انصاف کے لیے دھرنا

جمعے کی شب جو تقریر انھوں نے کی وہ ماڈل ٹاؤن کے علاوہ سیاسی، عسکری، معاشی اور سفارتی پہلو کی عکاس تھی

anisbaqar@hotmail.com

ڈاکٹر طاہر القادری نے 17 جون کی شب لاہور کے مال روڈ پر احتجاجی دھرنا دیا، یہ دھرنا اس دن کی یاد میں تھا کہ ٹھیک آج سے دو برس قبل پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی جن میں سیکڑوں کارکن زخمی اور 14کارکن شہید ہوئے۔ جمعے کی شب جو تقریر انھوں نے کی وہ ماڈل ٹاؤن کے علاوہ سیاسی، عسکری، معاشی اور سفارتی پہلو کی عکاس تھی، سیاسی پہلو پر انھوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان خارجہ امور پر بالکل ناپسندیدہ قرار پایا اور وہ سیاسی میدان میں اکیلا رہ گیا ہے۔پاکستان کے تین ہمسایے ہیں ایک تو ان کا روایتی مخالف بھارت تھا اور ہے دوسرے مزید افغانستان اور ایران یہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔

70 سال کی پاک افغان سرحدی جھڑپ ایسی کبھی نہ ہوئی کہ جس میں ہمارا ایک میجر جواد چنگیزی شہید ہوا یہ ظاہر جیسا آج نمایاں ہوا۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ آج کی دنیا اور عالمی دباؤ بھی ہم پر تھا لیکن ایسے واقعات ماضی میں کبھی نہ ہوئے تھے، اس سے سفارتکاری کی کمزوری ظاہر ہے کیونکہ سفارتکاری کی جو صلاحیت موجود ہونی تھی وہ موجود نہیں، اگر یوں ہی قرضوں میں اضافہ ہوتا گیا تو ڈر اس بات کا ہے کہ پاکستان کہیں ڈی فالٹ نہ ہو جائے یہ باتیں طاہر القادری نے اعدادوشمار کے ذریعے کی تھیں اور اس کا کوئی جواب حکومت نے نہ دیا، بس ملک کو قرضوں پر نہیں چلایا جاتا اور نہ ہی ایسے ملک کی بنیاد ہی کمزور تر ہوتی جاتی ہے۔

سفارتکاری کے محاذ پر ایسا نہیں ہے کہ چین اور بھارت کے مابین کوئی تضاد نہیں بلکہ تجارت کا توازن خاصا بہتر ہے، ایسا نہیں کہ دونوں میں کسی قسم کی کشیدگی ہے جب کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے سپلائی گروپ کے اعتبار سے اس کی پوزیشن نمایاں بہتر ہے کیونکہ امریکا بھارت کا حاشیہ بردار ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ بھارت دنیا کی مڈل کلاس کی ابھرتی مارکیٹ ہے، جس میں 40 فیصد مڈل کلاس صارف ہے ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں صارفین کا اور وہ بھی مڈل کلاس کنزیومر بڑی قوت کا حامل ہے وہ الگ بات ہے کہ موجودہ لیڈرشپ بھارت کو کس طرف دھکیل سکتی ہے بہرحال بھارت اپنی معاشی پوزیشن کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے جب کہ ہم قرضوں میں دھنسے جا رہے ہیں اب صرف ایک ہی راہ نجات ہے پاکستان کی وہ ہے چین پاکستان کی راہداری اور اس کا مستقبل بلوچستان کی صورتحال سے منسلک ہے وہاں کی بہتری اور امن و امان کی صورت حال پر منحصر ہے یہ ذمے داری بھی فوج کے کاندھوں پر ہے۔

ممکن ہے کہ کچھ مزید سیاسی طور پر حالات میں بہتری آئے تو ترقی کا کام پایہ تکمیل کو پہنچے بھارت نے نہایت چابک دستی سے سعودی عرب اور گلف اسٹیٹس سے تعلقات بہتر بنائے ہیں جب کہ بقول علامہ طاہر القادری ہماری موجودہ حکومت نے ذاتی تعلقات میں قربت پیدا کی ہے یہ نہیں کہ ملکی سطح پر تعلقات استوارکیے ہوں کیونکہ بھارتی باشندے ان کے ملک میں خاصی بڑی تعداد میں کام کر رہے ہیں ورنہ اسرائیل بھارت سعودی عرب کے مابین بہترین تعلقات نہ ہوتے۔ صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے ماؤ نواز باغیوں کو میزو رام، جھاڑکھنڈ اور باغی علاقوں میں بھارتی فوج کو اسرائیلی تربیت کر رہے ہیں، یورپی یونین بھی بھارت کے ساتھ ہے۔

اس طرح پاکستان یک و تنہا رہ گیا اور وہ مزید کمزور پوزیشن پر محض چین کی طرف چلا جا رہا ہے کیونکہ ہم متبادل راستوں پر نہیں چل رہے ہیں ہر سودا ایک ملک سے کرنا کوئی اچھا عمل نہیں ہے اس طرح ایک چھوٹا ملک جب ایک توانا معیشت والے اور کثیر آبادی اور سیاسی اور عسکری ملک کی طرف جھکتا چلا جاتا ہے اور سارا دارومدار ایک ملک پر ہو جاتا ہے تو پھر وہ نو آبادیاتی طرز کی شکل دھار لیتا ہے جیسا کہ امریکا ہر روز ایک نیا مطالبہ ہم سے کرتا ہے ابھی 18 جون کو بھی (Do More) ڈو مور مزید کارروائی حقانی نیٹ ورک کے لیے آئی ہے، اللہ اللہ کر کے طورخم بارڈر پر حالات معمول پر آ گئے ہیں البتہ ایران کے صدر روحانی نے ایک پیشرفت کی ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کی صحت یابی کی توقع اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے جو ایک بہتری کی علامت ہے۔


