شہید اللہ بخش سومرو پہلاحصہ
ماضی میں سندھ بہت خوشحال رہا ہے ،خدا نے اس خطے کو اتنا نوازا ہے
ماضی میں سندھ بہت خوشحال رہا ہے ،خدا نے اس خطے کو اتنا نوازا ہے کہ سندھ کے لوگ کبھی کسی اور ملک میں کمانے کی غرض سے نہیں گئے۔ سندھ کے لوگ پرامن رہے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ موئن جو دڑو کی کھدائی سے کوئی ہتھیار نہیں ملا جب کہ وہاں سے کام کرنے کے اوزار ضرور ملے ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سندھ کے لوگ نہ صرف امن پسند ہیں بلکہ محنتی بھی۔ یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں ولی اور پیر آئے ہیں اسی لیے سندھ کو پیروں اور فقیروں کی دھرتی کہا جاتا ہے ۔ لعل شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، شہید شاہ عنایت، شہید مخدوم بلاول اور دیگر بزرگان دین کی قبریں سندھ کے طول وعرض میں موجود ہیں ۔ اس دھرتی پر خدا کی رحمت سایہ فگن ہے اور بزرگان دین کی دعاؤں کے طفیل سندھ شاد وآباد ہے ۔
سندھ میں بڑی سیاسی اور سماجی شخصیات نے جنم لیا ہے ، پانچ ہزار سال پرانی تہذیب رکھنے والے خطے کو پوری دنیا جانتی ہے اورتاریخ میں ان کے کام اور خدمات سنہری الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہماری نئی نسل قدیم رسم ورواج اور تہذیب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ جہاں پر ایمانداری، ادب وآداب اور سماجی رواداری تھی وہاں پر پیسے،کرپشن اور بے ایمانی کے ساتھ ناانصافی اورظلم نے جگہ بنا لی ہے اور ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں پرکاروکاری جیسی رسمیں موجود ہیں جو سندھ کی کبھی بھی روایت نہیں رہی ہے۔ کرپشن نے اپنے پنجے گاڑھ دیے ہیں۔
اس تناظر میں مجھے متعدد اہم شخصیات کی خدمات یاد آئیں ، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں جنھوں نے سندھ کا نام روشن کیا ۔قیام پاکستان سے قبل کی ایک اہم شخصیت شہید اللہ بخش سومرو کی تھی، جن کی ایمانداری، دیانتداری، بہادری، جرأت اور ذہانت کا چرچہ آج بھی جاری ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی ایسے لیڈر موجود تھے جو ہمارے لیے فخر کا باعث تھے، جب 1843 میں انگریزوں نے سندھ پر حملہ کرکے اسے اپنے راج کا حصہ بنالیا اور سندھ کی خودمختاری ختم کرکے اسے 1847 میں ممبئی پریذیڈنسی کا حصہ بنالیا تو اس جارحیت کے خلاف سندھ میں رہنے والے ہندو، عیسائی، مسلمان اور پارسیوں نے مل کر ایک بڑی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں 1936 میں سندھ کو دوبارہ خودمختاری مل گئی اور سندھ بحیثیت صوبہ بحال ہوگیا۔ اس جدوجہد میں اللہ بخش سومروکا بھی بڑا کردار تھا۔
اللہ بخش سومرو نے 31 اگست 1900 میں محمد عمر کے گھر میں جنم لیا ، پرائمری تعلیم سے لے کر میٹرک کا امتحان شکارپور شہر سے پاس کیا۔ ان کے والد ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے جن کی اچانک موت سے انھیں اپنے والد کی ساری ذمے داریاں اٹھانی پڑیں۔ جیساکہ اس میں سماجی کام کرنے کا رجحان بچپن ہی سے تھا اور لوگ اسے بہت چاہتے تھے جن کے اصرار پر انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور وہ سب سے پہلے 1923 میں جیکب آباد میونسپل کمیٹی کے ممبر بنے اس کے بعد وہ سکھر لوکل بورڈ کے ممبر بنے اور 1928 میں وہ اس بورڈ کے صدر بن گئے جس کی وجہ سومرو کی محنت، لگن اور عام آدمی سے اچھا رویہ تھا۔ بڑھتے بڑھتے انھوں نے برٹش لیجسلیٹو کونسل کے الیکشن میں حصہ لیا اور اس کے ممبر بن گئے۔
