مسائل اور ان کا حل کیا ہے
نظام کو جوں کا توں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ طبقات کو بھی جوں کا توں رکھا جائے،محنت اورسرمائے کا تضاد بھی قائم رہے۔
ISLAMABAD:
موجودہ تناظر میں جب کبھی ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم مسائل کیا ہیں تو مسائل سے پہلے ان کو حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے دو مکتبہ فکر ذہن میں آتے ہیں۔ ایک لبرل اور دوسرے مذہبی لوگ! اگرچہ مسائل کے حوالے سے پیش کیے گئے حل، ان کے حل ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن دونوں کو جو شے ایک دوسرے سے جوڑتی ہے وہ ان کا ایک ہی نظام میں رہتے ہوئے ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
نظام کو جوں کا توں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ طبقات کو بھی جوں کا توں رکھا جائے،محنت اورسرمائے کا تضاد بھی قائم رہے۔ طبقات کی موجودگی میں محض جمہوریت کا تصور ہی باطل نہیں ہے،بلکہ انصاف، مساوات، انسان کی آزاد نشوونما، اس کی آزادی وغیرہ جیسے تمام تصورات کو حقیقی سطح پر محسوس کرنا بھی ناممکن ہے۔لبرل اور مذہبی لوگ ان اقدار کو حاصل کرنے کے خواہاں ہیں جو سرمایہ داری نظام کی موجودگی میں حقیقی سطح پرممکن ہی نہیں ہے۔
ان کے درمیان نظریاتی تصادم محض چند اقدارکا ہے۔ اوران دونوں کی اقدارکا تعلق پاکستان جیسے معاشرے کی حقیقی صورتحال سے ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کا حقیقی یا سب سے بڑا مسئلہ طبقاتی تفریق اوراس کی بنیاد پر کھڑا ہونے والا وہ نظام ہے جس نے پاکستان کے پسے ہوئے ، مظلوم و مقہورطبقات کو سوائے غربت و افلاس، ناانصافی، ظلم، تشدد، دہشت و بربریت، استحصال، عدم مساوات ، بدعنوانی اوراقربا پروری کے کچھ نہیں دیا۔ لبرل لوگ کبھی بھی اس نظام کو چیلنج نہیں کرتے، وہ اس نظام کو حتمی مانتے ہیں اوراس کے اندر رہتے ہوئے محض اقداراورحقوق کی بات کرتے ہیں۔ وہ اس نظام کے اندراقدار اورحقوق کو محسوس کیے جانے کی حد کودیکھنے میں ناکام رہتے ہیں، یا پھر وہ ایسے اداروں سے وابستہ ہیں کہ جن کا تسلسل اور دوام ان کے اپنے مفادات کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ان کی ساری تنقید مذہبی لوگوں کی ترجیحات اور رویوں پر ہے۔
یہ بات بھی درست ہے مذہبی لوگ اپنے نظریات کو نظریاتی سطح پر توسیع دینے میں ناکام رہے ہیں۔ مغرب میں یہ عمل طے پا کر روشن خیالی کی شکل میں تشکیل پایا۔روشن خیالی جس کے فلسفیانہ تعقلات مسیحی آئیڈیالوجی پر غالب آچکے تھے، بیسویں صدی میں وسیع سطح پر انسانی قتال و نظریاتی دہشت و بربریت نے روشن خیالی کی جانب تشکیک کو جنم دیا اور ایک بار پھر مذہب کے لیے راستہ ہموارکیا۔ تاہم اس بار مسیحیت ایک ''بڑے بیانیے'' کے طور پر نہیں، بلکہ ایک چھوٹے بیانیے کو طور پر ثقافتی عمل کا حصہ بن کر رہے گا۔ہمارے ہاں مذہب اور روشن خیالی کا امتزاج عمل میں نہیں آیا،جس کی کئی وجوہات ہیں، جو اس تحریر کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
مذہبی لوگوں کے برعکس لبرل حضرات کو معاشی وسماجی انصاف سے زیادہ انسانی حقوق کی فکر رہتی ہے۔ انسانی حقوق سے یہاں مراد انصاف، مساوات، انفرادیت،آزادی اور جمہوریت جیسی وہ اقدار نہیں جن کی تبدیلی نظام کی تبدیلی کی مرہونِ منت ہوتی ہے، نہ ہی آزادی سے ان کی مراد وہ آزادی ہے، جو سماجی عمل کے لازمی نتیجے کے طور پر تشکیل پاتی ہے اور جس کی تشکیل انسان کو ان تمام اقدار کے ردوقبول میںبھی آزاد کردیتی ہے، بلکہ ان کی مراد شراب نوشی، جنسی آزادی وغیرہ سے ہے، ہم جنس پرستی بھی ان کی ایک بنیادی اوراہم ترین قدرکی شکل اختیارکرچکی ہے۔
