سپریم کورٹ نے کراچی میں ہورڈنگز ہٹانے کے لئے توسیع کی درخواست مسترد کردی
ہرسال سیکڑوں لوگ بل بورڈز گرنے سے مرجاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اللہ کی مرضی تھی، چیف جسٹس
لاہور:
سپریم کورٹ نے کراچی میں بل بورڈز اور ہورڈنگز30 جون تک ہٹانے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئےتاریخ میں توسیع دینے کی تشہیری کمپنیوں کی درخواست مسترد کر دی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی میں بل بورڈ ہٹانے کے فیصلے کے خلاف تشہیری کمپنیوں کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پیڈ سٹرین برج عوامی مقامات میں نہیں آتے، یہ پل لوگوں نے اپنے فنڈ سے بنائے ہیں، سندھ حکومت کے پاس فنڈز نہیں تھے، برج کے ٹھیکے سندھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت دیئے گئے ہیں، اس سلسلے میں کمپنیوں کو سنے بغیر بل بورڈز ہٹانے کا فیصلہ دیا گیا۔
جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ اگر فنڈز نہیں تو کیا سندھ حکومت منشیات بیچنے کی بھی اجازت دے دے گی۔ عدالت نے فیصلہ انسانی جانوں اور املاک کو بچانے کے لئے دیا گیا، سندھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ سے بڑھ کر کچھ نہیں، جب بل بورڈ ہٹانے کا حکم دیا اس وقت کراچی میں 5 ہزار بل بورڈز تھے عدالتی فیصلے کے بعد ان کی تعداد آٹھ ہزار ہوگئی۔ بل بورڈز گرنے سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا کیا تشہیری کمپنیاں ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہرسال مون سون میں سیکڑوں لوگ بل بورڈز گرنے سے مرجاتے ہیں اور لوگوں کے مرنے پر کہا جاتا ہے کہ اللہ کی مرضی تھی۔ عوامی مفاد کے خلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کریں گے اور متعلقہ حکام کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں گے، کراچی میں 200 ،200 فٹ کے اشتہاری کھمبے کھڑے کر رکھے ہیں مفاد عامہ کے خلاف کوئی بھی اقدام برداشت نہیں کریں گے،ایک زندگی بچانے کے لیے جتنے بورڈز بھی گرانے پڑے تو گرائیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے دلائل سننے کے بعد بل بورڈ ہٹانے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تاہم نجی کمپنیوں کو فریق بننے کی درخواست منظور کرلی ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں بل بورڈز اور ہورڈنگز30 جون تک ہٹانے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئےتاریخ میں توسیع دینے کی تشہیری کمپنیوں کی درخواست مسترد کر دی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی میں بل بورڈ ہٹانے کے فیصلے کے خلاف تشہیری کمپنیوں کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پیڈ سٹرین برج عوامی مقامات میں نہیں آتے، یہ پل لوگوں نے اپنے فنڈ سے بنائے ہیں، سندھ حکومت کے پاس فنڈز نہیں تھے، برج کے ٹھیکے سندھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت دیئے گئے ہیں، اس سلسلے میں کمپنیوں کو سنے بغیر بل بورڈز ہٹانے کا فیصلہ دیا گیا۔
جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ اگر فنڈز نہیں تو کیا سندھ حکومت منشیات بیچنے کی بھی اجازت دے دے گی۔ عدالت نے فیصلہ انسانی جانوں اور املاک کو بچانے کے لئے دیا گیا، سندھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ سے بڑھ کر کچھ نہیں، جب بل بورڈ ہٹانے کا حکم دیا اس وقت کراچی میں 5 ہزار بل بورڈز تھے عدالتی فیصلے کے بعد ان کی تعداد آٹھ ہزار ہوگئی۔ بل بورڈز گرنے سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا کیا تشہیری کمپنیاں ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہرسال مون سون میں سیکڑوں لوگ بل بورڈز گرنے سے مرجاتے ہیں اور لوگوں کے مرنے پر کہا جاتا ہے کہ اللہ کی مرضی تھی۔ عوامی مفاد کے خلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کریں گے اور متعلقہ حکام کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں گے، کراچی میں 200 ،200 فٹ کے اشتہاری کھمبے کھڑے کر رکھے ہیں مفاد عامہ کے خلاف کوئی بھی اقدام برداشت نہیں کریں گے،ایک زندگی بچانے کے لیے جتنے بورڈز بھی گرانے پڑے تو گرائیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے دلائل سننے کے بعد بل بورڈ ہٹانے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تاہم نجی کمپنیوں کو فریق بننے کی درخواست منظور کرلی ہے۔