اس جرم کی سزا برسرعام کیوں نہ ہو

ہر قسم کے جرائم کس ملک میں نہیں ہوتے انسانی معاشرہ ابھی تک جرائم سے محفوظ نہیں ہو سکا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

کوئی دن نہیں جاتا کہ ہماری انتہائی بدقسمتی ، ایک ایسی شرمناک خبر نہ چھپتی ہو کہ کسی حرامزادے نے ایک نو عمر بچی کی عصمت لوٹ لی۔ پولیس نے ملزم کو پکڑ لیا ہے اور اب اس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ کوئی معصوم پاکستانی لڑکی اس المیے سے گزرنے کے بعد کہاں گئی اور وہ کس حال میں ہے دنیا کی نظروں میں اس بچی کی ماں نے کسی حیلے بہانے اسے بچا بھی لیا ہو اور وہ بظاہر زندہ و سلامت کاروبار حیات میں مصروف بھی ہو لیکن اس پاکستانی لڑکی کا دل بھی اس سانحے کو کبھی بھول نہیں سکتا، اس طرح ایک لڑکی زندگی بھر کے لیے اپنے دل ہی دل میں زندہ المیے میں جلتی سڑتی رہتی ہے۔

لڑکی کے گھر والے پوری کوشش کے ساتھ اپنی بچی کو بچانے میں لگے رہتے ہیں اور اس کی زندگی کو اس المیے کے اثرات سے بچانے میں زندگی لگا دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ اور سانحہ ہوتا ہے جو نہ صرف ایک زندہ بچی کو قتل کر دیتا ہے بلکہ اس کے پورے خاندان کو اس کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے جس میں ان کی بچی کو اب عمر بھر کے لیے جلنا پڑنا ہو گا۔ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، یہ سب پوری پاکستانی قوم پر واضح ہے اور بچی کو جاننے والے اس کے خاندان سے کوئی سا تعلق بھی رکھنے والے اس بچی سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔

میں اس بارے میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب پولیس کسی مجرم کو پکڑ لیتی ہے تو پھر کیا کرتی ہے ہمیں آج تک کبھی اس مجرم کے انجام کا پتہ نہیں چلا ، اُسے ہو سکتا ہے چند برس کی سزا ہو جائے اور وہ عوام کی نظروں سے غائب ہو جائے اور جیل میں اپنے ایسے ہی بھیانک کارناموں کا ذکر کرتا رہے لیکن جب تک اس ملزم کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی، جب تک اس کی زیادتی کا شکار لڑکی کی طرح اس کی زندگی بھی تلخ نہیں کر دی جاتی اس وقت ایک مسلمان ملک میں ایسے کسی سانحے کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔

ہر قسم کے جرائم کس ملک میں نہیں ہوتے، انسانی معاشرہ ابھی تک جرائم سے محفوظ نہیں ہو سکا۔ ہمارے خدا و رسولؐ کو ماننے والے معاشرے کی بات ہو یا مغربی دنیا کے آزاد معاشرے کی جرائم ہوتے ہیں اور کہاں نہیں ہوتے لیکن سوسائٹی نے مجرموں کی سرکوبی کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے۔ ملزم کو صرف گرفتار نہیں کیا جاتا اسے اس کے جرم کے مطابق سزا دی جاتی ہے اور یہی سزا ہمارے ہاں نہیں ہے اور جب تک ایسے کسی مجرم کو برسرعام سزا نہیں دی جاتی ان جرائم میں کمی واقع نہیں ہو گی۔ یہ درست ہے کہ کئی جرائم میں سزا دی جاتی ہے مگر وہ پھر بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں، یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے۔ ورنہ سزا اگر جرم کے مطابق سخت ہو تو یہ انسانوں کو ایسے جرائم سے روکنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔


ایسے کسی جرم کی سزا نہ صرف اس جرم کے متعلقہ مجرم کو ہی دی جا سکتی ہے بلکہ عام معاشرے میں ایک ایسی فضا بھی قائم کرنے میں مدد کر سکتی ہے جس میں ہر ملزم اور مجرم گناہ سے پہلے سو بار سوچے گا۔ ایک عام سی مثال ہے کہ ایک بچہ اگر کسی غلطی سے اس لیے باز رہتا ہے کہ اس کا باپ اسے اس کی سزا دے گا تو ایک بڑا آدمی ایسا کیوں نہیں سوچ سکتا کہ اس کی کسی غلطی کو معاشرہ ہضم نہیں کر سکے گا۔

بات کسی معصوم بچی کی توہین سے شروع ہوئی تھی اور میں اس پر مسلسل دکھ کا اظہار کیا کرتا ہوں کہ اتنے بڑے گناہ کو ہمارا معاشرہ اسے پولیس کے حوالے کر کے چپ ہو جاتا ہے، اپنی جگہ یہ بات صحیح کہ لڑکی کے گھر والے بھی ایسی کسی واردات کو قدرتی طور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر پولیس ایسی واردات کو کیوں چھپاتی ہے۔

پولیس کو سب پتہ ہوتا ہے اور پولیس مظلوم لڑکی اور اس کے خاندان کو اپنی تفتیش سے محفوظ رکھ کر ملزم کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے کیا پولیس والوں کے گھروں میں بچیاں نہیں ہوتیں اور ان کی عزت اور عصمت انھیں کیوں عزیز نہیں ہوتی۔ ہماری معاشرتی روایات کو سامنے رکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایسے کسی جرم کو چھپایا جاتا ہے اور اس پر حتی الوسع پردہ ڈالا جاتا ہے لیکن پولیس کا ادارہ ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جو قائم ہی مجرموں کو پکڑنے اور سزا دلوانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس سرکاری محکمے کی کسی بچی سے کوئی رشتے داری نہیں ہوتی کہ وہ مجرم پر پردہ ڈالے وہ تو جرائم کو چھپاتی نہیں بلکہ ان کو ظاہر کر کے ان کو سزا کے لیے تیار کرتی ہے۔

میری گزارش صرف یہ تھی کہ ایسے بھیانک اور شرمسار کر دینے والے جرم کو سرزد کرنے والے کو سزا نہ صرف ملنی چاہیے بلکہ برسرعام ملنی چاہیے۔ اس کا اعلان کرنا چاہیے اور عوام میں اسے خوب پھیلانا چاہیے کہ فلاں جرم کے مجرم کو برسرعام سزا دی جائے گی تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو ہمارے ہاں بعض گناہ اور جرائم محض اس لیے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی سزا نہیں ہوتی مثلاً ضمانت ہو جاتی ہے۔
Load Next Story