میاں صاحب کی صحت اور وزیر خزانہ کی دال مرغی
ایک نہیں تین نہایت ہی معتبر اور مستند ذرایع سے خبر ملی ہے خبر کیا ملی ہے
ایک نہیں تین نہایت ہی معتبر اور مستند ذرایع سے خبر ملی ہے خبر کیا ملی ہے آنکھوں دیکھا حال بیان ہوا ہے کہ محترم میاں نواز شریف صاحب ایک بڑے اور خطرناک آپریشن سے صحت یاب ہو گئے ہیں۔
اس پر الحمد للہ رب العالمین۔ میں اتنی مالی استطاعت تو نہیں رکھتا تھا کہ اپنے دوستوں کی طرح بذات خود ان کی عیادت کرتا اور اطمینان کامل حاصل کرتا لیکن اس کے باوجود اب میں مطمئن ہوں کہ جناب میاں صاحب روبصحت ہیں اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ وہ ہمارے درمیان قہقہہ زن ہوں گے۔ ان کی عیادت کرنے والے ہمارے دوستوں نے جو بیان دیا ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے میں نے ایک کالم میں ان کی صحت کو ملک و قوم کے لیے لازم سمجھا تھا کیونکہ ملک جس بے چینی کے دور سے گزر رہا ہے یہ کسی مزید اضطراب اور بے چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ان کی صحت اور سلامتی قوم کے لیے لازم تھی بہر کیف اللہ نے کسی کی دعا سن لی اور وزیراعظم صحت مند ہو گئے۔
ان کی صحت کی خوشی میں ہم نے یعنی پوری قوم نے اپنی طاقت سے بڑھ کر استقبالیہ پروگرام بنایا ہے جو ان کے شایان شان نہ بھی ہو تب بھی ہماری تمناؤں کی تسکین کے لیے کافی ہے۔
ہم نے پاکستان میں وزیراعظم کے دفتر وغیرہ کی تزئین وآرائش کے لیے مبلغ بیس کروڑ روپے مخصوص کیے ہیں، اس رقم سے ہماری کسی حد تک تسلی ہو جائے گی۔ محترم وزیراعظم کے صرف غسل خانے کی آرائش کے لیے دو کروڑ 18لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعظم کی دفتری تزئین و آرائش پر 20کروڑ روپے لگانے کی منظوری دی گئی ہے، باتھ روم پر دو کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے جب کہ لفٹ پر 6کروڑ روپے صرف ہوں گے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ سے ملنے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم آرام اور اطمینان سے صحت یاب ہو سکیں اور قوم کو اطمینان نصیب ہو، ہماری قوم امیر ہے یا غریب ہمارا ہر فرد کتنے قرضے میں پھنسا ہوا ہے یا نہیں ہماری آمدن اور خرچ میں کیا فرق ہے ہمیں کسی بات کی پرواہ نہیں ہے اگر وزیراعظم کی صحت اور خیر و عافیت کے لیے بھی ہم نفع نقصان اور اپنی قومی امیری و غریبی میں الجھ جائیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی۔
محرومی کے اس احساس کے باوجود کہ میں لندن میں میاں صاحب کو روبصحت ہوتے نہ دیکھ سکا، مجھے اب میاں صاحب کی ذات گرامی پر کروڑوں روپے خرچ کر کے ہم خود کو مطمئن کر پائیں گے۔ محترم میاں صاحب کے ساتھ وابستہ یادیں بہت ہیں اور کئی ایک حیران کن بھی کیونکہ میاں صاحب ایک کشادہ دل کشادہ رو انسان ہیں میں ان کی آنکھوں میں جو حیا دیکھی ہے، وہ کسی صاحب اقتدار کی آنکھوں میں نہیں دیکھی۔ میں بہت خوش ہوں کہ میاں صاحب کے دفتر والوں نے ان کے آرام کے لیے کنجوسی سے کام نہیں لیا۔ پاکستان امیر ہے یا غریب وہ بہرحال ایک اچھے وزیراعظم سے محروم نہیں ہو سکتا۔ آج جب میاں صاحب کو خدا نے صحت عطا فرمائی ہے اور وہ بہت جلد ہنستے کھیلتے وزیراعظم بن کر قوم کی رہنمائی کریں گے۔ مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔
میں ایک بڑے اخبار کا چیف رپورٹر تھا جب میاں صاحب نے اقتدار کی دہلیز پار کی تھی بلکہ میں میاں صاحب کے والد ماجد میاں محمد شریف کے ساتھ ہی ایک اور صاحب کے وزیر بن جانے والے کے والد میاں امیر الدین کی وہ گفتگو بھی سنی جو کسی رپورٹر کو اول تو سننی نہیں چاہیے اور اگر سن لے تو فوراً بھلا دے، میں ایک بڑے کمرے میں ان دونوں بزرگوں سے دور بیٹھا ان کی ذاتی باتیں سن رہا تھا، یہ سب مجھے نہیں سننا چاہیے تھا چنانچہ میں چپکے سے کمرے سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل کر میں نے پوچھا کہ میاں صاحب کے ساتھ کون صاحب بیٹھے ہیں تب مجھے پتہ چلا کہ میں کتنے بڑے کسی واقعے کا گواہ بن چکا ہوں لیکن سیاست کی دنیا میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔
بہرکیف میں محترم میاں صاحب کی صحت یابی کی خوشی میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ ہمارا کام چونکہ لکھ کر دل کی کسی بات کا اظہار کرنا ہے اس لیے میں کسی غم یا خوشی کا اظہار لکھ کر ہی کرتا ہوں اور میاں صاحب کی صحت یابی ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ ہمیں میاں نواز شریف کی سخت ضرورت ہے۔ ان کی خوب سیاسی تربیت ہو چکی ہے اور ایسے موقعے ہر ایک کی زندگی میں نہیں آتے۔ ہم پاکستانی میاں صاحب کی اس سیاسی تربیت اور تجربے کو ضایع نہیں ہونے دیں گے اور مصر رہیں گے کہ وہ ہماری رہنمائی کریں اور انھوں نے حکمرانی کا جو تجربہ حاصل کیا ہے وہ قوم کو لوٹا دیں تاکہ ہم ترقی کا سفر جاری رکھ سکیں۔
تاہم اللہ تعالیٰ انھیں ایسے وزیر خزانہ سے بچائے جو ایک تاریخی فقرہ دہرائے کہ اگر دال مہنگی ہے تو قوم مرغی کھائے۔ یہ حکیمانہ فقرہ ایک تاریخ بیان کرتا ہے جب فرانس کی ملکہ نے محل کے سامنے جلوس دیکھ کرکہا تھا کہ یہ کیا مانگتے ہیں اگر روٹی نہیں تو کیک کھا لیں۔ ہم سے ہمارے بادشاہ نے یہی بات کہی ہے کہ دال مہنگی ہے تو مرغی کھا لیں۔ اس تاریخ کا دہرایا ہوا جملہ محض پڑھ کر گزر جانے والا نہیں اس پر تو پاکستان کے عوام کے قلم سے ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ویسے فرانس کی اس ملکہ کا فرانس کے انقلابیوں نے جو حال کیا تھا وہ کتابوں میں درج ہے اسے نہ ہی سنئے تو بہتر ہو گا۔
اس پر الحمد للہ رب العالمین۔ میں اتنی مالی استطاعت تو نہیں رکھتا تھا کہ اپنے دوستوں کی طرح بذات خود ان کی عیادت کرتا اور اطمینان کامل حاصل کرتا لیکن اس کے باوجود اب میں مطمئن ہوں کہ جناب میاں صاحب روبصحت ہیں اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ وہ ہمارے درمیان قہقہہ زن ہوں گے۔ ان کی عیادت کرنے والے ہمارے دوستوں نے جو بیان دیا ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے میں نے ایک کالم میں ان کی صحت کو ملک و قوم کے لیے لازم سمجھا تھا کیونکہ ملک جس بے چینی کے دور سے گزر رہا ہے یہ کسی مزید اضطراب اور بے چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ان کی صحت اور سلامتی قوم کے لیے لازم تھی بہر کیف اللہ نے کسی کی دعا سن لی اور وزیراعظم صحت مند ہو گئے۔
ان کی صحت کی خوشی میں ہم نے یعنی پوری قوم نے اپنی طاقت سے بڑھ کر استقبالیہ پروگرام بنایا ہے جو ان کے شایان شان نہ بھی ہو تب بھی ہماری تمناؤں کی تسکین کے لیے کافی ہے۔
ہم نے پاکستان میں وزیراعظم کے دفتر وغیرہ کی تزئین وآرائش کے لیے مبلغ بیس کروڑ روپے مخصوص کیے ہیں، اس رقم سے ہماری کسی حد تک تسلی ہو جائے گی۔ محترم وزیراعظم کے صرف غسل خانے کی آرائش کے لیے دو کروڑ 18لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعظم کی دفتری تزئین و آرائش پر 20کروڑ روپے لگانے کی منظوری دی گئی ہے، باتھ روم پر دو کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے جب کہ لفٹ پر 6کروڑ روپے صرف ہوں گے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ سے ملنے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم آرام اور اطمینان سے صحت یاب ہو سکیں اور قوم کو اطمینان نصیب ہو، ہماری قوم امیر ہے یا غریب ہمارا ہر فرد کتنے قرضے میں پھنسا ہوا ہے یا نہیں ہماری آمدن اور خرچ میں کیا فرق ہے ہمیں کسی بات کی پرواہ نہیں ہے اگر وزیراعظم کی صحت اور خیر و عافیت کے لیے بھی ہم نفع نقصان اور اپنی قومی امیری و غریبی میں الجھ جائیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہو گی۔
