ذرا سوچئے
اس وقت ملک حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی مناقشے کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے
KARACHI:
اس وقت ملک حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی مناقشے کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے ایسے میں عوام حیران و پریشان ملک کی سلامتی کو خطرے میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہمارے دشمن نے ملک کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ ملک حالت جنگ میں ہے مگر ایسے نازک وقت میں حکومت اور حزب اختلاف اپنی سیاسی جنگ کو طول دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
حقیقتاً ملک کو اس وقت جتنی سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے پہلے بھی ملک میں تین دفعہ جمہوریت کی بساط الٹ چکی ہے۔ اب بھی بعض سیاستدان کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت سے تو مارشل لا بہتر ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھی ہمارے ملک سے زیادہ دگرگوں حالات ہیں۔ نریندر مودی نے اقتدار سنبھال کر ملک کو مذہبی تشدد کی آگ میں جھونک دیا ہے ملک میں غنڈہ راج ہے خاص طور پر اقلیتوں کا برا حال ہے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔
گائے کو انسانوں سے زیادہ قیمتی اور مقدس قرار دے دیا گیا ہے، عام بھارتیوں کے حالات بد سے بتر ہیں۔ مودی نے اپنے بلند و بانگ انتخابی وعدوں کو اب دو سال گزرنے کے بعد بھی پورا نہیں کیا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، غربت بڑھ رہی ہے ،کسانوں کی خودکشیاں روز کا معمول بن گئی ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر ہے۔ شرح نمو مسلسل گر رہی ہے، حکومت کے وزیروں اور مشیروں پر کرپشن کے الزامات ہیں خود وزیرخارجہ سشما سوراج کرپشن کی زد میں ہیں مگر اس کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام ہے حالانکہ کانگریس سمیت تمام ہی سیاسی پارٹیاں حکومتی انتہا پسندانہ پالیسیوں سے سخت بیزار ہیں مگر منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے ملک کے کسی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔
دراصل ہمارے سیاستدانوں میں صبر کا مادہ مفقود ہے۔ مارشل لا میں اعلیٰ عہدے مل جانے کی وجہ سے وہ آمرانہ حکومتوں کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ملک جمہوریت کی ہی پیداوار ہے اور ملک میں جمہوریت کی بقا کی خاطر ہمارے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادات سے مزین ہونا ہو گا جب کہ بھارت میں اب تک جمہوریت پنپ رہی ہے۔ وہاں اندرا گاندھی کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے کے وقت بھی کسی سیاستدان نے مارشل لا کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔
وہاں اندرا گاندھی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا جو بالکل درست تھا لیکنان کی دھاندلی پر اپوزیشن نہ سڑکوں پر آئی نہ دھرنا دیا بلکہ اندرا گاندھی کے خلاف الٰہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرا دیا۔ چونکہ الیکشن میں واقعی دھاندلی کی گئی تھی چنانچہ عدالت نے اندرا گاندھی کو وزیر اعظم کے منصب سے ہی برطرف کر دیا تھا مگر اندرا گاندھی نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور اس طرح اپنے والد پنڈت جواہر لال نہرو کے ملک میں قائم کردہ جمہوری نظام کے چہرے پر سیاہ دھبہ لگا دیا تھا۔ ایمرجنسی میں چونکہ آئین معطل تھا چنانچہ اندرا گاندھی نے خوب من مانی کی اور اپنے دشمنوں سے دل کھول کر بدلہ لیا اس وقت ملک کی ساری سیاسی جماعتیں اندرا کے خلاف تھیں مگر وہ ملک کی جمہوری اقدار کی پھر بھی پاسدار تھیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے دشمن خود ہمارے سیاستدان ہیں کیونکہ یہاں کوئی بھی فوجی حکومت سیاستدانوں کی دعوت کے بغیر قائم نہیں ہوئی۔ کیا قوم بھٹو کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لیے پروفیسر غفور وغیرہ کی درخواست کو بھول گئی۔ اسی طرح میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف پرویز مشرف کو دعوت دینے والوں میں بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان پیش پیش تھے۔ اس وقت بھی بعض سیاستدان حالات کو اسی ڈگر پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اب ایسا نہیں لگتا کہ ہماری فوج اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے ہٹ کر ملکی انتظامی معاملات میں خود کو الجھانا چاہے گی۔
افغانستان والے 1893 کی ڈیورنڈ لائن کو اپنی سرحد گردان رہے ہیں جب کہ اس وقتی سرحد کا انگریزوں کے برصغیر کو چھوڑنے کے بعد سے ہی خاتمہ ہو چکا تھا۔ اب تو موجودہ سرحد ہی دونوں ممالک کی اصل سرحد ہے جسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے یہ لوگ اگر بھارت کی شہ پر اس انوکھی منطق سے باز نہیں آئے تو پھر ہم تو 1893ء سے بھی پہلے والی برصغیر کی سرحدوں کی بات کر سکتے ہیں۔ مغلیہ دور میں تو پورا افغانستان برصغیر کا حصہ تھا تو موجودہ افغانستان کو اب 1947ء کی تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان کا ہی حصہ قرار دیا جائے گا۔ افغان حکمرانوں کو بھارت کے بجائے اپنی عقل سے کام لینا ہو گا بھارت محض پاکستان مخالفت میں افغانستان کو استعمال کر کے اس کا تشخص پامال کر رہا ہے۔
