ہمہ جہت انسانی عقل اور اس کے ازلی دشمن حصہ دوم
انتقام ایک منفی جذبہ ہے جو ہر اس شخص کو کچل دینے پر اکساتا ہے جسے انسان اپنے کسی نقصان کا ذمہ دار سمجھتا ہو
KARACHI:
(گزشتہ سے پیوستہ)
اب اگر ایک فرد عقل کا دامن چهوڑ بیٹهے تو انفرادی زندگی تباہی کے دہانے پر جا پہنچتی ہے، اور اگر افراد کا ایک بڑا گروه من حیث القوم اس غلطی کا مرتکب ہو تو پورا سماج ٹوٹ پهوٹ کا شکار ہوتا ہے۔
انفرادی زندگی کی تباه کاری الگ چیز ہے اور پورے سماج کی شکست و ریخت الگ بحث، مگر فرد چونکہ بذات خود سماج کی اکائی ہے اس لئے انفرادی زندگی کی خوشحالی اور بربادی پورے سماج پر اثر انداز ہوتی ہے۔
آئیے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو انسانی عقل کو مفلوج کرکے ایک فرد کی زندگی کے ہر پہلو میں زہر گهول دیتے ہیں۔
جب انسان غصہ کی آگ میں اچانک بهڑک اٹهتا ہے تو عقل کے تمام دروازے فوراً بند ہوجاتے ہیں۔ اسی عالم میں وہ انتہائی قدم اٹهاتا ہے۔
عقل اسے ضرور انجام کار سے آگاه کرتی اگر وہ بروئے کار آتی مگر افسوس غصے نے عقل کو دم نہ مارنے دیا۔ غصہ فرو ہونے کے بعد جب عقل کے بند دروازے وار ہوتے ہیں تو پچهتاوا اسے گهیر لیتا ہے جو کبهی کبهار بے پناه ذلت و رسوائی یا خود کشی پر متنج ہوتا ہے۔ اسلام نے غصے پر قابو پا جانے والے کو طاقتور ترین قرار دیا ہے اور غصہ پر قابو پانے کے طریقے بهی بیان فرمائے ہیں کہ کهڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹها ہے تو لیٹ جائے وغیرہ۔
جب انسان کسی فرد سے نفرت کرنے لگے اور اس کے بارے میں انتہا درجے کا تعصب پال لے تو اسکے ساتھ معاملات کرتے وقت عقل سے تہی دامن ہوجاتا ہے۔ دلیل کو پرکهنا عقل کا کام ہے مگر اسکی عقل تو اس شخص کے بارے میں تعصب کی چادر تلے دب گئی۔ یہی وجہ ہے کہ متعصب انسان کیلئے قوی سے قوی دلیل کو رد کردینا کچھ مشکل نہیں۔ تعصب سے پاک ذہن دلیل کی قدر کرتا ہے اور مثبت طریقے سے سوچتا ہے حق کو حق جانتا ہے۔
بہن بهائیوں، رشتہ داروں، ساتھ کام کرنے والوں اور محلہ داروں میں درجنوں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ انسان تعصب رکهتا ہے۔ اب ان لوگوں سے واسطہ تو پڑتا رہتا ہے مگر ان سے معاملات چلاتے وقت عقل کا کردار کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے اور تعصب فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ان کی اچهی سے اچهی بات انسان محض تعصب کی بنا پر رد کئے جاتا ہے۔ نتیجہ تعلقات میں مسلسل کشیدگی کی شکل میں نکلتا ہے۔ کفار مکہ میں ایسے کئی تهے جو خالصتًا آنحضرت ﷺ سے تعصب کی وجہ سے تمام دلائل کو جهٹلاتے رہے اور کافر ہی مرے۔
تکبر، اکڑ اور انا پرستی آپس میں بہن بهائی ہیں۔ یہ عقل کے ان دشمنوں میں سے ہیں جو عقل کو لمحہ بهر کیلئے بهی سر نہیں اٹهانے دیتے۔ غصہ تو عقل کو چند لمحوں کیلئے غیر فعال کرتا ہے اور پهر جلد عقل لوٹ آتی ہے۔ تعصب تو چند منتخب انسانوں کیلئے عقل کو پابند سلاسل کرتا ہے مگر تکبر ایسا قاتل ہے کہ کل وقتی عقل کا سانس بند کئے رکهتا ہے۔
