بھارت کے مذموم عزائم اور ہم

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی آج کل دنیا کے بیشتر ملکوں کے انتہائی اہم دورے کر رہے ہیں

mnoorani08@gmail.com

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی آج کل دنیا کے بیشتر ملکوں کے انتہائی اہم دورے کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے چین ایران، متحدہ امارات، قطر، سعودی عرب سمیت کئی ملکوں کے دوروں کے بعد اب بھارت کو ''این ایس گروپ'' میں شامل کرنے کی اپنی مہم کے سلسلے میں امریکی صدر اوباما سے بڑی اہم ملاقات کی ہے۔ اُن کے حالیہ ہنگامی دوروں کا مقصد بھارت کو اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کی ایک بڑی قوت بنانا ہے اور وہ اپنے اِن مقاصد اور عزائم میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ وہ بھارت کی تجارت کو تیزی سے بڑھانے کی خاطر قریبی اسلامی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی معاہدے کر رہے ہیں۔

ایران کے ساتھ چاہِ بہار کی بندرگاہ کا منصوبہ بھی ایک اہم قدم ہے۔ ایک جانب وہ پاک چین راہداری سے خائف ہو کر اُسے ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب خود اپنے لیے کوئی متبادل بندوبست اور راستے پیدا کرنے کی جستجو بھی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دورہِ امریکا میں پاکستان کے خلاف اپنی جس ہرزہ سرائی اور دشمنی کا اظہار کیا ہے وہ اُن کے دیرینہ معاندانہ رویوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ''چین اور پاکستان علاقے کے چوہدری بننا چاہتے ہیں'' یہ کہہ کر وہ امریکا کو نہ صرف آنیوالے خوفناک دنوں سے متنبہ کر رہے تھے بلکہ اُس متوقع خطرے سے نمٹنے کے لیے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک حکمتِ عملی تیارکرنے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔

وہ اپنے اِن مقاصدکی خاطر امریکا کو اب ایک ایسے معاہدے کے قریب لانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں جس کے تحت وقت ضرورت دونوں کسی ممکنہ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے دفاعی انتظام کو استعمال کر سکیں گے۔ امریکا میں اُنہوں نے ایک طرف چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے روابط اور تعلقات پر اپنی تشویش کا اظہار کر کے امریکا کی دُکھتی رگ پر بھی ہاتھ ڈالا ہے تو دوسری طرف ممبئی پٹھان کوٹ حملوں کا ذکر کر کے اپنا دُکھڑا پھر بیان کیا ہے۔ وہ اِس سلسلے میں پاکستان حکومت پر اپنا دباؤ مسلسل برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور دنیاکودہشتگردی کا خوف دلا کر پاکستان کو اِس کا اصل ذمے دار بھی قرار دینا چاہتے ہیں۔ اُن کے بقول دہشتگردی بھارت کے پڑوس میں پنپ رہی ہے اور ساری دنیا کو اُس سے خطرہ ہے۔

وہ جانتے ہیں کہ ایسی باتیں کر کے وہ امریکی حکومت اور وہاں کے لوگوں کی ہمدردیاں بڑی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ موقعہ غینمت جان کر وہ بھارت کے لیے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بننے کی اپنی حسرتوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں بھی کر گئے او ر بہت ممکن ہے بھارت آیندہ آنیوالے دنوں میں ''این ایس جی'' کا ممبر بھی بن جائے اِدھر ہم اور ہمارے حکمراں بھارتی وزیر اعظم کی اِس حکمت عملی کے جواب میں ابھی تک کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں کر پائے ہیں ہمارا دفتر خارجہ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی واضح پالیسی ترتیب نہیں دے سکا جو ہماری ناقص خارجہ پالیسی کا بین ثبوت ہے۔

بھارت جہاںاپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہاں ہم آپس میں گتھم گتھا ہو کر خود کو کمزور اور لاغرکیے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا میں پانامہ لیکس کی بازگشت مدھم پڑتی جا رہی ہے لیکن ہم اِسے زندگی اور موت کا ایشو بنا کر نفرت اور اشتعال کی آگ میں خود کو جھلسائے جا رہے ہیں۔ مفاد پرستانہ اور خود غرضانہ سیاست کے اسیر بن کر ہم مسلسل ایسی ہی حماقتوں میں اپنی عمر عزیز ضایع کرتے آئے ہیں۔ ہم ہمیشہ محاذآرائی اور معرکہ آرائی کے شوق میں نامرادیوں کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ہمارا ماضی شعور اور ادراک سے خالی ہمارے ایسے ہی تباہ کن رویوں کی نشاندہی کرتا آیا ہے۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور ہم ابھی تک آپس کی لڑائیوں میں جتے ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہوئے جا رہے ہیں۔ احساسِ ذمے داری اور احساسِ زیاںسے عاری ہو کر ہم نے ابھی تک اپنی منزل کا تعین ہی نہیںکیا۔ ہمارا اولین مقصد ترقی و خوشحالی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور اقتدار سے محروم کرنا ہی رہ گیا ہے۔


