جواب سے زیادہ سوال اہمیت رکھتے ہیں

سوال، سوالیہ انداز میں کیاجاتا ہےلیکن موصوف کا اندازسوالیہ نہ تھا بلکہ وہ اپنی قائم شدہ رائےکی تصدیق یا تردید چاہتےتھے

فرض کریں کہ جواب میں کوئی مولوی بھی سائل کی طرح بے باک ہوجاتا ہے اور قادیانی تصورات کے باب میں زندیق اور مرتد کا مسئلہ چھیڑ دیتا تو اسکا کیا نتیجہ نکلتا؟

کہتے ہیں کہ جواب اہم نہیں ہوتے، سوالات انہیں اہم بناتے ہیں۔ کونسا سوال کس طرح، کس وقت اور کن حالات میں پوچھا جائے اہل علم اسے ایک باقاعدہ سائنس قرار دیتے ہیں۔ یوں کسی بھی صحت مند مکالمے کے لئے میزبان کا موضوع پر دسترس رکھنا اور سوالات پوچھنے کی سائنس سے مکمل واقف ہونا ناگزیر ہے۔ ایک لائق میزبان جہاں نامعقول سوالات کے زریعے مہمان اور ناظرین کا وقت ضائع نہیں کرتا وہیں بحث کو بھی تعمیری سمت پر گامزن رکھتا ہے۔ گو یہ درست ہے کہ سوالات سوچ کے نئے دریچے کھولتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ سوال فتنے اور فساد کے دروازے بن جاتے ہیں۔ ایک لائق میزبان اس پہلو کو بھی ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں ضیاء محی الدین، طارق عزیز، حمایت علی شاعر، قریش پوری، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، نعیم بخاری اور معین اختر جیسے میزبان ہوا کرتے تھے، لیکن آج بد قسمتی سے یہ شعبہ عامر لیاقت، جنید جمشید، وسیم بادامی، فہد مصطفی، حمزہ علی عباسی، مایا خان، شائستہ واحدی اور ساحر لودھی کے حوالے ہے۔

گزشتہ روز کسی ٹی وی پروگرام میں اداکار حمزہ علی عباسی نے کچھ ایسے متنازع سوالات چھیڑے ہیں، جن کے نتیجے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک فتنہ کھڑا ہوگیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں تو موصوف کو کسی مذہبی پروگرام کی میزبانی ہی کرنی ہی نہیں چاہئے تھی لیکن اگر پھر بھی انہیں یہ شوق چڑھ ہی گیا تھا تو قاعدے کے مطابق اپنی تحقیقی ٹیم پر انحصار کرنا چاہیئے تھا۔ کچھ لوگ متعرض ہیں کہ بس سوال ہی تو کیا تھا، انہیں اندازہ نہیں کہ سوال کس قدر نازک، بے موقع اور غیرضروری تھا۔ پھر سوال، سوالیہ انداز میں پوچھا جاتا ہے جبکہ موصوف کا انداز سوالیہ نہ تھا بلکہ وہ اپنی پہلے سے قائم شدہ رائے کی تصدیق یا تردید کا تقاضہ کررہے تھے۔ سونے پر سہاگہ دونوں مولوی حضرات کو بھی جانے کہاں سے ڈھونڈ کر لایا گیا تھا۔ جو جواب ایک عام سا اسلام پسند نوجوان بھی باآسانی دے سکتا تھا، وہ ان سے بن نہ پایا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سحر و افطار ٹرانسمیشن کی خرافات نے جہاں سنجیدہ علمائے دین کو ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے وہیں شہرت اور چانس کے بھوکے کٹ ملاؤں کی لاٹری نکل آئی ہے۔





ذمہ داری یوں ہے کہ اسلامی جمہوریہ اس بات پر معمور ہے کہ حق کی اشاعت اور باطل کی سرکوبی کرے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ فتنے کی سرکوبی کرے، اچھائی کا حکم اور برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے بعد نئے نبی کا دعویدار بن کر کھڑے ہوجانے سے بڑا فتنہ بھلا اور کیا ہوسکتا ہے؟ سیدنا ابوبکر نے تو جھوٹے نبی کے ساتھ باضابطہ قتال کا معاملہ فرمایا تھا اور مجبوری یہ ہے کہ قانون سازی کے عمل میں شریعت کا ماخذ طے اور واضح ہونا نا گزیر ہے۔


میرے مطابق تو یہ سوال ہی سراسر مغالطے اور غلط فہمی کا شکار تھا۔ جواب سے پہلے ہی سائل نے یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ اسلام اور کفر کا فیصلہ کرنا علمائے دین کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ علمائے دین کسی بھی اسلامی نظام حکومت میں فیصلے کا حق نہیں رکھتے، وہ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ حکم، امر یا اختیار صرف اولی الامر کے لئے مخصوص ہے۔ جواب سے قطع نظر اصل مسئلہ اس حل شدہ نازک مسئلے پر رمضان ٹرانسمیشن جیسے غیر سنجیدہ پروگرامات میں سوال چھیڑنا ہے۔ فرض کریں کہ جواب میں کوئی مولوی بھی سائل کی طرح بے باک ہوجاتا ہے اور قادیانی تصورات کے باب میں زندیق اور مرتد کا مسئلہ چھیڑ دیتا تو اسکا کیا نتیجہ نکلتا؟ یقیناً علمی و فکری مباحثے اچھی بات ہیں بشرطیکہ علمی لوگ ہی مخصوص ماحول میں برپا کریں۔



مختصر یہ کہ اس تنازع نے سحر و افطار ٹرانسمیشن کے نام پر چلنے والی طوفان بدتمیزی کے ایک اور مضر پہلو کو بھی واضح کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پیمرا رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اس دکانداری کے خلاف حتمی ایکشن لے۔

[poll id="1144"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story