’’ماہ نو‘‘ کا احمد ندیم قاسمی نمبر
ان کے نام پر مختلف شہروں کی سڑکوں اور متعلقہ عمارتوں کے نام بھی رکھے جا رہے ہیں
سال 2016 اردو کے عظیم لکھاری جناب احمد ندیم قاسمی مرحوم کا ایک سوواں سال پیدائش بھی ہے اس حوالے سے محبان ندیم ''جشن ندیم کمیٹی'' کے تحت پورا سال قاسمی صاحب سے متعلق وطن عزیز اور پوری اردو دنیا میں مختلف تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں ان کے فن اور شخصیت سے متعلق ادبی سیمینار' ریسرچ ورک' ان کی تمام تر کتابوں کی اشاعت نو' مشاعرے' تصویری نمائشیں آڈیو ویڈیو سی ڈیز اور ایک بھرپور اور مفصل ڈاکومینٹری بھی شامل ہے۔
ان کے نام پر مختلف شہروں کی سڑکوں اور متعلقہ عمارتوں کے نام بھی رکھے جا رہے ہیں اور بہت سے ادبی جرائد ان سے متعلق خاص نمبر بھی شایع کر رہے ہیں اس آٓخرالذکر کام میں حکومت پاکستان کی وزارت ثقافت اور اطلاعات کے تحت شایع ہونے والے موقر ماہنامے ''ماہ نو'' نے ایک شاندار ندیم نمبر شایع کر کے جو اولیت حاصل کی ہے وہ بلاشبہ لائق تحسین و تعارف ہے ادارے کی نئی یعنی موجودہ ٹیم نے (جو برادر شفقت جلیل کے بعد اب نگران اعلیٰ محمد سلیم صاحب کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے) چند ماہ قبل ''حبیب جالب'' کے لیے بھی ایک ایسا ہی شاندار خصوصی نمبر شایع کیا تھا، یہ دونوں مجلے اپنی جگہ پر ایک ادبی دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس پرچے کے مندرجات' تہذیب و آرائش اور حسن پیش کش کے بارے میں کوئی بات کرنے سے قبل مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب ہی کا سنایا ہوا ایک بہت دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ تقسیم کے بعد حکومت ہند کی زیر سرپرستی بھی اسی نوع کا ایک رسالہ ''آج کل'' کے نام سے نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر اس دور کی معروف ادبی شخصیت پنڈت ہری چند اختر تھے جن کی بذلہ سنجی اور حسِ مزاح اپنی مثال آپ تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک بار انڈین کانگریس کے کچھ اہم مگر متعصب قسم کے لیڈر ان سے ملنے آئے۔
ہری چند اختر نے سامنے پڑی کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ''تشریف رکھیے'' اس پر ان میں سے ایک صاحب بولے کہ یہ تو مسلوں (یعنی مسلمانوں) کا طریقہ ہے آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ ''پدھارئیے'' پنڈت جی نے مسکرا کر کہا ''جناب اگر تشریف رکھنا چاہتے ہیں تو یہ کرسیاں حاضر ہیں پدھارنا ہے تو باہر بنچ پڑا ہے'' بدقسمتی سے ادب اور ادیب ہمارے یہاں بھی زیادہ تر باہر پڑے بنچ پر ہی بٹھائے گئے ہیں اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس رسالے کے بعض دفاتر (واضح رہے کہ اسے کم از کم لاہور کی حد تک کوئی باقاعدہ سرکاری عمارت نہیں ملی اور یہ کرائے کی عمارتوں میں ہی اپنی نیم بے ربط اشاعتوں کا وقت گزارتا رہا ہے) ایسے دیکھے ہیں جن کی کرسیوں اور نائب قاصدوں وغیرہ کے اسٹولوں اور بنچوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا اب سنا ہے کہ اس کی اشاعت میں باقاعدگی لانے اور معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اسے کسی باقاعدہ سرکاری عمارت میں معقول جگہ دی جا رہی ہے۔کاش یہ افواہ نہ ہو۔
جہاں تک اس موجودہ شمارے یعنی احمد ندیم قاسمی نمبر کا معاملہ ہے تو اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے جس محنت سے اس کی مجلس ادارت اور دیگر اسٹاف نے اس کا مواد جمع کیا ہے اور جس سلیقے اور خوب صورتی سے اس کی صورت گری کی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ پرچہ جہازی سائز کے اعلیٰ قسم کے آرٹ پیپر کے 372 صفحات پر مشتمل ہے اور جہاں سرورق اور اندرونی تصاویر کی خوبصورتی نے اسے دیدہ زیب اور معلومات افزا بنایا ہے وہاں اس کی ترتیب اور مشمولات بھی ''کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است'' کی زندہ مثال ہیں۔