اپنی ذات کی بڑائی کے نشے میں چور، اپنی رائے، اپنے عمل، اپنی اولاد حتیٰ کہ اپنی ہر چیز کو سب سے برتر جاننے والا اپنی عقل پر مستقل پردہ ڈالے رکهتا ہے۔ ہر بات، ہر کام اپنی ذات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے، جہاں اسے حق بات کو تسلیم کرنے میں اپنی ذات گرتی ہوئی محسوس ہو، وہیں تکبر آ پہنچتا ہے۔ ایک کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرو گے تو تمہارا کیا وقار رہ جائے گا؟ تم تو بہت بڑے آدمی ہو، اس بات کو قبول کرنے میں ذلت ہے، رسوائی ہے۔
عقل دوسرے کان میں چیختی ہے کہ یہ حق بات ہے۔ اسے تسلیم کرنا دانشمندی ہے، اسے قبول کرلو مگر متکبر انسان عقل کو ڈانٹ کر چپ کروا دیتا ہے اور تکبر کو گود لے لیتا ہے اور حق کو حق جانتے ہوئے بهی رد کردیتا ہے کہ اسے مان لینے میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے۔
آنحضرت ﷺ کے پاس مکہ کے سرداروں نے آکر کہا تها کہ ہم اسلام تو قبول کرلیں مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیں آپ کے ان خاک نشینوں کے ساتھ بیٹهنا پڑے گا جو ابهی کچھ عرصہ پہلے ہمارے غلاموں میں شمار ہوتے تهے، آپ ان کو دور کریں تو ہم اسلام قبول کرنے کو تیار ہیں۔
یہ تها وہ مقام جب انکی عقل ان پر برس رہی تهی کہ حق قبول کرلو مگر ان متکبرین نے حق کو پہچانتے ہوئے بهی صرف اس لئے رد کردیا کہ اس حق کو قبول کرنے میں انکو اپنی حیثیت کمتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تهی۔
ایسا ہی رویہ ہمیں اپنے اردگرد اکثر متکبر لوگوں میں ہر روز نظر آتا ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اس معاملے میں واقعی تم زیادتی کے مرتکب ہوئے ہو۔ تمہیں معافی مانگنی چاہیے مگر انسان تکبر کی مان کر معافی مانگنے سے گریز کرتا ہے کہ 'میں'؟ اور اس دو ٹکے کے انسان سے معافی مانگوں؟؟ ناممکن!!
یہ تو ایک مثال ہے۔ ایسے کئی طرح کے معاملات ہیں جن میں تکبر عقل کو مات دے جاتا ہے.
ایسا انسان جو انتقام لئے بغیر چین سے نہ بیٹهے منتقم مزاج کہلاتا ہے اور اس وصف کا نام منتقم مزاجی ہے۔ انتقام ایک منفی جذبہ ہے جو ہر اس شخص کو کچل دینے پر اکساتا ہے جسے انسان اپنے کسی نقصان کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ انتقام کے مقابلے میں بدلہ یا قصاص ایسی اصطلاحات ہیں جو مثبت معنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
بدلہ یا قصاص لینے کیلئے ہر معاشرے میں مخصوص مذہبی و عمرانی نظریات کے تحت کچھ نہ کچھ اصول و قواعد ضرور موجود ہوتے ہیں، جو نہ صرف اس عمل کو انفرادی سطح پر سرانجام دیے جانے سے روکتے ہیں بلکہ ممکنہ حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ ظالم سے بدلہ یا قصاص اس کے کئے گئے ظلم سے زیادہ نہ لیا جائے۔ علاوہ ازیں بدلہ یا قصاص کا مقصد بهی وسیع تر ہوتا ہے جیسا کہ مظلوم کی داد رسی، معاشرے کے دیگر افراد کیلئے عبرت اور اصلاح معاشرہ وغیرہ۔
اس کے برعکس منتقم مزاج شخص جب انتقام لینے پر اتر آتا ہے تو وہ اسکا اہتمام انفرادی سطح پر کرتا ہے۔ لہذا بدلہ یا قصاص کی طرح کسی حدود و قیود کا پابند نہیں رہتا اور نہ ہی اسکے انتقام کے کوئی عظیم مقاصد ہوتے ہیں بلکہ اسکا مقصد محض اپنے من کی تسکین ہوتا ہے جس کیلئے وہ ہر حد سے گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
