عوام کا اعتبار کیونکر ہو بحال
حکومت عوام کو جان بوجھ کر مصروف رکھنے اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے لائنوں میں لگاتی ہے
باخبر ذرائع کے مطابق برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین نے اپنے وزیروں، مشیروں اپنے اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی عہدیداروں کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے پاس جائیں اورمندرجہ ذیل سوالوں کے جواب معلوم کریں۔
(1) عوام کو آج کل کون کون سے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔
(2) یہ مسائل ابھی تک کیوں حل نہیں ہوسکے ہیں۔
(3) ان مسائل کے حل نہ ہونے میں موجودہ حکومت کہاں تک ذمے دار ہے۔
(4) موجودہ حکومت آخر اب تک کیوں یہ مسائل حل نہیں کرسکی ہے۔
(5) یہ مسائل کس طرح موجودہ حکومت کے اگلے ٹینڈر میں حل کیے جاسکتے ہیں۔
کیونکہ سچی بات ہے عام انتخابات سے پہلے برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوگا وہ عوام کے اعتبار Credibility کی بحالی کا ہوگا اور موجودہ قیادت اپنے ارکان سے مندرجہ بالا ایکسرسائز اسی مقصد سے کرانا چاہتی ہے۔
اخبارات اور چینلز کی بہتات سے جہاں دوسرے بہت سے فائدے ہوئے ہیں ایک بڑا نقصان ہمارے رہنماؤں کا بہت زیادہ ایکسپوژر ہے، انہیں اب تقریباً روزانہ ضرورتاً یا بلا ضرورت بہت زیادہ بولنا پڑتا ہے اپنے بیانات اور تقریروں میں بہت سارے دعوے، وعدے وعید کرنے پڑتے ہیں،کارنامے گنوانے پڑتے ہیں، جھوٹ سچ، اچھی بُری کارکردگی کی رٹ لگانی پڑتی ہے، بہت ساری تبدیلیوں کا کریڈٹ لینا پڑتا ہے۔
مگر جس تیز رفتاری اور بہتات سے وہ بول رہے ہیںOn Ground اس تیزی سے تبدیلیاں رونما نہیں ہورہی ہیں، مگر یہ سب کچھ سن لینے کے بعد جب ہمارے عوام اپنی اصل زندگیوں کی طرف لوٹتے ہیں تو انہیں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ساری تقریریں،سارے بیانات اور دعوے محض Rehtorics زبانی جمع خرچ لگنے لگتا ہے۔ عوام خود کو ہر قسم کے گوناگوں مسائل سے دوچار پاتے ہیں، مہنگائی کا عفریت پانی، بجلی گیس، فون کے بلز اور ان کی ادائیگی، ٹرانسپورٹ کی دشواریاں، بے روزگاری وغیرہ۔
مثال کے طور پر سی این جی کی آئے دن کی بندش نے عوام کو بظاہر ناقابلِ حل مسئلے سے دوچار کردیا ہے، جس دن بھی سی این جی کی فراہمی بند کی جاتی ہے، سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ آدھی رہ جاتی ہے، منی بسوں ،کوچز اور بڑی بسوں پر مسافروں کی یلغار دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کی یہ حالت ہے جہاں ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ہی دگر گوں اور ناگفتہ بہ ہے۔ بس کی چھتیں بھری ہوئی ہیں مگر ٹریفک پولیس کے لیے سب سے اہم چیز یہی چھتیں ہیں جو ان کے معاشی معاملات کی بہتری کے ضمن میں خوشگوار اثرات کی حامل ہیں۔
اندر بھی مسافر جن میں خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے جاتے ہیں ۔ اکثر سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔اس حالت میں بھی کرایوں میں معتد بہ کمی نہیں کی گئی،اس پر جھگڑے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ حتیٰ کہ رکشہ ، ٹیکسیاں تک دہرا کرایہ وصول کرنے لگتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک پرانی تھیوری یہ ہے کہ حکومت عوام کو جان بوجھ کر مصروف رکھنے اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے لائنوں میں لگاتی ہے، پرانے زمانے میں پبلک کو بجلی،گیس، فون کے بلوں کی ادائیگی کے لیے لائنوں میں لگایا جاتا تھا خدا خدا کرکے وہ مسئلہ حل ہوا تو اب لوگوں کو سی این جی بھروانے کے لیے لائنوں میں لگایا جارہا ہے اس طرح رات دن مختلف لائنوں میں لگنا عوام کا مقدر بن گیا ہے۔