ہوسِ اقتدار اور شہرت طلبی نے منافقانہ اور خود غرضانہ سیاست کا ایسا چلن پیدا کر دیا کہ ہمارے اہلِ سیاست میں اب کسی خیرخواہی کی کوئی رمق اور جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی۔ حریفانِ جمہوریت نے ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے ایسے جال بنے کہ ہماری قوم کی نظریاتی اور اسلامی اساس ہی متزلزل ہو کر رہ گئی۔ اعصاب اخلاق پر ایسے کلہاڑے چلائے گئے کہ ہم من حیث القوم بے کردار اور بے اخلاق ہو کررہ گئے۔ سیاست میںصالحیت کی بجائے طنز، تمسخر اور استہزاء کو مشغلہ اور مشقِ سخن بنا لیا کہ آج خواتین سمیت منبر اور محراب بھی دست درازی اور پامالی سے محفوظ نہیں رہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں ہمیں عدم برداشت اور بداخلاقی کے ایسے ہی واقعات آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اگر ہم اپنے اِس طرز عمل کے نتائج اور عواقب پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غورکریں تو یقینا یہ احساس ہو گا کہ ہم حریفانہ مہم جوئی اور انتشار و فساد کے باعث مسلسل شکست و ناتوانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ذلت و پستی کی گہرائیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیںاور ہمارادائمی دشمن ملک بھارت ہماری اِن حماقتوں سے پورا پورافائدہ اُٹھاکر دنیا کی تیسری بڑی قوت اورمعیشت کا روپ دھارنے جا رہا ہے ۔

ہماری غلط پالیسیوں نے افغان عوام کو ہم سے دورکر دیا۔ برادر دوست ملک ایران بھی آج ہم سے ناراض ہے۔ ہمیں ابھی تک یہ احساس نہیں کہ ہمارے لیے عافیت اور سلامتی کا راستہ کون سا ہے۔ اگر ہم نے اپنا اسلوب اور طریقہ نہیں بدلا اور معاملہ فہمی اور وسیع النظری سے کام نہ لیا تو وہ دن دور نہیں جب عالمی سازشوں اور چیرہ دستیوں کے سبب سرخروئی کی بجائے ہزیمت کا تاثر لیے ہم ایک ناکام اور نامراد ریاست کے امین کہلا رہے ہونگے۔

ہمارا اجتماعی شعور تشدد، عدم برداشت اور منافقت سے عبارت ہے۔ اڑوس پڑوس کے بدلتے ہوئے حالات سے بے نیاز ہو کر ہم اجتماعی خودکشی میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفر کا آغاز ہی نہیں کیا بلکہ زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی مانند ماضی سے چمٹے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ملک کے دولخت ہو جانے کے بعد بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ ہم نے اپنی مسلسل ناکامیوں اور نامرادیوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو کر آج ہم سے ذیادہ فارن ایکسچینج رکھنے والا ملک بن چکا ہے اور ہم ابھی تک عہدِ رفتہ کی حسین یادوں میں زندگی گزارنے کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔

ہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ بھارت اور دیگر ممالک ترقی و خوشحالی کی کتنی منزلوں کو پار کر چکے ہیں۔ ہم صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ٹانگیں کھینچ لینے کی فکر میں سرگرداں ہیں۔ ہماری رگوں میں نفرت، تعصب اور انتقام کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ فکری بالیدگی اور بالغ نظری محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قومی مفاد کے کسی بھی بڑے پروجیکٹ اور منصوبے پر متفق بھی نہیں ہو پاتے۔ معاملہ ''کالاباغ ڈیم'' کا ہو یا ''سی پیک منصوبے'' کا ہم ہر بڑے منصوبے کو متنازعہ بنا کر ناکام و نامراد کر دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ بھارت میں کسی نے بھی ''چاہ بہار'' منصوبے پر کوئی اعتراض و اختلاف نہیں کیا۔ سب نے ملکی و قومی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُسے خاموشی اورخوش دلی سے قبول کیا۔

غربت گرچہ وہاں بھی کچھ کم نہیں ہے۔ کرپشن اور مالی بدعنوانی وہاں بھی بہت ہے۔ لیکن تمام تر سیاسی مشکلات اور اختلافات کے باوجود وہاں آج تک کسی سیاستداں یا دانشور نے اپنی افواج سے جمہوری نظام کی گردن دبوچنے کامطالبہ نہیں کیا۔ شاید اِس لیے کہ وہاں ایسی مخلوق ہی ناپید ہے جسے چور دروازے سے ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کا چسکا پڑ گیا ہو۔ ایک ہم ہی ہیں جو آج اپنی آزادی کے 69 سال بعد بھی ہر دوچا رسال بعد جمہوریت کا بستر گول کر دینے کی تمنا کرتے رہتے ہیں۔

چار مارشل لاؤں کے بعد بھی ہمارے اندر یہ احساس نہیں جاگا کہ آمریت کسی طرح بھی جمہوری نظام سے بہتر نہیں ہواکرتی۔ ہمارا یہی رویہ اور طرز عمل ہماری ناکامیوں اور نامرادیوں کی اصل وجہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہوش کے ناخن لیتے ہوئے بالغ نظر، سنجیدہ اور پر عزم قوم کی حیثیت سے عالمی افق پر تیزی سے بدلتے حالات کا سامنا کرنے کی اپنے اندر استطاعت ، قوت اور ہمت پیدا کریں نا کہ باہم دست و گریباں ہو کر اپنی شکست و ریخت کا ساماں پیدا کرتے پھریں۔
Load Next Story