قاضی فضل اللہ آخری حصہ
قاضی ایک اچھے مقرر تھے اور انھیں قانون کے بارے میں بڑی جان کاری تھی،
قاضی فضل اللہ نے اپنی سیاست کی ابتدا لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کی صدارت کا الیکشن جیت کر کی اور لاڑکانہ میونسپل کمیٹی پر امیر لاہوری کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ قاضی نے اس کے بیٹے علی گوہرکو ہرا کر یہ اعزازحاصل کیا اور وہ 1944ء میں میونسپل کمیٹی کے صدر بن گئے۔
قاضی کی سیاسی گرفت دن بہ دن بڑھتی گئی، جس کی مثال اس سے پہلے یہ تھی کہ قاضی فضل اللہ نے 1937ء کی بمبئی لیجسلیٹواسمبلی کی الیکشن میں لاڑکانہ سے اپنے حمایت یافتہ شیخ عبدالمجید کو جتوایا اور سر شاہنواز اپنی سیٹ پہلی مرتبہ ہار گئے کیونکہ وہ اپنی الیکشن مہم میں صحیح طریقے سے حصہ نہیں لے سکے، جس کا فائدہ قاضی نے اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے لیا۔ شیخ عبدالمجید کی الیکشن مہم قاضی نے ہی چلائی تھی اور وہ خود آئے ہی نہیں تھے۔ شیخ لاڑکانہ کی سیٹ بغیر مہم کے جیت گئے مگر لیاری کی سیٹ مہم کے باوجود بھی ہار گئے تھے۔
لاڑکانہ کی سیٹ جیتنے کے بعد شیخ نے کبھی بھی لاڑکانہ کی طرف توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئے، جس نے قاضی کی مقبولیت کو بھی دھچکا لگایا جس کی وجہ سے وہ خود بھی 1945ء والی سندھ اسمبلی سیٹ کے لیے رتوڈیرو، میروخان میں ہار گئے اور نبی بخش بھٹو نے وہ سیٹ جیت لی۔
قاضی ایک اچھے مقرر تھے اور انھیں قانون کے بارے میں بڑی جان کاری تھی، اس لیے جب وہ بولتے تھے تو ان کے الفاظ میں طاقت اور جان تھی جس کا انھوں نے استعمال تحریک خلافت میں کیا۔ اس تحریک کوکامیاب بنانے کے لیے انھوں نے ٹھٹھہ کے گاؤں گاؤں جا کر جلسے کیے، دھواں دھار تقریریں کر کے لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے جلوس نکالے اپنی تعلیم درمیان میں چھوڑ کر علی گڑھ سے واپس آئے تھے۔
اب جب وہ لاڑکانہ آئے تو وہ سیاسی طور پر مضبوط ہوچکے تھے اور لوگوں پر اس کا سحر طاری ہوگیا تھا۔ جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو وہ اس میں شامل ہوگئے اور اسے کراچی ہیڈ آفس کا انچارج بنایا جہاں پر وہ اپنا کام بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے اور 1922ء تک وہاں پر رہے۔ لاڑکانہ میں ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ کے چیئرمین، لاڑکانہ لوکل بورڈ کے صدر بھی رہے۔
1946ء کی سندھ اسمبلی کی سیٹ کے لیے ڈوکری، وارہ (لاڑکانہ ضلع) میں کامیاب ہو کر ممبر بن گئے۔ پاکستان بننے کے بعد جب محمد ایوب کھوڑو سندھ کے چیف منسٹر بنے تو قاضی ان کی کابینہ میں وزیر بن گئے۔ مگر جب یوسف ہارون آسٹریلیا کے سفیر بن کر گئے تو قاضی کو 25 مارچ 1950ء میں سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا، مگر پھر دوبارہ محمد ایوب کھوڑو سندھ کے وزیر اعلیٰ 8 مئی 1951ء میں بنائے گئے اور قاضی کو ان کی کابینہ میں ہوم منسٹر بنایا گیا۔
1955ء میں قاضی فضل اللہ اور محمد ایوب کھوڑو کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تو کھوڑو نے قاضی کو جیل میں ڈلوا دیا۔ قاضی اور کھوڑو میں کبھی دوستی اورکبھی دشمنی چلتی رہی۔ وہ ایک دوسرے کو جیل میں ڈلواتے رہتے تھے۔ 1956ء میں جب مغربی پاکستان صوبے کے الیکشن ہوئے تو اس میں قاضی ضلع ٹھٹھہ سے الیکشن جیت کر ممبر بن گئے۔
