نو جوان نسل کی سیاسی قیادت
عالمی بینک کے اعداوشمارکے مطابق عملی زندگی میں قدم رکھنے کے اہل 60فیصد نو جو ان نا اہل، نکمے اور سست الوجو د ہیں۔
جوانی دیو انی ہو تی ہے اور آج یہی دیو انگی ہما را سب سے بڑا اثاثہ ہے۔
ہما ری نو جو ان نسل 15سے 25سا ل والی ، شوریدہ سر ، بے سمت اور بے ہنگم اژدھام ،جس کو سید ھا راستہ ، صراط مستقیم دکھا نے والا کو ئی نہیں لیکن اس نسل کے کروڑوں نئے ووٹروںسے سب آس لگا ئے بیٹھے ہیں ۔
عمر ان خا ن گذشتہ دودہا ئیو ں سے نو جو ان نسل کی نما یند ہ علامت بنے ہو ئے ہیں۔ وہ عمران ٹائیگر ہی تو تھے جنہوں نے شوکت خا نم کینسر ہپستا ل جسے عظیم فلاحی منصوبے کو ممکن کر دکھایا ۔گھر گھر جا کر جھولی پھیلائی تھی، چوک اور چوراہوں میں مو رچہ لگا یا تھا، قوم نے بھی انھیں ما یو س نہیں کیا تھا۔ زیورات اور کرنسی نو ٹوں کے ڈھیر لگا د ئیے تھے جو آج شوکت خا نم ہسپتا ل کی عا لی شا ن عما رت اور وسیع و عریض سبزہ زار کی صورت، ان کے جذبا ت کی حقیقی تصویر بنے ہوئے ہیں۔یہ دیو انی جو انی کو مثبت طر یقے سے استعمال کرنے کی زندہ مثال ہے۔
اس لیے اب ووٹ کا حق رکھنے والے کر وڑوں نو جو ان پا کستا ن کی تین بڑی سیاسی جما عتو ں کا مر کز نگا ہ ہیں۔ عمر ان خا ن کی تحریک انصا ف اور اس کے آزمو دہ کا ر بزرگ قیادت ما دی سہاروںکے ذریعے گئے دونوں کو واپس لا نے کے جتن کر رہی ہے ، مسلم لیگ (ن) کیو ں پیچھے رہتی ۔ حمزہ شہباز تو پہلے ہی نو جو انوں کیا بزرگوںکو بھی سیدھی راہ پر لا رہے ہیں ۔90شا ہر اہ قا ئد اعظم ان کا مر کز ہے لیکن لا ہو ر کی دانش گا ہو ں میں نو جوانو ں سے رابطہ کے لیے مر یم نو از بھی مید ان میں آئی ہیں۔ مر یم نواز مشرف کے دور جبر میں اپنی والدہ کی زیر نگرانی سیاسی رابطہ کا ری میں سر خر و ہو چکی ہیں، اس طرح جناب آصف زرداری نے اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو ڈی ایٹ کا نفرنس میں سر بر اہا ن کے شانہ بشانہ کھڑاکر دیا ہے جب کہ چو دھر ی برادران گذشتہ عام انتخا بات سے بھی مونس الہی کو با ضا بطہ نئی قیادت کے طور پر لا نچ کر چکے ہیں۔ مر یم نو از، بلا ول بھٹو زرداری اور مونس الہی کس طر ح پڑھے لکھے لیکن بے سمت نوجوانوں کو اپنی طر ف متو جہ کر پا ئیں گے، اگلے 90دونو ں میں اس کا جو اب مل جا ئے گا ۔
پا کستا ن کی نو جو ان نسل کی زبو ں حالی کے بارے میں ورلڈ بینک نے ایک دل ہلا نے دینے والی نئی رپورٹ جا ری کی ہے جس کے مطا بق ہم اپنے واحدقومی انسانی اثاثے کی ناقدری کر کے اسے ضا یع کر رہے ہیں۔ دکھ تو اس با ت کا ہے کہ ہما را اردو پرنٹ میڈیا، اس طر ح کی رپورٹس کو ا ب بھی کو ئی اہمیت دینے کو تیا ر نہیں ہے ۔ہم شاید سیاست کی بھول بھلیوں میں اصل مسائل کو بھی بھول گئے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداوشمارکے مطابق عملی زندگی میں قدم رکھنے کے اہل 60فیصد نو جو ان نا اہل، نکمے اور سست الوجو د ہیں۔ وہ پڑھ رہے ہیں نہ کو ئی کارآمد ہنر سیکھ رہے ہیں اور ان میں آگے بڑھنے اور ملا زمت تلاش کر نے کی بھی خواہش نہیں ہے، اس لیے پاکستا نی نو جوا نو ںمیں بے روزگا ری کی شر ح 7فیصد ہے جو مجموعی شر ح بے روزگا ری 5فیصدسے 2فیصد زیادہ ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو بے چا رے کا م کررہے ہیں، انھیں مفت کی بیگار کرنی پڑرہی ہے، اگر کچھ معاوضہ ملتا بھی ہے تو انھیں کسی قسم کا تحفظ حا صل نہیں ہے، روزگا ر مہیا کر نے میں زراعت آج بھی سب سے آگے ہے۔ 40فیصد افر اد فا رمنگ سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں زراعت کی جو حالت ہے،اسے بیان کرنے کی ضرورت ہے ، اسی طرح زراعت سے وابستہ نوجوانوں کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے ۔ورلڈ بینک کی رپورت کے جاری کر دہ اعداوشمار کے مطا بق 23 فیصد نو جو انو ں ذاتی کا روبا رکر رہے ہیں جب کہ نو جوان خواتین نہا یت مخدوش صورتحا ل کا شکا ر ہیں۔ 80فیصد خواتین تو اپنے گھر یلو کا م کا ج تک محد ود ہیں۔ان کے پاس تعلیم بھی نہیں ہے۔
عالمی بینک نے پا کستا ن میں بڑھتی ہو ئی بے روزگاری اور ابتر معا شی صورتحا ل کا ذمے داربجلی کے بحران ، سیا سی اور انتظامی عد م استحکا م کو قرار دیا ہے جس کی تما م ذمے داری حکو مت پر عا ئد ہو تی ہے۔ہماری سرکاری اور نجی درس گا ہو ں میں ضرورت کے مطا بق ہنرمند ٹیکنوکر یٹ مہیا کر نے کی بحا ئے اور بے مقصد ڈگر ی یا فتہ نو جو انوں کومید ان عمل میں دھکیلے جا رہی ہیں جس کی وجہ سے متو سط طبقے میں بے چینی بڑھ رہی ہے جو کہ مجموعی طور پر سماجی ابتر ی کا با عث بن رہی ہے ۔ یہ نوجوان ترقی کے عمل میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ معیشت میں اتنی وسعت نہیں کہ انھیں روزگار مہیا کرسکے۔انھیں جو تعلیم دی گئی ہے'وہ بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جنا ب عمر ان خا ن سمیت ہما رے سیاست کا روں کو صر ف نو جو انو ں کے کر وڑوں ووٹو ں سے دلچپسی ہے، ان کے دکھوںاور مسا ئل کا ازالہ کر نے کا کو ئی منصوبہ ان کے پا س نہیں اور غالبا سیا سی قا ئد ین اور ان کی جما عتو ں نے نو جو ان نسل کو مید ان عمل میں روزگا ر مہیا کر نے اور مثبت سر گر میا ں میں کھپانے کو ئی منصوبہ بند ی بھی نہیںکی، ایک شتر بے مہا ر اپنوہ کثیر گلیوں اور با زاروںسر گر داں ہے، یہ بے سمت ہجوم کدھر کا رخ کرے گا اس کے بارے میں پیش گو ئی کرناکچھ مشکل نہیں۔ گزشتہ دنوں توہین آمیز خاکوں کے خلاف جو مظاہرے ہوئے 'ان میں نوجوانوں میں اپنی محرومیوں کا جس انداز میں اظہار کیا 'وہ سب کے سامنے ہے۔
آخرمیں ذکر ڈی ایٹ کانفرنس کا۔۔۔ وزارت خارجہ کے جس با بو نے بھی عشرہ محر م کے دوران ڈی ایٹ کا نفرنس کر انے کی سمر ی تیار کی، اس کی عقل پر ما تم کر نے کو تو د ل چا ہتا ہے۔ خیر ایک اس پر ہی کیا موقوف،مختلف وزارتو ں اور ایوا ن ہائے اْقتدار میں براجما ن شہ دما غوں کی بلند پا یہ عقل پر قر بان جا ئیے کہ اس چھو ٹی سے حقیقت کا ادرک نہیں کر سکے کہ محر م الحر ام میں تو ویسے ہی سیکیورٹی کے انتظا ما ت کر نے کے لیے جان کے لا لے پڑ ے ہوتے ہیں اور آپ نے 8ممالک کے سر بر اہا ن کو اسلام آباد میں اکٹھا کر لیا ہے۔ویسے بھی اما م عالی مقام سید نا امام حسینؓ کی شہادت کے عشر ے کے دوران ا س طر ح کی ہنگام شادی برپا کر نے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ حسا س دینی اور سما جی معاملہ ہے، اس پر طر فہ تما شا یہ ہے کہ آپ نے مصری صدر جناب محمد مر سی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س بلا لیا تو اسے ملتو ی کر نے کی کیا ضر ورت تھی۔ ایرانی صدر، درویش منش احمد ی نجا د یہا ں پر مو جو د تھے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کر نے کے لیے انھیں مد عو کیا جا سکتا تھا۔ ویسے بھی ایر ان جغرافیائی اعتبارسے زیادہ قریبی بردار ملک ہے۔
