پاک افغان بارڈر مینجمنٹ لازم ہے
ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان سرحد پر نگرانی کا انتظام ہر صورت موثر بنائے
PESHAWAR:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں پاک افغان سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے دشمن افغانستان کو گمراہ کر رہے ہیں، کسی دو طرفہ معاہدے یا عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، سرحدی انتظام سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے، طورخم کے علاوہ مزید گیٹ بھی لگائیں گے، افغانستان کے ادارے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی پشت پناہی کر رہے ہیں، افغان فورسز نے طورخم بارڈر پر سرحدی انتظام کے تحت تعمیرات رکوانے کے لیے بلااشتعال فائرنگ کی، کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔
پاکستان نے سرحدی انتظام کے لیے کسی قسم کی ایڈجسٹمنٹ سے کبھی انکار نہیں کیا، افغان پناہ گزین واپس چلے جائیں اور سرحدی انتظام قائم ہو جائے تو کوئٹہ شوریٰ کے اجلاسوں اور دیگر الزامات کی نوبت ہی نہیں آئیگی، افغانستان کے ساتھ بارڈر کوئی باضابطہ طرز کا بارڈر نہیں، افغانستان کے ساتھ پچھلے دو سال سے سرحدی انتظام کو موثر بنانے کے لیے گفت و شنید کر رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے کا گلہ ختم ہو جائے، اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ماحول میں کشیدگی ہے، اس کو ہم مزید کشیدہ نہیں کرنا چاہتے، پاکستان کی سابق حکومتوں نے بھی سرحدی انتظام کے لیے کسی بھی قسم کی ایڈجسٹمنٹ سے انکار نہیں کیا، اس سلسلے میں کچھ علاقے ایک دوسرے کے حوالے بھی کیے جاسکتے ہیں۔
انگور اڈے کا معاملہ خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہی حل کیا، مزید اقدامات کرنے کو بھی تیار ہیں۔ ادھر وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرحد کے اندر پاک سرزمین میں بارڈر مینجمنٹ اور نقل و حرکت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا کسی دوطرفہ معاہدے یا عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں، طورخم بارڈر پر پاکستانی علاقے میں گیٹ کی تنصیب کا مقصد یہاں سے ہونے والی افرادی یا گاڑیوں کی نقل و حرکت کو دستاویزی اور ریگولیٹ کرنا ہے، افغان حکام کو دو ماہ قبل بتا دیا گیا تھا کہ یکم جون 2016ء سے پاک افغان بارڈر پر نقل و حرکت کو باقاعدہ دستاویزی شکل دی جائے گی۔
طورخم سرحد پر گیٹ لگانے کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ دنوں سے کشیدگی چلی آ رہی ہے، پاکستان اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اس سلسلے میں افغان حکام سے گفت و شنید بھی جاری ہے۔ گزشتہ دنوں افغانستان کے سفیر نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کے دوران تعمیراتی کام کی اجازت دینے کے حوالے سے افغانستان کی طرف سے رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بدستور موجود ہے۔
خواجہ آصف نے افغان حکام کی دوغلی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں اس پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ سرحدی انتظام دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے لیکن کابل جا کر موقف بدل جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرحدی انتظام کے حوالے سے افغانستان کا اعتراض ہے کہ زیرو لائن پر پاکستان گیٹ نہیں بنا سکتا حالانکہ بھارت کے ساتھ سرحدی گیٹ زیرو لائن پر ہیں' سرحدی انتظامات میں ایڈجسٹمنٹ کے لیے کچھ علاقے ایک دوسرے کے حوالے بھی کیے جاسکتے ہیں' انگور اڈہ کا معاملہ خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہی حل کیا' اس وقت 17کراسنگز میں چمن اور طورخم بڑی کراسنگز ہیں' اس وقت 16میں سے 9نوٹیفائیڈ کراسنگز بند ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2250 کلومیٹر طویل سرحد ہے بعض علاقے انتہائی دشوار گزار ہونے کے باعث اتنی طویل سرحد پر نگرانی ایک مشکل امر ہے لیکن ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان سرحد پر نگرانی کا انتظام ہر صورت موثر بنائے لہٰذا پاکستان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بارڈر پر نقل و حمل کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور طورخم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ اس سلسلے میں افغان بارڈر پر چار گیٹ بنائے جائیں گے' پاکستان سرحد کے آر پار نقل و حمل کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پرعزم ہے جب تک ایسا نہیں کیا جاتا انسداد دہشت گردی کی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں۔
