پہلا حق
ہر سال دنیا میں لگ بھگ پانچ لاکھ انسان بھوک، بیماری، ناقص غذا کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں
سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرست سامراجی طاقتیں قدم قدم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے باوجود انسانی حقوق کا پروپیگنڈا اس قدر شدت سے کرتی ہیں کہ ان دہری پالیسیوں پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ جس نظام کی سرشت میں عدم مساوات، امتیازات اور جانبداری ہو ایسے نظام میں انسانی حقوق کا تحفظ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔ انسانی حقوق میں سب سے پہلے زندہ رہنے کا حق شامل ہے۔
مغربی میڈیا کے ہی مطابق ہر سال دنیا میں لگ بھگ پانچ لاکھ انسان بھوک، بیماری، ناقص غذا کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سیکڑوں لوگ بھوک سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کرلیتے ہیں۔ کیا ان اموات کو طبعی کہا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ قتل عام ہے جس کی ذمے داری سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے۔
ان حقائق پر نظر ڈالنے سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا دنیا میں اتنا غلہ پیدا نہیں ہوتا، اتنی خوراک موجود نہیں ہوتی کہ دنیا میں رہنے والوں کی ضرورت پوری کرسکے؟ ایسا بالکل نہیں ہے، دنیا میں انسانی ضرورتوں سے زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے لیکن اس کی تقسیم اس قدر ظالمانہ اور نامنصفانہ ہوتی ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کے قبضے میں غذا کے انبار ہوتے ہیں اور انسانوں کی بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی سے محروم ہوتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حیوانیت کا عالم یہ ہے کہ محض عالمی مارکیٹ میں غذا کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کی خاطر ہزاروں ٹن گندم جلا دی جاتی ہے یا سمندر برد کردی جاتی ہے۔ 5 اسٹار ہوٹلوں میں جو کھانا ضایع ہوتا ہے، اس سے ہزاروں انسان اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں لیکن اس روز کے نقصان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی، اس بچی ہوئی غذا کو کچرا کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور بھوکے لوگ ان کچرا کنڈیوں میں پھینکی ہوئی غذا سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس قسم کی ناانصافیاں ہر ملک میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی غذا سے محروم ہزاروں بچے کچرا کنڈیوں میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے ایسے المیے ہیں جو صدیوں سے جاری ہیں اور انسان انھیں روزمرہ کا معمول سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں حشرات الارض کی طرح پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کوئی تنظیم انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر آواز اٹھاتی ہے نہ احتجاج کرتی ہے، کیونکہ زندہ رہنے کا حق ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ایک بڑا کام ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کو مالی مراعات فراہم کرنے والی طاقتیں بذات خود ساری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو وہ کس طرح اپنی پروردہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو طبقاتی استحصال کے خلاف متحرک کرسکتی ہیں؟
انسانی جان انسانی حقوق میں سب سے زیادہ محترم ہوتی ہے۔ بھوک اور بیماری سے مرنے والے لاکھوں انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگوں سے بھی لاکھوں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ویت نام میں لاکھوں انسان جنگ کی آگ کا ایندھن بن گئے، خود امریکی فوج کے 60 ہزار کے قریب سپاہی ویت نام کی جنگ میں مارے گئے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان مارے گئے، دوسری عالمی جنگ کے دوران 1945 میں امریکا نے انسانی تاریخ کا وہ ہتھیار ایٹم بم استعمال کیا جس سے پیدا ہونے والی جہنم کی آگ میں پلک جھپکنے میں لاکھوں انسان جل کر مر گئے۔
عراق کی حالیہ جنگ میں لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے۔ افغانستان کی جنگ میں اب تک 10 لاکھ انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا یہ جنگیں منصفانہ تھیں؟ یہ سوال اس لیے بے کار محض ہے کہ کوئی جنگ خواہ وہ کسی مقصد کی خاطر لڑی جائے نہ منصفانہ ہوتی ہے نہ اس کا تعلق انسانی اقدار سے ہوتا ہے۔ جنگوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ المناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ جنگوں میں استعمال ہونے والی فوج ان غریب طبقات پر مشتمل ہوتی ہے جو روزی کمانے کی خاطر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور جنگ کی آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