اپنے نا آزمو د سا تھیوں اور خاص طور پر ٹی وی اینکر پر سنز کی اطلاع کے لیے عر ض ہے کہ ڈی ایٹ تنظیم کا خواب ڈیڑھ دہا ئی قبل اخوان کے رہنما اور اس وقت کے تر ک وزیر اعظم نجم الدین اربکا ن نے دیکھا تھا جو یو رپی یونین کی طر ز پر مسلم مما لک کا اقتصادی بلاک بنا نا چا ہتے تھے لیکن ڈی ایٹ تنظیم کی حیثیت علامتی پلیٹ فا رم سے آگے نہیں بڑ ھ سکی کیونکہ ڈی ایٹ تنظیم کے رکن مما لک میں صر ف اسلام اور ترقی پذیر ی مشتر ک ہیں ۔معا شی رابطے اور اقتصادی تعلقات کی بنیاد نظریا ت نہیں طلب اور رسدکے آفا قی معا شی ا صول اور مناسب قیمت پر استوار ہو تی ہے، عقائد اور جذبات کا تجارت میں کیاکام ، ویسے بھی پاکستان سے40فیصدٹیکسٹائیل فیکٹریا ں امن وامان،بجلی کا بحران اور کو ٹے کی کشش میں بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہما رے 50ہزار ہنر مند ورکزربے روزگا ر ہو ئے ہیں جب کہ 2لاکھ خا ند ان اس سے بر اہ راست متا ثر ہو ئے ہیں، ویسے بنگلہ دیش کی نا قا قیت اند یش عوامی لیگی قیا دت کو پاکستان سے اقتصادی تعاون بڑھا نے کے بجائے ہم سے 71ء کے کر دہ اور نا کر دہ گناہو ں پر بار بار معا فی منگو انے میں زیادہ دلچپسی ہے ۔
ہم ہیں کہ جا ئیں تو جا ئیں کہا ں
ہما ری نو جو ان نسل 15سے 25سا ل والی ، شوریدہ سر ، بے سمت اور بے ہنگم اژدھام ،جس کو سید ھا راستہ ، صراط مستقیم دکھا نے والا کو ئی نہیں لیکن اس نسل کے کروڑوں نئے ووٹروںسے سب آس لگا ئے بیٹھے ہیں ۔
عمر ان خا ن گذشتہ دودہا ئیو ں سے نو جو ان نسل کی نما یند ہ علامت بنے ہو ئے ہیں۔ وہ عمران ٹائیگر ہی تو تھے جنہوں نے شوکت خا نم کینسر ہپستا ل جسے عظیم فلاحی منصوبے کو ممکن کر دکھایا ۔گھر گھر جا کر جھولی پھیلائی تھی، چوک اور چوراہوں میں مو رچہ لگا یا تھا، قوم نے بھی انھیں ما یو س نہیں کیا تھا۔ زیورات اور کرنسی نو ٹوں کے ڈھیر لگا د ئیے تھے جو آج شوکت خا نم ہسپتا ل کی عا لی شا ن عما رت اور وسیع و عریض سبزہ زار کی صورت، ان کے جذبا ت کی حقیقی تصویر بنے ہوئے ہیں۔یہ دیو انی جو انی کو مثبت طر یقے سے استعمال کرنے کی زندہ مثال ہے۔
اس لیے اب ووٹ کا حق رکھنے والے کر وڑوں نو جو ان پا کستا ن کی تین بڑی سیاسی جما عتو ں کا مر کز نگا ہ ہیں۔ عمر ان خا ن کی تحریک انصا ف اور اس کے آزمو دہ کا ر بزرگ قیادت ما دی سہاروںکے ذریعے گئے دونوں کو واپس لا نے کے جتن کر رہی ہے ، مسلم لیگ (ن) کیو ں پیچھے رہتی ۔ حمزہ شہباز تو پہلے ہی نو جو انوں کیا بزرگوںکو بھی سیدھی راہ پر لا رہے ہیں ۔90شا ہر اہ قا ئد اعظم ان کا مر کز ہے لیکن لا ہو ر کی دانش گا ہو ں میں نو جوانو ں سے رابطہ کے لیے مر یم نو از بھی مید ان میں آئی ہیں۔ مر یم نواز مشرف کے دور جبر میں اپنی والدہ کی زیر نگرانی سیاسی رابطہ کا ری میں سر خر و ہو چکی ہیں، اس طرح جناب آصف زرداری نے اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو ڈی ایٹ کا نفرنس میں سر بر اہا ن کے شانہ بشانہ کھڑاکر دیا ہے جب کہ چو دھر ی برادران گذشتہ عام انتخا بات سے بھی مونس الہی کو با ضا بطہ نئی قیادت کے طور پر لا نچ کر چکے ہیں۔ مر یم نو از، بلا ول بھٹو زرداری اور مونس الہی کس طر ح پڑھے لکھے لیکن بے سمت نوجوانوں کو اپنی طر ف متو جہ کر پا ئیں گے، اگلے 90دونو ں میں اس کا جو اب مل جا ئے گا ۔
پا کستا ن کی نو جو ان نسل کی زبو ں حالی کے بارے میں ورلڈ بینک نے ایک دل ہلا نے دینے والی نئی رپورٹ جا ری کی ہے جس کے مطا بق ہم اپنے واحدقومی انسانی اثاثے کی ناقدری کر کے اسے ضا یع کر رہے ہیں۔ دکھ تو اس با ت کا ہے کہ ہما را اردو پرنٹ میڈیا، اس طر ح کی رپورٹس کو ا ب بھی کو ئی اہمیت دینے کو تیا ر نہیں ہے ۔ہم شاید سیاست کی بھول بھلیوں میں اصل مسائل کو بھی بھول گئے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداوشمارکے مطابق عملی زندگی میں قدم رکھنے کے اہل 60فیصد نو جو ان نا اہل، نکمے اور سست الوجو د ہیں۔ وہ پڑھ رہے ہیں نہ کو ئی کارآمد ہنر سیکھ رہے ہیں اور ان میں آگے بڑھنے اور ملا زمت تلاش کر نے کی بھی خواہش نہیں ہے، اس لیے پاکستا نی نو جوا نو ںمیں بے روزگا ری کی شر ح 7فیصد ہے جو مجموعی شر ح بے روزگا ری 5فیصدسے 2فیصد زیادہ ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو بے چا رے کا م کررہے ہیں، انھیں مفت کی بیگار کرنی پڑرہی ہے، اگر کچھ معاوضہ ملتا بھی ہے تو انھیں کسی قسم کا تحفظ حا صل نہیں ہے، روزگا ر مہیا کر نے میں زراعت آج بھی سب سے آگے ہے۔ 40فیصد افر اد فا رمنگ سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں زراعت کی جو حالت ہے،اسے بیان کرنے کی ضرورت ہے ، اسی طرح زراعت سے وابستہ نوجوانوں کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے ۔ورلڈ بینک کی رپورت کے جاری کر دہ اعداوشمار کے مطا بق 23 فیصد نو جو انو ں ذاتی کا روبا رکر رہے ہیں جب کہ نو جوان خواتین نہا یت مخدوش صورتحا ل کا شکا ر ہیں۔ 80فیصد خواتین تو اپنے گھر یلو کا م کا ج تک محد ود ہیں۔ان کے پاس تعلیم بھی نہیں ہے۔
عالمی بینک نے پا کستا ن میں بڑھتی ہو ئی بے روزگاری اور ابتر معا شی صورتحا ل کا ذمے داربجلی کے بحران ، سیا سی اور انتظامی عد م استحکا م کو قرار دیا ہے جس کی تما م ذمے داری حکو مت پر عا ئد ہو تی ہے۔ہماری سرکاری اور نجی درس گا ہو ں میں ضرورت کے مطا بق ہنرمند ٹیکنوکر یٹ مہیا کر نے کی بحا ئے اور بے مقصد ڈگر ی یا فتہ نو جو انوں کومید ان عمل میں دھکیلے جا رہی ہیں جس کی وجہ سے متو سط طبقے میں بے چینی بڑھ رہی ہے جو کہ مجموعی طور پر سماجی ابتر ی کا با عث بن رہی ہے ۔ یہ نوجوان ترقی کے عمل میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ معیشت میں اتنی وسعت نہیں کہ انھیں روزگار مہیا کرسکے۔