ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ

علی الصبح پتوں اور کِھلے ہوئے پھولوں پرگرنے والی شبنم ماحولیاتی کثافت کا پتہ دیتی تھی۔

ISLAMABAD:
ایک زمانہ تھا لوگ 100سال سے زائد عمر تک خوب صحت وتوانا جیتے تھے ایک سے زائد صحت مند بیگمات کے مالک ہوا کر تے تھے اور اولاد بھی ماشاء اللہ تابعدار تھی۔ ملاوٹ سے پاک خالص غذائیں تھیں۔ آب وہوا تازہ اور آلودگی سے پاک تھی۔ تاریکی شب میں کیاریوں اور زرخیز مٹی کے گملوں میں لگے پھول پودوں میں جھینگروں کی گنگناہٹ اور جگنو کی جگمگاہٹ رات کا نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کیا کرتی تھیں۔

علی الصبح پتوں اور کِھلے ہوئے پھولوں پرگرنے والی شبنم ماحولیاتی کثافت کا پتہ دیتی تھی۔ رات میں انھی پودوں میں سے رات کی رانی کی بیل اپنی مسحورکن خوشبو سے سوئے ہوئے جانداروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھی، موتیا کے تازہ پھول اور صبح کو تازہ گلاب کی دلکش خوشبو اردگرد کے ماحول کو تروتازگی بخشتی تھی۔ دور جدید ترقی یافتہ تو ضرور ہے مگر ترقی یافتہ دنیا اس بات پر مصر ہے کہ کس طریقے سے دنیا کے غریب لوگوں کی بھری سے بھری آبادیوںکو صفحہ ہستی سے نیست و نابودکیا جائے اور اس طرح ختم کیا جائے کہ ان کے جسمانی اعضاء کا کچھ پتہ نہ ہو۔ خود کش دھماکے، ہوائی حادثات، ''نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری'' کے مصداق پر عمل کیا جا رہا ہے ممکن ہے قبرستانوں کی آباد کاری میں زمین کی وسعت روکنے کا عمل ہو۔

بقو ل شاعر:
آلودہ ہو چکی ہے فضا اس قدر کے آج
حکم فنائے بزم ہے تعمیل کے قریب
کرنا ہے دفن جس میں ہمیں اپنے آپ کو
وہ اجتماعی قبر ہے تکمیل کے قریب

ماہرین کہتے ہیں دنیا میں انسانی ہلاکتوںکے انبار لگانے اور درپیش مسائل میں دہشت گردی یا جنگوں سے زیادہ خطرناک ترین عمل ''گلوبلائزیشن'' ہے۔ دوسرے نمبر پرکرپشن، تنازعات، جنگیں اور دہشت گردی تیسرے نمبر پر، بھوک چوتھے نمبرپر، ماحولیاتی تبدیلی پانچویں نمبر پر اور ناخواندگی چھٹے نمبر پرآتی ہے۔ پانچویں درجے پر آنے والی یہی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں اسی لیے تو عالم بشریت ہر سال پانچ جون کو ماحولیاتی آلودگی کا عالمی دن کے نام سے منسوب کرتی ہے گو کہ اس حیاتیاتی عنوان پر سیر حاصل اور مفید گفتگو سائنسی انداز میں کرنا کوئی آسان بات تو ہے نہیں۔ آلودگی موسمی سائنس کا ایک ایسا عمل ہے جو ہوا، زمین اور پانی کے طبعی کیمیائی اور حیاتیاتی خصوصیات میں مضر تبدیلیاں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں جو جانداروں کی زندگی پر بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔


عصر حاضر میں آلودگی سے پیدا ہو نے والے منفی اثرات میں خطرناک صورت حال نہ صرف اختیارکر لی ہے بلکہ شہریوں کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی قدرت کے چار اجزائے ترکیبی سے جنم لیتی ہے۔ فضائی، آبی، زمینی اور شور سے پیدا ہو نے والی آلودگی ہیں۔ فضائی یا ہوائی آلودگی میں ایسی اشیاء کا پایا جانا شامل ہے جو جانداروں یعنی انسانوں، حیوانوں، جانوروں اور پودوں کو نقصان پہنچائیں اور بیماریاں پھیلانے کا سبب بنیں۔ فیکٹریوں، گاڑیوں اور صنعتی عمل سے خارج ہو نے والی گیسیں اور دھوئیں سے جنم لینے والی کیمیائی مرکبات اور ذرات فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق گاڑیوں سے خارج ہو نے والی گیسیں یا ناکارے مادے میں ہائیڈرو کاربن، مونو آکسائیڈ، نائیٹروجن آکسائیڈ اور لیڈ کے مرکبات شامل ہو تے ہیں جو انسانی صحت کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