محرومی کے اس احساس کے باوجود کہ میں لندن میں میاں صاحب کو روبصحت ہوتے نہ دیکھ سکا، مجھے اب میاں صاحب کی ذات گرامی پر کروڑوں روپے خرچ کر کے ہم خود کو مطمئن کر پائیں گے۔ محترم میاں صاحب کے ساتھ وابستہ یادیں بہت ہیں اور کئی ایک حیران کن بھی کیونکہ میاں صاحب ایک کشادہ دل کشادہ رو انسان ہیں میں ان کی آنکھوں میں جو حیا دیکھی ہے، وہ کسی صاحب اقتدار کی آنکھوں میں نہیں دیکھی۔ میں بہت خوش ہوں کہ میاں صاحب کے دفتر والوں نے ان کے آرام کے لیے کنجوسی سے کام نہیں لیا۔ پاکستان امیر ہے یا غریب وہ بہرحال ایک اچھے وزیراعظم سے محروم نہیں ہو سکتا۔ آج جب میاں صاحب کو خدا نے صحت عطا فرمائی ہے اور وہ بہت جلد ہنستے کھیلتے وزیراعظم بن کر قوم کی رہنمائی کریں گے۔ مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔
میں ایک بڑے اخبار کا چیف رپورٹر تھا جب میاں صاحب نے اقتدار کی دہلیز پار کی تھی بلکہ میں میاں صاحب کے والد ماجد میاں محمد شریف کے ساتھ ہی ایک اور صاحب کے وزیر بن جانے والے کے والد میاں امیر الدین کی وہ گفتگو بھی سنی جو کسی رپورٹر کو اول تو سننی نہیں چاہیے اور اگر سن لے تو فوراً بھلا دے، میں ایک بڑے کمرے میں ان دونوں بزرگوں سے دور بیٹھا ان کی ذاتی باتیں سن رہا تھا، یہ سب مجھے نہیں سننا چاہیے تھا چنانچہ میں چپکے سے کمرے سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل کر میں نے پوچھا کہ میاں صاحب کے ساتھ کون صاحب بیٹھے ہیں تب مجھے پتہ چلا کہ میں کتنے بڑے کسی واقعے کا گواہ بن چکا ہوں لیکن سیاست کی دنیا میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔
بہرکیف میں محترم میاں صاحب کی صحت یابی کی خوشی میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ ہمارا کام چونکہ لکھ کر دل کی کسی بات کا اظہار کرنا ہے اس لیے میں کسی غم یا خوشی کا اظہار لکھ کر ہی کرتا ہوں اور میاں صاحب کی صحت یابی ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ ہمیں میاں نواز شریف کی سخت ضرورت ہے۔ ان کی خوب سیاسی تربیت ہو چکی ہے اور ایسے موقعے ہر ایک کی زندگی میں نہیں آتے۔ ہم پاکستانی میاں صاحب کی اس سیاسی تربیت اور تجربے کو ضایع نہیں ہونے دیں گے اور مصر رہیں گے کہ وہ ہماری رہنمائی کریں اور انھوں نے حکمرانی کا جو تجربہ حاصل کیا ہے وہ قوم کو لوٹا دیں تاکہ ہم ترقی کا سفر جاری رکھ سکیں۔
تاہم اللہ تعالیٰ انھیں ایسے وزیر خزانہ سے بچائے جو ایک تاریخی فقرہ دہرائے کہ اگر دال مہنگی ہے تو قوم مرغی کھائے۔ یہ حکیمانہ فقرہ ایک تاریخ بیان کرتا ہے جب فرانس کی ملکہ نے محل کے سامنے جلوس دیکھ کرکہا تھا کہ یہ کیا مانگتے ہیں اگر روٹی نہیں تو کیک کھا لیں۔ ہم سے ہمارے بادشاہ نے یہی بات کہی ہے کہ دال مہنگی ہے تو مرغی کھا لیں۔ اس تاریخ کا دہرایا ہوا جملہ محض پڑھ کر گزر جانے والا نہیں اس پر تو پاکستان کے عوام کے قلم سے ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ویسے فرانس کی اس ملکہ کا فرانس کے انقلابیوں نے جو حال کیا تھا وہ کتابوں میں درج ہے اسے نہ ہی سنئے تو بہتر ہو گا۔