صاحب کلچر

تمام صاحب اصل میں صاحب نہیں بلکہ عوام کے تنخواہ دار ملازم ہیں، جن پر عوام کی خدمت کرنا فرض ہے۔

نظام کی خرابی کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ ذہنی غلامی بھی ہے۔ اگر شہری اسی ملک کے قانون پر عمل کرتے ہوئے خود کو ذہنی غلامی سے آزاد کرلیں تو یقیناً یہ خود صاحب بن جائیںگے۔

KARACHI:
صاحب میٹنگ میں ہیں، صاحب آرام فرما رہے ہیں، صاحب مصروف ہیں، صاحب بلا رہے ہیں، ذرا انتظار کریں صاحب غصے میں ہیں۔ یہ ہے وہ صاحب کلچر جو ہمارے معاشرے کی غلام ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ کوئی سرکاری ادارہ ہو، سرمایہ دار کا دفتر ہو، عدالتی بینچ ہو، پولیس اسٹیشن ہو، سیاسی دفتر ہو یا کسی بھی قسم کا کوئی چھوٹا موٹا افسر ہو، عوام اکثر ایسے رعب اور دبدبے سے یوں ہی متاثر ہوتے ہیں جیسے یہ صاحب ان کے آقا ہیں۔

گورے نے برصغیر پر حکومت کی اور پھر اسے یہاں سے جانا پڑا، ہم نے نظام تو قبول کرلیا لیکن خرافات کو چھانٹ نہ سکے، کیونکہ زمینی حقائق قوانین کے برعکس ہیں۔ کیوں اور کیسے؟ اس کے لئے مختصر سا پس منظربتانا ہوگا۔

ریاست اور عوام کا بینادی تعلق وہ سماجی معاہدہ ہے جس کے تحت عوام اپنی مرضی سے اپنے اختیارات ایک منتخب حکومت کو تفویض کرتے ہیں۔ معاہدہ سادہ سا ہے کہ عوام امن، سیکورٹی، علاج، رہائش، روزگار اور بنیادی ضروریات اور آزادی کے بدلے میں ایک منتخب نمائندوں کو حکومت کرنے کا اختیار دیتے ہیں اور حکومتی امور چلانے کے لئے عوام ٹیکس کی صورت میں سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ بات سیدھی سی ہے عوام کے ٹیکس سے چلنے والی حکومت بنیادی طور پر عوام کی مرضی سے عوام کی ضروریات پوری کرنے کی پابند ہے۔

ہمارے جمہوری نظام میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت بیورو کریسی کو منتخب کرتی ہے، اداروں کو چلاتی ہے اور اداروں میں مقننہ، عدلیہ، فوج، پولیس، نجی اداروں کے معاملات اورتجارت سب شامل ہیں۔ سماجی معاہدے کے تحت یہ تمام ادارے عوام کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں امن اور سیکیورٹی دینے کے پابند ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تمام ادارے عوام کے ٹیکسوں سے ہی چلتے ہیں، مزید سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ عوام ریاستی اداروں کو اپنی خدمت کے عوض ٹیکس کی صورت میں تنخواہ دیتے ہیں اور ریاستی ادارے عوام کو خدمات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ اس لئے تمام صاحب اصل میں صاحب نہیں بلکہ عوام کے تنخواہ دار ملازم ہیں، جن پر عوام کی خدمت کرنا فرض ہے اور فرض ادا نہ کرنے کا مطلب سماجی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

کتابی لحاظ سے بات تو ٹھیک ہے لیکن زمینی حقائق الٹی گنگا ہی بہا رہے ہیں۔ کچھ مثالوں کے آئینے سے ہی اپنے سماجی معاہدے کی پاسداری کو دیکھتے ہیں۔


  • گرمی میں اشارے پر کھڑے ہو کر جب آپ کسی وی وی آئی پی شخصیت کے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں تو ایک لمحے یہ ضرور سوچیں کہ آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والا ٹریفک وارڈن آپ کو آپ کے ٹیکس سے بنی سڑک سے گزرنے نہیں دے گا، کیونکہ آپ کے ٹیکس سے کچھ زیادہ تنخواہ لینے والا وی وی آئی پی پروٹوکول والے کو اس نظام نے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔بورڈ آفس میں آپ اپنی میٹرک کی سند نکلوانے جائیں تو سب سے پہلے وہاں بیٹھے

  • کلرک بادشاہ کی دربار میں آپ کو حاضری دینی ہوگی۔ کہنے میں آپ بے شک اس کے لئے صاحب ہوں لیکن اصل میں وہ آپ کا صاحب ہے۔

  • اللہ نہ کرے کبھی آپ کو کسی پولیس اسٹیشن جانے کی زحمت کرنا پڑے۔ کیونکہ آپ کی حفاظت کرنے کے عوض آپ کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والا پولیس افسر اصل میں آپ کا صاحب ہے، اور نظام کی ستم ظریفی دیکھیں آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک پولیس والے کو سر کہہ کر بلائیں گے۔

  • عدالتوں میں مائی لارڈ کہنے کا کلچر اور ججز حضرات کے آگے حد سے زیادہ جی حضوری سے پہلے کیوں نہ یہ سوچ لیا جائے کہ انصاف کے تقاضے جی حضوری سے نہیں بلکہ میرٹ سے پورے ہوتے ہیں، تو ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والے قاضی کے حد ادب کی حد بھی مقرر کی جاسکتی ہے۔

  • سرکاری دفاترجاکر بادشاہت کے ماحول کا تاثر ہی ایسا ملتا ہے کہ سائل ایک ٹی ایم او سے لیکر ڈی سی او کے آگے پیش ہونے سے پہلے ہچکچاہٹ کا شکار ایسے نظر آتا ہے جیسے وہ اپنا حق لینے نہیں بلکہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتانے آیا ہو۔ پھر صاحب کے رعب اور دبدبے میں اس سائل کے وہ سارے ٹیکس ایسے دب جاتے ہیں جیسے سماجی معاہدہ ہی ڈکیتی کا شکار ہوگیا ہو۔ قانون نے سرکاری ادارے عوام کے لئے ہی بنائے ہیں، لیکن عوام کو ان کی ''خدمت'' کرنا پڑتی ہے۔


نظام کی خرابی کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ ذہنی غلامی کی چھاپ بھی ہے۔ میری ناقص رائے میں اگر شہری اسی ملک کے قانون پر من و عن عمل کرتے ہوئے خود کو ذہنی غلامی سے آزاد کرلیں تو یقیناً یہ خود صاحب بن جائیں گے اور صاحب حقیقت میں اپنی اس تنخواہ کے عوض شہریوں خدمت کے پابند ہوں گے جن کے ٹیکسوں سے ان کے بینک اکاؤنٹ میں ماہانہ رقم آتی ہے۔ سوچ بدلنے سے نظام بدل سکتا ہے۔ کتابی اور زمینی حقیقتیں بھی گلے مل سکتی ہیں۔ اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں، قانون کی نظر میں بھی سب برابر ہیں، بس اب سوچ میں برابری کی ضرورت ہے جو ہم سب کی گمشدہ میراث ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور500 الفاظ پرمشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویراورویڈیو لنکس۔
Load Next Story