انسانی صحت کو خراب کر نے والے ہائیڈروکاربن کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ نائٹروجن آکسائیڈ پھیپھڑوں کے خلیوں کو ضرر پہنچاتی ہے۔ یہ گیس فضا میں سورج کی روشنی میں ہائیڈروکاربن کے ساتھ عمل کر کے ایک مرکب بناتا ہے جسے سموگ (Smog) کہا جاتا ہے یہی سموگ فضاکے ذریعے حیوانیات کے اعضائے تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ دوسری طرف کوئلوں کے جلنے سے پیدا ہو نے والی گیس سلفر ڈائی آکسائیڈ فضا میں داخل ہو کر فضائی آلودگی کا موجب بن جا تی ہے جو نہ صرف زرعی فصلوں کی پیداوار میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے بلکہ انسانی اعضاء آنکھ، ناک ،گلہ اور پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کر تی ہے۔

معاشی اور اقتصادی موازنے کی رو سے زمینی اور فضائی ماحولیات کی روز بروز تبدیلی سے غریب غریب تر ہو رہا ہے اور اس حقیقت سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں گلوبل وارمنگ کے منفی اور مضر اثرات نمایاں نہ ہو ں۔

اربن ایریاز میں بجلی کی مصنوعی پیداوار کے لیے تجارتی مراکز پر چلنے والے بھاری وولٹیج کے جنریٹر کا مسلسل استعمال، سڑکوں پر جلد بازی اور عجلت میں تیز رفتاری کا عمل دکھاتے ہوئے بن مانس نما انسانوں کا احمقانہ اور غیر ضروری ہارن کا استعمال، حکومتی پابندی کے باوجود مساجد کے چنگھاڑتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر، ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسز کے چنگھاڑتے ہوئے ہارن کا شور جو فضائی اور زمینی آلودگی پھیلانے کے ساتھ قوت گویائی اور دل کے امراض پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جنگلات اور زرعی اراضی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ تجارتی مقاصد کی تکمیل کے لیے لکڑی کے حصول کے لیے جنگلات سے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔

حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے ہر ایک منٹ وقفے سے لگ بھگ ایک سو پچاس ایکڑ سے زائد رقبہ قدرتی جنگلات سے محروم ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان میں 4 فیصد سے بھی کم رقبہ پر جنگلات پر مشتمل ہونا باعث تشویش ہے۔ ہاؤسنگ اسکیموں کے نام سے بڑے بڑے پلازے تعمیر کیے جا رہے ہیں، بنیادی سہولیات ِ زندگی سے محروم اور آلودہ ماحول میں بسنے والی قوموں کا مزاج میں چڑچڑاہٹ اور منفی سوچ کا پایا جانا لازمی ہے۔ گرمی کی حدت کی وجہ سے پہاڑوں پر گرنے والی برف کے پگھلنے کا جو عندیہ اسپین کی ماہر گلیشئر بوگوڈیل گارڈو نے دیا ہے وہ کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں گلیشئر پگھل رہے ہیں جو جنگلی حیات کے لیے اچھا نہیں ہے۔ گلیشئر کے پگھلنے کی یہی رفتار رہی توگلیشئر چند سال بعد ختم ہو جائیں گے۔ گلیشئر کے پگھلنے سے مقامی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور چٹانوں پر برف نہ ہو نے کی وجہ سے سورج کی شعاعیں جذب ہوتی رہتی ہیں جو درجہ حرارت میں اضافے کا سبب ہوتی ہیں بالخصوص جنگلی حیات اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

دنیا میں آبی آلودگی کی سب سے بڑی مثال مشرقی افریقہ کا ملک صومالیہ ہے جس کے ساحل امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کے بحری جہازوں کی صفائی و ستھرائی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ان جہازوں سے خارج ہونے والے آبی فضلات نے نہ صرف آبی خطے کے قیمتی وسائل (حیوانیات) کو برباد کیا بلکہ ماہی گیری کے شعبے سے منسلک کثیر آبادی کو بے روزگارکیا جو مجموعی طور پر ملک کی معیشت کی تباہی کا سبب بنا۔ اس سمندری پٹی سے گزرنے والے جہازوں اور سوار عملہ کا بحری قزاقوں کی طرف سے بزور اسلحہ اغوا برائے تاوان انھی متذکرہ پس منظر کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے۔
Load Next Story