سیکولر بھارت میں انصاف کا قتل
جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے
SEOUL:
سیکولر ریاست ہونے کے دعویدار بھارت نے مسلمانوں کے قتل عام میں شریک جنونی ہندو قاتلوں کو رہائی کا پروانہ تھما کر اپنے مکروہ چہرے سے نقاب سرکا کر واضح کر دیا ہے کہ بھارت ایک شدت پسند مذہبی ریاست ہے جہاں مسلمان طبقہ انصاف سے کوسوں دور ہے۔ بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد میں ایک خصوصی عدالت نے انصاف کا قتل کرتے ہوئے 14 برس قبل ریاست میں 69 مسلمانوں کو شہید کرنیوالے جنونی ہندوؤں کو جرم ثابت ہونے کے باوجود سزائے موت نہیں دی اور محض عمر قید دے کر ایک طرح سے انھیں رہائی کا پروانہ تھما دیا کیونکہ وہ یہ سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ فسادات 2002ء میں گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین پر ہونیوالے حملے کے بعد ہوئے تھے جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری سمیت 69 مسلمان شہید کر دیے گئے تھے۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ نریندر مودی کی شدت پسندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اتر پردیش اور مہاراشٹر میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا۔ جن افراد کو عدالت نے سزا سنائی ان میں سخت گیر ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل ویدیہ اور کانگریس کے سابق کونسلر میگھ جی چوہدری بھی شامل ہیں۔ اس مقدمے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ اس کی تفتیش سپریم کورٹ کی رہنمائی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کی تھی۔
واضح رہے کہ گجرات فسادات سے متعلق نو دیگر مقدمات بھی ہیں جن کی تحقیقات عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت کی جا رہی ہیں لیکن مذکورہ فیصلے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں بھی انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق عدالت کے اس فیصلے پر لوگ سوشل میڈیا پر اپنی رائے ظاہر کر رہے ہیں جس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد بھی اس فیصلے کے خلاف ہے۔ راست ہو گا کہ اگر بھارت خود کو سیکولر ریاست قرار دیتا ہے تو وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے اور مسلمانوں کو بھی برابری کا حق دے۔
سیکولر ریاست ہونے کے دعویدار بھارت نے مسلمانوں کے قتل عام میں شریک جنونی ہندو قاتلوں کو رہائی کا پروانہ تھما کر اپنے مکروہ چہرے سے نقاب سرکا کر واضح کر دیا ہے کہ بھارت ایک شدت پسند مذہبی ریاست ہے جہاں مسلمان طبقہ انصاف سے کوسوں دور ہے۔ بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد میں ایک خصوصی عدالت نے انصاف کا قتل کرتے ہوئے 14 برس قبل ریاست میں 69 مسلمانوں کو شہید کرنیوالے جنونی ہندوؤں کو جرم ثابت ہونے کے باوجود سزائے موت نہیں دی اور محض عمر قید دے کر ایک طرح سے انھیں رہائی کا پروانہ تھما دیا کیونکہ وہ یہ سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ فسادات 2002ء میں گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین پر ہونیوالے حملے کے بعد ہوئے تھے جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری سمیت 69 مسلمان شہید کر دیے گئے تھے۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ نریندر مودی کی شدت پسندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اتر پردیش اور مہاراشٹر میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا۔ جن افراد کو عدالت نے سزا سنائی ان میں سخت گیر ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل ویدیہ اور کانگریس کے سابق کونسلر میگھ جی چوہدری بھی شامل ہیں۔ اس مقدمے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ اس کی تفتیش سپریم کورٹ کی رہنمائی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کی تھی۔
واضح رہے کہ گجرات فسادات سے متعلق نو دیگر مقدمات بھی ہیں جن کی تحقیقات عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت کی جا رہی ہیں لیکن مذکورہ فیصلے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں بھی انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق عدالت کے اس فیصلے پر لوگ سوشل میڈیا پر اپنی رائے ظاہر کر رہے ہیں جس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد بھی اس فیصلے کے خلاف ہے۔ راست ہو گا کہ اگر بھارت خود کو سیکولر ریاست قرار دیتا ہے تو وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے اور مسلمانوں کو بھی برابری کا حق دے۔