قارئین کرام ! آپ نے وہ طوطے والا لطیفہ تو سن رکھا ہے کہ جو پنجرے سے رہائی پانے کے باوجود کوئوں کے ٹھونگے لگنے پر یہی کہتا رہا کہ ''قطار میں آئو ،لائن لگائو۔'' ماضی میں سب سے مشہور لائن سینما گھروں کے مین گیٹ پر لگتی تھی،اور فلمی شائقین نئی فلم دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے پہلے لائن میں رہتے ہوئے بھی کبھی کبھار لاٹھیاں اور ' گالیاں کھا کے بے مزہ نہیں ہوتے تھے۔'' کیا دن تھے۔
اب تو سی این جی ٹرانسپورٹ کلچر آچکا تاہم اس کے آنے سے پہلے یا آج بھی بس مالکان کو پٹرول، ڈیزل بھرواکر اپنی تمام بسوں کو سڑکوں پر لانے اور آدھی بسوں کو اضافی کرایہ وصول کرنے کی اجازت دے کر وقتی طور پر اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ عوام کی اکثریت اس مسئلے کے اس مشکل حل کو قبول کرلے۔
ہمارے رہنماؤں کو تو درحقیقت قدرت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمارے ملک کو بے انتہا وسائل کے ساتھ ساتھ لاتعداد اور ان گنت مسائل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، ایسا مثالی توازن دنیا میں شاید کہیں نظر آئے۔
ان کے لیے عوام میں جاکر کام کرنے کے لیے فیلڈ بڑی وسیع اور اوپن ہے ان میں سے کئی مسائل بڑے ڈھیٹ ہیں جو حل ہوکے نہیں دیتے، مثلاً آبادی میں بے تحاشہ اضافے کا مسئلہ ہے جس کے حل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اتفاق سے دوسرے بہت سے مسائل بھی اسی آبادی کے مسئلے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ اس ملک میں جب کبھی الیکشن لڑے جائیں گے ان میں سے بیشتر مسائل جوں کے توں ہوں گے اور ہمارے رہنماؤں کو ان مسائل کے حل کرنے کے جھوٹے سچے دعوے اور وعدے دونوں کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔
آخر میں گھوم پھر کر ہم اسی بات پر آتے ہیں جس سے ہم نے بات شروع کی تھی، ہماری سیاسی جماعتوں کو خاص طور پر وہ جو برسر اقتدار ہیں عوام کے اعتبار کی بحالی کا مرحلہ درپیش ہے، انہیں عوام کے پاس جاکر انہیں سمجھانا اور منانا ہوگا جس کے لیے ظاہر ہے ان کے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ اس اعتبار سے تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صف میں ہیں بمشکل اُنّیس بیس کا فرق ہوگا۔
(1) عوام کو آج کل کون کون سے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔
(2) یہ مسائل ابھی تک کیوں حل نہیں ہوسکے ہیں۔
(3) ان مسائل کے حل نہ ہونے میں موجودہ حکومت کہاں تک ذمے دار ہے۔
(4) موجودہ حکومت آخر اب تک کیوں یہ مسائل حل نہیں کرسکی ہے۔
(5) یہ مسائل کس طرح موجودہ حکومت کے اگلے ٹینڈر میں حل کیے جاسکتے ہیں۔
کیونکہ سچی بات ہے عام انتخابات سے پہلے برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوگا وہ عوام کے اعتبار Credibility کی بحالی کا ہوگا اور موجودہ قیادت اپنے ارکان سے مندرجہ بالا ایکسرسائز اسی مقصد سے کرانا چاہتی ہے۔
اخبارات اور چینلز کی بہتات سے جہاں دوسرے بہت سے فائدے ہوئے ہیں ایک بڑا نقصان ہمارے رہنماؤں کا بہت زیادہ ایکسپوژر ہے، انہیں اب تقریباً روزانہ ضرورتاً یا بلا ضرورت بہت زیادہ بولنا پڑتا ہے اپنے بیانات اور تقریروں میں بہت سارے دعوے، وعدے وعید کرنے پڑتے ہیں،کارنامے گنوانے پڑتے ہیں، جھوٹ سچ، اچھی بُری کارکردگی کی رٹ لگانی پڑتی ہے، بہت ساری تبدیلیوں کا کریڈٹ لینا پڑتا ہے۔
مگر جس تیز رفتاری اور بہتات سے وہ بول رہے ہیںOn Ground اس تیزی سے تبدیلیاں رونما نہیں ہورہی ہیں، مگر یہ سب کچھ سن لینے کے بعد جب ہمارے عوام اپنی اصل زندگیوں کی طرف لوٹتے ہیں تو انہیں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ساری تقریریں،سارے بیانات اور دعوے محض Rehtorics زبانی جمع خرچ لگنے لگتا ہے۔ عوام خود کو ہر قسم کے گوناگوں مسائل سے دوچار پاتے ہیں، مہنگائی کا عفریت پانی، بجلی گیس، فون کے بلز اور ان کی ادائیگی، ٹرانسپورٹ کی دشواریاں، بے روزگاری وغیرہ۔
