کم استعداد پر آئی پی پیز واجبات کی کٹوتی معاملہ حل نہ ہوسکا

اجلاس بے نتیجہ، این ٹی ڈی سی نے 8 ارب کیلیے قانونی راستے کامشورہ دیا، آئی پی پیز کاجی ایم کو خط۔

8 پروڈیوسرز سے 14جولائی کے بعد کی بجلی پر بھی بات نہ ہو سکی، 30 نومبر ڈیڈلائن ہے۔ فوٹو فائل

سپریم کورٹ سے واجبات کی ادائیگی کیلیے رواںسال کے آغاز میںرجوع کرنے والی 8 آزاد کمپنیاں ابھی تک اپنے بقایاجات کی مکمل ادائیگی سے محروم ہیں جبکہ حکومت سے 14 جولائی 2012 کے بعد فراہم کی جانے والی بجلی کا حساب کتاب کرنے کیلیے اکاؤنٹس کے بارے میں بھی بات چیت کا آغازابھی تک نہیں کیا گیا۔

آئی پی پیز کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کے باعث انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے 45 ارب روپے کے بقایاجات میں سے 21 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی موخر کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جو رواں ماہ سے ایک سال کے اندر اقساط میں کی جائینگی تاہم 14 جولائی 2012 کے بعد فراہم کی جانے والی بجلی کے بقایا جات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں جو یکم دسمبر تک بڑھ کر ایک بار پھر 45 ارب روپے کی سطح پر پہنچ جائیں گے، سپریم کورٹ کی ہدایت پر جولائی کے بعد فراہم کی جانے والی بجلی کی ادائیگیوں کے لیے بات چیت مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن بھی 30 نومبر مقرر کی گئی تھی جو جلد پوری ہونے والی ہے۔ 8 پاور کمپنیوں کو دہرے دبائو کا سامنا ہے۔


ایک جانب ان کے بقایا جات طویل اقساط میں ادا کیے جارہے ہیں اور کرنٹ ادائیگیوں میں بھی تاخیر کا سامنا ہے تو دوسری جانب حکومت نے مالی بحران کے سبب ایندھن کی کمی کا شکار ان پاور کمپنیوں کی ادائیگیوں میں سے بجلی کی فراہمی کیلیے دستیاب نہ ہونے کی مد میں مجموعی طور پر 8 ارب روپے کی کٹوتیاں کرلی ہیں، ان کٹوتیوں پر غور کیلیے عدالت کے حکم پر جمعرات 22 نومبر کو ہونے والا اجلاس بھی بے سود ثابت ہوا، پٹیشن دائر کرنے والی 8 آئی پی پیز کی جانب سے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) کے جنرل منیجر خادم حسین بلوچ کو ایک ارسال کردہ خط میں آئی پی پیز نے استعداد میں کمی کو جواز کر کی جانے والی کٹوتیوں کے بارے میں ہونے والے اجلاس کو بے نتیجہ قرار دیتے ہوئے کٹوتیوں کی ادائیگی کا معاملہ جلد از جلد حل کرنے زور دیا ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ جمعرات 22نومبر کو ہونے والے اجلاس میں نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی جانب سی کوئی پرپوزل نہیں دیا گیا بلکہ آئی پی پیز کو کٹوتیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے قانونی راستے اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
Load Next Story