یہ چھوٹی چھوٹی خبریں ہی خارجہ امور کی بنیاد ہوتی ہیں۔ ایک باریک بات میں تحریر کر رہا ہوں کہ چین اور روس کے تعلقات سیاسی اور عسکری طور پر قریب تر ہیں اور شمالی کوریا کی پابندیوں کے باوجود جو سانس آ رہی ہے وہ محض چین اور روس کے تعاون کی وجہ سے ہے، لہٰذا جب امریکا پر روس اور چین دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تو وہ شمالی کوریا کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہیں لہٰذا یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ روس اور چین کی کیا منشا ہے اور مڈل ایسٹ اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں روس کی سیاست کیا کہہ رہی ہے۔

امریکا نے مصر میں فوجی بغاوت کیوں کروائی اور اس کی کیا کیفیت تھی اور اگر اس موقعے پر فوج ملک کا اقتدار نہ سنبھالتی تو خانہ جنگی کے حالات پیدا ہو رہے تھے، ہر گلی میں موافقت اور مخالفت کا منظر تھا، یہ الگ بات ہے کہ محمد مرسی کے حامی زیادہ تعداد میں تھے لہٰذا ملک خانہ جنگی کی جانب جا رہا تھا اس لیے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جنرل سیی سیی کو اقتدار سنبھالنا پڑا۔ جب کڑی یہاں آ کے پھنستی ہے تو پھر فوج کو ملکی بقا کی خاطر کودنا پڑتا ہے۔ شہر لاہور میں مصنوعی طور پر بہتری آئی ہے سڑکیں، سواری، صفائی ستھرائی اور روز مرہ کے معاملات میں کچھ بہتری ہے مگر مہنگائی میں اضافہ سے عام انسان کی زندگی تکلیف میں ہی گزر رہی ہے۔

چھوٹو گینگ، لا اینڈ آرڈر کی پوزیشن خراب تر ہو گئی ہے اب تک تو جرائم اور قتل و غارت، ڈاکا زنی میں کراچی ہی سرفہرست تھا مگر اب پنجاب خصوصاً لاہور اور ملتان کی پوزیشن خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور پھر ٹی وی کے جو ٹاک شو ہو رہے ہیں، وہ پانامہ لیک کے بعد یکسر بدل گئے ہیں۔ عوام الناس کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ ان کے رہنما عوام دوست نہیں، یہ اس فرانسیسی ملکہ کے طرز کی باتیں کر رہے ہیں۔ جو بولتی تھیں کہ آٹا مہنگا ہو گیا ہے تو لوگ کیک کھائیں، ویسے ہی وزیر خزانہ نے غیر ذمے دارانہ بیان دیا ہے کہ اگر دال مہنگی ہوگئی ہے تو لوگ مرغی کھائیں ان کو کون بتائے دال کو گھی کی اتنی ضرورت اور مسالہ جات کی نہیں جتنی مرغی کو ہے۔

یہ عوام سے ایک کھلا مذاق اور اس کو بھرے پیٹ کی ڈکار کہہ سکتے ہیں حکومتی رویوں میں اس قدر بداحتیاطی نے مجموعی طور پر حکومت کی ساکھ خراب کر کے رکھ دی ہے ورنہ ایک دن کے نوٹس پر اتنا بڑا مجمع ممکن نہ تھا مانا کہ جناب علامہ صاحب کی اپنی ایک ساکھ ہے اور ان کے کارکن ہیں مگر اہل جلسہ میں خواتین کا اتنا بڑا مجمع اور رمضان اور سحری کے باوجود لوگ دھرنے پر فوری طور پر تیار تھے اور عام لوگ جو جلسہ گاہ میں موجود تھے وہ بھی علامہ صاحب کے ہر قول کو فعل میں بدلنے پر تیار تھے، رہ گیا عام لیڈروں کا تو ان کا کہنا کیا ان کو اقتدار کی بھوک ستا رہی ہے زیادہ تر تو ایسے ہی لوگ جمع تھے ماسوائے پی ٹی آئی اور شیخ رشید کے۔ پیپلز پارٹی کی شرکت بھی بڑی معنی خیز تھی نرم گرم سیاست ان کو یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ تحریک جو جولائی اور ستمبر تک کہیں ستم گر بن جائے اس لیے وہ اس جلسہ گاہ میں شریک تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی پوزیشن موجودہ لیڈروں سے کہیں مضبوط ہے کیونکہ اسی وقت نمائش چورنگی پر بھی دھرنا تھا جو کامیاب کہا جا سکتا ہے۔

اب ڈاکٹر صاحب نے فوج کے سربراہ سے انصاف مانگا ہے اور اگر یہ صورت ویسی ہی ہوئی جیسی کہ قاہرہ کی تھی دو متصادم تنظیمیں آپس میں نبرد آزما ہوں گی تو فوج کو کچھ نہ کچھ کرنے کے امکانات نظر آتے ہیں اب دھرنا پانامہ کی قوت کے ساتھ ہو گا، لہٰذا وزیر اعظم کو عقلمندی سے کوئی قدم اٹھانا ہو گا تا کہ موجودہ صورت حال سے حکومت نکل سکے ورنہ موجودہ صورتحال سے نمٹنا آسان نہ ہو گا۔
Load Next Story