ڈاکٹر اسلم فرخی۔ علم کا روشن ستارا ڈوب گیا

حصول تعلیم کے بعد وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور جامعہ کراچی میں تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔

حصول تعلیم کے بعد وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور جامعہ کراچی میں تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔ فوٹو؛ فائل

دنیا سے ایک عالم کا رخصت ہو جانا کسی عظیم سانحے سے کم نہیں، کیونکہ وہ جب تک زندہ رہتا ہے سماج میں علم، شعور و آگہی کو فروغ دیتا ہے، ہم تو ویسے بھی ایک بدنصیب قوم ہیں، جو صاحبان علم و حکمت کی قدر کرنا نہیں جانتے، محقق، ادیب، نقاد، شاعر اور استاد ڈاکٹر اسلم فرخی بظاہر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے، فنا سے بقا کے سفر پر، لیکن ہمارے لیے ایک وسیع علمی و ادبی خزانہ بطور ترکہ چھوڑ کر گئے ہیں۔

خوابوں کی سرزمین لکھنو میں 1923ء میں جنم لینے والے اسلم کا آبائی وطن فتح گڑھ، ضلع فرخ آباد تھا، اسی نسبت سے وہ اسلم فرخی ہوئے، علمی و ادبی گھرانے میں جنم لینے کے اثرات ان پر اس قدر مرتب ہوئے کہ تمام عمر علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنا ئے رکھا، 'سیلف پروجیکشن' کی بیماری سے کوسوں دور رہے، علم و ادب سے اپنی کمٹمنٹ کے باعث ان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔


حصول تعلیم کے بعد وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور جامعہ کراچی میں تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے متعدد مقالوں کی نگرانی کے فرائض انجام دیے، ناظم شعبہ تصنیف و تالیف و مترجم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے، ریڈیو پاکستان پر اپنی آواز کے سحر میں لوگوں کو گرفتار کیا۔ حضرت نظام الدین اولیا کے بارے میں چھ کتابیں رقم کرنے والے ڈاکٹر اسلم فرخی اپنے اس کام کو اپنی پہچان اور شناخت قرار دیتے تھے۔

خاکہ نگاری جیسی مشکل صنف میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے، جہاں مرحوم اپنے پیچھے، چاہنے والوں کا ایک وسیع حلقہ احباب چھوڑ کر گئے، وہیں علم و ادب کے میدان میں ایک وقیع کام جو آنے والی نسلوں کے کام آئے گا، ممتاز ادیب و کالم نگار انور احسن صدیقی مرحوم ان کے بھائی تھے، جب کہ ان کے بیٹے ڈاکٹر آصف فرخی تحقیق، علم و ادب کے میدان کے شہ سوار ہیں جنھوں نے مرحوم کے عَلم کو تھام کر اسے مزید بلند کیا ہے۔
Load Next Story