والد نے میرے سر پر پستول تان دی سپر اسٹار ونود کھنہ کی کھٹی میٹھی یادیں
اداکاری کے بعد میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور بی جے پی جوائن کر لی۔
ان کے 56 سالہ کیریر میں بہت سے نشیب و فراز آئے لیکن ان کی متلون مزاجی کے باوجود ان کے فلمی سفر کی گاڑی کبھی ہم وار تو کبھی رک رک کر مگر چلتی ہی رہی۔ اپنے عروج کے دور میں جب انہیں صحیح معنوں میں امیتابھ بچن کا حریف سمجھا جانے لگا تھا تب وہ اچانک فلمی دنیا کو چھوڑ کر سکون کی خاطر ایک آشرم چلے گئے اور کئی سال گزرنے کے بعد جب وہ اس چمکتی دمکتی دنیا میں واپس لوٹے تو ان کی جگہ نئے اسٹارز نے لے لی تھی۔
اب وہ ثانوی نوعیت کے کردار کرتے رہے۔ ان کی آشرم یاترا کو لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ آج ونود کھنہ فلموں میں کیریکٹر ایکٹر کے طور پر نظر آتے ہیں، وہ اپنا اسٹار ڈم کافی عرصہ پہلے کھو چکے تھے۔ حالاںکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ وراسٹائل ایکٹر ہیں، جنہوں نے تقریباً ہر قسم کے رول بڑی عمدگی سے ادا کیے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے ماضی اور حال کے حوالے سے دل چسپ باتیں کیں، اس انٹرویو کے اقتباسات قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔
٭میں چھے اکتوبر1946کو پشاور میں پیدا ہوا۔ میرے والد بزنس مین تھے اور ان کا کیمیکل، گارمنٹس اور ڈائیز کا بزنس تھا۔ میری ماں کملا مکمل طور پر ایک گھریلو عورت خاتون تھیں۔ میں تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں۔ میری پیدائش کے ایک سال بعد ہندوستان تقسیم ہوگیا اور ہم پشاور سے انڈیا منتقل ہوگئے۔
٭ممبئی آجانے کے بعد ہم نے کچھ عرصہ اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کے گھر گزارا۔ اس دوران والد نے اپنا آفس ممبئی ہی میں کھول لیا تھا۔ میری ابتدائی تعلیم ممبئی ہی میں ہوئی۔ اسکول میں، میں اپنی ٹیچرز کا چہیتا طالب علم تھا۔ جب میں پانچویں کلاس میں تھا تب 1957میں ہم دہلی منتقل ہوگئے۔
٭دہلی میں کلاس نائن تک پڑھتا رہا۔ اس دوران اسکول میں ہونے والے مختلف اسپورٹس ایونٹس اور تھیٹر کے کئی ڈراموں میں حصہ لیتا رہا۔ 1957میں ہم دوبارہ ممبئی منتقل ہوگئے اور یہاں مجھے بورڈنگ اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ بورڈنگ اسکول کے ٹف روٹین سے اُکتا کر ان دنوں میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار اور مدھو بالا کی شہرت یافتہ فلم مغل اعظم دیکھی۔
٭میرے والد نے کبھی بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں کیا کرنا یا بننا چاہتا ہوں، بل کہ انہوں نے ہمیشہ مجھے یہ بتایا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میری مرضی یا خواہش کی کبھی اہمیت نہیں رہی۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے کالج کے دنوں میں، میں نے ان سے ویک اینڈ پارٹی کی اجازت مانگی تھی، جسے انہوں نے رد کردیا۔ ان ہی باتوں نے مجھے باغی کردیا۔ میری ماں بے چاری ہم بیٹے اور باپ کے درمیان ماحول اور تعلقات خوش گوار رکھنے کی کوشش میں ہمیشہ ہلکان ہوتی رہتی تھی۔