اپنے من کی تسکین کی خاطر ہر حد سے گزر جانے کا حوصلہ عقل کی لاش سے کشید کیا جاتا ہے ورنہ اگر عقل زندہ اور فعال ہو تو انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ مانا فلاں شخص نے تمہیں زک پہنچائی ہے۔ تم بدلہ لے لو مگر اسکی زیادتی کے برابر بدلہ لو۔ اس کے زیادتی کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم،
مگر اس پر تو انتقام کا بهوت سوار ہے۔ اس نے ردعمل میں اس حد تک جانا ہے جہاں تک پہنچ کر اسے من کی تسکین ملے خواه یہ تسکین اسے خود پر کی گئی زیادتی سے کئی گنا بڑا ظلم کرکے کیوں نہ ملے۔ یہی منتقم مزاجی ہے جو عقل کی موت سے پروان چڑهتی ہے اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکهتی۔
یوں تو انسانی عقل کے اور بهی کئی خطرناک دشمن ہیں جیسے حسد، مفاد پرستی، نفس پرستی وغیرہ لیکن انکا تفصیلی ذکر غیر معمولی طوالت مضمون کا باعث ہوتا۔ بہرکیف ایک بات طے ہے کہ اگر ہم انفرادی سطح پر اپنی عقل کے ان دشمنوں کو پہچان لیں اور اپنی عقل کو ہر معاملے میں بهرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیں تو بہت سارے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
انسانی زندگی کے بعض معاملات ایسے بهی ہوتے ہیں جن میں عقل کا زیادہ استعمال خرابی کا باعث بنتا ہے. بقول شاعر
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
اب اگر ایک فرد عقل کا دامن چهوڑ بیٹهے تو انفرادی زندگی تباہی کے دہانے پر جا پہنچتی ہے، اور اگر افراد کا ایک بڑا گروه من حیث القوم اس غلطی کا مرتکب ہو تو پورا سماج ٹوٹ پهوٹ کا شکار ہوتا ہے۔
انفرادی زندگی کی تباه کاری الگ چیز ہے اور پورے سماج کی شکست و ریخت الگ بحث، مگر فرد چونکہ بذات خود سماج کی اکائی ہے اس لئے انفرادی زندگی کی خوشحالی اور بربادی پورے سماج پر اثر انداز ہوتی ہے۔
آئیے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو انسانی عقل کو مفلوج کرکے ایک فرد کی زندگی کے ہر پہلو میں زہر گهول دیتے ہیں۔
- غصہ
- تعصب، نفرت اور خدا واسطے کا بیر
- تکبر، اکڑ اور انا پرستی
- منتقم مزاجی
غصہ
جب انسان غصہ کی آگ میں اچانک بهڑک اٹهتا ہے تو عقل کے تمام دروازے فوراً بند ہوجاتے ہیں۔ اسی عالم میں وہ انتہائی قدم اٹهاتا ہے۔
- بیوی کو طلاق دے بیٹهتا ہے۔
- دشمن کو جان سے مار ڈالتا ہے۔
- اپنی رگیں کاٹ لیتا ہے یا زہر نگل جاتا ہے۔
- بڑی بڑی قسمیں کها جاتا ہے۔
- مغلظات بکتا ہے۔
عقل اسے ضرور انجام کار سے آگاه کرتی اگر وہ بروئے کار آتی مگر افسوس غصے نے عقل کو دم نہ مارنے دیا۔ غصہ فرو ہونے کے بعد جب عقل کے بند دروازے وار ہوتے ہیں تو پچهتاوا اسے گهیر لیتا ہے جو کبهی کبهار بے پناه ذلت و رسوائی یا خود کشی پر متنج ہوتا ہے۔ اسلام نے غصے پر قابو پا جانے والے کو طاقتور ترین قرار دیا ہے اور غصہ پر قابو پانے کے طریقے بهی بیان فرمائے ہیں کہ کهڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹها ہے تو لیٹ جائے وغیرہ۔
تعصب، نفرت اور خدا واسطے کا بیر:
