پاک افغان بارڈر مینجمنٹ… دونوں کا فائدہ
طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے سے دہشت گردی کے واقعات روکنے میں آسانی ہو گی۔
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آپریشن ضرب عضب کے2 سال مکمل ہونے پر بدھ کو میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ طورخم بارڈر پر افغان فورسز نے فائرنگ میں پہل کی جس کا بھرپور جواب دیا گیا، قبائلی علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کرتے ہوئے افغان سرحد تک پہنچ چکے ہیں جہاں اب زیادہ توجہ بارڈر مینجمنٹ پر ہو گی تاکہ شدت پسندوں کو واپس نہ آنے دیاجائے۔
انھوں نے کہا کہ بارڈر پر موجود جوان حکم کا انتظار نہیں کرتا، افغان فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں میجر علی جواد شہید اور19 جوان زخمی ہوئے، ہرطرح کی سرحدی کشیدگی کا خاتمہ سیز فائرسے ہوتا ہے، امید ہے طورخم بارڈر کی کشیدگی جلد ختم ہو جائے گی۔ یہاںگیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کر کیا جو نیا نہیں، 2004 ء میں بھی یہاں گیٹ موجود تھا جو بعد میں طورخم جلال آباد سڑک بنانے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا، طورخم پر چیکنگ کا نظام بہتربنانے کے لیے باڑ لگائی گئی، دستاویزات کے معائنے اور تصدیق کیے بغیر کسی کو آنے جانے نہیں دیا جائے گا، چیک پوسٹ پر سخت نگرانی کی جائے گی، پاکستان سرحد کے اس پار حملے کے لیے کسی کو اپنی زمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔
آپریشن ضرب عضب کے باعث شمالی اور جنوبی وزیر ستان کا نو گو ایریا ختم کر دیا گیا ہے تقریباً3600 کلومیٹر کا علاقہ دہشت گردوں سے کلیئر کرایا گیا ہے، آپریشن آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ادھر پاکستان نے اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر عمر ذخیل وال کو طلب کر کے افغان فوج کی فائرنگ سے میجر علی جواد خان کی شہادت پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سرحدی علاقے میں لوگوں اور گاڑیوں کی آمدورفت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تعمیراتی کام کر رہا تھا کہ افغان فورسز کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی، فائرنگ موثر بارڈر مینجمنٹ کے لیے تعمیراتی سرگرمیاں سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔
طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے سے دہشت گردی کے واقعات روکنے میں آسانی ہو گی اس کا فائدہ جہاں پاکستان کو پہنچے گا وہاں افغانستان میں بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی۔ افغانستان طورخم بارڈر پر پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی اقدامات پر تعاون کرنے کے بجائے معاملات کو الجھا رہا ہے۔ یہ شکوہ بالکل درست ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں افغانستان نے تعاون نہیں کیا اگر اس نے تعاون کیا ہوتا تو آج اس کے مثبت نتائج سامنے آتے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل افغانستان کی اعلیٰ قیادت کو اعتماد میں لیا گیا' انھیں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے بھاگ کر افغانستان آنے کا بھی امکان ہے جس پر انھیں گرفتار کریں' ماریں یا ہمارے حوالے کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
افغان حکام ایک جانب پاکستان کو طورخم پر گیٹ کی تعمیر میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں تو دوسری جانب وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں' اطلاعات کے مطابق بدھ کو بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو پاکستانی سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے' ایک افغان عہدے دار کا دعویٰ ہے کہ فائرنگ کے اس واقعے میں ایک افغان سیکیورٹی گارڈ ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ آپریشن ضرب عضب 15جون 2014 کو شروع کیا گیا' ترجمان پاک فوج کے مطابق اس آپریشن کے دوران اب تک500فوجی افسران و جوان شہید جب کہ 3500 دہشت گرد مارے گئے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے پورے ملک میں دہشت گردی پھیلی ہوئی تھی اور آئے دن دھماکے ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی تھیں' شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا تھا جہاں دہشت گردوں کی بھرتیاں ہوتی تھیں اور ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کو یہیں سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق ابتدائی طور پر 3600 کلو میٹر کا علاقہ کلیئر کیا گیا جس کے بعد بعض دہشت گرد خیبرایجنسی فرار ہو گئے جہاں سے لشکر اسلام کو اکھاڑ پھینکا گیا' آئی ڈیز اور دھماکا خیز مواد تیار کرنے کی 7ہزار فیکٹریاں پکڑی گئیں۔
آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد پاکستان کی بھرپور توجہ افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ پر ہے جہاں سے دہشت گرد داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت بارڈر مینجمنٹ بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور طورخم بارڈر پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ فی الفور طور پر بند کرے۔ اگر افغانستان پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو خطے سے دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہو گی جس کا نشانہ افغانستان خود بھی بنتا رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ بارڈر پر موجود جوان حکم کا انتظار نہیں کرتا، افغان فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں میجر علی جواد شہید اور19 جوان زخمی ہوئے، ہرطرح کی سرحدی کشیدگی کا خاتمہ سیز فائرسے ہوتا ہے، امید ہے طورخم بارڈر کی کشیدگی جلد ختم ہو جائے گی۔ یہاںگیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کر کیا جو نیا نہیں، 2004 ء میں بھی یہاں گیٹ موجود تھا جو بعد میں طورخم جلال آباد سڑک بنانے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا، طورخم پر چیکنگ کا نظام بہتربنانے کے لیے باڑ لگائی گئی، دستاویزات کے معائنے اور تصدیق کیے بغیر کسی کو آنے جانے نہیں دیا جائے گا، چیک پوسٹ پر سخت نگرانی کی جائے گی، پاکستان سرحد کے اس پار حملے کے لیے کسی کو اپنی زمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔
آپریشن ضرب عضب کے باعث شمالی اور جنوبی وزیر ستان کا نو گو ایریا ختم کر دیا گیا ہے تقریباً3600 کلومیٹر کا علاقہ دہشت گردوں سے کلیئر کرایا گیا ہے، آپریشن آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ادھر پاکستان نے اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر عمر ذخیل وال کو طلب کر کے افغان فوج کی فائرنگ سے میجر علی جواد خان کی شہادت پر شدید احتجاج کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سرحدی علاقے میں لوگوں اور گاڑیوں کی آمدورفت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تعمیراتی کام کر رہا تھا کہ افغان فورسز کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی، فائرنگ موثر بارڈر مینجمنٹ کے لیے تعمیراتی سرگرمیاں سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔
طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے سے دہشت گردی کے واقعات روکنے میں آسانی ہو گی اس کا فائدہ جہاں پاکستان کو پہنچے گا وہاں افغانستان میں بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی۔ افغانستان طورخم بارڈر پر پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی اقدامات پر تعاون کرنے کے بجائے معاملات کو الجھا رہا ہے۔ یہ شکوہ بالکل درست ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں افغانستان نے تعاون نہیں کیا اگر اس نے تعاون کیا ہوتا تو آج اس کے مثبت نتائج سامنے آتے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل افغانستان کی اعلیٰ قیادت کو اعتماد میں لیا گیا' انھیں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے بھاگ کر افغانستان آنے کا بھی امکان ہے جس پر انھیں گرفتار کریں' ماریں یا ہمارے حوالے کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
افغان حکام ایک جانب پاکستان کو طورخم پر گیٹ کی تعمیر میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں تو دوسری جانب وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں' اطلاعات کے مطابق بدھ کو بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو پاکستانی سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے' ایک افغان عہدے دار کا دعویٰ ہے کہ فائرنگ کے اس واقعے میں ایک افغان سیکیورٹی گارڈ ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ آپریشن ضرب عضب 15جون 2014 کو شروع کیا گیا' ترجمان پاک فوج کے مطابق اس آپریشن کے دوران اب تک500فوجی افسران و جوان شہید جب کہ 3500 دہشت گرد مارے گئے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے پورے ملک میں دہشت گردی پھیلی ہوئی تھی اور آئے دن دھماکے ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی تھیں' شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا تھا جہاں دہشت گردوں کی بھرتیاں ہوتی تھیں اور ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کو یہیں سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق ابتدائی طور پر 3600 کلو میٹر کا علاقہ کلیئر کیا گیا جس کے بعد بعض دہشت گرد خیبرایجنسی فرار ہو گئے جہاں سے لشکر اسلام کو اکھاڑ پھینکا گیا' آئی ڈیز اور دھماکا خیز مواد تیار کرنے کی 7ہزار فیکٹریاں پکڑی گئیں۔
آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد پاکستان کی بھرپور توجہ افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ پر ہے جہاں سے دہشت گرد داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت بارڈر مینجمنٹ بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور طورخم بارڈر پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ فی الفور طور پر بند کرے۔ اگر افغانستان پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو خطے سے دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہو گی جس کا نشانہ افغانستان خود بھی بنتا رہے گا۔