٭میں سائنس کا بڑا اچھا اسٹوڈنٹ تھا اور انجنیئر بننا چاہتا تھا، جب کہ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں کامرس پڑھوں اور ان کے ساتھ ان کے خاندانی بزنس میں ہاتھ بٹاؤں جب کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، کیوںکہ انہوں نے کبھی میری خواہشات اور پسند وناپسند کا خیال نہیں کیا۔ کالج کا دور میری زندگی کا بہترین دور تھا۔ ایک بے فکری اور آزادی کا احساس رہتا تھا۔ وہاں میری کئی لڑکیوں سے دوستی تھی اور کئی ایک تو مجھ سے شادی کی خواہش رکھتی تھیں۔ کالج ہی میں میری ملاقات گیتا نجلی سے ہوئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ وہ میری مزاج آشنا تھی۔ اس لیے میری تعلیم کے مکمل ہونے کے آخری مرحلے تک گیتا میرے ساتھ ہی رہی۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ اپنا کالج ختم کیا۔
٭فلمی دنیا میرے لیے ہمیشہ کشش کا باعث رہی اور میری شدید خواہش تھی کہ میں بھی اس کا حصہ بنوں۔ ایک پارٹی میں سنیل دت جی سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ان دنوں ایک فلم بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، جس کی کہانی دو بھائیوں کے گرد گھومتی تھی۔ بڑے بھائی کا رول وہ خود نبھا رہے تھے اور چھوٹے بھائی کا کردار انہوں نے مجھے آفر کیا۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، لیکن ایک بار پھر میرے والد نے میری راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی۔ انہوں نے میرے سر پر پستول تان لی کہ اگر میں نے فلمی دنیا کو جوائن کیا تو وہ مجھے شوٹ کردیں گے لیکن اس بار میں اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ میری ماں نے اس بار میری بہت مدد کی اور والد صاحب کو بھی انہوں ہی نے منایا۔ انہوں نے اس شرط پر مجھے اجازت دی کہ اگر دو سال کے عرصے میں میں فلم انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمائی کرسکتا ہوں کہ اگر مجھے کام یابی نہ مل سکی تب میں اپنا فیملی بزنس جوائن کروں گا۔ میرے لیے اتنی اجازت بھی بہت تھی۔
٭میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ میری پہلی فلم من کا میت کا مجھے بہت اچھا ریسپانس ملا اور ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے پندرہ فلمیں سائن کرلیں۔ جب کام یابیاں میرے مقدر کا بڑی تواتر سے حصہ بننے لگیں تب میں نے اور گیتا نے شادی کا فیصلہ کیا، لیکن اس وقت گھر خریدنا بہت مشکل تھا، کیوںکہ کوئی بھی کسی ایکٹر کو اپنا پڑوسی نہیں بنانا چاہتا۔
٭ ان تما تر مشکلات کے باوجود ہم نے شادی کرلی۔ ایک سال میں میرا بڑا بیٹا راہول اور اس کے بعد اکشے پیدا ہوا۔ ان دنوں ششی کپور کے بعد میں وہ دوسرا ایکٹر تھا جو اتوار کو کام نہیں کرتا تھا اور وہ سارا دن اپنے خاندان اور گھر والوں کے ساتھ گزارتا تھا۔
٭مجھے فلم انڈسٹری نے سب کچھ دیا پیسہ، شہرت، عزت، نام وری لیکن اس کے باوجود کسی چیز کی کمی کا احساس مجھے اندر ہی اندر محسوس ہوتا۔ اس لیے میں پونا میں واقع ایک آشرم میں ہر ویک اینڈ پر جایا کرتا تھا۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میری فلموں کی شوٹنگ بھی پونا ہی میں ہو۔ پھر اکتیس دسمبر1975کو میں نے فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا لیکن کسی کو بھی اس بات پر یقین نہ تھا کیوںکہ میرا کیریر اس وقت عروج پر تھا۔
٭اس آشرم کی ایک شاخ امریکا میں بھی تھی۔ میں نے وہاں چار سال کا عرصہ گزارا اور اس دوران میں میں نے اس آشرم میں مالی کام کام بھی کیا، برتن دھوئے، باتھ روم تک صاف کیے اور یہاں تک کہ کپڑوں کی دھلائی بھی کیا کرتا تھا۔