سندھ صوبے کو خودمختاری ملنے کے بعد فروری1937 میں پارلیمنٹ کے لیے انتخاب ہوئے جس میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ یہ سیاسی پارٹی 1936 میں ہی جی ایم سید، سرشاہنواز بھٹو، سرحاجی عبداللہ ہارون اور خود اللہ بخش سومروکی مدد سے بنائی گئی تھی۔ اس پارٹی نے پارلیمنٹ میں 60 نشستوں میں سے 22 حاصل کرلیں، مگر اس وقت کے برٹش گورنر نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سر غلام حسین ہدایت اللہ کو حکومت بنانے کی دعوت دی جس نے اپنی تین نشستوں کے ساتھ باقی آزاد اورکچھ اور ممبران کو ملاکر حکومت بنائی۔ مگر ایک سال میں وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے جس کی وجہ سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر ہٹایا گیا اور اللہ بخش سومرو کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی جنھوں نے مارچ 1938 کو وزیر اعظم سندھ کا حلف اٹھایا اور اس وقت انھوں نے آٹھ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔
آٹھ نکاتی پروگرام کے تحت اعلان کیا کہ صوبے کا انتظام قومی جذبے کے تحت چلے گا جس میں ہندو، مسلم اور دوسرے مذاہب کے لوگ مل کر کام کریں گے، زیریں سندھ میں آبپاشی کے پانی کو پہنچانے کو اولیت دی جائے گی۔ تاکہ آخری حد تک یہ پانی پہنچ سکے اور وہاں کی زرعی زمین آباد ہوسکے۔ اس کے ساتھ بالائی سندھ میں بھی نہری نظام کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ کابینہ کے وزرا کم تنخواہ لیں گے، آنریری مجسٹریس کو ختم کرکے سرکاری مجسٹریٹ بھرتی کیے جائیں گے، آزمائشی طور پر سندھ کے روڈ لوکل بورڈ سے بنوائے جائیں گے، پرائمری اساتذہ کی تنخواہ میں 5 روپے کا اضافہ کیا جائے گا، لال رومال تحریک کے بانی عبید اللہ سندھی کی جلاوطنی والے احکامات ختم کیے جائیں گے جس کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔ جب عبید اللہ سندھی سندھ واپس آئے تو اللہ بخش سومرو خود ان کو لینے کراچی سی پورٹ گئے اور انھیں خوش آمدید کہا ۔ وہ اپنے وعدے کے پکے تھے اور سب پورے کرکے دکھائے۔
انھیں تعلیم سے بڑی محبت تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے صوبے کے لوگ تعلیم ضرور حاصل کریں۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی خواب تھا کہ سندھ کے ہر شہر میں لائبریریاں بنائی جائیں تاکہ بچوں اور بڑوں میں کتاب پڑھنے کا رجحان بڑھے اور وہ دنیا کی ہر چیز اور علم کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنے لوگوں اور صوبے کی خدمت کریں۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر سب سے پہلے دیوان کیول رام شاہانی نے اس وقت دس ہزار روپے عطیہ دیا جو قابل تحسین بات ہے۔ اس کے علاوہ سومرو نے تعلیم کے میدان میں اصلاحات لائے ، جیل میں اصلاحات لانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے انھوں نے پرانے اور بوڑھے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ 1940میں سندھ ولیج تنظیم کا قیام عمل میں لائے ، گاؤں میں رہنے والے افراد کوکہا کہ وہ شہر میں بھی آباد ہوں، بزنس میں حصہ لیں، جننگ فیکٹریاں قائم کروائیں۔ ہندو، مسلم کے اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور یہی وجہ تھی کہ وہ سب قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے پسندیدہ لیڈر تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اگر ترقی کرنی ہے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی حاصل کیا جائے۔