وہ لاڑکانہ سے بھی سیٹ جیت کر آئے تھے مگر قاضی نے ٹھٹھہ کی سیٹ چھوڑ دی اور لاڑکانہ کی سیٹ کو برقرار رکھا۔ جب خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بنے تو قاضی کو آبپاشی اور پاورکا منسٹر بنایا جس پر وہ صدر ایوب کے مارشل لا تک کام کرتے رہے۔ وزارت کے دوران ملک امیر محمد کالاباغ ایک دن ان کے پاس اپنی زمینوں کے بارے میں آئے تو قاضی نے نہ صرف ان کا کام کیا بلکہ بے حد عزت افزائی کی جس سے وہ بڑے متاثر ہوئے اور جب کالاباغ مغربی پاکستان کے گورنر بنے تو وہ قاضی سے ملنے لاڑکانہ گئے اور کئی تحائف بھی لے گئے اور کہا کہ کوئی کام ہو تو حکم کریں، لیکن قاضی نے کوئی تحفہ قبول نہیں کیا اورکہا کہ ان کا کوئی ذاتی کام نہیں ہے اور اگر عوام کا کوئی کام ہوا تو وہ ضرور عرض کریں گے۔ یہ تھی قاضی کی اپنی زندگی اور اصول کے اس نے کبھی بھی اپنا ذاتی کام نہیں لیا۔ قاضی نے جن بھی افراد کو سرکاری عہدوں کے لیے Recommend کیا کبھی ان سے کوئی اپنے لیے فائدہ نہیں اٹھایا۔
قاضی فلاح وبہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ غریب بچوں کی پڑھائی کے لیے فیس، کتابیں اور پیسے دیتے رہتے تھے اور غریب لوگوں کی مدد کے لیے اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے اور اپنے لیے صرف اتنا بچاتے تھے کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ انھوں نے صرف سماجی کاموں میں اپنی زندگی گزار دی اور شادی نہیں کی۔ انھوں نے اپنی آمدنی سے صرف تھوڑی سی زرعی زمین خریدی تھی جس کی آمدنی سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ اس نے ایک بچی کو گود لیا تھا جس کو پال کرجوان کیا اور اس کی شادی کروا دی۔
اس کے پاس اپنا کوئی ذاتی گھر نہیں تھا، وہ جس بنگلے میں رہتا تھا وہ عبدالحمید جتوئی کا تھا جس نے قاضی کو رہنے کے لیے دیا تھا، جو قاضی کے بعد واپس ہوگیا ہے۔ قاضی نے لاڑکانہ میں ایک میونسپل ہال بنایا تھا، جو اب مسمارکر کے وہاں پر عورتوں کے لیے لائبریری بنائی جا رہی ہے۔ انھوں نے کئی زرعی اصلاحات نافذ کیں، ٹھٹھہ کی شاہی مسجد کی مرمت کروائی، ٹھٹھہ میں ڈسٹرکٹ اسپتال بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس سے کئی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کو روزگار ملا اور لوگوں کو صحت کی سہولتیں ملیں۔ بے زمین ہاریوں میں زرعی زمین تقسیم کروائی جس سے ہاریوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔
وہ بڑے خوش خوراک، خوش لباس، خوش گفتار، ملنسار، انسانیت پرور اور کتابیں پڑھنے کا بہت زیادہ شوق رکھتے تھے اور لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنی محدود آمدنی کے باوجود اچھے مہمان نواز تھے اور اپنی آمدنی کا نصف حصہ ویلفیئر کے کاموں پر خرچ کرتے تھے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنا پورا وقت گھر پر رہتے تھے کیونکہ ان کی طبیعت انھیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتی تھی مگر اگر کوئی سوالی آ جاتا تو اپنی تکلیف بھول کر اس کے ساتھ نکل پڑتے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ سندھ اور اس کے لوگ اتنے اچھے، ایماندار اور باوقار تھے جنھوں نے اپنے اقدار کو اونچا رکھنے کے لیے دھن اور دولت سے پیار نہیں کیا اور اپنا وقت، ذہن اور آمدنی غریبوں کی مدد اور عوام کے کام آنے میں لگا دی۔ رشوت سے تو وہ بہت دور تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں سہولتیں بھی نہیں تھیں پھر بھی اتنا کام کرنا اور دیانتداری سے فرض نبھانا، ان کی عظمت ظاہرکرتا ہے۔ آج انصاف کو ڈھونڈتے زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اب سندھ کو قاضی فضل اللہ جیسا سیاستدان اور سماجی رہنما کہاں سے ملے گا۔
