سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں چھٹی قسط
ہوٹل پرہندوستانی ملازم نےبطورپاکستانی ہماری خاص تواضع کی، شاید یہ اس مشترکہ تہذیب کااثرتھا جس میں ہم نےصدیاں گزاری ہیں
BARA:
کیبل کار کے خوش کن تجربے کے بعد ہم اپنے ہوٹل لنگکا سوکا میں واپس آئے تو میں نے بچوں کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے بتادیا کہ آج میں دو تین گھنٹے آرام کروں گا، کیبل کار میں بیٹھ تو گیا ہوں لیکن ابھی بھی چکر سے محسوس ہو رہے ہیں۔ بچے یہ سن کر ہنسنے لگے، پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگے کہ ایسا ہوتا ہے۔ یہ تو آپ کی محبت تھی جو آپ ہمارے کہنے پر اُس میں بیٹھ گئے، کہیں تو کوئی دوا لادیں؟
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)
شاید ان کے خیال میں اگر میں بیمار پڑگیا تو سارا ٹرپ خراب ہوجائے گا، لہذا میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا، نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، سو کر اٹھوں گا تو تازہ دم ہوجاونگا۔ وہ کہنے لگے چلیں آپ بھی آرام کریں اور ہم بھی آرام کرتے ہیں، شام کو پھر پنٹا سنان بیچ چلیں گے، اور آج کھانا اس کے قریب ایرانی یا ترکی ہوٹل سے ہی کھائیں گے۔ آج تھوڑا سا مختلف ہونا چاہیئے، میں نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ تھکن کا اثر تھا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میں کب سویا اور کتنی دیر سویا۔ بڑھتی ہوئی عمر میں مسلسل سفر اور تردد کی بنا پر تھکن کا غلبہ ہوجاتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے 7 سال زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو میں ان کی مطبوعات کی ادارت کی۔ اس زمانے میں اپنے آبائی شہر ساہیوال کی ادبی تنظیم مجلس فکرِ نو کے فعال ممبر کے طور پر بھی کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبات کے سلسلے میں موٹر سائیکل پر فیصل آباد سے ساہیوال روزانہ آیا کرتا تھا، اس زمانے میں تھکن کس شے کا نام ہے، معلوم بھی نہ تھا۔
اچانک جب مجھے ہلا کر اٹھایا گیا تو میں بیدار ہوا۔ لیکن کوئی ڈھائی تین گھنٹے سونے کے بعد اب میں فریش تھا۔ سو تیار ہو کر گھومنے پھرنے نکل پڑے۔ جب ہم پنٹا سنان بیچ پر پہنچے تو وہاں قریب ہی ایک ایک ہوٹل تھا جہاں کنسرٹ ہورہا تھا، اور بیچ پر کئی جگہ لوگ آگ روشن کئے بیٹھے تھے اور کنسرٹ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
ہم وہاں سے اٹھے اور ڈنر کرنے کی غرض سے قریب ہی موجود ایک ترک ہوٹل پر پہنچ گئے۔ ترک ہوٹل اس لئے کہ مالک ترکی باشندہ تھا جبکہ باقی ملازمین زیادہ تر ہندوستانی تھے۔ ہندوستانی ملازم نے یہ سن کر کہ ہم پاکستان سے ہیں ہماری خصوصی تواضع کی، شاید یہ اس مشترکہ تہذیب کا اثر تھا جس میں ہم نے صدیاں گزاری ہیں۔ وہاں سے اُٹھ کر تھوڑی دیر اور سڑکوں پر گزار کر ہم واپس آگئے، واپس پہنچ کر تھوڑی ہی دیر میں بستر پر لیٹے خراٹے بھر رہے تھے۔
صبح جلدی ناشتہ کیا اور نکل پڑے واٹر فالز دیکھنے۔ تیلاگا ہاربر کے نزدیک یہ واٹر فالز لنکاوی کی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک قصہ مشہور ہے کہ پہاڑوں کی بلندی پر جہاں سات کنویں موجود ہیں، وہیں کے پانی سے یہ آبشاریں رواں دواں ہیں۔ وہاں پریاں غسل کے لئے آتی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملک کوئی بھی ہو، ماورائے عقل داستانیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔
ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ پاکستان میں تو پہاڑی سلسلے برفباری سے سفید پوش ہوجاتے ہیں اور پھر سارا سال برف پگھلنے سے پہلاڑی علاقوں میں جا بجا واٹر فالز نظر آتے ہیں لیکن لنکاوی یا پورا ملائیشیا جہاں درجہ حرارت 27 سے 30 ڈگری رہتا ہے، اور جہاں پہاڑوں پر برف باری نہیں ہوتی وہاں یہ آبشاریں کس طرح موجود ہیں؟ یقیناً حیران کن ہے لیکن ہم چونکہ خود دیکھ کر آ رہے ہیں اس لئے انکار ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آتا ہے کہ
بے شک یہ اس کی قدرت کا ایک اشارہ ہے۔
پنٹائی کوک ساحلِ سمندر کی جانب سے آئیں تو ایک چھوٹے کار پارک میں پہنچتے ہیں جہاں کار کے لئے دو رنگٹ اور موٹر سائیکل کے لئے ایک رنگٹ کے عوض سواری پارک کرنے کی سہولت موجود ہے۔ یہاں بھی بے شمار چھوٹی چھوٹی دکانیں موجود ہیں جہاں کولڈ ڈرنک، کپڑے اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ یہاں سے یا تو آپ دکانوں کی دائیں جانب سے واٹر فال تک جانے کیلئے سیڑھیوں والے رستے کو اختیار کریں یا بہت ہی ڈھلوانی راستے پر چل کے واٹر فال تک پہنچیں یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے۔ وہاں پہنچ کر واٹر فال کے دامن میں قدرتی طور پر جمع ہونے والا پانی آپ کے تھکے ہوئے پیروں کو راحت مہیا کرکے اور آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔
جہاں آپ نے کار پارک کی تھی وہاں سے واٹر فال تک سیڑھیوں کی تعداد 638 ہے۔ واٹر فال اور سات کنووں تک رسائی حاصل کرنا بلاشبہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے لیکن ایک بار آپ ٹاپ پر پہنچ گئے اور سیون ویلز تک رسائی ہوگئی تو آپ وہاں نہانے کیلئے قدرتی پہاڑی سلائیڈ کو استعمال کرسکتے ہیں۔ جو ہر عمر کے بوڑھے اور بچوں کے لئے مناسب ہے۔ واٹر فال سے واپسی پر جب ہم کار پارکنگ میں پہنچے تو پیاس کی شدت سے برا حال تھا۔ اِس موقع پر وہاں موجود چھوٹی چھوٹی دکانوں سے خریدا گیا یخ بستہ ناریل پانی مزا دے گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سیون ویل اور واٹر فال
کیبل کار کے خوش کن تجربے کے بعد ہم اپنے ہوٹل لنگکا سوکا میں واپس آئے تو میں نے بچوں کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے بتادیا کہ آج میں دو تین گھنٹے آرام کروں گا، کیبل کار میں بیٹھ تو گیا ہوں لیکن ابھی بھی چکر سے محسوس ہو رہے ہیں۔ بچے یہ سن کر ہنسنے لگے، پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگے کہ ایسا ہوتا ہے۔ یہ تو آپ کی محبت تھی جو آپ ہمارے کہنے پر اُس میں بیٹھ گئے، کہیں تو کوئی دوا لادیں؟
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)
شاید ان کے خیال میں اگر میں بیمار پڑگیا تو سارا ٹرپ خراب ہوجائے گا، لہذا میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا، نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، سو کر اٹھوں گا تو تازہ دم ہوجاونگا۔ وہ کہنے لگے چلیں آپ بھی آرام کریں اور ہم بھی آرام کرتے ہیں، شام کو پھر پنٹا سنان بیچ چلیں گے، اور آج کھانا اس کے قریب ایرانی یا ترکی ہوٹل سے ہی کھائیں گے۔ آج تھوڑا سا مختلف ہونا چاہیئے، میں نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ تھکن کا اثر تھا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میں کب سویا اور کتنی دیر سویا۔ بڑھتی ہوئی عمر میں مسلسل سفر اور تردد کی بنا پر تھکن کا غلبہ ہوجاتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے 7 سال زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو میں ان کی مطبوعات کی ادارت کی۔ اس زمانے میں اپنے آبائی شہر ساہیوال کی ادبی تنظیم مجلس فکرِ نو کے فعال ممبر کے طور پر بھی کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبات کے سلسلے میں موٹر سائیکل پر فیصل آباد سے ساہیوال روزانہ آیا کرتا تھا، اس زمانے میں تھکن کس شے کا نام ہے، معلوم بھی نہ تھا۔
