تاریخی واقعات کے وہ شاہد ہیں، ان کا توکوئی شمار ہی نہیں۔بہترین بیٹسمین،زبردست لیگ اسپنر،عمدہ فیلڈر،عظیم کپتان،اور مایہ ناز مبصر،یہ سب حوالے انھیں عبقری شخصیت بناتے ہیں۔ ایسی پہلودارشخصیت کرکٹ میں دوسری کوئی نظر نہیں آتی۔ معروف کرکٹ تاریخ دان گائیڈن ہیگ انھیں دوسری جنگ عظیم کے بعد کا سب سے بااثرکرکٹر اور شخصیت قرار دیتاہے۔ممتاز کرکٹر اور کمنٹیٹر بل لاری کے خیال میں رچی بینو دنیا کے نمبر ون کمنٹیٹر ہیں۔
پچاس کی دہائی کے آخر میں جب ٹیسٹ کرکٹ ڈل ہونے کے باعث کشش کھوتی جارہی تھی، اسے دوبارہ سے شائقین میں مقبول بنانے میں 1960ء میںآسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والی سیریز سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔اس سیریز میں رچی بینو اوران کے ہم منصب فرینک ووریل نے ٹیسٹ میچوں میں جارحانہ طرزکو فروغ دے کر کرکٹ کو نئی راہ پر ڈال دیا۔تاریخِ کرکٹ میں ان مقابلوں کو یادگار حیثیت حاصل ہے۔ کرکٹ سے جڑے معاملات میں ان کی فراست سے کیری پیکر نے فائدہ اٹھایا،اور آئن چیپل اور شین وارن جیسے نامور انھیں گرو تسلیم کرتے ہیں۔
وہ پچاس برس سے کمنٹری باکس میں ہیں، اس عرصے میںان کا قلم بھی حرکت میں رہا،اخبارات میں مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ رچی بینو کی کتاب Over But Not Out میںان کی انتخاب کردہ ورلڈ الیون دیکھی تو خیال گزرا، اس میں شامل ناموں سے قارئین کو بھی آگاہ کیا جائے۔رچی بینو کا انتخاب، اس لیے زیادہ توجہ کا مستحق ہے کہ وہ بڑے کھلاڑی ہی نہیںکرکٹ کے مفکر اور مبصر بھی ہیں، قدیم اور جدید کرکٹ پر ان کی گہری نظرہے ، اس لیے ان کی منتخب کردہ ٹیم میں جگہ پانا کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔
اپنی اس تصوراتی ٹیم کے لیے بارھویں کھلاڑی اور مینجر کا انتخاب بھی انھوں نے کیا ہے۔سچن ٹنڈولکر اس ٹیم میں شامل واحد کھلاڑی ہیں، جو اس وقت بین الاقوامی کرکٹ سے وابستہ ہیں۔رچی بینو نے اپنی ٹیم میں ایسے بڑے کھلاڑیوں کوشامل کیاہے، جن کے کھیل نے کرکٹ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔زیادہ تر کھلاڑی وقت گزرنے کے ساتھ ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں، چند نام البتہ ایسے ضرور ہوتے ہیں، جن کے نام کو دوام ملتا ہے، رچی بینو کی ٹیم میں ایسے نامیوں کو ہی جگہ ملی ہے۔وہ مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے اس ٹیم میں شامل تمام کھلاڑیوں سے ملاقات کرچکے ہیں۔
فائنل الیون میں کیتھ ملر جگہ نہ بناسکے اوروہ بارھویں کھلاڑی بنادیے گئے، گیری سوبرز کو ان پر ترجیح دی گئی۔ وہ اس بات کو اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں کہ انھیں دنیا کے چار عظیم آل رائونڈروں عمران خان، رچرڈ ہیڈلی، آئن بوتھم اور کیپل دیو کا کھیل کمنٹری باکس سے دیکھنے کا موقع ملااورچاروں سے ان کی بات چیت بھی رہی۔
رچی بینو سمجھتے ہیں کہ ایڈم گلکرسٹ نے اپنے شاندار کھیل سے وکٹ کیپر اور ساتویں نمبر کے بیٹسمین کی پوزیشن کو بدل کر رکھ دیا۔بیرون ملک کپتانی کرنے والے ویسٹ انڈیز کے پہلے کالے کپتان فرینک ووریل ان کے محبوب کھلاڑی ہیں۔ان کے خیال میں وہ اس زمانے میں کپتان بنے، جب ویسٹ انڈین ٹیم کو سنبھالنا خاصا مشکل کام تھا مگرانھوں نے بڑی حکمت سے ٹیم کو کنٹرول کیا۔وہ انھیں بہترین کپتان اور ایڈمنسٹریٹر قرار دیتے ہیں، یہی وجہ ہے ، ٹیم منیجر کے طور پر ان کا تقرر کیا گیاہے۔