افغانستان حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ اگر وہ کسی اور قوت کے ہاتھ میں کھیل کر پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کشیدہ کرے گا تو اس کا نقصان اسے بھی اٹھانا پڑے گا۔ عجب معاملہ ہے کہ ہر مشکل حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ دیا یہاں تک کہ 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی مگر جب حالات بہتر ہوئے تو افغان حکومت نے اس کا صلہ دوستانہ تعلقات میں دینے کے بجائے کشیدگی کو ہوا دینا شروع کر دی اور دوستی کا ہاتھ کسی اور کی طرف بڑھا دیا۔کشیدگی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے ہی میں بہتری ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں پاک افغان سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے دشمن افغانستان کو گمراہ کر رہے ہیں، کسی دو طرفہ معاہدے یا عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، سرحدی انتظام سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے، طورخم کے علاوہ مزید گیٹ بھی لگائیں گے، افغانستان کے ادارے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی پشت پناہی کر رہے ہیں، افغان فورسز نے طورخم بارڈر پر سرحدی انتظام کے تحت تعمیرات رکوانے کے لیے بلااشتعال فائرنگ کی، کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔
پاکستان نے سرحدی انتظام کے لیے کسی قسم کی ایڈجسٹمنٹ سے کبھی انکار نہیں کیا، افغان پناہ گزین واپس چلے جائیں اور سرحدی انتظام قائم ہو جائے تو کوئٹہ شوریٰ کے اجلاسوں اور دیگر الزامات کی نوبت ہی نہیں آئیگی، افغانستان کے ساتھ بارڈر کوئی باضابطہ طرز کا بارڈر نہیں، افغانستان کے ساتھ پچھلے دو سال سے سرحدی انتظام کو موثر بنانے کے لیے گفت و شنید کر رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے کا گلہ ختم ہو جائے، اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ماحول میں کشیدگی ہے، اس کو ہم مزید کشیدہ نہیں کرنا چاہتے، پاکستان کی سابق حکومتوں نے بھی سرحدی انتظام کے لیے کسی بھی قسم کی ایڈجسٹمنٹ سے انکار نہیں کیا، اس سلسلے میں کچھ علاقے ایک دوسرے کے حوالے بھی کیے جاسکتے ہیں۔
انگور اڈے کا معاملہ خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہی حل کیا، مزید اقدامات کرنے کو بھی تیار ہیں۔ ادھر وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرحد کے اندر پاک سرزمین میں بارڈر مینجمنٹ اور نقل و حرکت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا کسی دوطرفہ معاہدے یا عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں، طورخم بارڈر پر پاکستانی علاقے میں گیٹ کی تنصیب کا مقصد یہاں سے ہونے والی افرادی یا گاڑیوں کی نقل و حرکت کو دستاویزی اور ریگولیٹ کرنا ہے، افغان حکام کو دو ماہ قبل بتا دیا گیا تھا کہ یکم جون 2016ء سے پاک افغان بارڈر پر نقل و حرکت کو باقاعدہ دستاویزی شکل دی جائے گی۔
طورخم سرحد پر گیٹ لگانے کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ دنوں سے کشیدگی چلی آ رہی ہے، پاکستان اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اس سلسلے میں افغان حکام سے گفت و شنید بھی جاری ہے۔ گزشتہ دنوں افغانستان کے سفیر نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کے دوران تعمیراتی کام کی اجازت دینے کے حوالے سے افغانستان کی طرف سے رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بدستور موجود ہے۔
خواجہ آصف نے افغان حکام کی دوغلی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں اس پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ سرحدی انتظام دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے لیکن کابل جا کر موقف بدل جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرحدی انتظام کے حوالے سے افغانستان کا اعتراض ہے کہ زیرو لائن پر پاکستان گیٹ نہیں بنا سکتا حالانکہ بھارت کے ساتھ سرحدی گیٹ زیرو لائن پر ہیں' سرحدی انتظامات میں ایڈجسٹمنٹ کے لیے کچھ علاقے ایک دوسرے کے حوالے بھی کیے جاسکتے ہیں' انگور اڈہ کا معاملہ خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہی حل کیا' اس وقت 17کراسنگز میں چمن اور طورخم بڑی کراسنگز ہیں' اس وقت 16میں سے 9نوٹیفائیڈ کراسنگز بند ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2250 کلومیٹر طویل سرحد ہے بعض علاقے انتہائی دشوار گزار ہونے کے باعث اتنی طویل سرحد پر نگرانی ایک مشکل امر ہے لیکن ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان سرحد پر نگرانی کا انتظام ہر صورت موثر بنائے لہٰذا پاکستان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بارڈر پر نقل و حمل کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور طورخم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ اس سلسلے میں افغان بارڈر پر چار گیٹ بنائے جائیں گے' پاکستان سرحد کے آر پار نقل و حمل کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پرعزم ہے جب تک ایسا نہیں کیا جاتا انسداد دہشت گردی کی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں۔
افغانستان حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ اگر وہ کسی اور قوت کے ہاتھ میں کھیل کر پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کشیدہ کرے گا تو اس کا نقصان اسے بھی اٹھانا پڑے گا۔ عجب معاملہ ہے کہ ہر مشکل حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ دیا یہاں تک کہ 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی مگر جب حالات بہتر ہوئے تو افغان حکومت نے اس کا صلہ دوستانہ تعلقات میں دینے کے بجائے کشیدگی کو ہوا دینا شروع کر دی اور دوستی کا ہاتھ کسی اور کی طرف بڑھا دیا۔کشیدگی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے ہی میں بہتری ہے۔