ملک کو درپیش نئے خطرات اورچیلنجز

خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نئے خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

mnoorani08@gmail.com

ISLAMABAD:
خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نئے خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ایک طرف افغانستان کے ساتھ ہمارے دیرینہ روابط اور تعلقات میں عرصے سے جاری سرد مہری اب رفتہ رفتہ کشیدگی اور ناچاکی میں بدل رہی ہے۔

طورخم بارڈر پرگیٹ لگانے کی مسئلے پر افغان فوجیوں کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ اورگولہ باری نے ہماری افواج کو بھی مجبورکر دیا کہ وہ اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے اُسی قسم کا رد عمل ظاہرکرے۔ ویسے توافغانستان کے لوگوں کے ساتھ ہماری دوستی اور محبت کی ایک طویل داستان تاریخ کے صفحات میں سنہری حرفوںمیں درج ہے۔1980ء میں ہمارے لوگوں نے اپنے شہر، دیہات اور اپنے گھراپنے اِن دینی بھائیوں کے لیے کھول کر رکھ دیے جب روسی جارحیت کے سبب لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہماری سر زمین پر پناہ لینے پر مجبورہو گئے تھے۔ ہم نے پینتیس لاکھ افغان بھائیوں کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ اُن کی یہاں آباد کاری میں بھر پور تعاون بھی کیا۔ وہ گزشتہ تیس چالیس برسوں سے ہمارے یہاں رہ رہے تھے۔ اُن کی ایک پوری نسل یہاں پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن اب محبت کے اِن دیرینہ رشتوں میں دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔

پاکستان کی جانب سے طورخم بارڈر پر بنایا جانے والا گیٹ دراصل دونوں ممالک کے درمیان دسمبر 2015ء میں ہونیوالے اُس معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت دہشت گردی کو روکنے کی خاطر یہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں ملک اپنے سرحدی علاقے میں چیک پوسٹ کے طور پرگیٹ بنائینگے۔ پاکستان نے یہ کام بوجوہ چھ ماہ کی تاخیر سے جب پچھلے دنوں شروع کیا تو افغانستان اچانک ہم سے ناراض ہو گیا حالانکہ اُسے بھی اپنے علاقے میں ایسا ہی انتظام کرنا تھا لیکن اپنے حصہ کا کام کرنے کی بجائے وہ پاکستان کے خلاف کھلم کھلا محاذآرائی پر اُتر آیا۔

نتیجتاً دونوں طرف کے لوگوں میں بدگمانی اور بداعتمادی پروان چڑھتی جا رہی ہے۔ اِن تعلقات کی خرابی کے پیچھے کونسے عوامل اور عناصرکارفرما ہیں اُن کا بروقت صحیح تعین اور ادراک کر کے ہی ہم اُسے درست کر سکتے ہیں بصورتِ دیگر سراسر نقصان اِن دونوں ہمسائے اسلامی ممالک ہی کو ہو گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گاکہ کہیں بھارت یا امریکا کی شہ پر تو یہ سب کچھ نہیں ہو رہاکیونکہ بھارت کا افغانستان میں اثر و رسوخ اِس قدر بڑھا چکا ہے کہ وہ وہاں کی حکومتی معاملات میں بھی مداخلت کرنے لگا ہے۔

افغان عوام کو پاکستانیوں سے متنفرکر کے ہی وہ اپنا یہ مقصد حاصل کر سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکا بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان ایک بار پھر افغانستان کے حکومتی معاملات میں کوئی فعال کردار ادا کرے۔ اِن دونوں کا مشترکہ مفاد اِسی میں ہے کہ پاکستان کو افغانستان سے دور رکھا جائے۔ دوسری جانب بھارت ہمارے ایک اور پڑوسی برادر ملک ایران کو بھی ہم سے متنفر کر کے ہمیں اِس خطے میں تنہا اور اکیلا کرنے کے درپے ہے۔ وہ پاک چائنا کوریڈور کو بنیاد بنا کر اور اپنے لیے ایک نئی راہداری بنانے کی منصوبہ بندی کر کے ایران سے آج کل پینگیں بڑھا رہا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بھی اُس کے اِسی پلان کا حصہ ہے۔

ہماری سرحدیں اب دونوں طرف سے غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ پہلے ہمیں صرف ایک جانب سے خطرہ تھا لیکن اب ہمیں مغربی اور مشرقی دونوں جانب سے خطرات نے گھیر رکھا ہے۔ ہمیں اِس صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک جامع، ٹھوس اوردانشمندانہ حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ افسوس کہ موجودہ حکومت کو اب تک تین سال ہو چکے لیکن اُس کی خارجہ پالیسی کے خدوخال ابھی تک واضح نہیں ہیں اور نہ کوئی باقاعدہ وزیرِخارجہ مقرر ہوا ہے۔ سارا کام ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں ہم اپنی اِسٹیبلشمنٹ کے کردار سے انکار نہیں کر سکتے۔ لہذا سول اور عسکری دونوں قوتوں کو اِس جانب توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت اور لاپرواہی کے سبب ملکی سالمیت اور یگانت کو ناگہانی خطرات کے حوالے کر دیں۔ افغانستان کی ساتھ ہمارے مراسم اگر یونہی دگرگوں رہتے ہیں تو پھر تاجکستان کے ساتھ گیس سپلائی والے''تاپی'' معاہدے کی کامیابی بھی مشکوک ہو جائے گی۔