جہاں تک طورخم میں پاک سرحد پر گیٹوں کی تنصیب کا معاملہ ہے وہ پاکستان کا حق ہے مگر سوال یہ ہے کہ گیٹوں کی تنصیب سے افغان حکمرانوں کو تکلیف کیوں ہے؟ اس سے تو خود انھیں فائدہ ہو گا۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک میں دہشت گردی میں کمی ہو گی، اسمگلنگ کی روک تھام ہو سکے گی اور ناپسندیدہ عناصر کی آمد و رفت کو روکا جا سکے گا۔ بہرحال گیٹ کی تنصیب کو روکنے سے پوری دنیا پر آشکار ہو چکا ہے کہ افغان حکمران دہشت گردوں کے آلہ کار بن چکے ہیں اور وہ دہشت گردی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ حامد کرزئی نے حال ہی میں بی بی سے کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ خطے میں بھارت ایران اور افغانستان کا اتحاد بن رہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اس میں شامل ہو جائے۔
کرزئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت خود ایک غریب ملک ہے مگر اس نے افغانستان کو مالا مال کر دیا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ خطے میں امن کی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے مگر وہ بھارتی حکمرانوں کی اصلیت سے باخبر ہے وہ ہمیشہ سے بغل میں چھری اور منہ پر رام رام والی چال چل رہے ہیں۔ ایران اور افغانستان کو نوازنے اور اب ان سے دوستانہ تعلقات کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی وجہ صرف پاکستان دشمنی ہے۔ افغانستان تو خیر پہلے سے ہی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے مگر اب ایران کو بھی افغانستان کی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ایرانی قیادت بھارت کی عیاریوں سے خوب واقف ہے۔
چین اور پاکستان معاشی مفاہمت کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت نے بھی تو امریکا کے دشمن نمبر ایک روس سے گہرے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور ان میں تو باہم امریکی بالادستی کے خلاف لڑنے کا معاہدہ بھی موجود ہے۔ جب امریکا کو اس کے باوجود بھارت سے کوئی گلہ نہیں ہے تو پھر پاک چین دوستی کو بھی بھارت کے بہکاوئے میں آ کر مسئلہ نہ بنایا جائے۔ امریکا یاد رکھے کہ اسے پاکستان سے زیادہ وفادار دوست کوئی اور نہیں مل سکتا۔
اس وقت ملک حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی مناقشے کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے ایسے میں عوام حیران و پریشان ملک کی سلامتی کو خطرے میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہمارے دشمن نے ملک کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ ملک حالت جنگ میں ہے مگر ایسے نازک وقت میں حکومت اور حزب اختلاف اپنی سیاسی جنگ کو طول دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
حقیقتاً ملک کو اس وقت جتنی سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے پہلے بھی ملک میں تین دفعہ جمہوریت کی بساط الٹ چکی ہے۔ اب بھی بعض سیاستدان کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت سے تو مارشل لا بہتر ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھی ہمارے ملک سے زیادہ دگرگوں حالات ہیں۔ نریندر مودی نے اقتدار سنبھال کر ملک کو مذہبی تشدد کی آگ میں جھونک دیا ہے ملک میں غنڈہ راج ہے خاص طور پر اقلیتوں کا برا حال ہے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔
گائے کو انسانوں سے زیادہ قیمتی اور مقدس قرار دے دیا گیا ہے، عام بھارتیوں کے حالات بد سے بتر ہیں۔ مودی نے اپنے بلند و بانگ انتخابی وعدوں کو اب دو سال گزرنے کے بعد بھی پورا نہیں کیا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، غربت بڑھ رہی ہے ،کسانوں کی خودکشیاں روز کا معمول بن گئی ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر ہے۔ شرح نمو مسلسل گر رہی ہے، حکومت کے وزیروں اور مشیروں پر کرپشن کے الزامات ہیں خود وزیرخارجہ سشما سوراج کرپشن کی زد میں ہیں مگر اس کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام ہے حالانکہ کانگریس سمیت تمام ہی سیاسی پارٹیاں حکومتی انتہا پسندانہ پالیسیوں سے سخت بیزار ہیں مگر منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے ملک کے کسی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔
دراصل ہمارے سیاستدانوں میں صبر کا مادہ مفقود ہے۔ مارشل لا میں اعلیٰ عہدے مل جانے کی وجہ سے وہ آمرانہ حکومتوں کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ملک جمہوریت کی ہی پیداوار ہے اور ملک میں جمہوریت کی بقا کی خاطر ہمارے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادات سے مزین ہونا ہو گا جب کہ بھارت میں اب تک جمہوریت پنپ رہی ہے۔ وہاں اندرا گاندھی کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے کے وقت بھی کسی سیاستدان نے مارشل لا کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔
وہاں اندرا گاندھی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا جو بالکل درست تھا لیکنان کی دھاندلی پر اپوزیشن نہ سڑکوں پر آئی نہ دھرنا دیا بلکہ اندرا گاندھی کے خلاف الٰہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرا دیا۔ چونکہ الیکشن میں واقعی دھاندلی کی گئی تھی چنانچہ عدالت نے اندرا گاندھی کو وزیر اعظم کے منصب سے ہی برطرف کر دیا تھا مگر اندرا گاندھی نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور اس طرح اپنے والد پنڈت جواہر لال نہرو کے ملک میں قائم کردہ جمہوری نظام کے چہرے پر سیاہ دھبہ لگا دیا تھا۔ ایمرجنسی میں چونکہ آئین معطل تھا چنانچہ اندرا گاندھی نے خوب من مانی کی اور اپنے دشمنوں سے دل کھول کر بدلہ لیا اس وقت ملک کی ساری سیاسی جماعتیں اندرا کے خلاف تھیں مگر وہ ملک کی جمہوری اقدار کی پھر بھی پاسدار تھیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے دشمن خود ہمارے سیاستدان ہیں کیونکہ یہاں کوئی بھی فوجی حکومت سیاستدانوں کی دعوت کے بغیر قائم نہیں ہوئی۔ کیا قوم بھٹو کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لیے پروفیسر غفور وغیرہ کی درخواست کو بھول گئی۔ اسی طرح میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف پرویز مشرف کو دعوت دینے والوں میں بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان پیش پیش تھے۔ اس وقت بھی بعض سیاستدان حالات کو اسی ڈگر پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اب ایسا نہیں لگتا کہ ہماری فوج اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے ہٹ کر ملکی انتظامی معاملات میں خود کو الجھانا چاہے گی۔
افغانستان والے 1893 کی ڈیورنڈ لائن کو اپنی سرحد گردان رہے ہیں جب کہ اس وقتی سرحد کا انگریزوں کے برصغیر کو چھوڑنے کے بعد سے ہی خاتمہ ہو چکا تھا۔ اب تو موجودہ سرحد ہی دونوں ممالک کی اصل سرحد ہے جسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے یہ لوگ اگر بھارت کی شہ پر اس انوکھی منطق سے باز نہیں آئے تو پھر ہم تو 1893ء سے بھی پہلے والی برصغیر کی سرحدوں کی بات کر سکتے ہیں۔ مغلیہ دور میں تو پورا افغانستان برصغیر کا حصہ تھا تو موجودہ افغانستان کو اب 1947ء کی تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان کا ہی حصہ قرار دیا جائے گا۔ افغان حکمرانوں کو بھارت کے بجائے اپنی عقل سے کام لینا ہو گا بھارت محض پاکستان مخالفت میں افغانستان کو استعمال کر کے اس کا تشخص پامال کر رہا ہے۔
جہاں تک طورخم میں پاک سرحد پر گیٹوں کی تنصیب کا معاملہ ہے وہ پاکستان کا حق ہے مگر سوال یہ ہے کہ گیٹوں کی تنصیب سے افغان حکمرانوں کو تکلیف کیوں ہے؟ اس سے تو خود انھیں فائدہ ہو گا۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک میں دہشت گردی میں کمی ہو گی، اسمگلنگ کی روک تھام ہو سکے گی اور ناپسندیدہ عناصر کی آمد و رفت کو روکا جا سکے گا۔ بہرحال گیٹ کی تنصیب کو روکنے سے پوری دنیا پر آشکار ہو چکا ہے کہ افغان حکمران دہشت گردوں کے آلہ کار بن چکے ہیں اور وہ دہشت گردی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ حامد کرزئی نے حال ہی میں بی بی سے کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ خطے میں بھارت ایران اور افغانستان کا اتحاد بن رہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اس میں شامل ہو جائے۔
کرزئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت خود ایک غریب ملک ہے مگر اس نے افغانستان کو مالا مال کر دیا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ خطے میں امن کی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے مگر وہ بھارتی حکمرانوں کی اصلیت سے باخبر ہے وہ ہمیشہ سے بغل میں چھری اور منہ پر رام رام والی چال چل رہے ہیں۔ ایران اور افغانستان کو نوازنے اور اب ان سے دوستانہ تعلقات کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی وجہ صرف پاکستان دشمنی ہے۔ افغانستان تو خیر پہلے سے ہی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے مگر اب ایران کو بھی افغانستان کی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ایرانی قیادت بھارت کی عیاریوں سے خوب واقف ہے۔
چین اور پاکستان معاشی مفاہمت کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت نے بھی تو امریکا کے دشمن نمبر ایک روس سے گہرے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور ان میں تو باہم امریکی بالادستی کے خلاف لڑنے کا معاہدہ بھی موجود ہے۔ جب امریکا کو اس کے باوجود بھارت سے کوئی گلہ نہیں ہے تو پھر پاک چین دوستی کو بھی بھارت کے بہکاوئے میں آ کر مسئلہ نہ بنایا جائے۔ امریکا یاد رکھے کہ اسے پاکستان سے زیادہ وفادار دوست کوئی اور نہیں مل سکتا۔