ہمارے یہاں تقدیم و تاخیر کے مسائل مشاعروں مذاکروں اور سرکاری تقریبات میں ہی نہیں رسائل کی فہرست سازی میں بھی فساد کا موجب بنتے ہیں کہ بعض احباب کو اپنے فن پارے کے معیار سے زیادہ اس مقام کی فکر ہوتی ہے جہاں ان کا نام اور تحریر درج کیے جائیں گے۔ ''ماہ نو'' نے اس کا بہت ہی اچھا توڑ نکالا ہے اور وہ یہ کہ ترتیب رکھی ہی حروف تہجی کی نسبت سے جائے تاکہ کسی کو گلہ نہ ہو سکے اور اگر ہو بھی تو اس کا رخ ان والدین کی طرف ہو جنہوں نے نام رکھتے وقت اس ''نزاکت'' کا خیال نہیں رکھا تھا۔
نگران اعلیٰ محمد سلیم کے ابتدائیہ اور قاسمی صاحب کی نواسیوں کے ترتیب دیے ہوئے سوانحی خاکے کے بعد مضامین کا حصہ شروع ہو جاتا ہے جس میں کل ملا کر 51 مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں سے کچھ نئے ہیں اور کچھ پرانے اور تمام کا تعلق قاسمی صاحب کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے ہے جب کہ لکھنے والوں میں گزشتہ سات دہائیوں کے چنیدہ لکھاری شامل ہیں ان کے چیلے اور نامور شاعر' افسانہ نگار اور ہدایت کار گلزار کا مضمون اپنی تازگی اور اشعار دونوں اعتبار سے خاصے کی چیز ہے۔
''نذر ندیم'' کے عنوان سے منظوم خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں جوش ملیح آبادی' احسان دانش' رئیس امروہوی' حفیظ تائب' چانگ شی شوان' احمد فراز اور ظفر اقبال سمیت 30 ایسے شاعر ہیں جن میں سے بیشتر خود اساتذہ کا درجہ رکھتے ہیں اس کے بعد ''ندیم۔ گوشہ فن'' ہے جس میں نثر کے حوالے سے ان کے مضامین' فکاہی کالموں' خاکوں اور افسانوں کا انتخاب درج کیا گیا ہے جب کہ شاعری کے ضمن میں ان کی حمد و نعت غزلوں اور نظموں سے مشتے از خروارے کے طور پر چند ایک چیزیں لی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کے عکس اور اہل خانہ اور احباب کے ساتھ تصویروں کا ایک مختصر انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کے بیک ٹائٹل پر ان کی تمام مطبوعہ کتابوں کے سرورق منی ایچر انداز میں شایع کیے گئے ہیں جو ان کے طویل اور شاندار ادبی کیرئیر کا ایک خوب صورت اور بھرپور تعارف ہیں۔ مجموعی طور پر ''ماہ نو'' کی یہ اشاعت کسی بھی ادبی لائبریری میں ایک قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتی ہے سو میں اپنی بات کو ندیم صاحب کے مشہور مصرعے ''یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ'' پر ختم کرنے کے بجائے انھی کے اس شعر سے آغاز کرتا ہوں کہ
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں' غریب شہر نہیں
ان کے نام پر مختلف شہروں کی سڑکوں اور متعلقہ عمارتوں کے نام بھی رکھے جا رہے ہیں اور بہت سے ادبی جرائد ان سے متعلق خاص نمبر بھی شایع کر رہے ہیں اس آٓخرالذکر کام میں حکومت پاکستان کی وزارت ثقافت اور اطلاعات کے تحت شایع ہونے والے موقر ماہنامے ''ماہ نو'' نے ایک شاندار ندیم نمبر شایع کر کے جو اولیت حاصل کی ہے وہ بلاشبہ لائق تحسین و تعارف ہے ادارے کی نئی یعنی موجودہ ٹیم نے (جو برادر شفقت جلیل کے بعد اب نگران اعلیٰ محمد سلیم صاحب کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے) چند ماہ قبل ''حبیب جالب'' کے لیے بھی ایک ایسا ہی شاندار خصوصی نمبر شایع کیا تھا، یہ دونوں مجلے اپنی جگہ پر ایک ادبی دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس پرچے کے مندرجات' تہذیب و آرائش اور حسن پیش کش کے بارے میں کوئی بات کرنے سے قبل مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب ہی کا سنایا ہوا ایک بہت دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ تقسیم کے بعد حکومت ہند کی زیر سرپرستی بھی اسی نوع کا ایک رسالہ ''آج کل'' کے نام سے نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر اس دور کی معروف ادبی شخصیت پنڈت ہری چند اختر تھے جن کی بذلہ سنجی اور حسِ مزاح اپنی مثال آپ تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک بار انڈین کانگریس کے کچھ اہم مگر متعصب قسم کے لیڈر ان سے ملنے آئے۔
