لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسا ادارہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔
KARACHI:
پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسا ادارہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ مجال ہے کہ کسی کا سیدھا کام بھی آسانی سے ہو جائے۔ اور سونے پر سوہاگہ یہ کہ اسے پورے لاہور ڈویژن تک پھیلا دیا گیا ہے یعنی قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب جیسے اضلاع بھی اس کے ماتحت آچکے ہیں۔ اس کی اگر کارکردگی اگر لاہور میں بہت اعلیٰ ہو تو اس کی توسیع بنتی ہے مگر وطن عزیز دنیا سے بہت سے معاملات میں مختلف ہے۔
آدھا لاہور کمرشل بن گیا ہے۔ متعلقہ عملہ کمرشل بنانے والے کی دکان گرانے آتا ہے ' نوٹس چسپاں کیے جاتے ہیں' اگلے دن مالک دکان ٹینٹ کی آڑ میں دکان مکمل کرتا ہے۔ پھر اگلے ہفتے معاملہ طے ہوتا ہے' دکان کھل جاتی ہے یہی حال تجاوزات کا ہے۔ تمام مارکیٹوں میں بھتہ سسٹم موجود ہے تو تجاوزات دھڑلے سے موجود ہیں اگر بھتہ کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی توتہہ بازاری کا عملہ گاڑیوں کے ساتھ صفایا کر جاتا ہے۔ پھر دوبارہ معاملات طے پا جاتے ہیں۔ سارا عمل قواعد و ضوابط کے مطابق طے پاتا ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ لاہور کے علاقے مصطفی ٹاؤن میں ایک غریب خاتون کے 7مرلہ پلاٹ پر قبضہ کر لیاگیا۔ غریب عورت نذیراں بی بی نے 18سال پہلے مصطفی ٹاؤن کے شہریار بلاک میں 7 مرلے کا پلاٹ لیا لیکن کسی نے جعلی فائل نذیراں کی اصلی فائل کی جگہ رکھ دی اور پلاٹ پر تعمیر شروع کر دی۔ اخبار میں خبر شایع ہونے کے بعد متعلقہ حکام کو مظلوم عورت کی مدد کرنے کی درخواست کی گئی۔ اس پر ڈائریکٹر صاحب فرمانے لگے کہ یہ میرا کام نہیں ہے' میں اسسٹنٹ کمیشنر رہ چکا ہوں' ایماندار افسر ہوں۔ جب انھوں نے یہ جملے کہے تو یقین کریں کہ سوچا کہ ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ اگر غریب کو انصاف نہ ملے۔ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔
غریب خاتون کو انصاف تو نہ ملا البتہ لینڈ مافیا کی طاقت اور سرکار کی نااہلی کا اندازہ ہو گیا، نامکمل گھر میں جعل سازی کرنے والے فرد کو گھر آباد کرنے کے لیے راتوں رات منتقل کرا دیا گیا۔ دس دن تک دفتر کے سامنے دھرنا دینے والی نذیراں بی بی کو یہ کہہ کر فارغ کر دیا گیا۔ بی بی آپ کا تو ریکارڈ ہی نہیں ہے... یہ وہ ادارہ ہے جسے ایل ڈی اے ایکٹ 1975ء کے تحت بنایا گیا ، اس کا پرانا نام ''لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ '' تھا ۔ اس کی افادیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے بڑے بڑے ساہو کار اس میں کود پڑے اور پھر حکمرانوں نے بھی اس کا استعمال کیا۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ستمبر2013 میں لاہور ڈویژن کی ضلعی حکومتوں اور ٹی ایم ایز کے اختیارات ایک قانون سازی کے ذریعے حاصل کر لیے۔ یہ بل پنجاب اسمبلی نے 2013ء میں منظور کیا تھا۔
