فتح مکہ عفو و درگزر کی نایاب مثال
اگر ہم امن و سکون سے لبریز نظام دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضور اکرمؐ کی سیرت طیبہ کو اپنانا ہوگا
رسول اکرمؐ نے بعثت کے بعد دعوت کا آغاز کیا تو قریش کے لوگ آپؐ کے مخالف ہوگئے۔ آپؐ کو اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ کو تکلیف و اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے۔ آپؐ کے جسد اطہر پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی۔ آپؐ پر پتھر برسائے۔ آپؐ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپؐ کے ساتھیوں کو تپتی ریت پر اور انگاروں پر لٹایا۔ آپؐ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب میں رکھ کر مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپؐ کو اپنے آبائی وطن مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ہجرت کے دوران جب آپؐ اس مقام پر پہنچے، جہاں سے مکہ کا راستہ الگ ہوتا تھا تو آپؐ کو بیت اﷲ اور اپنے وطن سے جدائی کا احساس ہوا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ''(اے پیغمبر) جس ذات نے تم پر اس قرآن کی ذمہ داری ڈالی ہے، وہ تمہیں دوبارہ اس جگہ لا کر رہے گا جو تمہارے لیے انسیت کی جگہ ہے۔''
یہ فتح مکہ کی بشارت تھی کہ یہ جدائی کچھ عرصے کے لیے ہے۔ ایک دن اﷲ آپؐ کو دوبارہ مکہ میں لائے گا، اس وقت آپؐ آزاد، غالب اور فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔
بالآخر وہ وقت آگیا جب اﷲ کا وعدہ پورا ہونا اور بشارت کا عملی ظہور ہونا تھا۔ یہ ہجرت کا آٹھواں سال اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ قریش نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تھا۔ دس رمضان کو بعد نماز عصر دس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر لے کر آپؐ فتح مکہ کے لیے نکلے۔ راستے میں مختلف لوگ لشکر کے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ جب آپؐ مقام مرالظہران پر پہنچے تو وہاں پڑاؤ ڈالا اور لشکر کو حکم دیا کہ ہر شخص اپنے خیمے کے سامنے آگ سلگائے۔ اسی دوران قریش کی طرف سے ابوسفیان، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء خبر لینے کے لیے مکہ سے نکلے۔
جب انہوں نے آگ اور لشکر کو دیکھا تو گھبرا گئے کہ یہ اتنا بڑا لشکر کس کا ہے۔ جب قریب پہنچے تو حضرت عباسؓ نے ابوسفیان سے کہا کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کا لشکر ہے، اگر وہ تم پر فتح یاب ہوگئے تو تیری گردن اڑا دیں گے۔ قریش کی اسی میں بہتری ہے کہ آپؐ سے امن کے طلب گار ہوں اور اطاعت اختیار کرلیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ پھر رہائی کی کیا صورت ہے تو حضرت عباسؓ نے ان کو سواری پر بٹھایا اور رسول اﷲ ﷺ کے پاس لے آئے۔ کچھ گفت گو کے بعد آپؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے خیمے میں لے جاؤ اور صبح میرے پاس لانا۔ صبح ہوتے ہی حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لے کر آپؐ کی خدمت میں پہنچے۔ کچھ دیر بعد ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا۔
جب آپؐ مکہ میں داخل ہونے لگے تو حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کے لے کر پہاڑ پر کھڑے ہو جائیں تاکہ لشکر اسلام کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔ اس طرح تمام قبائل ابوسفیان کے سامنے سے گزرے۔ جب کوئی قبیلہ گزرتا تو وہ تین مرتبہ نعرۂ تکبیر بلند کرتا اور حضرت عباسؓ بتاتے کہ یہ فلاں قبیلہ ہے۔ سب سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ گزرے۔ پھر مختلف دستوں کے بعد آخر میں آپؐ مہاجرین و انصار کے مسلح گروہ کے ساتھ گزرے۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زبیرؓ کے ہاتھ میں تھا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ اس عظیم لشکر کو دیکھ کر ابوسفیان بول اٹھے کہ اﷲ کی قسم آج تمہارے بھتیجے کی حکومت بہت زبردست ہو چکی ہے۔ حضرت عباسؓ نے فرمایا یہ سلطنت و حکومت نہیں بل کہ نبوت و رسالت ہے۔
انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ جب ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس کو دیکھ کر جوش میں یہ کہہ دیا کہ آج کا دن لڑائی کا دن ہے، آج کعبہ میں قتال حلال ہو جائے گا۔ ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور حضور ﷺ کو سعد بن عبادہؓ کی بات بتا کر دریافت کیا کہ کیا آ پ نے ان کو اپنی قوم کے قتل کا حکم دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ''اے ابوسفیان آج کا دن مہربانی کا دن ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ قریش کو عزت بخشے گا۔'' اور فرمایا کہ جھنڈا سعد بن عبادہؓ سے لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا جائے۔ پھر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہو جائے وہ مامون ہے، جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے وہ بھی مامون ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر دے اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہے۔
آج آپ ﷺ فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ تاریخ ایسے شواہد سے بھری پڑی ہے کہ فاتح قوم جب مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتی ہے تو ان کا سینہ تنا ہوا ہوتا ہے، گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
مفتوح قوم کی لاشوں کے انبار لگے ہوتے ہیں اور انتقام کی آگ سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ لیکن قربان جائیے اس عظیم فاتح پر، جو اس مکہ کو فتح کرنے نکلے جس میں ان پر اور ان کے ساتھیوں پر سخت ترین مظالم ڈھائے گئے، نجاستیں پھینکی گئیں، مذاق اڑایا گیا، طعنے دیے گئے، قتل کی تجویزیں منظور ہوئیں، بالآخر شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس سب کے باوجود جب آپﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے لگے تو آپ کی گردن مبارک جھکی ہوئی تھی، یہاں تک کہ ٹھوڑی مبارک سینے سے لگ رہی تھی اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپؐ عفو و امان کا اعلان فرما رہے تھے اور اس دن کو رحم کا دن قرار دے رہے تھے۔
فتح مکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ تحمل و برداشت، عفو و درگزر اور حسن سلوک کے جو مظاہر سردار دو عالمؐ کی سیرت طیبہ میں ملتے ہیں، ان کی مثال کسی اور جگہ ملنا مشکل ہے۔ افسوس کہ ہم انہی کے نام لیوا، انہی کے پیروکار اور انہی کی محبت و عقیدت کا دم بھرنے والے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ کسی مسلمان کی ادنی سی بات برداشت کرنا اور اس سے درگزر کرنا گوارا نہیں کرتے۔
اگر ہم اس دنیا میں خون ریزی، جھگڑا، فساد، انتشار، خلفشار، نااتفاقی اور انارکی سے پاک معاشرہ اور امن و سکون سے لبریز نظام دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنانا ہوگا۔ آپؐ امن کا پیغام لے کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنی عملی زندگی سے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ تاریخ عالم کے سامنے ایک مشعل راہ کی صورت میں موجود ہے جس سے روشنی حاصل کرکے سارے عالم میں امن و سکون کا بول بالا کیا جا سکتا ہے۔
ہجرت کے دوران جب آپؐ اس مقام پر پہنچے، جہاں سے مکہ کا راستہ الگ ہوتا تھا تو آپؐ کو بیت اﷲ اور اپنے وطن سے جدائی کا احساس ہوا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ''(اے پیغمبر) جس ذات نے تم پر اس قرآن کی ذمہ داری ڈالی ہے، وہ تمہیں دوبارہ اس جگہ لا کر رہے گا جو تمہارے لیے انسیت کی جگہ ہے۔''
یہ فتح مکہ کی بشارت تھی کہ یہ جدائی کچھ عرصے کے لیے ہے۔ ایک دن اﷲ آپؐ کو دوبارہ مکہ میں لائے گا، اس وقت آپؐ آزاد، غالب اور فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔
بالآخر وہ وقت آگیا جب اﷲ کا وعدہ پورا ہونا اور بشارت کا عملی ظہور ہونا تھا۔ یہ ہجرت کا آٹھواں سال اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ قریش نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تھا۔ دس رمضان کو بعد نماز عصر دس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر لے کر آپؐ فتح مکہ کے لیے نکلے۔ راستے میں مختلف لوگ لشکر کے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ جب آپؐ مقام مرالظہران پر پہنچے تو وہاں پڑاؤ ڈالا اور لشکر کو حکم دیا کہ ہر شخص اپنے خیمے کے سامنے آگ سلگائے۔ اسی دوران قریش کی طرف سے ابوسفیان، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء خبر لینے کے لیے مکہ سے نکلے۔
جب انہوں نے آگ اور لشکر کو دیکھا تو گھبرا گئے کہ یہ اتنا بڑا لشکر کس کا ہے۔ جب قریب پہنچے تو حضرت عباسؓ نے ابوسفیان سے کہا کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کا لشکر ہے، اگر وہ تم پر فتح یاب ہوگئے تو تیری گردن اڑا دیں گے۔ قریش کی اسی میں بہتری ہے کہ آپؐ سے امن کے طلب گار ہوں اور اطاعت اختیار کرلیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ پھر رہائی کی کیا صورت ہے تو حضرت عباسؓ نے ان کو سواری پر بٹھایا اور رسول اﷲ ﷺ کے پاس لے آئے۔ کچھ گفت گو کے بعد آپؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے خیمے میں لے جاؤ اور صبح میرے پاس لانا۔ صبح ہوتے ہی حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لے کر آپؐ کی خدمت میں پہنچے۔ کچھ دیر بعد ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا۔