اللہ بخش سومرو اپنے اصولوں پر ہمیشہ ڈٹے رہے اورکبھی بھی ان کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی برٹش حکومت سے مرعوب ہوئے بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سندھ کے حقوق لینے کی جرأت کی۔ وہ جمہوریت پسند تھے اور حقوق پر قبضہ کرنے والے سے لڑائی کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اپنی جرأت اور کام میں بہتری کی وجہ سے پورے ہندوستان کے لیڈر بن گئے۔ وہ سیکولر خیالات رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ 1936 میں ہی اللہ بخش سومرو، جی ایم سید اور سید شاہنواز بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی تھی جس کا پہلا اجلاس حیدر منزل کراچی میں منعقد ہوا تھا، لیکن یہ سیاسی پارٹی زیادہ دیر نہ چل سکی اور ختم ہوگئی جس کی جگہ سندھ اتحاد پارٹی نے لے لی۔ (جاری ہے)
سندھ میں بڑی سیاسی اور سماجی شخصیات نے جنم لیا ہے ، پانچ ہزار سال پرانی تہذیب رکھنے والے خطے کو پوری دنیا جانتی ہے اورتاریخ میں ان کے کام اور خدمات سنہری الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہماری نئی نسل قدیم رسم ورواج اور تہذیب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ جہاں پر ایمانداری، ادب وآداب اور سماجی رواداری تھی وہاں پر پیسے،کرپشن اور بے ایمانی کے ساتھ ناانصافی اورظلم نے جگہ بنا لی ہے اور ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں پرکاروکاری جیسی رسمیں موجود ہیں جو سندھ کی کبھی بھی روایت نہیں رہی ہے۔ کرپشن نے اپنے پنجے گاڑھ دیے ہیں۔
اس تناظر میں مجھے متعدد اہم شخصیات کی خدمات یاد آئیں ، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں جنھوں نے سندھ کا نام روشن کیا ۔قیام پاکستان سے قبل کی ایک اہم شخصیت شہید اللہ بخش سومرو کی تھی، جن کی ایمانداری، دیانتداری، بہادری، جرأت اور ذہانت کا چرچہ آج بھی جاری ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی ایسے لیڈر موجود تھے جو ہمارے لیے فخر کا باعث تھے، جب 1843 میں انگریزوں نے سندھ پر حملہ کرکے اسے اپنے راج کا حصہ بنالیا اور سندھ کی خودمختاری ختم کرکے اسے 1847 میں ممبئی پریذیڈنسی کا حصہ بنالیا تو اس جارحیت کے خلاف سندھ میں رہنے والے ہندو، عیسائی، مسلمان اور پارسیوں نے مل کر ایک بڑی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں 1936 میں سندھ کو دوبارہ خودمختاری مل گئی اور سندھ بحیثیت صوبہ بحال ہوگیا۔ اس جدوجہد میں اللہ بخش سومروکا بھی بڑا کردار تھا۔
اللہ بخش سومرو نے 31 اگست 1900 میں محمد عمر کے گھر میں جنم لیا ، پرائمری تعلیم سے لے کر میٹرک کا امتحان شکارپور شہر سے پاس کیا۔ ان کے والد ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے جن کی اچانک موت سے انھیں اپنے والد کی ساری ذمے داریاں اٹھانی پڑیں۔ جیساکہ اس میں سماجی کام کرنے کا رجحان بچپن ہی سے تھا اور لوگ اسے بہت چاہتے تھے جن کے اصرار پر انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور وہ سب سے پہلے 1923 میں جیکب آباد میونسپل کمیٹی کے ممبر بنے اس کے بعد وہ سکھر لوکل بورڈ کے ممبر بنے اور 1928 میں وہ اس بورڈ کے صدر بن گئے جس کی وجہ سومرو کی محنت، لگن اور عام آدمی سے اچھا رویہ تھا۔ بڑھتے بڑھتے انھوں نے برٹش لیجسلیٹو کونسل کے الیکشن میں حصہ لیا اور اس کے ممبر بن گئے۔
سندھ صوبے کو خودمختاری ملنے کے بعد فروری1937 میں پارلیمنٹ کے لیے انتخاب ہوئے جس میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ یہ سیاسی پارٹی 1936 میں ہی جی ایم سید، سرشاہنواز بھٹو، سرحاجی عبداللہ ہارون اور خود اللہ بخش سومروکی مدد سے بنائی گئی تھی۔ اس پارٹی نے پارلیمنٹ میں 60 نشستوں میں سے 22 حاصل کرلیں، مگر اس وقت کے برٹش گورنر نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سر غلام حسین ہدایت اللہ کو حکومت بنانے کی دعوت دی جس نے اپنی تین نشستوں کے ساتھ باقی آزاد اورکچھ اور ممبران کو ملاکر حکومت بنائی۔ مگر ایک سال میں وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے جس کی وجہ سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر ہٹایا گیا اور اللہ بخش سومرو کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی جنھوں نے مارچ 1938 کو وزیر اعظم سندھ کا حلف اٹھایا اور اس وقت انھوں نے آٹھ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔
آٹھ نکاتی پروگرام کے تحت اعلان کیا کہ صوبے کا انتظام قومی جذبے کے تحت چلے گا جس میں ہندو، مسلم اور دوسرے مذاہب کے لوگ مل کر کام کریں گے، زیریں سندھ میں آبپاشی کے پانی کو پہنچانے کو اولیت دی جائے گی۔ تاکہ آخری حد تک یہ پانی پہنچ سکے اور وہاں کی زرعی زمین آباد ہوسکے۔ اس کے ساتھ بالائی سندھ میں بھی نہری نظام کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ کابینہ کے وزرا کم تنخواہ لیں گے، آنریری مجسٹریس کو ختم کرکے سرکاری مجسٹریٹ بھرتی کیے جائیں گے، آزمائشی طور پر سندھ کے روڈ لوکل بورڈ سے بنوائے جائیں گے، پرائمری اساتذہ کی تنخواہ میں 5 روپے کا اضافہ کیا جائے گا، لال رومال تحریک کے بانی عبید اللہ سندھی کی جلاوطنی والے احکامات ختم کیے جائیں گے جس کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔ جب عبید اللہ سندھی سندھ واپس آئے تو اللہ بخش سومرو خود ان کو لینے کراچی سی پورٹ گئے اور انھیں خوش آمدید کہا ۔ وہ اپنے وعدے کے پکے تھے اور سب پورے کرکے دکھائے۔
انھیں تعلیم سے بڑی محبت تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے صوبے کے لوگ تعلیم ضرور حاصل کریں۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی خواب تھا کہ سندھ کے ہر شہر میں لائبریریاں بنائی جائیں تاکہ بچوں اور بڑوں میں کتاب پڑھنے کا رجحان بڑھے اور وہ دنیا کی ہر چیز اور علم کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنے لوگوں اور صوبے کی خدمت کریں۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر سب سے پہلے دیوان کیول رام شاہانی نے اس وقت دس ہزار روپے عطیہ دیا جو قابل تحسین بات ہے۔ اس کے علاوہ سومرو نے تعلیم کے میدان میں اصلاحات لائے ، جیل میں اصلاحات لانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے انھوں نے پرانے اور بوڑھے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ 1940میں سندھ ولیج تنظیم کا قیام عمل میں لائے ، گاؤں میں رہنے والے افراد کوکہا کہ وہ شہر میں بھی آباد ہوں، بزنس میں حصہ لیں، جننگ فیکٹریاں قائم کروائیں۔ ہندو، مسلم کے اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور یہی وجہ تھی کہ وہ سب قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے پسندیدہ لیڈر تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اگر ترقی کرنی ہے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی حاصل کیا جائے۔
اللہ بخش سومرو اپنے اصولوں پر ہمیشہ ڈٹے رہے اورکبھی بھی ان کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی برٹش حکومت سے مرعوب ہوئے بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سندھ کے حقوق لینے کی جرأت کی۔ وہ جمہوریت پسند تھے اور حقوق پر قبضہ کرنے والے سے لڑائی کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اپنی جرأت اور کام میں بہتری کی وجہ سے پورے ہندوستان کے لیڈر بن گئے۔ وہ سیکولر خیالات رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ 1936 میں ہی اللہ بخش سومرو، جی ایم سید اور سید شاہنواز بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی تھی جس کا پہلا اجلاس حیدر منزل کراچی میں منعقد ہوا تھا، لیکن یہ سیاسی پارٹی زیادہ دیر نہ چل سکی اور ختم ہوگئی جس کی جگہ سندھ اتحاد پارٹی نے لے لی۔ (جاری ہے)