مغربی ممالک جہاں روشن خیالی کی تحریک برپا ہوئی، وہاں اخلاقی وسماجی اقدار کے رد قبولیت پر بھی مباحث ہوئے۔ فلسفیوں نے آزادی کے تصورات کو مثبت اور منفی میں تقسیم کرکے ان کے گہرے فلسفیانہ تجزیے کیے گئے، اگرچہ ان کی آزادی کی ردوقبولیت میں معاشی عوامل کا کردار نہایت اہم ہے، لیکن اس کے باوجود مغربی فلسفیانہ مباحث میں ان تصورات کو صرف اس حد تک قبولیت ملی جتنی ان کی ضرورت محسوس کی گئی۔
پاکستان کے لبرل ڈسکورس میں ایسے مباحث کا یکسر فقدان ہے۔ آزادی ،انصاف، مساوات، انفرادیت، جمہوریت کے حقیقی معنوں میں کیا مفاہیم ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ہمارے ہاں کوئی جواب سرے سے ہی موجود نہیں ہے، نہ ہی ان موضوعات کا احاطہ کرنے والی کسی ایسی فلسفیانہ کتاب کا ہی کوئی سراغ ملتا ہے جو پاکستان کے اجتماعی منظرنامے کو سامنے رکھ کر ان اقدارکے متعلقہ اورغیر متعلقہ ہونے کا گہرا فلسفیانہ تجزیہ پیش کرتی ہو۔ یہاں دو رجحانات بہت نمایاں ہیں۔
ایک لبرل اور دوسرا مذہبی! دونوں ہی حقیقی سماجی لازمیت کے عمل سے کٹے ہوئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی مخالفت کسی ایسے عمیق نظریاتی پس منظر میں نہیں کرتے کہ جس میں پیش منظر پر اس کے اثرات کو بھی سمجھا جائے، یہ دونوں محض ظاہری حلیوں، جوکہ ان کی نظریاتی حدود کو بھی متعین کررہے ہوتے ہیں، اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت پرکمر بستہ ہیں۔یہ حال یا مستقبل میں وقوع پزیر ہونے والے کسی واقعے کی بنیاد پر اپنی رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ اذعانی نظریاتی حدود کے پابند ہوتے ہیں۔ انھیں پہلے ہی سے علم ہوتا ہے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے! پہلے سے علم ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم صورتحال کی سنگینی کو اس صورتحال کی اپنی حرکت میں دیکھنے سے قاصر ہیں۔
یہاں صورتحال اہم نہیں ہے بلکہ صورتحال کو اپنے مخصوص نظریاتی چوکھٹے کے مطابق لانے کا عمل مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور یہ رجحان مذہبی و لبرل ازم کے داعیوں کے درمیان ایک ہی شدت سے پایا جاتا ہے۔اب لبرل اورمذہبی کی تفریق اتنی گہری ہوچکی ہے کہ پاکستان میں خواتین کے بے رحمانہ قتال پر بحث وتجزیہ مقصود ہو، جس سے اس گھناؤنے عمل کا حل دریافت کیا جاسکے ، تو اس تجزیے کا مرکزومحور وہ موضوع نہیں رہتا، بلکہ اس کا اصل موضوع اپنے شدت پسند نظریاتی چوکھٹے میں نہ سمونے والا اپنے مخالف کا نظریہ ہوتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کے عمل کی نفی کرنے کے لیے قانون کی اطلاقی جہات کو بروئے کار لانے کی بجائے ایسے قتال کا قصور وار بھی اپنے نظریاتی حریف کے خیالات کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں پسے ہوئے طبقات خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ، دونوں کے حقیقی مسائل کو اپنے نظریاتی تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر تسکین حاصل کرلی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں حقیقی مسائل کے حوالے سے کیے گئے مباحث مسائل کا حل تجویز کرنے کی بجائے نظریاتی تصادم کی خلیج کو مزید گہرا کرتے ہوئے اس نظریاتی تصادم کو ہی حقیقی مسئلہ قرار دے دیتے ہیں۔