اس ترمیم کے مطابق وزیر اعلیٰ کو ایل ڈی اے کا چیئرمین بنا دیا گیا، اس سے پہلے اس محکمے کا چیئرمین لاہور کا ناظم ہوا کرتا تھا۔ مذکورہ بل کے تحت سٹی گورنمنٹ لاہور، ضلعی حکومت قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور ان اضلاع کے تمام ٹاؤنز کے ماسٹر پلان،کمرشلائزیشن و کنورژن فیس کی وصولی وغیرہ کے اختیارات ایل ڈی اے کے پاس ہوں گے۔ یہ فیصلے عدالتوں میںچیلنج ہوئے ۔ محترم عدالتوں نے فیصلے سٹی گورنمنٹ و محکمہ بلدیات کے حق میں دے دیے لیکن ہائے ری قسمت وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے،،،بقول ساغرصدیقی
کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
حکمرانوں کی کمال مہارت دیکھیں کہ محکمہ بلدیات پنجاب' لاہور ہائیکورٹ و سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حق میں فیصلے کے باوجود اپنے اختیارات حاصل نہیں کر سکا۔ قارئین کی یاددہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ کوئی پہلا فیصلہ نہیں ہے جس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ اس جیسے سیکڑوں فیصلے موجود ہیں جن پر عملدرآمد ہونا باقی ہے، ان فیصلوں میں اگلے کسی کالم پر ضرور روشنی ڈالوں گا تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ حکمران طاقت کے نشے میں کسی طرح عدالتوں کے احکامات کو روند رہے ہیں۔
میرے خیال میں عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے حکمران ہیں۔ یعنی عوام کے ساتھ عدالتیں بھی اس ملک میں بے بس نظر آرہی ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور30کروڑ روپے سالانہ مقررہ آمدن سے محروم ہے ۔ اسی طرح دیگر ٹی ایم ایز بھی سالانہ کروڑوں روپے آمدن سے محروم ہوگئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اختیارات حاصل کرنے کے بعد ایل ڈی اے خود مقررہ ہدف پورا کر سکا ہے نہ ہی ضلعی حکومتوں اور ٹی ایم ایز کو آمدن حاصل ہو سکی ہے۔
ذمے دار ذرایع کے مطابق ڈھائی سال سے زائد عرصہ میں بلدیاتی اداروں کو چار ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔اُلٹا اعلیٰ فیصلوں کی بدولت پنجاب کے تمام اضلاع کے ٹی ایم اوز اورنج ٹرین کی مد میں سالانہ 3سے 6کروڑ روپے دینے کے بھی پابندہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ان تمام اضلاع کا فنڈ ایک ادارہ یا مرکز پر لگے گا تو ان اضلاع میں ترقیاتی کام کون کرے گا؟ کیا ان اضلاع میں سڑکیں نہیں ؟ کیا یہاں عوام کے بجائے جانور رہتے ہیں جنھیں صاف پانی نہیں چاہیے۔
جنھیں سیوریج کا نظام نہیں چاہیے یا جنھیں دوسری ضروریات زندگی نہیں چاہئیں... بتایا گیا ہے کہ حکمرانوں کے قریب ایک طاقتور بیورو کریٹ کے خوف سے محکمہ بلدیات خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ دوسر ی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ محکمہ بلدیات لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے تو پنجاب حکومت کے ایل ڈی اے کی نگرانی میں ہونے والے تمام منصوبوں پر سوالیہ نشان اُٹھ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان اقدامات سے یقیناََ اشرافیہ ، حکمرانوں اور جاگیرداروں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن عوام کو کیا فائدہ ہو گا جسے کاشتکاری والی زمین کو بیچنے یا خریدنے کے لیے کمرشلائزیشن کی فیس بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے، ایسا کام تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی کیا تھا، لیکن بدلے میں اس نے چند ایک سہولتیں بھی فراہم کی تھیں جن میں پنجاب میں موجود بے شمار ترقیاتی پراجیکٹس بنائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایل ڈی ان علاقوں کو کیا تعمیر کر کے دے رہا ہے؟
پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسا ادارہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ مجال ہے کہ کسی کا سیدھا کام بھی آسانی سے ہو جائے۔ اور سونے پر سوہاگہ یہ کہ اسے پورے لاہور ڈویژن تک پھیلا دیا گیا ہے یعنی قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب جیسے اضلاع بھی اس کے ماتحت آچکے ہیں۔ اس کی اگر کارکردگی اگر لاہور میں بہت اعلیٰ ہو تو اس کی توسیع بنتی ہے مگر وطن عزیز دنیا سے بہت سے معاملات میں مختلف ہے۔
آدھا لاہور کمرشل بن گیا ہے۔ متعلقہ عملہ کمرشل بنانے والے کی دکان گرانے آتا ہے ' نوٹس چسپاں کیے جاتے ہیں' اگلے دن مالک دکان ٹینٹ کی آڑ میں دکان مکمل کرتا ہے۔ پھر اگلے ہفتے معاملہ طے ہوتا ہے' دکان کھل جاتی ہے یہی حال تجاوزات کا ہے۔ تمام مارکیٹوں میں بھتہ سسٹم موجود ہے تو تجاوزات دھڑلے سے موجود ہیں اگر بھتہ کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی توتہہ بازاری کا عملہ گاڑیوں کے ساتھ صفایا کر جاتا ہے۔ پھر دوبارہ معاملات طے پا جاتے ہیں۔ سارا عمل قواعد و ضوابط کے مطابق طے پاتا ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ لاہور کے علاقے مصطفی ٹاؤن میں ایک غریب خاتون کے 7مرلہ پلاٹ پر قبضہ کر لیاگیا۔ غریب عورت نذیراں بی بی نے 18سال پہلے مصطفی ٹاؤن کے شہریار بلاک میں 7 مرلے کا پلاٹ لیا لیکن کسی نے جعلی فائل نذیراں کی اصلی فائل کی جگہ رکھ دی اور پلاٹ پر تعمیر شروع کر دی۔ اخبار میں خبر شایع ہونے کے بعد متعلقہ حکام کو مظلوم عورت کی مدد کرنے کی درخواست کی گئی۔ اس پر ڈائریکٹر صاحب فرمانے لگے کہ یہ میرا کام نہیں ہے' میں اسسٹنٹ کمیشنر رہ چکا ہوں' ایماندار افسر ہوں۔ جب انھوں نے یہ جملے کہے تو یقین کریں کہ سوچا کہ ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ اگر غریب کو انصاف نہ ملے۔ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔
غریب خاتون کو انصاف تو نہ ملا البتہ لینڈ مافیا کی طاقت اور سرکار کی نااہلی کا اندازہ ہو گیا، نامکمل گھر میں جعل سازی کرنے والے فرد کو گھر آباد کرنے کے لیے راتوں رات منتقل کرا دیا گیا۔ دس دن تک دفتر کے سامنے دھرنا دینے والی نذیراں بی بی کو یہ کہہ کر فارغ کر دیا گیا۔ بی بی آپ کا تو ریکارڈ ہی نہیں ہے... یہ وہ ادارہ ہے جسے ایل ڈی اے ایکٹ 1975ء کے تحت بنایا گیا ، اس کا پرانا نام ''لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ '' تھا ۔ اس کی افادیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے بڑے بڑے ساہو کار اس میں کود پڑے اور پھر حکمرانوں نے بھی اس کا استعمال کیا۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ستمبر2013 میں لاہور ڈویژن کی ضلعی حکومتوں اور ٹی ایم ایز کے اختیارات ایک قانون سازی کے ذریعے حاصل کر لیے۔ یہ بل پنجاب اسمبلی نے 2013ء میں منظور کیا تھا۔
اس ترمیم کے مطابق وزیر اعلیٰ کو ایل ڈی اے کا چیئرمین بنا دیا گیا، اس سے پہلے اس محکمے کا چیئرمین لاہور کا ناظم ہوا کرتا تھا۔ مذکورہ بل کے تحت سٹی گورنمنٹ لاہور، ضلعی حکومت قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور ان اضلاع کے تمام ٹاؤنز کے ماسٹر پلان،کمرشلائزیشن و کنورژن فیس کی وصولی وغیرہ کے اختیارات ایل ڈی اے کے پاس ہوں گے۔ یہ فیصلے عدالتوں میںچیلنج ہوئے ۔ محترم عدالتوں نے فیصلے سٹی گورنمنٹ و محکمہ بلدیات کے حق میں دے دیے لیکن ہائے ری قسمت وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے،،،بقول ساغرصدیقی
کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
حکمرانوں کی کمال مہارت دیکھیں کہ محکمہ بلدیات پنجاب' لاہور ہائیکورٹ و سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حق میں فیصلے کے باوجود اپنے اختیارات حاصل نہیں کر سکا۔ قارئین کی یاددہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ کوئی پہلا فیصلہ نہیں ہے جس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ اس جیسے سیکڑوں فیصلے موجود ہیں جن پر عملدرآمد ہونا باقی ہے، ان فیصلوں میں اگلے کسی کالم پر ضرور روشنی ڈالوں گا تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ حکمران طاقت کے نشے میں کسی طرح عدالتوں کے احکامات کو روند رہے ہیں۔
میرے خیال میں عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے حکمران ہیں۔ یعنی عوام کے ساتھ عدالتیں بھی اس ملک میں بے بس نظر آرہی ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور30کروڑ روپے سالانہ مقررہ آمدن سے محروم ہے ۔ اسی طرح دیگر ٹی ایم ایز بھی سالانہ کروڑوں روپے آمدن سے محروم ہوگئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اختیارات حاصل کرنے کے بعد ایل ڈی اے خود مقررہ ہدف پورا کر سکا ہے نہ ہی ضلعی حکومتوں اور ٹی ایم ایز کو آمدن حاصل ہو سکی ہے۔
ذمے دار ذرایع کے مطابق ڈھائی سال سے زائد عرصہ میں بلدیاتی اداروں کو چار ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔اُلٹا اعلیٰ فیصلوں کی بدولت پنجاب کے تمام اضلاع کے ٹی ایم اوز اورنج ٹرین کی مد میں سالانہ 3سے 6کروڑ روپے دینے کے بھی پابندہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ان تمام اضلاع کا فنڈ ایک ادارہ یا مرکز پر لگے گا تو ان اضلاع میں ترقیاتی کام کون کرے گا؟ کیا ان اضلاع میں سڑکیں نہیں ؟ کیا یہاں عوام کے بجائے جانور رہتے ہیں جنھیں صاف پانی نہیں چاہیے۔
جنھیں سیوریج کا نظام نہیں چاہیے یا جنھیں دوسری ضروریات زندگی نہیں چاہئیں... بتایا گیا ہے کہ حکمرانوں کے قریب ایک طاقتور بیورو کریٹ کے خوف سے محکمہ بلدیات خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ دوسر ی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ محکمہ بلدیات لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے تو پنجاب حکومت کے ایل ڈی اے کی نگرانی میں ہونے والے تمام منصوبوں پر سوالیہ نشان اُٹھ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان اقدامات سے یقیناََ اشرافیہ ، حکمرانوں اور جاگیرداروں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن عوام کو کیا فائدہ ہو گا جسے کاشتکاری والی زمین کو بیچنے یا خریدنے کے لیے کمرشلائزیشن کی فیس بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے، ایسا کام تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی کیا تھا، لیکن بدلے میں اس نے چند ایک سہولتیں بھی فراہم کی تھیں جن میں پنجاب میں موجود بے شمار ترقیاتی پراجیکٹس بنائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایل ڈی ان علاقوں کو کیا تعمیر کر کے دے رہا ہے؟