اچانک جب مجھے ہلا کر اٹھایا گیا تو میں بیدار ہوا۔ لیکن کوئی ڈھائی تین گھنٹے سونے کے بعد اب میں فریش تھا۔ سو تیار ہو کر گھومنے پھرنے نکل پڑے۔ جب ہم پنٹا سنان بیچ پر پہنچے تو وہاں قریب ہی ایک ایک ہوٹل تھا جہاں کنسرٹ ہورہا تھا، اور بیچ پر کئی جگہ لوگ آگ روشن کئے بیٹھے تھے اور کنسرٹ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
ہم وہاں سے اٹھے اور ڈنر کرنے کی غرض سے قریب ہی موجود ایک ترک ہوٹل پر پہنچ گئے۔ ترک ہوٹل اس لئے کہ مالک ترکی باشندہ تھا جبکہ باقی ملازمین زیادہ تر ہندوستانی تھے۔ ہندوستانی ملازم نے یہ سن کر کہ ہم پاکستان سے ہیں ہماری خصوصی تواضع کی، شاید یہ اس مشترکہ تہذیب کا اثر تھا جس میں ہم نے صدیاں گزاری ہیں۔ وہاں سے اُٹھ کر تھوڑی دیر اور سڑکوں پر گزار کر ہم واپس آگئے، واپس پہنچ کر تھوڑی ہی دیر میں بستر پر لیٹے خراٹے بھر رہے تھے۔
صبح جلدی ناشتہ کیا اور نکل پڑے واٹر فالز دیکھنے۔ تیلاگا ہاربر کے نزدیک یہ واٹر فالز لنکاوی کی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک قصہ مشہور ہے کہ پہاڑوں کی بلندی پر جہاں سات کنویں موجود ہیں، وہیں کے پانی سے یہ آبشاریں رواں دواں ہیں۔ وہاں پریاں غسل کے لئے آتی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملک کوئی بھی ہو، ماورائے عقل داستانیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔
ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ پاکستان میں تو پہاڑی سلسلے برفباری سے سفید پوش ہوجاتے ہیں اور پھر سارا سال برف پگھلنے سے پہلاڑی علاقوں میں جا بجا واٹر فالز نظر آتے ہیں لیکن لنکاوی یا پورا ملائیشیا جہاں درجہ حرارت 27 سے 30 ڈگری رہتا ہے، اور جہاں پہاڑوں پر برف باری نہیں ہوتی وہاں یہ آبشاریں کس طرح موجود ہیں؟ یقیناً حیران کن ہے لیکن ہم چونکہ خود دیکھ کر آ رہے ہیں اس لئے انکار ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آتا ہے کہ
''اور تم میری کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے''۔
بے شک یہ اس کی قدرت کا ایک اشارہ ہے۔
پنٹائی کوک ساحلِ سمندر کی جانب سے آئیں تو ایک چھوٹے کار پارک میں پہنچتے ہیں جہاں کار کے لئے دو رنگٹ اور موٹر سائیکل کے لئے ایک رنگٹ کے عوض سواری پارک کرنے کی سہولت موجود ہے۔ یہاں بھی بے شمار چھوٹی چھوٹی دکانیں موجود ہیں جہاں کولڈ ڈرنک، کپڑے اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ یہاں سے یا تو آپ دکانوں کی دائیں جانب سے واٹر فال تک جانے کیلئے سیڑھیوں والے رستے کو اختیار کریں یا بہت ہی ڈھلوانی راستے پر چل کے واٹر فال تک پہنچیں یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے۔ وہاں پہنچ کر واٹر فال کے دامن میں قدرتی طور پر جمع ہونے والا پانی آپ کے تھکے ہوئے پیروں کو راحت مہیا کرکے اور آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔
جہاں آپ نے کار پارک کی تھی وہاں سے واٹر فال تک سیڑھیوں کی تعداد 638 ہے۔ واٹر فال اور سات کنووں تک رسائی حاصل کرنا بلاشبہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے لیکن ایک بار آپ ٹاپ پر پہنچ گئے اور سیون ویلز تک رسائی ہوگئی تو آپ وہاں نہانے کیلئے قدرتی پہاڑی سلائیڈ کو استعمال کرسکتے ہیں۔ جو ہر عمر کے بوڑھے اور بچوں کے لئے مناسب ہے۔ واٹر فال سے واپسی پر جب ہم کار پارکنگ میں پہنچے تو پیاس کی شدت سے برا حال تھا۔ اِس موقع پر وہاں موجود چھوٹی چھوٹی دکانوں سے خریدا گیا یخ بستہ ناریل پانی مزا دے گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