نظریاتی چوکھٹوں میں سماجی حقیقت کی تخفیف کی اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے حقیقی استحصال زدہ، ناانصافی،ظلم،استحصال اور حد سے بڑھی ہوئی بدعنوانی کا شکار عوام کوہوا ہے کہ انھیں ایک طرف وسیع سطح پر سماجی برائیوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف مصنوعی نظریاتی تصادم کو ایک حقیقی مسئلے کے طور پر ان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ایک بے لاگ، حقیقی سماجی مسائل کا گہرا فہم رکھنے والے ذی شعور دانشور پر یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی اہم سماجی مسئلے پر منعقد ہونے والے مباحث میں بنیادی اہمیت اس مسئلے کو دے جو زیرِ بحث ہے۔
کتنی ہی پسندیدہ شخصیت کیوں نہ ہو اگر وہ حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے اور ایک غیر مسئلے کی بنیاد پر ساری توجہ اپنے ہی اردگرد مرکوزکرانے میں کامیاب ہوئی ہے تو یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ایسے نظریاتی محافظ محض لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ان سے متعلقہ مسائل کو چھیڑتو دیتے ہیں، مگر آخرکار ان کواپنی ہی نفسیاتی تسکین درکار ہوتی ہے۔ ان کا نظریہ مسئلے کا حل پیش نہیں کررہا، بلکہ حقیقی مسئلے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بذاتِ خود ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ رویے نظریاتی تفریق کوگہرا کرتے ہوئے بالائی طبقات کی آئیڈیالوجی کے محافظ تو ضرور بن جاتے ہیں، مگر عام انسانوں کی جانب ان کا کردار قطعی طور پر مثبت نہیں ہوتا۔عوام اگر شعورکی ایک خاص سطح پر ہوں تو وہ اپنے مسائل کا ادراک کرکے سماجی عمل کو اپنے حق میں موڑ سکتے ہیں۔
موجودہ تناظر میں جب کبھی ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم مسائل کیا ہیں تو مسائل سے پہلے ان کو حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے دو مکتبہ فکر ذہن میں آتے ہیں۔ ایک لبرل اور دوسرے مذہبی لوگ! اگرچہ مسائل کے حوالے سے پیش کیے گئے حل، ان کے حل ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن دونوں کو جو شے ایک دوسرے سے جوڑتی ہے وہ ان کا ایک ہی نظام میں رہتے ہوئے ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
نظام کو جوں کا توں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ طبقات کو بھی جوں کا توں رکھا جائے،محنت اورسرمائے کا تضاد بھی قائم رہے۔ طبقات کی موجودگی میں محض جمہوریت کا تصور ہی باطل نہیں ہے،بلکہ انصاف، مساوات، انسان کی آزاد نشوونما، اس کی آزادی وغیرہ جیسے تمام تصورات کو حقیقی سطح پر محسوس کرنا بھی ناممکن ہے۔لبرل اور مذہبی لوگ ان اقدار کو حاصل کرنے کے خواہاں ہیں جو سرمایہ داری نظام کی موجودگی میں حقیقی سطح پرممکن ہی نہیں ہے۔
ان کے درمیان نظریاتی تصادم محض چند اقدارکا ہے۔ اوران دونوں کی اقدارکا تعلق پاکستان جیسے معاشرے کی حقیقی صورتحال سے ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کا حقیقی یا سب سے بڑا مسئلہ طبقاتی تفریق اوراس کی بنیاد پر کھڑا ہونے والا وہ نظام ہے جس نے پاکستان کے پسے ہوئے ، مظلوم و مقہورطبقات کو سوائے غربت و افلاس، ناانصافی، ظلم، تشدد، دہشت و بربریت، استحصال، عدم مساوات ، بدعنوانی اوراقربا پروری کے کچھ نہیں دیا۔ لبرل لوگ کبھی بھی اس نظام کو چیلنج نہیں کرتے، وہ اس نظام کو حتمی مانتے ہیں اوراس کے اندر رہتے ہوئے محض اقداراورحقوق کی بات کرتے ہیں۔ وہ اس نظام کے اندراقدار اورحقوق کو محسوس کیے جانے کی حد کودیکھنے میں ناکام رہتے ہیں، یا پھر وہ ایسے اداروں سے وابستہ ہیں کہ جن کا تسلسل اور دوام ان کے اپنے مفادات کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ان کی ساری تنقید مذہبی لوگوں کی ترجیحات اور رویوں پر ہے۔