مگر ایک خطرہ اور بھی ہے جو ہماری معیشت اور اقتصاد کو عنقریب درپیش ہونے والا ہے وہ خلیجی ممالک میں آئل کے پرائس میں کمی کے باعث وہاں کی بدلتی معاشی صورتحال ہے جس نے اُن ممالک کی حکومتوں کو اپنی معاشی پالیسیوں کو پھرسے ترتیب دینے پرمجبورکر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر تیل کا بحران یونہی جاری رہتا ہے تو وہاں کام کرنے والے غیر ملکی تارکینِ وطن کے لیے وہاں کام کرتے رہنا ناممکن ہو جائے گا اور لاکھوں کی تعداد میںکام کرنے والے مزدورکارکن بے روزگار ہو جائیں گے۔

جس کی ابتدا اگرچہ ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ یونہی بڑھتا گیا، تو ایک دن ہمارے یہاں نہ صرف بے روزگار لوگوں کا طوفان کھڑا ہو جائے گا بلکہ زرِمبادلہ کے ذخائر میں بھی زبردست کمی ہو گی۔ ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدارغیر ممالک سے آنے والی اِسی ترسیلِ زر پر ہے ۔اگر یہ کسی وجہ سے رک گئی یا اِس میں بڑی حد تک کمی واقع ہو گئی تو ہمیں دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ حکومت نے اب تک اِس بارے میںکیا حفاظتی انتظامات کیے ہیں یہ کسی کو نہیں معلوم۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ابھی ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ایک طرف ہماری ایکسپورٹس بھی تیزی کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہیں اور دوسری جانب فارن ایکسچینج میں کمی کا یہ بحران ہمیں معاشی اور اقتصادی طور پر تباہ و برباد کر کے رکھدے گا۔

وزیرِ خزانہ جو اپنی کامیابیوں کو گنواتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی تھکتے نہیں ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ساری کامیابیاں دھڑام سے زمین بوس ہو جائیں گی اگر زرمبادلہ کے ذخائربڑھنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہو کر نچلی سطح کی خطرناک حدوں کو چھونے لگیںگے۔ آئی ایم ایف اور غیر ملکی قرضوں کی مدد سے زرمبادلہ کا قائم کیا جانے والا یہ تاریخی ریکارڈ صرف چند لمحوں میں ریت کی دیوار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ زرمبادلہ کے یہ ذخائر کسی ٹھوس حکمتِ عملی اور پالیسی کا نتیجہ نہیں ہیں۔

یہ ایک ایسے سراب کی مانند ہے جو تیزہوا کے جھونکوں کی تاب نہ لا کر اچانک ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ دوسری طرف عالمی قوتیں پاک چائنا کوریڈور کے منصوبے کو سبوتاژکرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ یہ منصوبہ کسی طور مکمل ہو۔ اُسے ناکام بنانے کے لیے وہ مسلسل سازشیں کر رہی ہیں۔ ہمارے مستقبل کا سارا دارومدار اب صرف اِسی ایک منصوبے سے وابستہ ہے، اگر یہ ناکام ہو گیا تو پھر ہمارے سارے خواب خزاں کے پتوں کی طرح بکھرکے رہ جائیں گے۔ ہمیں اِس کی حفاظت ہر قیمت پر کرنا ہو گی۔

ملک کے اندر بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ اور عدم استحکام ہمیں کہیں نامرادیوں کے بھنور میں تو دھکیل نہیں دیگا۔ دشمن ہمیں نیست و نابود کرنے پر تلاہوا ہے اور ہم آپس میں دست وگریباں ہوئے جا رہے ہیں۔ پانامہ لیکس کے معاملے کو اتنا طول نہ دیا جائے کہ وطن عزیز کی سا لمیت اور وحدانیت ہی خطروں سے دوچار ہو جائے۔ ایک طرف ملک کے اندر مردم شماری مسلسل تاخیر کا شکار ہے جسے اگر اِس سال مکمل نہ کیا گیا تو صوبوں کے درمیان بدگمانی کے سبب وفاق کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ارکان کے انتخاب کا معاملہ ہے جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو معامہ فہمی اور وسیع النظری سے کام لینا ہو گا۔ یہ ایک ایسا آئینی معاملہ ہے جو اپوزیشن کی رضامندی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اِسے اگر مل بیٹھ کر فوراً حل نہ کیا گیا تو پھر اگلے الیکشن کا انعقاد ہی ناممکن ہو جائے گا۔ آنے والے دنوں کے مذکورہ بالا ملکی اور بیرونی خطرات اتنے گھمبیردکھائی دیتے ہیں کہ اگر اِن سے نمٹنے کے لیے فوری کوئی انتظام نہ کیا گیا تو پھرہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ عالمی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں افہام تفہیم، ملی یکجہتی اور قومی یگانت کی ضرورت ہے۔ ہم نے اب بھی اگر ہوش سے کام نہ لیا تو پھر نہ حکمرانوں کے ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ اُس کے مخالفوں کے۔ ہم اپنی ناکامیوں اور نامرادیوںکو صرف کوستے ہی رہ جائیں گے۔
Load Next Story