جب آپؐ مکہ میں داخل ہونے لگے تو حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کے لے کر پہاڑ پر کھڑے ہو جائیں تاکہ لشکر اسلام کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔ اس طرح تمام قبائل ابوسفیان کے سامنے سے گزرے۔ جب کوئی قبیلہ گزرتا تو وہ تین مرتبہ نعرۂ تکبیر بلند کرتا اور حضرت عباسؓ بتاتے کہ یہ فلاں قبیلہ ہے۔ سب سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ گزرے۔ پھر مختلف دستوں کے بعد آخر میں آپؐ مہاجرین و انصار کے مسلح گروہ کے ساتھ گزرے۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زبیرؓ کے ہاتھ میں تھا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ اس عظیم لشکر کو دیکھ کر ابوسفیان بول اٹھے کہ اﷲ کی قسم آج تمہارے بھتیجے کی حکومت بہت زبردست ہو چکی ہے۔ حضرت عباسؓ نے فرمایا یہ سلطنت و حکومت نہیں بل کہ نبوت و رسالت ہے۔
انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ جب ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس کو دیکھ کر جوش میں یہ کہہ دیا کہ آج کا دن لڑائی کا دن ہے، آج کعبہ میں قتال حلال ہو جائے گا۔ ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور حضور ﷺ کو سعد بن عبادہؓ کی بات بتا کر دریافت کیا کہ کیا آ پ نے ان کو اپنی قوم کے قتل کا حکم دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ''اے ابوسفیان آج کا دن مہربانی کا دن ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ قریش کو عزت بخشے گا۔'' اور فرمایا کہ جھنڈا سعد بن عبادہؓ سے لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا جائے۔ پھر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہو جائے وہ مامون ہے، جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے وہ بھی مامون ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر دے اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہے۔
آج آپ ﷺ فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ تاریخ ایسے شواہد سے بھری پڑی ہے کہ فاتح قوم جب مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتی ہے تو ان کا سینہ تنا ہوا ہوتا ہے، گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
مفتوح قوم کی لاشوں کے انبار لگے ہوتے ہیں اور انتقام کی آگ سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ لیکن قربان جائیے اس عظیم فاتح پر، جو اس مکہ کو فتح کرنے نکلے جس میں ان پر اور ان کے ساتھیوں پر سخت ترین مظالم ڈھائے گئے، نجاستیں پھینکی گئیں، مذاق اڑایا گیا، طعنے دیے گئے، قتل کی تجویزیں منظور ہوئیں، بالآخر شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس سب کے باوجود جب آپﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے لگے تو آپ کی گردن مبارک جھکی ہوئی تھی، یہاں تک کہ ٹھوڑی مبارک سینے سے لگ رہی تھی اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپؐ عفو و امان کا اعلان فرما رہے تھے اور اس دن کو رحم کا دن قرار دے رہے تھے۔
فتح مکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ تحمل و برداشت، عفو و درگزر اور حسن سلوک کے جو مظاہر سردار دو عالمؐ کی سیرت طیبہ میں ملتے ہیں، ان کی مثال کسی اور جگہ ملنا مشکل ہے۔ افسوس کہ ہم انہی کے نام لیوا، انہی کے پیروکار اور انہی کی محبت و عقیدت کا دم بھرنے والے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ کسی مسلمان کی ادنی سی بات برداشت کرنا اور اس سے درگزر کرنا گوارا نہیں کرتے۔
اگر ہم اس دنیا میں خون ریزی، جھگڑا، فساد، انتشار، خلفشار، نااتفاقی اور انارکی سے پاک معاشرہ اور امن و سکون سے لبریز نظام دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنانا ہوگا۔ آپؐ امن کا پیغام لے کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنی عملی زندگی سے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ تاریخ عالم کے سامنے ایک مشعل راہ کی صورت میں موجود ہے جس سے روشنی حاصل کرکے سارے عالم میں امن و سکون کا بول بالا کیا جا سکتا ہے۔