قاضی کی سیاسی گرفت دن بہ دن بڑھتی گئی، جس کی مثال اس سے پہلے یہ تھی کہ قاضی فضل اللہ نے 1937ء کی بمبئی لیجسلیٹواسمبلی کی الیکشن میں لاڑکانہ سے اپنے حمایت یافتہ شیخ عبدالمجید کو جتوایا اور سر شاہنواز اپنی سیٹ پہلی مرتبہ ہار گئے کیونکہ وہ اپنی الیکشن مہم میں صحیح طریقے سے حصہ نہیں لے سکے، جس کا فائدہ قاضی نے اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے لیا۔ شیخ عبدالمجید کی الیکشن مہم قاضی نے ہی چلائی تھی اور وہ خود آئے ہی نہیں تھے۔ شیخ لاڑکانہ کی سیٹ بغیر مہم کے جیت گئے مگر لیاری کی سیٹ مہم کے باوجود بھی ہار گئے تھے۔
لاڑکانہ کی سیٹ جیتنے کے بعد شیخ نے کبھی بھی لاڑکانہ کی طرف توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئے، جس نے قاضی کی مقبولیت کو بھی دھچکا لگایا جس کی وجہ سے وہ خود بھی 1945ء والی سندھ اسمبلی سیٹ کے لیے رتوڈیرو، میروخان میں ہار گئے اور نبی بخش بھٹو نے وہ سیٹ جیت لی۔
قاضی ایک اچھے مقرر تھے اور انھیں قانون کے بارے میں بڑی جان کاری تھی، اس لیے جب وہ بولتے تھے تو ان کے الفاظ میں طاقت اور جان تھی جس کا انھوں نے استعمال تحریک خلافت میں کیا۔ اس تحریک کوکامیاب بنانے کے لیے انھوں نے ٹھٹھہ کے گاؤں گاؤں جا کر جلسے کیے، دھواں دھار تقریریں کر کے لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے جلوس نکالے اپنی تعلیم درمیان میں چھوڑ کر علی گڑھ سے واپس آئے تھے۔
اب جب وہ لاڑکانہ آئے تو وہ سیاسی طور پر مضبوط ہوچکے تھے اور لوگوں پر اس کا سحر طاری ہوگیا تھا۔ جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو وہ اس میں شامل ہوگئے اور اسے کراچی ہیڈ آفس کا انچارج بنایا جہاں پر وہ اپنا کام بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے اور 1922ء تک وہاں پر رہے۔ لاڑکانہ میں ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ کے چیئرمین، لاڑکانہ لوکل بورڈ کے صدر بھی رہے۔
1946ء کی سندھ اسمبلی کی سیٹ کے لیے ڈوکری، وارہ (لاڑکانہ ضلع) میں کامیاب ہو کر ممبر بن گئے۔ پاکستان بننے کے بعد جب محمد ایوب کھوڑو سندھ کے چیف منسٹر بنے تو قاضی ان کی کابینہ میں وزیر بن گئے۔ مگر جب یوسف ہارون آسٹریلیا کے سفیر بن کر گئے تو قاضی کو 25 مارچ 1950ء میں سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا، مگر پھر دوبارہ محمد ایوب کھوڑو سندھ کے وزیر اعلیٰ 8 مئی 1951ء میں بنائے گئے اور قاضی کو ان کی کابینہ میں ہوم منسٹر بنایا گیا۔
1955ء میں قاضی فضل اللہ اور محمد ایوب کھوڑو کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تو کھوڑو نے قاضی کو جیل میں ڈلوا دیا۔ قاضی اور کھوڑو میں کبھی دوستی اورکبھی دشمنی چلتی رہی۔ وہ ایک دوسرے کو جیل میں ڈلواتے رہتے تھے۔ 1956ء میں جب مغربی پاکستان صوبے کے الیکشن ہوئے تو اس میں قاضی ضلع ٹھٹھہ سے الیکشن جیت کر ممبر بن گئے۔