٭وہ بہت مشکل وقت تھا گیتا اور بچوں کے ساتھ میرا فون پر رابطہ رہتا تھا، لیکن میرے بچوں کے لیے یہ تعلق قابل قبول نہیں تھا۔ وہ مجھے اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں غصہ آتا تھا جب کوئی ان سے کہتا کہ تمھارا باپ اپنے گرو کے ساتھ بھاگ گیا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب میرے اور گیتا کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں اور ہم دونوں نے باہمی رضامندی سے طلاق حاصل کرلی۔ جب میں انڈیا واپس آیا تو میرے پاس کچھ نہ تھا۔
٭میں فلمی دنیا میں واپس آگیا۔ مجھے آشرم چھوڑنے کا کوئی افسوس نہ تھا۔ دکھ اس بات کا تھا کہ آشرم کے چار سال نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا، لیکن میری خوش قسمتی کہ فلمی دنیا نے ایک بار پھر ویلکم کہا اور میری فلمیں کام یاب ہونے لگیں۔
٭میں نے انڈسٹری میں بڑا پیسہ کمایا، لیکن کبھی اسے فضولیات اور عیاشی میں نہیں اڑایا میرا شوق نت نئے ماڈل کی گاڑیاں، اپارٹمنٹ اور اچھا کھانا ہے اور پیسہ بھی میں نے انہی چیزوں پر خرچ کیا ہے۔
٭پندرہ مئی 1990کو میں نے کویتا سے دوسری شادی کی۔ اس سے میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔ کویتا کی اکشے اور راہول سے بھی اچھی دوستی ہے۔ کویتا عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی ہے لیکن ہماری ذہنی ہم آہنگی ہی ہے کہ جس کی وجہ سے یہ رشتہ آج تک سلامت ہے۔
٭جب میں دیکھا کہ لوگ میرے فلمی کیریر سے مطمئن ہیں اور بہ حیثیت اداکار مجھے پسند کرتے ہیں تب میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور بی جے پی جوائن کر لی۔
٭میری فلم قربانی باکس آفس پر ایک سپر ہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے لئے مجھ سے پہلے امیتابھ کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن ان کے انکار کرنے کے بعد مجھے یہ رول آفر ہوا۔
اب وہ ثانوی نوعیت کے کردار کرتے رہے۔ ان کی آشرم یاترا کو لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ آج ونود کھنہ فلموں میں کیریکٹر ایکٹر کے طور پر نظر آتے ہیں، وہ اپنا اسٹار ڈم کافی عرصہ پہلے کھو چکے تھے۔ حالاںکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ وراسٹائل ایکٹر ہیں، جنہوں نے تقریباً ہر قسم کے رول بڑی عمدگی سے ادا کیے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے ماضی اور حال کے حوالے سے دل چسپ باتیں کیں، اس انٹرویو کے اقتباسات قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔
٭میں چھے اکتوبر1946کو پشاور میں پیدا ہوا۔ میرے والد بزنس مین تھے اور ان کا کیمیکل، گارمنٹس اور ڈائیز کا بزنس تھا۔ میری ماں کملا مکمل طور پر ایک گھریلو عورت خاتون تھیں۔ میں تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں۔ میری پیدائش کے ایک سال بعد ہندوستان تقسیم ہوگیا اور ہم پشاور سے انڈیا منتقل ہوگئے۔
٭ممبئی آجانے کے بعد ہم نے کچھ عرصہ اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کے گھر گزارا۔ اس دوران والد نے اپنا آفس ممبئی ہی میں کھول لیا تھا۔ میری ابتدائی تعلیم ممبئی ہی میں ہوئی۔ اسکول میں، میں اپنی ٹیچرز کا چہیتا طالب علم تھا۔ جب میں پانچویں کلاس میں تھا تب 1957میں ہم دہلی منتقل ہوگئے۔