یہ بات بھی درست ہے مذہبی لوگ اپنے نظریات کو نظریاتی سطح پر توسیع دینے میں ناکام رہے ہیں۔ مغرب میں یہ عمل طے پا کر روشن خیالی کی شکل میں تشکیل پایا۔روشن خیالی جس کے فلسفیانہ تعقلات مسیحی آئیڈیالوجی پر غالب آچکے تھے، بیسویں صدی میں وسیع سطح پر انسانی قتال و نظریاتی دہشت و بربریت نے روشن خیالی کی جانب تشکیک کو جنم دیا اور ایک بار پھر مذہب کے لیے راستہ ہموارکیا۔ تاہم اس بار مسیحیت ایک ''بڑے بیانیے'' کے طور پر نہیں، بلکہ ایک چھوٹے بیانیے کو طور پر ثقافتی عمل کا حصہ بن کر رہے گا۔ہمارے ہاں مذہب اور روشن خیالی کا امتزاج عمل میں نہیں آیا،جس کی کئی وجوہات ہیں، جو اس تحریر کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
مذہبی لوگوں کے برعکس لبرل حضرات کو معاشی وسماجی انصاف سے زیادہ انسانی حقوق کی فکر رہتی ہے۔ انسانی حقوق سے یہاں مراد انصاف، مساوات، انفرادیت،آزادی اور جمہوریت جیسی وہ اقدار نہیں جن کی تبدیلی نظام کی تبدیلی کی مرہونِ منت ہوتی ہے، نہ ہی آزادی سے ان کی مراد وہ آزادی ہے، جو سماجی عمل کے لازمی نتیجے کے طور پر تشکیل پاتی ہے اور جس کی تشکیل انسان کو ان تمام اقدار کے ردوقبول میںبھی آزاد کردیتی ہے، بلکہ ان کی مراد شراب نوشی، جنسی آزادی وغیرہ سے ہے، ہم جنس پرستی بھی ان کی ایک بنیادی اوراہم ترین قدرکی شکل اختیارکرچکی ہے۔
مغربی ممالک جہاں روشن خیالی کی تحریک برپا ہوئی، وہاں اخلاقی وسماجی اقدار کے رد قبولیت پر بھی مباحث ہوئے۔ فلسفیوں نے آزادی کے تصورات کو مثبت اور منفی میں تقسیم کرکے ان کے گہرے فلسفیانہ تجزیے کیے گئے، اگرچہ ان کی آزادی کی ردوقبولیت میں معاشی عوامل کا کردار نہایت اہم ہے، لیکن اس کے باوجود مغربی فلسفیانہ مباحث میں ان تصورات کو صرف اس حد تک قبولیت ملی جتنی ان کی ضرورت محسوس کی گئی۔
پاکستان کے لبرل ڈسکورس میں ایسے مباحث کا یکسر فقدان ہے۔ آزادی ،انصاف، مساوات، انفرادیت، جمہوریت کے حقیقی معنوں میں کیا مفاہیم ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ہمارے ہاں کوئی جواب سرے سے ہی موجود نہیں ہے، نہ ہی ان موضوعات کا احاطہ کرنے والی کسی ایسی فلسفیانہ کتاب کا ہی کوئی سراغ ملتا ہے جو پاکستان کے اجتماعی منظرنامے کو سامنے رکھ کر ان اقدارکے متعلقہ اورغیر متعلقہ ہونے کا گہرا فلسفیانہ تجزیہ پیش کرتی ہو۔ یہاں دو رجحانات بہت نمایاں ہیں۔
ایک لبرل اور دوسرا مذہبی! دونوں ہی حقیقی سماجی لازمیت کے عمل سے کٹے ہوئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی مخالفت کسی ایسے عمیق نظریاتی پس منظر میں نہیں کرتے کہ جس میں پیش منظر پر اس کے اثرات کو بھی سمجھا جائے، یہ دونوں محض ظاہری حلیوں، جوکہ ان کی نظریاتی حدود کو بھی متعین کررہے ہوتے ہیں، اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت پرکمر بستہ ہیں۔یہ حال یا مستقبل میں وقوع پزیر ہونے والے کسی واقعے کی بنیاد پر اپنی رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ اذعانی نظریاتی حدود کے پابند ہوتے ہیں۔ انھیں پہلے ہی سے علم ہوتا ہے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے! پہلے سے علم ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم صورتحال کی سنگینی کو اس صورتحال کی اپنی حرکت میں دیکھنے سے قاصر ہیں۔