وہ لاڑکانہ سے بھی سیٹ جیت کر آئے تھے مگر قاضی نے ٹھٹھہ کی سیٹ چھوڑ دی اور لاڑکانہ کی سیٹ کو برقرار رکھا۔ جب خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بنے تو قاضی کو آبپاشی اور پاورکا منسٹر بنایا جس پر وہ صدر ایوب کے مارشل لا تک کام کرتے رہے۔ وزارت کے دوران ملک امیر محمد کالاباغ ایک دن ان کے پاس اپنی زمینوں کے بارے میں آئے تو قاضی نے نہ صرف ان کا کام کیا بلکہ بے حد عزت افزائی کی جس سے وہ بڑے متاثر ہوئے اور جب کالاباغ مغربی پاکستان کے گورنر بنے تو وہ قاضی سے ملنے لاڑکانہ گئے اور کئی تحائف بھی لے گئے اور کہا کہ کوئی کام ہو تو حکم کریں، لیکن قاضی نے کوئی تحفہ قبول نہیں کیا اورکہا کہ ان کا کوئی ذاتی کام نہیں ہے اور اگر عوام کا کوئی کام ہوا تو وہ ضرور عرض کریں گے۔ یہ تھی قاضی کی اپنی زندگی اور اصول کے اس نے کبھی بھی اپنا ذاتی کام نہیں لیا۔ قاضی نے جن بھی افراد کو سرکاری عہدوں کے لیے Recommend کیا کبھی ان سے کوئی اپنے لیے فائدہ نہیں اٹھایا۔
قاضی فلاح وبہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ غریب بچوں کی پڑھائی کے لیے فیس، کتابیں اور پیسے دیتے رہتے تھے اور غریب لوگوں کی مدد کے لیے اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے اور اپنے لیے صرف اتنا بچاتے تھے کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ انھوں نے صرف سماجی کاموں میں اپنی زندگی گزار دی اور شادی نہیں کی۔ انھوں نے اپنی آمدنی سے صرف تھوڑی سی زرعی زمین خریدی تھی جس کی آمدنی سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ اس نے ایک بچی کو گود لیا تھا جس کو پال کرجوان کیا اور اس کی شادی کروا دی۔
اس کے پاس اپنا کوئی ذاتی گھر نہیں تھا، وہ جس بنگلے میں رہتا تھا وہ عبدالحمید جتوئی کا تھا جس نے قاضی کو رہنے کے لیے دیا تھا، جو قاضی کے بعد واپس ہوگیا ہے۔ قاضی نے لاڑکانہ میں ایک میونسپل ہال بنایا تھا، جو اب مسمارکر کے وہاں پر عورتوں کے لیے لائبریری بنائی جا رہی ہے۔ انھوں نے کئی زرعی اصلاحات نافذ کیں، ٹھٹھہ کی شاہی مسجد کی مرمت کروائی، ٹھٹھہ میں ڈسٹرکٹ اسپتال بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس سے کئی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کو روزگار ملا اور لوگوں کو صحت کی سہولتیں ملیں۔ بے زمین ہاریوں میں زرعی زمین تقسیم کروائی جس سے ہاریوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔
وہ بڑے خوش خوراک، خوش لباس، خوش گفتار، ملنسار، انسانیت پرور اور کتابیں پڑھنے کا بہت زیادہ شوق رکھتے تھے اور لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنی محدود آمدنی کے باوجود اچھے مہمان نواز تھے اور اپنی آمدنی کا نصف حصہ ویلفیئر کے کاموں پر خرچ کرتے تھے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنا پورا وقت گھر پر رہتے تھے کیونکہ ان کی طبیعت انھیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتی تھی مگر اگر کوئی سوالی آ جاتا تو اپنی تکلیف بھول کر اس کے ساتھ نکل پڑتے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ سندھ اور اس کے لوگ اتنے اچھے، ایماندار اور باوقار تھے جنھوں نے اپنے اقدار کو اونچا رکھنے کے لیے دھن اور دولت سے پیار نہیں کیا اور اپنا وقت، ذہن اور آمدنی غریبوں کی مدد اور عوام کے کام آنے میں لگا دی۔ رشوت سے تو وہ بہت دور تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں سہولتیں بھی نہیں تھیں پھر بھی اتنا کام کرنا اور دیانتداری سے فرض نبھانا، ان کی عظمت ظاہرکرتا ہے۔ آج انصاف کو ڈھونڈتے زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اب سندھ کو قاضی فضل اللہ جیسا سیاستدان اور سماجی رہنما کہاں سے ملے گا۔