جنگیں ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہیں اور ہتھیار کارخانوں میں تیار ہوتے ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور ہتھیاروں کی صنعت میں سرمایہ لگانے والے اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ جنگیں ہتھیاروں کی صنعت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں، ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان نے جہاں جدید سے جدید ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کروڑوں کے معاوضے پر ماہرین حرب رکھے ہوئے ہیں وہیں انھوں نے دنیا بھر میں جنگوں کے فروغ کے لیے بھی کروڑوں ڈالر کے معاوضے پر ایسے ماہرین پالے ہوئے ہیں جو دنیا میں بڑی مہارت کے ساتھ جنگوں کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ملکی سالمیت کے نام پر ایک ایسا عدم اعتماد کا کلچر پیدا کردیا گیا ہے کہ کسی ملک کو کسی طرف سے کوئی خطرہ ہو نہ ہو وہ اپنے دفاع کے لیے ایک بھاری فوج اور دفاع کا شعبہ ضرور رکھتا ہے، جس پر بجٹ کا ایک بھاری حصہ ضایع کردیا جاتا ہے۔ دنیا میں ہزاروں مفکرین، ہزاروں دانشور، ہزاروں فلسفی موجود ہیں۔ کیا ان معززین نے کبھی جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف موثر آواز اٹھائی ہے؟
سرمایہ دارانہ نظام انسانی تاریخ کا وہ بدترین اور ظالمانہ نظام ہے جس کی نہ آنکھیں ہیں، نہ کان، نہ زبان، اس اندھے گونگے اور بہرے نظام میں دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے 80 فیصد انسان کہیں بھوک کا شکار ہیں تو کہیں جنگوں کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ یہ نظام ظالموں اور عیاروں کا پیدا کیا ہوا نظام ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی اس نظام کے مظالم سہہ رہی ہے، لیکن اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے نہ بغاوت کرتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا طویل ہے، لیکن مختصر یہ ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی اس نظام اور اس کی قہرمانیوں کو جانتی ہی نہیں ہے۔ وہ اس نظام کی پیدا کردہ ناانصافیوں کو یا تو قسمت کا لکھا سمجھتی ہے یا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا اور ان احمقانہ روایتوں کو پھیلانے کے لیے ہر مسجد، ہر مندر، ہر گرجا، ہر ٹیمپل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی کم علمی، کم فہمی کی وجہ سے ان روایتوں کو مذہب کا حصہ بناکر غریب اور سادہ لوح انسانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح انسان قسمت کے نام پر ہر ظلم سہتے ہیں۔
مغربی میڈیا کے ہی مطابق ہر سال دنیا میں لگ بھگ پانچ لاکھ انسان بھوک، بیماری، ناقص غذا کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سیکڑوں لوگ بھوک سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کرلیتے ہیں۔ کیا ان اموات کو طبعی کہا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ قتل عام ہے جس کی ذمے داری سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے۔
ان حقائق پر نظر ڈالنے سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا دنیا میں اتنا غلہ پیدا نہیں ہوتا، اتنی خوراک موجود نہیں ہوتی کہ دنیا میں رہنے والوں کی ضرورت پوری کرسکے؟ ایسا بالکل نہیں ہے، دنیا میں انسانی ضرورتوں سے زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے لیکن اس کی تقسیم اس قدر ظالمانہ اور نامنصفانہ ہوتی ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کے قبضے میں غذا کے انبار ہوتے ہیں اور انسانوں کی بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی سے محروم ہوتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حیوانیت کا عالم یہ ہے کہ محض عالمی مارکیٹ میں غذا کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کی خاطر ہزاروں ٹن گندم جلا دی جاتی ہے یا سمندر برد کردی جاتی ہے۔ 