یہاں صورتحال اہم نہیں ہے بلکہ صورتحال کو اپنے مخصوص نظریاتی چوکھٹے کے مطابق لانے کا عمل مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور یہ رجحان مذہبی و لبرل ازم کے داعیوں کے درمیان ایک ہی شدت سے پایا جاتا ہے۔اب لبرل اورمذہبی کی تفریق اتنی گہری ہوچکی ہے کہ پاکستان میں خواتین کے بے رحمانہ قتال پر بحث وتجزیہ مقصود ہو، جس سے اس گھناؤنے عمل کا حل دریافت کیا جاسکے ، تو اس تجزیے کا مرکزومحور وہ موضوع نہیں رہتا، بلکہ اس کا اصل موضوع اپنے شدت پسند نظریاتی چوکھٹے میں نہ سمونے والا اپنے مخالف کا نظریہ ہوتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کے عمل کی نفی کرنے کے لیے قانون کی اطلاقی جہات کو بروئے کار لانے کی بجائے ایسے قتال کا قصور وار بھی اپنے نظریاتی حریف کے خیالات کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں پسے ہوئے طبقات خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ، دونوں کے حقیقی مسائل کو اپنے نظریاتی تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر تسکین حاصل کرلی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں حقیقی مسائل کے حوالے سے کیے گئے مباحث مسائل کا حل تجویز کرنے کی بجائے نظریاتی تصادم کی خلیج کو مزید گہرا کرتے ہوئے اس نظریاتی تصادم کو ہی حقیقی مسئلہ قرار دے دیتے ہیں۔
نظریاتی چوکھٹوں میں سماجی حقیقت کی تخفیف کی اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے حقیقی استحصال زدہ، ناانصافی،ظلم،استحصال اور حد سے بڑھی ہوئی بدعنوانی کا شکار عوام کوہوا ہے کہ انھیں ایک طرف وسیع سطح پر سماجی برائیوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف مصنوعی نظریاتی تصادم کو ایک حقیقی مسئلے کے طور پر ان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ایک بے لاگ، حقیقی سماجی مسائل کا گہرا فہم رکھنے والے ذی شعور دانشور پر یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی اہم سماجی مسئلے پر منعقد ہونے والے مباحث میں بنیادی اہمیت اس مسئلے کو دے جو زیرِ بحث ہے۔
کتنی ہی پسندیدہ شخصیت کیوں نہ ہو اگر وہ حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے اور ایک غیر مسئلے کی بنیاد پر ساری توجہ اپنے ہی اردگرد مرکوزکرانے میں کامیاب ہوئی ہے تو یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ایسے نظریاتی محافظ محض لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ان سے متعلقہ مسائل کو چھیڑتو دیتے ہیں، مگر آخرکار ان کواپنی ہی نفسیاتی تسکین درکار ہوتی ہے۔ ان کا نظریہ مسئلے کا حل پیش نہیں کررہا، بلکہ حقیقی مسئلے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بذاتِ خود ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ رویے نظریاتی تفریق کوگہرا کرتے ہوئے بالائی طبقات کی آئیڈیالوجی کے محافظ تو ضرور بن جاتے ہیں، مگر عام انسانوں کی جانب ان کا کردار قطعی طور پر مثبت نہیں ہوتا۔عوام اگر شعورکی ایک خاص سطح پر ہوں تو وہ اپنے مسائل کا ادراک کرکے سماجی عمل کو اپنے حق میں موڑ سکتے ہیں۔