انسانی سوچ کوالفاظ میں ڈھالنے والی مشین
فالج زدہ مریضوں کے لیے نعمت ثابت ہوگی
سائنس داں ایک ایسی انوکھی مشین یا ڈیوائس بنانے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو انسان کی سوچ کو الفاظ میں ڈھال سکے گی۔ یہ مشین قوت گویائی سے محروم فالج زدہ اور اسٹروک کے مریضوں کے لیے بڑی نعمت ثابت ہوگی۔ اس شخص کی بے بسی کا ذرا تصور کیجیے جو اپنے اطراف موجود اہل خانہ سے خود کو پہنچنے والی کسی تکلیف یا اپنی کسی ضرورت کا اظہار نہیں کرسکتا۔ بس بستر پر بے حس و حرکت لیٹا ہوا ہر تکلیف سہنے پر مجبور ہے۔ ان معذوروں کے لیے یہ مشین یقیناً اُمید کی کرن ہے۔
فالج کے مریضوں کو ابلاغی عمل کے قابل کرنے کے لیے تحقیق برسوں سے جاری ہے۔ اس دوران ہزار ہا تجربات کے بعد بالآخر سائنس داں اس مشین کی تیاری کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ان کی سوچ کو تحریر کی شکل میں ڈھال کر انھیں بات چیت کرنے کے قابل بنادے گی۔ مشین کو حقیقت کا رُوپ دینے کی جانب اہم پیش رفت کے طور پر سائنس دانوں نے ایک شخص کی سوچ کو لفظ میں کام یابی سے ڈھال لیا۔ ماہرین نے جو لفظ بُوجھا وہ وہی تھا جو اس شخص نے سوچا تھا۔
امریکا کی بارکلے یونی ورسٹی میں نیوروسائنس کے پروفسیر رابرٹ نائٹ اور ان کی ٹیم طویل عرصے سے دماغ کے ان حصوں کا مطالعہ کررہی ہے جو بولنے، سننے اور سوچنے کے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ سوچ بچار کے عمل کے دوران ان حصوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کا درست مطلب سمجھنے میں ابتدائی کام یابی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے پروفیسر رابرٹ کہتے ہیں کہ اب ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج سوچ بچار کے دوران ایک شخص کے دماغ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قابل فہم فقروں اور جملوں میں تبدیل کرنا ہے۔
پروفیسر رابرٹ کے مطابق دماغ کے کئی ایسے امراض ہیں جن کے نتیجے میں مریض مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے بھی قوت گویائی سے محروم ہوجاتا ہے۔ محقق نے کہا کہ وہ ایک ایسی ڈیوائس بنانا چاہتے ہیں جو سوچ بچار کے عمل کے دوران دماغ میں پیدا ہونے والے سگنلز کو ڈی کوڈ کرسکے۔ بعدازاں ان سگنلز کو ساؤنڈ فائل کی شکل دے کر اسپیچ ڈیوائس کے ذریعے تحریر میں تبدیل کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ یہ ڈیوائس متأثرہ شخص کے دماغ کے اندر نصب کی جائے گی۔
تجربات کے دوران سائنس دانوں نے ایک مریض، جو مکمل طور پر ہوش میں تھا، کی کھوپڑی کے اوپر اس جگہ پر برقیرے رکھے جس کے نیچے نطق کو کنٹرول کرنے والا دماغی حصہ موجود ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے مریض کو ایک لفظ بار بار سنایا اور اس دوران دماغی خلیوں کے برقی ردعمل کو مانیٹر کرتے رہے۔ کئی بار یہ عمل دہرانے کے بعد انھوں نے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرلیا۔ برقی سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے سائنس داں ایک کمپیوٹر ماڈل پہلے ہی تخلیق کرچکے تھے۔ جب انھوں نے ریکارڈ شدہ برقی سگنلز کو اس ماڈل میں داخل کرکے صوتی اشارات میں بدلا تو نتیجے کے طور پر وہی لفظ سنائی دیا جو مریض سے کہا گیا تھا۔
بعدازاں سائنس دانوں نے مریض کو ایک مخصوص لفظ سوچتے رہنے کی ہدایت کی اور اس دوران دماغ میں پیدا ہونے والے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرلیا۔ پھر اسی تیکنیک کی مدد سے ان سگنلز کو الگ الگ ڈی کوڈ کیا گیا تو سب کا نتیجہ ایک ہی لفظ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