5 اسٹار ہوٹلوں میں جو کھانا ضایع ہوتا ہے، اس سے ہزاروں انسان اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں لیکن اس روز کے نقصان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی، اس بچی ہوئی غذا کو کچرا کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور بھوکے لوگ ان کچرا کنڈیوں میں پھینکی ہوئی غذا سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس قسم کی ناانصافیاں ہر ملک میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی غذا سے محروم ہزاروں بچے کچرا کنڈیوں میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے ایسے المیے ہیں جو صدیوں سے جاری ہیں اور انسان انھیں روزمرہ کا معمول سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں حشرات الارض کی طرح پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کوئی تنظیم انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر آواز اٹھاتی ہے نہ احتجاج کرتی ہے، کیونکہ زندہ رہنے کا حق ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ایک بڑا کام ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کو مالی مراعات فراہم کرنے والی طاقتیں بذات خود ساری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو وہ کس طرح اپنی پروردہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو طبقاتی استحصال کے خلاف متحرک کرسکتی ہیں؟
انسانی جان انسانی حقوق میں سب سے زیادہ محترم ہوتی ہے۔ بھوک اور بیماری سے مرنے والے لاکھوں انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگوں سے بھی لاکھوں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ویت نام میں لاکھوں انسان جنگ کی آگ کا ایندھن بن گئے، خود امریکی فوج کے 60 ہزار کے قریب سپاہی ویت نام کی جنگ میں مارے گئے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان مارے گئے، دوسری عالمی جنگ کے دوران 1945 میں امریکا نے انسانی تاریخ کا وہ ہتھیار ایٹم بم استعمال کیا جس سے پیدا ہونے والی جہنم کی آگ میں پلک جھپکنے میں لاکھوں انسان جل کر مر گئے۔
عراق کی حالیہ جنگ میں لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے۔ افغانستان کی جنگ میں اب تک 10 لاکھ انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا یہ جنگیں منصفانہ تھیں؟ یہ سوال اس لیے بے کار محض ہے کہ کوئی جنگ خواہ وہ کسی مقصد کی خاطر لڑی جائے نہ منصفانہ ہوتی ہے نہ اس کا تعلق انسانی اقدار سے ہوتا ہے۔ جنگوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ المناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ جنگوں میں استعمال ہونے والی فوج ان غریب طبقات پر مشتمل ہوتی ہے جو روزی کمانے کی خاطر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور جنگ کی آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
جنگیں ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہیں اور ہتھیار کارخانوں میں تیار ہوتے ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور ہتھیاروں کی صنعت میں سرمایہ لگانے والے اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ جنگیں ہتھیاروں کی صنعت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں، ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان نے جہاں جدید سے جدید ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کروڑوں کے معاوضے پر ماہرین حرب رکھے ہوئے ہیں وہیں انھوں نے دنیا بھر میں جنگوں کے فروغ کے لیے بھی کروڑوں ڈالر کے معاوضے پر ایسے ماہرین پالے ہوئے ہیں جو دنیا میں بڑی مہارت کے ساتھ جنگوں کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ملکی سالمیت کے نام پر ایک ایسا عدم اعتماد کا کلچر پیدا کردیا گیا ہے کہ کسی ملک کو کسی طرف سے کوئی خطرہ ہو نہ ہو وہ اپنے دفاع کے لیے ایک بھاری فوج اور دفاع کا شعبہ ضرور رکھتا ہے، جس پر بجٹ کا ایک بھاری حصہ ضایع کردیا جاتا ہے۔ دنیا میں ہزاروں مفکرین، ہزاروں دانشور، ہزاروں فلسفی موجود ہیں۔ کیا ان معززین نے کبھی جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف موثر آواز اٹھائی ہے؟
سرمایہ دارانہ نظام انسانی تاریخ کا وہ بدترین اور ظالمانہ نظام ہے جس کی نہ آنکھیں ہیں، نہ کان، نہ زبان، اس اندھے گونگے اور بہرے نظام میں دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے 80 فیصد انسان کہیں بھوک کا شکار ہیں تو کہیں جنگوں کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ یہ نظام ظالموں اور عیاروں کا پیدا کیا ہوا نظام ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی اس نظام کے مظالم سہہ رہی ہے، لیکن اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے نہ بغاوت کرتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا طویل ہے، لیکن مختصر یہ ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی اس نظام اور اس کی قہرمانیوں کو جانتی ہی نہیں ہے۔ وہ اس نظام کی پیدا کردہ ناانصافیوں کو یا تو قسمت کا لکھا سمجھتی ہے یا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا اور ان احمقانہ روایتوں کو پھیلانے کے لیے ہر مسجد، ہر مندر، ہر گرجا، ہر ٹیمپل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی کم علمی، کم فہمی کی وجہ سے ان روایتوں کو مذہب کا حصہ بناکر غریب اور سادہ لوح انسانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح انسان قسمت کے نام پر ہر ظلم سہتے ہیں۔