ہری چند اختر نے سامنے پڑی کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ''تشریف رکھیے'' اس پر ان میں سے ایک صاحب بولے کہ یہ تو مسلوں (یعنی مسلمانوں) کا طریقہ ہے آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ ''پدھارئیے'' پنڈت جی نے مسکرا کر کہا ''جناب اگر تشریف رکھنا چاہتے ہیں تو یہ کرسیاں حاضر ہیں پدھارنا ہے تو باہر بنچ پڑا ہے'' بدقسمتی سے ادب اور ادیب ہمارے یہاں بھی زیادہ تر باہر پڑے بنچ پر ہی بٹھائے گئے ہیں اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس رسالے کے بعض دفاتر (واضح رہے کہ اسے کم از کم لاہور کی حد تک کوئی باقاعدہ سرکاری عمارت نہیں ملی اور یہ کرائے کی عمارتوں میں ہی اپنی نیم بے ربط اشاعتوں کا وقت گزارتا رہا ہے) ایسے دیکھے ہیں جن کی کرسیوں اور نائب قاصدوں وغیرہ کے اسٹولوں اور بنچوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا اب سنا ہے کہ اس کی اشاعت میں باقاعدگی لانے اور معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اسے کسی باقاعدہ سرکاری عمارت میں معقول جگہ دی جا رہی ہے۔کاش یہ افواہ نہ ہو۔
جہاں تک اس موجودہ شمارے یعنی احمد ندیم قاسمی نمبر کا معاملہ ہے تو اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے جس محنت سے اس کی مجلس ادارت اور دیگر اسٹاف نے اس کا مواد جمع کیا ہے اور جس سلیقے اور خوب صورتی سے اس کی صورت گری کی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ پرچہ جہازی سائز کے اعلیٰ قسم کے آرٹ پیپر کے 372 صفحات پر مشتمل ہے اور جہاں سرورق اور اندرونی تصاویر کی خوبصورتی نے اسے دیدہ زیب اور معلومات افزا بنایا ہے وہاں اس کی ترتیب اور مشمولات بھی ''کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است'' کی زندہ مثال ہیں۔
ہمارے یہاں تقدیم و تاخیر کے مسائل مشاعروں مذاکروں اور سرکاری تقریبات میں ہی نہیں رسائل کی فہرست سازی میں بھی فساد کا موجب بنتے ہیں کہ بعض احباب کو اپنے فن پارے کے معیار سے زیادہ اس مقام کی فکر ہوتی ہے جہاں ان کا نام اور تحریر درج کیے جائیں گے۔ ''ماہ نو'' نے اس کا بہت ہی اچھا توڑ نکالا ہے اور وہ یہ کہ ترتیب رکھی ہی حروف تہجی کی نسبت سے جائے تاکہ کسی کو گلہ نہ ہو سکے اور اگر ہو بھی تو اس کا رخ ان والدین کی طرف ہو جنہوں نے نام رکھتے وقت اس ''نزاکت'' کا خیال نہیں رکھا تھا۔
نگران اعلیٰ محمد سلیم کے ابتدائیہ اور قاسمی صاحب کی نواسیوں کے ترتیب دیے ہوئے سوانحی خاکے کے بعد مضامین کا حصہ شروع ہو جاتا ہے جس میں کل ملا کر 51 مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں سے کچھ نئے ہیں اور کچھ پرانے اور تمام کا تعلق قاسمی صاحب کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے ہے جب کہ لکھنے والوں میں گزشتہ سات دہائیوں کے چنیدہ لکھاری شامل ہیں ان کے چیلے اور نامور شاعر' افسانہ نگار اور ہدایت کار گلزار کا مضمون اپنی تازگی اور اشعار دونوں اعتبار سے خاصے کی چیز ہے۔
''نذر ندیم'' کے عنوان سے منظوم خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں جوش ملیح آبادی' احسان دانش' رئیس امروہوی' حفیظ تائب' چانگ شی شوان' احمد فراز اور ظفر اقبال سمیت 30 ایسے شاعر ہیں جن میں سے بیشتر خود اساتذہ کا درجہ رکھتے ہیں اس کے بعد ''ندیم۔ گوشہ فن'' ہے جس میں نثر کے حوالے سے ان کے مضامین' فکاہی کالموں' خاکوں اور افسانوں کا انتخاب درج کیا گیا ہے جب کہ شاعری کے ضمن میں ان کی حمد و نعت غزلوں اور نظموں سے مشتے از خروارے کے طور پر چند ایک چیزیں لی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کے عکس اور اہل خانہ اور احباب کے ساتھ تصویروں کا ایک مختصر انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کے بیک ٹائٹل پر ان کی تمام مطبوعہ کتابوں کے سرورق منی ایچر انداز میں شایع کیے گئے ہیں جو ان کے طویل اور شاندار ادبی کیرئیر کا ایک خوب صورت اور بھرپور تعارف ہیں۔ مجموعی طور پر ''ماہ نو'' کی یہ اشاعت کسی بھی ادبی لائبریری میں ایک قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتی ہے سو میں اپنی بات کو ندیم صاحب کے مشہور مصرعے ''یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ'' پر ختم کرنے کے بجائے انھی کے اس شعر سے آغاز کرتا ہوں کہ
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں' غریب شہر نہیں