مثال کے طور پر سی این جی کی آئے دن کی بندش نے عوام کو بظاہر ناقابلِ حل مسئلے سے دوچار کردیا ہے، جس دن بھی سی این جی کی فراہمی بند کی جاتی ہے، سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ آدھی رہ جاتی ہے، منی بسوں ،کوچز اور بڑی بسوں پر مسافروں کی یلغار دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کی یہ حالت ہے جہاں ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ہی دگر گوں اور ناگفتہ بہ ہے۔ بس کی چھتیں بھری ہوئی ہیں مگر ٹریفک پولیس کے لیے سب سے اہم چیز یہی چھتیں ہیں جو ان کے معاشی معاملات کی بہتری کے ضمن میں خوشگوار اثرات کی حامل ہیں۔
اندر بھی مسافر جن میں خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے جاتے ہیں ۔ اکثر سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔اس حالت میں بھی کرایوں میں معتد بہ کمی نہیں کی گئی،اس پر جھگڑے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ حتیٰ کہ رکشہ ، ٹیکسیاں تک دہرا کرایہ وصول کرنے لگتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک پرانی تھیوری یہ ہے کہ حکومت عوام کو جان بوجھ کر مصروف رکھنے اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے لائنوں میں لگاتی ہے، پرانے زمانے میں پبلک کو بجلی،گیس، فون کے بلوں کی ادائیگی کے لیے لائنوں میں لگایا جاتا تھا خدا خدا کرکے وہ مسئلہ حل ہوا تو اب لوگوں کو سی این جی بھروانے کے لیے لائنوں میں لگایا جارہا ہے اس طرح رات دن مختلف لائنوں میں لگنا عوام کا مقدر بن گیا ہے۔
قارئین کرام ! آپ نے وہ طوطے والا لطیفہ تو سن رکھا ہے کہ جو پنجرے سے رہائی پانے کے باوجود کوئوں کے ٹھونگے لگنے پر یہی کہتا رہا کہ ''قطار میں آئو ،لائن لگائو۔'' ماضی میں سب سے مشہور لائن سینما گھروں کے مین گیٹ پر لگتی تھی،اور فلمی شائقین نئی فلم دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے پہلے لائن میں رہتے ہوئے بھی کبھی کبھار لاٹھیاں اور ' گالیاں کھا کے بے مزہ نہیں ہوتے تھے۔'' کیا دن تھے۔
اب تو سی این جی ٹرانسپورٹ کلچر آچکا تاہم اس کے آنے سے پہلے یا آج بھی بس مالکان کو پٹرول، ڈیزل بھرواکر اپنی تمام بسوں کو سڑکوں پر لانے اور آدھی بسوں کو اضافی کرایہ وصول کرنے کی اجازت دے کر وقتی طور پر اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ عوام کی اکثریت اس مسئلے کے اس مشکل حل کو قبول کرلے۔
ہمارے رہنماؤں کو تو درحقیقت قدرت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمارے ملک کو بے انتہا وسائل کے ساتھ ساتھ لاتعداد اور ان گنت مسائل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، ایسا مثالی توازن دنیا میں شاید کہیں نظر آئے۔
ان کے لیے عوام میں جاکر کام کرنے کے لیے فیلڈ بڑی وسیع اور اوپن ہے ان میں سے کئی مسائل بڑے ڈھیٹ ہیں جو حل ہوکے نہیں دیتے، مثلاً آبادی میں بے تحاشہ اضافے کا مسئلہ ہے جس کے حل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اتفاق سے دوسرے بہت سے مسائل بھی اسی آبادی کے مسئلے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ اس ملک میں جب کبھی الیکشن لڑے جائیں گے ان میں سے بیشتر مسائل جوں کے توں ہوں گے اور ہمارے رہنماؤں کو ان مسائل کے حل کرنے کے جھوٹے سچے دعوے اور وعدے دونوں کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔
آخر میں گھوم پھر کر ہم اسی بات پر آتے ہیں جس سے ہم نے بات شروع کی تھی، ہماری سیاسی جماعتوں کو خاص طور پر وہ جو برسر اقتدار ہیں عوام کے اعتبار کی بحالی کا مرحلہ درپیش ہے، انہیں عوام کے پاس جاکر انہیں سمجھانا اور منانا ہوگا جس کے لیے ظاہر ہے ان کے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ اس اعتبار سے تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صف میں ہیں بمشکل اُنّیس بیس کا فرق ہوگا۔