٭دہلی میں کلاس نائن تک پڑھتا رہا۔ اس دوران اسکول میں ہونے والے مختلف اسپورٹس ایونٹس اور تھیٹر کے کئی ڈراموں میں حصہ لیتا رہا۔ 1957میں ہم دوبارہ ممبئی منتقل ہوگئے اور یہاں مجھے بورڈنگ اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ بورڈنگ اسکول کے ٹف روٹین سے اُکتا کر ان دنوں میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار اور مدھو بالا کی شہرت یافتہ فلم مغل اعظم دیکھی۔
٭میرے والد نے کبھی بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں کیا کرنا یا بننا چاہتا ہوں، بل کہ انہوں نے ہمیشہ مجھے یہ بتایا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میری مرضی یا خواہش کی کبھی اہمیت نہیں رہی۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے کالج کے دنوں میں، میں نے ان سے ویک اینڈ پارٹی کی اجازت مانگی تھی، جسے انہوں نے رد کردیا۔ ان ہی باتوں نے مجھے باغی کردیا۔ میری ماں بے چاری ہم بیٹے اور باپ کے درمیان ماحول اور تعلقات خوش گوار رکھنے کی کوشش میں ہمیشہ ہلکان ہوتی رہتی تھی۔
٭میں سائنس کا بڑا اچھا اسٹوڈنٹ تھا اور انجنیئر بننا چاہتا تھا، جب کہ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں کامرس پڑھوں اور ان کے ساتھ ان کے خاندانی بزنس میں ہاتھ بٹاؤں جب کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، کیوںکہ انہوں نے کبھی میری خواہشات اور پسند وناپسند کا خیال نہیں کیا۔ کالج کا دور میری زندگی کا بہترین دور تھا۔ ایک بے فکری اور آزادی کا احساس رہتا تھا۔ وہاں میری کئی لڑکیوں سے دوستی تھی اور کئی ایک تو مجھ سے شادی کی خواہش رکھتی تھیں۔ کالج ہی میں میری ملاقات گیتا نجلی سے ہوئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ وہ میری مزاج آشنا تھی۔ اس لیے میری تعلیم کے مکمل ہونے کے آخری مرحلے تک گیتا میرے ساتھ ہی رہی۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ اپنا کالج ختم کیا۔
٭فلمی دنیا میرے لیے ہمیشہ کشش کا باعث رہی اور میری شدید خواہش تھی کہ میں بھی اس کا حصہ بنوں۔ ایک پارٹی میں سنیل دت جی سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ان دنوں ایک فلم بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، جس کی کہانی دو بھائیوں کے گرد گھومتی تھی۔ بڑے بھائی کا رول وہ خود نبھا رہے تھے اور چھوٹے بھائی کا کردار انہوں نے مجھے آفر کیا۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، لیکن ایک بار پھر میرے والد نے میری راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی۔ انہوں نے میرے سر پر پستول تان لی کہ اگر میں نے فلمی دنیا کو جوائن کیا تو وہ مجھے شوٹ کردیں گے لیکن اس بار میں اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ میری ماں نے اس بار میری بہت مدد کی اور والد صاحب کو بھی انہوں ہی نے منایا۔ انہوں نے اس شرط پر مجھے اجازت دی کہ اگر دو سال کے عرصے میں میں فلم انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمائی کرسکتا ہوں کہ اگر مجھے کام یابی نہ مل سکی تب میں اپنا فیملی بزنس جوائن کروں گا۔ میرے لیے اتنی اجازت بھی بہت تھی۔