پروفیسر رابرٹ کو امید ہے کہ مستقبل قریب میں وہ دماغ کے برقی اشارات یعنی سوچ کو فقروں اور جملوں میں تبدیل کرنے والی مشین بنانے میں کام یاب ہوجائیں گے۔
فالج کے مریضوں کو ابلاغی عمل کے قابل کرنے کے لیے تحقیق برسوں سے جاری ہے۔ اس دوران ہزار ہا تجربات کے بعد بالآخر سائنس داں اس مشین کی تیاری کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ان کی سوچ کو تحریر کی شکل میں ڈھال کر انھیں بات چیت کرنے کے قابل بنادے گی۔ مشین کو حقیقت کا رُوپ دینے کی جانب اہم پیش رفت کے طور پر سائنس دانوں نے ایک شخص کی سوچ کو لفظ میں کام یابی سے ڈھال لیا۔ ماہرین نے جو لفظ بُوجھا وہ وہی تھا جو اس شخص نے سوچا تھا۔
امریکا کی بارکلے یونی ورسٹی میں نیوروسائنس کے پروفسیر رابرٹ نائٹ اور ان کی ٹیم طویل عرصے سے دماغ کے ان حصوں کا مطالعہ کررہی ہے جو بولنے، سننے اور سوچنے کے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ سوچ بچار کے عمل کے دوران ان حصوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کا درست مطلب سمجھنے میں ابتدائی کام یابی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے پروفیسر رابرٹ کہتے ہیں کہ اب ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج سوچ بچار کے دوران ایک شخص کے دماغ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قابل فہم فقروں اور جملوں میں تبدیل کرنا ہے۔
پروفیسر رابرٹ کے مطابق دماغ کے کئی ایسے امراض ہیں جن کے نتیجے میں مریض مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے بھی قوت گویائی سے محروم ہوجاتا ہے۔ محقق نے کہا کہ وہ ایک ایسی ڈیوائس بنانا چاہتے ہیں جو سوچ بچار کے عمل کے دوران دماغ میں پیدا ہونے والے سگنلز کو ڈی کوڈ کرسکے۔ بعدازاں ان سگنلز کو ساؤنڈ فائل کی شکل دے کر اسپیچ ڈیوائس کے ذریعے تحریر میں تبدیل کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ یہ ڈیوائس متأثرہ شخص کے دماغ کے اندر نصب کی جائے گی۔
تجربات کے دوران سائنس دانوں نے ایک مریض، جو مکمل طور پر ہوش میں تھا، کی کھوپڑی کے اوپر اس جگہ پر برقیرے رکھے جس کے نیچے نطق کو کنٹرول کرنے والا دماغی حصہ موجود ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے مریض کو ایک لفظ بار بار سنایا اور اس دوران دماغی خلیوں کے برقی ردعمل کو مانیٹر کرتے رہے۔ کئی بار یہ عمل دہرانے کے بعد انھوں نے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرلیا۔ برقی سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے سائنس داں ایک کمپیوٹر ماڈل پہلے ہی تخلیق کرچکے تھے۔ جب انھوں نے ریکارڈ شدہ برقی سگنلز کو اس ماڈل میں داخل کرکے صوتی اشارات میں بدلا تو نتیجے کے طور پر وہی لفظ سنائی دیا جو مریض سے کہا گیا تھا۔
بعدازاں سائنس دانوں نے مریض کو ایک مخصوص لفظ سوچتے رہنے کی ہدایت کی اور اس دوران دماغ میں پیدا ہونے والے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرلیا۔ پھر اسی تیکنیک کی مدد سے ان سگنلز کو الگ الگ ڈی کوڈ کیا گیا تو سب کا نتیجہ ایک ہی لفظ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
پروفیسر رابرٹ کو امید ہے کہ مستقبل قریب میں وہ دماغ کے برقی اشارات یعنی سوچ کو فقروں اور جملوں میں تبدیل کرنے والی مشین بنانے میں کام یاب ہوجائیں گے۔