انھیں جو تعلیم دی گئی ہے'وہ بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جنا ب عمر ان خا ن سمیت ہما رے سیاست کا روں کو صر ف نو جو انو ں کے کر وڑوں ووٹو ں سے دلچپسی ہے، ان کے دکھوںاور مسا ئل کا ازالہ کر نے کا کو ئی منصوبہ ان کے پا س نہیں اور غالبا سیا سی قا ئد ین اور ان کی جما عتو ں نے نو جو ان نسل کو مید ان عمل میں روزگا ر مہیا کر نے اور مثبت سر گر میا ں میں کھپانے کو ئی منصوبہ بند ی بھی نہیںکی، ایک شتر بے مہا ر اپنوہ کثیر گلیوں اور با زاروںسر گر داں ہے، یہ بے سمت ہجوم کدھر کا رخ کرے گا اس کے بارے میں پیش گو ئی کرناکچھ مشکل نہیں۔ گزشتہ دنوں توہین آمیز خاکوں کے خلاف جو مظاہرے ہوئے 'ان میں نوجوانوں میں اپنی محرومیوں کا جس انداز میں اظہار کیا 'وہ سب کے سامنے ہے۔
آخرمیں ذکر ڈی ایٹ کانفرنس کا۔۔۔ وزارت خارجہ کے جس با بو نے بھی عشرہ محر م کے دوران ڈی ایٹ کا نفرنس کر انے کی سمر ی تیار کی، اس کی عقل پر ما تم کر نے کو تو د ل چا ہتا ہے۔ خیر ایک اس پر ہی کیا موقوف،مختلف وزارتو ں اور ایوا ن ہائے اْقتدار میں براجما ن شہ دما غوں کی بلند پا یہ عقل پر قر بان جا ئیے کہ اس چھو ٹی سے حقیقت کا ادرک نہیں کر سکے کہ محر م الحر ام میں تو ویسے ہی سیکیورٹی کے انتظا ما ت کر نے کے لیے جان کے لا لے پڑ ے ہوتے ہیں اور آپ نے 8ممالک کے سر بر اہا ن کو اسلام آباد میں اکٹھا کر لیا ہے۔ویسے بھی اما م عالی مقام سید نا امام حسینؓ کی شہادت کے عشر ے کے دوران ا س طر ح کی ہنگام شادی برپا کر نے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ حسا س دینی اور سما جی معاملہ ہے، اس پر طر فہ تما شا یہ ہے کہ آپ نے مصری صدر جناب محمد مر سی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س بلا لیا تو اسے ملتو ی کر نے کی کیا ضر ورت تھی۔ ایرانی صدر، درویش منش احمد ی نجا د یہا ں پر مو جو د تھے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کر نے کے لیے انھیں مد عو کیا جا سکتا تھا۔ ویسے بھی ایر ان جغرافیائی اعتبارسے زیادہ قریبی بردار ملک ہے۔
اپنے نا آزمو د سا تھیوں اور خاص طور پر ٹی وی اینکر پر سنز کی اطلاع کے لیے عر ض ہے کہ ڈی ایٹ تنظیم کا خواب ڈیڑھ دہا ئی قبل اخوان کے رہنما اور اس وقت کے تر ک وزیر اعظم نجم الدین اربکا ن نے دیکھا تھا جو یو رپی یونین کی طر ز پر مسلم مما لک کا اقتصادی بلاک بنا نا چا ہتے تھے لیکن ڈی ایٹ تنظیم کی حیثیت علامتی پلیٹ فا رم سے آگے نہیں بڑ ھ سکی کیونکہ ڈی ایٹ تنظیم کے رکن مما لک میں صر ف اسلام اور ترقی پذیر ی مشتر ک ہیں ۔معا شی رابطے اور اقتصادی تعلقات کی بنیاد نظریا ت نہیں طلب اور رسدکے آفا قی معا شی ا صول اور مناسب قیمت پر استوار ہو تی ہے، عقائد اور جذبات کا تجارت میں کیاکام ، ویسے بھی پاکستان سے40فیصدٹیکسٹائیل فیکٹریا ں امن وامان،بجلی کا بحران اور کو ٹے کی کشش میں بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہما رے 50ہزار ہنر مند ورکزربے روزگا ر ہو ئے ہیں جب کہ 2لاکھ خا ند ان اس سے بر اہ راست متا ثر ہو ئے ہیں، ویسے بنگلہ دیش کی نا قا قیت اند یش عوامی لیگی قیا دت کو پاکستان سے اقتصادی تعاون بڑھا نے کے بجائے ہم سے 71ء کے کر دہ اور نا کر دہ گناہو ں پر بار بار معا فی منگو انے میں زیادہ دلچپسی ہے ۔
ہم ہیں کہ جا ئیں تو جا ئیں کہا ں