خرابی کیا ہے

جس طرح کی شہرت ہمارا الیکٹرانک میڈیا چاہتا ہے وہ اس طرح کے بے تکے تنازعات سے یقیناً اسے حاصل ہو رہی ہے۔

اگر اختلاف ہو بھی تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ فحش الفاظ کا ہی سہارا لیا جائے۔ یہ صرف آپ کی شخصیت نہیں بلکہ دین اسلام کا تشخص بھی منفی ابھارتا ہے۔

جیسے ہمارا ایک قومی ترانہ ہے، قومی پھول ہے، قومی کھیل ہے، وہ وقت دور نہیں جب قومی رویہ بھی طے پا جائے اور یقیناً بطور قوم ''عدم برداشت'' ہی اس وقت ہمارا قومی رویہ ہے۔ ہم کسی بھی سطح پر، کسی بھی معاملے میں برداشت اور ہوش کے بجائےعدم برداشت اور جذباتیت کا سہارا لینے کے عادی ہیں۔ دلیل کے بجائے گھن گرج کو مضبوط ہتھیار سمجھتے ہیں اور اپنے تئیں ہم یہ فرض کئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہمارا اونچا بولنا شاید ہمارے وقار میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

جب کہ حقیقت میں ہمارا اخلاق سے ہٹنا خود ہماری اپنی بدنامی کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ بزرگوں سے اکثر سنتے آئے ہیں کہ
''جو بُرا ہے وہ بُرا کام کرے بھی تو لوگ اس پر اتنی توجہ نہیں دیتے لیکن اگر کوئی اچھا بُرا کام کرنا شروع کردے تو فوراً لوگوں کی نظروں میں آجاتا ہے''۔

کچھ ایسا ہی ماروی سرمد اور حافظ حمد اللہ صاحب کے معاملے میں ہوا ہے۔

ایک لمحہ رُک کر اس تمام معاملے کی ابتداء ملاحظہ کیجیے۔ پہلے قدم پر ہے ہمارا الیکٹرانک میڈیا۔ اس سارے قضیے سے مذکورہ ٹی وی چینل کو نقصان کے بجائے فائدہ ہونے کا احتمال یقیناً زیادہ ہے۔ یعنی یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح کی ریٹنگ اور جس طرح کی شہرت ہمارا الیکٹرانک میڈیا چاہتا ہے وہ اس طرح کے بے تکے تنازعات سے یقیناً اسے حاصل ہو رہی ہے۔ حالاتِ حاضرہ کا پروگرام، ایک خاتون اس کی میزبان اور بالکل دو مختلف رویوں کے علمبردار ساتھ ساتھ بٹھا دیے گئے۔

یعنی بادی النظر میں یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن گہرائی میں جائزہ لیں تو محترمہ ماروی سرمد روشن خیالی کی ہمیشہ سے نہ صرف حمایتی رہی ہیں بلکہ اس کے لیے عملی جہدوجہد بھی کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عورتوں کو گھر میں محدود کرنے کے بھی مخالف رہی ہیں جس کی مذہبی طبقے میں ہمیشہ سے مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک مذہبی جماعت کے اہم رہنما حافظ حمد اللہ صاحب خالصتاً مذہبی رجحانات کے حامل، مسجد و مدرسے سے گہرا تعلق، ایک مذہبی جماعت سے وابستگی، اسی مذہبی جماعت کے ٹکٹ پر سینیٹ کے ممبر اور سب سے بڑھ کر حافظ قرآن۔




اس تمام معاملے میں نقصان یقیناً حافظ صاحب کی ذات کو پہنچا ہے۔ کیوںکہ ماوری سرمد صاحبہ اگر اس طرح کے الفاظ استعمال کرتی ہیں تو ایک تو وہ خاتون اور دوسرا روشن خیال فکر کی نمائندہ، لہذا ان پر نہ حرف آنا تھا نہ آیا۔ جبکہ دوسری طرف برداشت کا دامن چھوڑنے پر حافظ صاحب کے رویے کی یقیناً توصیف نہیں کی جاسکتی۔ ایک لمحہ رک کر ہم کہہ لیتے ہیں کہ ایک عورت نے غلط الفاظ کا چناؤ کیا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات کہ ان کو نقصان پھر بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن حافظ صاحب بطور مذہبی رہنما شریک تھے، ماروی سرمد صاحبہ یا روشن خیال طبقہ جو پہلے ہی مذہبی قدروں کو اپنانے سے گریزاں رہتا ہے وہ اس طرح کے ردعمل سے مذہب سے مزید دور ہوتے جائیں گے۔

ہمارا کردار ہی ہماری پہچان ہے۔ اگر اس موقع پر حافظ صاحب برداشت کا تھوڑا مظاہرہ کرتے تو یقیناً خاتون کو خود اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا۔ یا اگر اختلاف ہو بھی تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ فحش الفاظ کا ہی سہارا لیا جائے۔ یہ صرف آپ کی شخصیت نہیں بلکہ دین اسلام کا تشخص بھی منفی ابھارتا ہے۔

پیارے آقا ﷺ مکہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے جب اپنے اوپر کوڑا برداشت کرتے تھے تو وہ دو جہاں کے آقا تھے وہ چاہتے تو ایک لمحے میں عورت کو سزا دلواسکتے تھے، لیکن نہ ہی انہوں نے وہ گلی چھوڑی، کیا مکہ میں صرف ایک ہی گلی تھی؟ نہیں بلکہ آقائے دو جہاں ﷺ نے یہ دکھانا تھا کہ حق کبھی راستہ نہیں بدلتا۔ برداشت کا عملی مظاہرہ کیا، نتیجتاً عورت نے ہدایت پائی۔ طائف میں کیا ہوا؟ تصور کریں! جوتے مبارک خون سے بھر گئے۔ پہاڑ الٹنے سے منع فرمایا، ہدایت کی دعا کی، اور آنے والے دنوں میں طائف کی وادی پر کیا اثر ہوا؟ کیا ہوا جب افواہ پھیلائی کفار نے، جادو گری کی، بڑھیا کا سامان خود اپنے کندھوں پر لادا اور منزل پر پہنچایا۔ اس برداشت کا اس بڑھیا پر کیا اثر ہوا کہ بغیر جبر کے خوش دلی سے کلمہ پڑھ لیا۔

اسلام امن کا دین ہے، مکمل سلامتی ہے، برداشت کا عنصر ہماری حیات کا حصہ بن جائے تو ہم بہت سے مسائل سے یک بہ یک حل ہوجائیں۔ لیکن کاش کہ ایسا ہوجائے، کیونکہ بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے سا
Load Next Story