جب انسان کسی فرد سے نفرت کرنے لگے اور اس کے بارے میں انتہا درجے کا تعصب پال لے تو اسکے ساتھ معاملات کرتے وقت عقل سے تہی دامن ہوجاتا ہے۔ دلیل کو پرکهنا عقل کا کام ہے مگر اسکی عقل تو اس شخص کے بارے میں تعصب کی چادر تلے دب گئی۔ یہی وجہ ہے کہ متعصب انسان کیلئے قوی سے قوی دلیل کو رد کردینا کچھ مشکل نہیں۔ تعصب سے پاک ذہن دلیل کی قدر کرتا ہے اور مثبت طریقے سے سوچتا ہے حق کو حق جانتا ہے۔
بہن بهائیوں، رشتہ داروں، ساتھ کام کرنے والوں اور محلہ داروں میں درجنوں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ انسان تعصب رکهتا ہے۔ اب ان لوگوں سے واسطہ تو پڑتا رہتا ہے مگر ان سے معاملات چلاتے وقت عقل کا کردار کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے اور تعصب فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ان کی اچهی سے اچهی بات انسان محض تعصب کی بنا پر رد کئے جاتا ہے۔ نتیجہ تعلقات میں مسلسل کشیدگی کی شکل میں نکلتا ہے۔ کفار مکہ میں ایسے کئی تهے جو خالصتًا آنحضرت ﷺ سے تعصب کی وجہ سے تمام دلائل کو جهٹلاتے رہے اور کافر ہی مرے۔
تکبر، اکڑ اور انا پرستی
تکبر، اکڑ اور انا پرستی آپس میں بہن بهائی ہیں۔ یہ عقل کے ان دشمنوں میں سے ہیں جو عقل کو لمحہ بهر کیلئے بهی سر نہیں اٹهانے دیتے۔ غصہ تو عقل کو چند لمحوں کیلئے غیر فعال کرتا ہے اور پهر جلد عقل لوٹ آتی ہے۔ تعصب تو چند منتخب انسانوں کیلئے عقل کو پابند سلاسل کرتا ہے مگر تکبر ایسا قاتل ہے کہ کل وقتی عقل کا سانس بند کئے رکهتا ہے۔
اپنی ذات کی بڑائی کے نشے میں چور، اپنی رائے، اپنے عمل، اپنی اولاد حتیٰ کہ اپنی ہر چیز کو سب سے برتر جاننے والا اپنی عقل پر مستقل پردہ ڈالے رکهتا ہے۔ ہر بات، ہر کام اپنی ذات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے، جہاں اسے حق بات کو تسلیم کرنے میں اپنی ذات گرتی ہوئی محسوس ہو، وہیں تکبر آ پہنچتا ہے۔ ایک کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرو گے تو تمہارا کیا وقار رہ جائے گا؟ تم تو بہت بڑے آدمی ہو، اس بات کو قبول کرنے میں ذلت ہے، رسوائی ہے۔
عقل دوسرے کان میں چیختی ہے کہ یہ حق بات ہے۔ اسے تسلیم کرنا دانشمندی ہے، اسے قبول کرلو مگر متکبر انسان عقل کو ڈانٹ کر چپ کروا دیتا ہے اور تکبر کو گود لے لیتا ہے اور حق کو حق جانتے ہوئے بهی رد کردیتا ہے کہ اسے مان لینے میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے۔
آنحضرت ﷺ کے پاس مکہ کے سرداروں نے آکر کہا تها کہ ہم اسلام تو قبول کرلیں مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیں آپ کے ان خاک نشینوں کے ساتھ بیٹهنا پڑے گا جو ابهی کچھ عرصہ پہلے ہمارے غلاموں میں شمار ہوتے تهے، آپ ان کو دور کریں تو ہم اسلام قبول کرنے کو تیار ہیں۔
یہ تها وہ مقام جب انکی عقل ان پر برس رہی تهی کہ حق قبول کرلو مگر ان متکبرین نے حق کو پہچانتے ہوئے بهی صرف اس لئے رد کردیا کہ اس حق کو قبول کرنے میں انکو اپنی حیثیت کمتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تهی۔
ایسا ہی رویہ ہمیں اپنے اردگرد اکثر متکبر لوگوں میں ہر روز نظر آتا ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اس معاملے میں واقعی تم زیادتی کے مرتکب ہوئے ہو۔ تمہیں معافی مانگنی چاہیے مگر انسان تکبر کی مان کر معافی مانگنے سے گریز کرتا ہے کہ 'میں'؟ اور اس دو ٹکے کے انسان سے معافی مانگوں؟؟ ناممکن!!
