ہمارا صوبے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں خواجہ اظہار الحسن
آئندہ وزیراعلیٰ سندھ ہماری طرف سے ہوگا، اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہےکہ ہمارا صوبے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں اور ہماری سوچ کو دھونس، دھمکی اور دھاندلی سے قید نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے فنڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ کرپشن کی نذر ہونے کا خدشہ ہے، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے لیے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں 80 کروڑ کی تعمیرات ہوں گی، کیا وہاں اکبر بادشاہ کی یادگار تعمیر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے 5 ارب کاٹ کر تھر کے باسیوں کو دیئے جائیں۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم خوشی سے صوبے کا مطالبہ نہیں کرتے، ہماری سوچ کو دھونس، دھمکی اور دھاندلی سے قید نہیں کیا جاسکتا، ہمارا صوبے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں ہے، اب سندھ میں ہوگا ایسے گزارا آدھا تمہارا آدھا ہمارا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری دوریاں ختم کرنے کے لیے نائن زیرو آئے، ہم مفاہمت کی پالیسی کے تحت آپ کے پیچھے بھاگتے رہے اور 5 سال تک مفاہمتی عمل کے طور پر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی بھرتی کی پالیسی تبدیل ہونی چاہیے، صوبائی حکومت کے 38 محکمے ہیں جن میں کراچی کا حصصرف 2 فیصد حصہ سرکاری نوکریوں میں ہے، صوبائی حکومت پر لسانی بنیادوں پر نوکریاں دینے کا الزام ہے، سندھ حکومت کے خلاف عدالت جاؤں گا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا اسمبلی میں کہا گیا کہ خواجہ اظہار سندھ کا وزیراعلیٰ نہیں ہوسکتا کیونکہ اسے سندھی بولنا نہیں آتی، اس طرح تو قائد اعظم، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح بھی سندھ کے وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے تھے، بلوچ، سندھی، پٹھان اور اردو بولنے والے بھی وزیراعلیٰ ہوسکتے ہیں اور ہمارے اختیار میں ہوا تو ان قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی وزیراعلیٰ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا کوئی بھی افسر کام کرنے کو تیار نہیں ہے، 2018 میں بیوروکریٹس سے میں نے کام لینا ہے کیونکہ آئندہ وزیراعلیٰ بھی اس طرف کا ہوگا۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ رینجرز کے خلاف قرارداد ہم نہیں لائے بلکہ پراسیکیوشن بل حکومت لائی تھی، ایک قرار داد نے رینجرز کی جے آئی ٹیز کو گم کردیا، رینجرز کی پانی چوری سے متعلق جے آئی ٹی کہاں گئی۔ انہوں نے کہا کہ نیب تحقیقات کرتی ہے اور فائلیں بند کرتی ہے، ہمیں سندھ میں نیب کی کوئی ضرورت نہیں، ڈی جی نیب اپنا دفتر اٹھا کر اسلام آباد لے جائیں اور سندھ میں اس ادارے کو بند کردیا جائے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے فنڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ کرپشن کی نذر ہونے کا خدشہ ہے، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے لیے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں 80 کروڑ کی تعمیرات ہوں گی، کیا وہاں اکبر بادشاہ کی یادگار تعمیر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے 5 ارب کاٹ کر تھر کے باسیوں کو دیئے جائیں۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم خوشی سے صوبے کا مطالبہ نہیں کرتے، ہماری سوچ کو دھونس، دھمکی اور دھاندلی سے قید نہیں کیا جاسکتا، ہمارا صوبے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں ہے، اب سندھ میں ہوگا ایسے گزارا آدھا تمہارا آدھا ہمارا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری دوریاں ختم کرنے کے لیے نائن زیرو آئے، ہم مفاہمت کی پالیسی کے تحت آپ کے پیچھے بھاگتے رہے اور 5 سال تک مفاہمتی عمل کے طور پر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی بھرتی کی پالیسی تبدیل ہونی چاہیے، صوبائی حکومت کے 38 محکمے ہیں جن میں کراچی کا حصصرف 2 فیصد حصہ سرکاری نوکریوں میں ہے، صوبائی حکومت پر لسانی بنیادوں پر نوکریاں دینے کا الزام ہے، سندھ حکومت کے خلاف عدالت جاؤں گا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا اسمبلی میں کہا گیا کہ خواجہ اظہار سندھ کا وزیراعلیٰ نہیں ہوسکتا کیونکہ اسے سندھی بولنا نہیں آتی، اس طرح تو قائد اعظم، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح بھی سندھ کے وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے تھے، بلوچ، سندھی، پٹھان اور اردو بولنے والے بھی وزیراعلیٰ ہوسکتے ہیں اور ہمارے اختیار میں ہوا تو ان قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی وزیراعلیٰ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا کوئی بھی افسر کام کرنے کو تیار نہیں ہے، 2018 میں بیوروکریٹس سے میں نے کام لینا ہے کیونکہ آئندہ وزیراعلیٰ بھی اس طرف کا ہوگا۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ رینجرز کے خلاف قرارداد ہم نہیں لائے بلکہ پراسیکیوشن بل حکومت لائی تھی، ایک قرار داد نے رینجرز کی جے آئی ٹیز کو گم کردیا، رینجرز کی پانی چوری سے متعلق جے آئی ٹی کہاں گئی۔ انہوں نے کہا کہ نیب تحقیقات کرتی ہے اور فائلیں بند کرتی ہے، ہمیں سندھ میں نیب کی کوئی ضرورت نہیں، ڈی جی نیب اپنا دفتر اٹھا کر اسلام آباد لے جائیں اور سندھ میں اس ادارے کو بند کردیا جائے۔