٭میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ میری پہلی فلم من کا میت کا مجھے بہت اچھا ریسپانس ملا اور ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے پندرہ فلمیں سائن کرلیں۔ جب کام یابیاں میرے مقدر کا بڑی تواتر سے حصہ بننے لگیں تب میں نے اور گیتا نے شادی کا فیصلہ کیا، لیکن اس وقت گھر خریدنا بہت مشکل تھا، کیوںکہ کوئی بھی کسی ایکٹر کو اپنا پڑوسی نہیں بنانا چاہتا۔
٭ ان تما تر مشکلات کے باوجود ہم نے شادی کرلی۔ ایک سال میں میرا بڑا بیٹا راہول اور اس کے بعد اکشے پیدا ہوا۔ ان دنوں ششی کپور کے بعد میں وہ دوسرا ایکٹر تھا جو اتوار کو کام نہیں کرتا تھا اور وہ سارا دن اپنے خاندان اور گھر والوں کے ساتھ گزارتا تھا۔
٭مجھے فلم انڈسٹری نے سب کچھ دیا پیسہ، شہرت، عزت، نام وری لیکن اس کے باوجود کسی چیز کی کمی کا احساس مجھے اندر ہی اندر محسوس ہوتا۔ اس لیے میں پونا میں واقع ایک آشرم میں ہر ویک اینڈ پر جایا کرتا تھا۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میری فلموں کی شوٹنگ بھی پونا ہی میں ہو۔ پھر اکتیس دسمبر1975کو میں نے فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا لیکن کسی کو بھی اس بات پر یقین نہ تھا کیوںکہ میرا کیریر اس وقت عروج پر تھا۔
٭اس آشرم کی ایک شاخ امریکا میں بھی تھی۔ میں نے وہاں چار سال کا عرصہ گزارا اور اس دوران میں میں نے اس آشرم میں مالی کام کام بھی کیا، برتن دھوئے، باتھ روم تک صاف کیے اور یہاں تک کہ کپڑوں کی دھلائی بھی کیا کرتا تھا۔
٭وہ بہت مشکل وقت تھا گیتا اور بچوں کے ساتھ میرا فون پر رابطہ رہتا تھا، لیکن میرے بچوں کے لیے یہ تعلق قابل قبول نہیں تھا۔ وہ مجھے اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں غصہ آتا تھا جب کوئی ان سے کہتا کہ تمھارا باپ اپنے گرو کے ساتھ بھاگ گیا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب میرے اور گیتا کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں اور ہم دونوں نے باہمی رضامندی سے طلاق حاصل کرلی۔ جب میں انڈیا واپس آیا تو میرے پاس کچھ نہ تھا۔
٭میں فلمی دنیا میں واپس آگیا۔ مجھے آشرم چھوڑنے کا کوئی افسوس نہ تھا۔ دکھ اس بات کا تھا کہ آشرم کے چار سال نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا، لیکن میری خوش قسمتی کہ فلمی دنیا نے ایک بار پھر ویلکم کہا اور میری فلمیں کام یاب ہونے لگیں۔
٭میں نے انڈسٹری میں بڑا پیسہ کمایا، لیکن کبھی اسے فضولیات اور عیاشی میں نہیں اڑایا میرا شوق نت نئے ماڈل کی گاڑیاں، اپارٹمنٹ اور اچھا کھانا ہے اور پیسہ بھی میں نے انہی چیزوں پر خرچ کیا ہے۔
٭پندرہ مئی 1990کو میں نے کویتا سے دوسری شادی کی۔ اس سے میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔ کویتا کی اکشے اور راہول سے بھی اچھی دوستی ہے۔ کویتا عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی ہے لیکن ہماری ذہنی ہم آہنگی ہی ہے کہ جس کی وجہ سے یہ رشتہ آج تک سلامت ہے۔
٭جب میں دیکھا کہ لوگ میرے فلمی کیریر سے مطمئن ہیں اور بہ حیثیت اداکار مجھے پسند کرتے ہیں تب میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور بی جے پی جوائن کر لی۔
٭میری فلم قربانی باکس آفس پر ایک سپر ہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے لئے مجھ سے پہلے امیتابھ کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن ان کے انکار کرنے کے بعد مجھے یہ رول آفر ہوا۔