یہ تو ایک مثال ہے۔ ایسے کئی طرح کے معاملات ہیں جن میں تکبر عقل کو مات دے جاتا ہے.
منتقم مزاجی
ایسا انسان جو انتقام لئے بغیر چین سے نہ بیٹهے منتقم مزاج کہلاتا ہے اور اس وصف کا نام منتقم مزاجی ہے۔ انتقام ایک منفی جذبہ ہے جو ہر اس شخص کو کچل دینے پر اکساتا ہے جسے انسان اپنے کسی نقصان کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ انتقام کے مقابلے میں بدلہ یا قصاص ایسی اصطلاحات ہیں جو مثبت معنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
بدلہ یا قصاص لینے کیلئے ہر معاشرے میں مخصوص مذہبی و عمرانی نظریات کے تحت کچھ نہ کچھ اصول و قواعد ضرور موجود ہوتے ہیں، جو نہ صرف اس عمل کو انفرادی سطح پر سرانجام دیے جانے سے روکتے ہیں بلکہ ممکنہ حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ ظالم سے بدلہ یا قصاص اس کے کئے گئے ظلم سے زیادہ نہ لیا جائے۔ علاوہ ازیں بدلہ یا قصاص کا مقصد بهی وسیع تر ہوتا ہے جیسا کہ مظلوم کی داد رسی، معاشرے کے دیگر افراد کیلئے عبرت اور اصلاح معاشرہ وغیرہ۔
اس کے برعکس منتقم مزاج شخص جب انتقام لینے پر اتر آتا ہے تو وہ اسکا اہتمام انفرادی سطح پر کرتا ہے۔ لہذا بدلہ یا قصاص کی طرح کسی حدود و قیود کا پابند نہیں رہتا اور نہ ہی اسکے انتقام کے کوئی عظیم مقاصد ہوتے ہیں بلکہ اسکا مقصد محض اپنے من کی تسکین ہوتا ہے جس کیلئے وہ ہر حد سے گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
اپنے من کی تسکین کی خاطر ہر حد سے گزر جانے کا حوصلہ عقل کی لاش سے کشید کیا جاتا ہے ورنہ اگر عقل زندہ اور فعال ہو تو انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ مانا فلاں شخص نے تمہیں زک پہنچائی ہے۔ تم بدلہ لے لو مگر اسکی زیادتی کے برابر بدلہ لو۔ اس کے زیادتی کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم،
- اس کی باعصمت ماں بہن بیٹی پر بہتان لگا دو
- اپنے اثرو رسوخ سے اسکی اولاد پر جهوٹے پرچے کٹوا دو
- اس کے رزق حلال میں رکاوٹ ڈالو
مگر اس پر تو انتقام کا بهوت سوار ہے۔ اس نے ردعمل میں اس حد تک جانا ہے جہاں تک پہنچ کر اسے من کی تسکین ملے خواه یہ تسکین اسے خود پر کی گئی زیادتی سے کئی گنا بڑا ظلم کرکے کیوں نہ ملے۔ یہی منتقم مزاجی ہے جو عقل کی موت سے پروان چڑهتی ہے اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکهتی۔
یوں تو انسانی عقل کے اور بهی کئی خطرناک دشمن ہیں جیسے حسد، مفاد پرستی، نفس پرستی وغیرہ لیکن انکا تفصیلی ذکر غیر معمولی طوالت مضمون کا باعث ہوتا۔ بہرکیف ایک بات طے ہے کہ اگر ہم انفرادی سطح پر اپنی عقل کے ان دشمنوں کو پہچان لیں اور اپنی عقل کو ہر معاملے میں بهرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیں تو بہت سارے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
انسانی زندگی کے بعض معاملات ایسے بهی ہوتے ہیں جن میں عقل کا زیادہ استعمال خرابی کا باعث بنتا ہے. بقول شاعر
اچها ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبهی کبهی اسے تنہا بهی چهوڑ دے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