وہ ایک رات
مرتجز حضرت محمدﷺنے حضرت علی علیہ ٰالسلام کو تحفہ دیا تھااوریہ وراثت میں امام عالی مقام کو میسر آیا تھا۔
یہ 1989کی بات ہے ۔میں لاہور سے شایع ہونے والے ایک قومی اخبار کی میگزین ٹیم سے بطور فیچر رائٹر وابستہ تھا۔ جناب ضیا شاہد ہمارے ایڈیٹرتھے جو میگزین کی ہفتہ وار میٹنگ کی صدارت فرمارہے تھے۔
میٹنگ کا ایجنڈا یہ تھا کہ عاشورہ محرم کی آمد پر اخبار کے خصوصی ایڈیشنز اورجمعہ میگزین کو اس طرح شایع کیا جائے کہ اس کے ادارتی مندرجات کے ساتھ،ساتھ اخبار کا بصری تاثر غم اورسوگ کی غمازی کرے ۔ ان دنوں اخبار کے نیوز صفحات کے ساتھ، ساتھ رنگین صفحات کی تیاری کے لیے بھی بڑی محنت کی جاتی تھی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت تک ملک میں اخبار اورالیکٹرانک میڈیا کی تقسیم نہیں ہوئی تھی ''اسٹار اورمیگا اسٹارصحافی'' باہم مل کر صرف اخبار کی صحافتی شان وشوکت بڑھانے پر مامور تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس میٹنگ میں ایڈیٹر صاحب نے صحافی افضال شاہد کی ادارت میں عاشورہ کے موقعے پر شایع کیے گئے جمعہ میگزین کی تعریف کرتے ہوئے ہمیں یہ ٹاسک دیاتھاکہ ہم سب کو مل کر ان جیسا شمارہ تیار کرنا ہے ۔ افضال شاہد مرحوم ان دنوں مذکورہ اخبار سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے اس لیے ہمیں یہ ٹاسک ان کی سرپرستی کے بغیر ہی سرانجام دینا تھا۔ میٹنگ میں تھوڑی بہت مشاورت سے فیچر رائٹرز سمیت مختلف ایڈیشنز کے انچارج صاحبان کو مختلف اسائن منٹس دی گئیں۔ مجھے کہاگیاکہ حضرت امام حسینؓ کی سواری ذوالجناح جسے مرتجز بھی کہاجاتاہے اس کے بارے میں کم از کم پندرہ سو سے دوہزار الفاظ پر مشتمل تفصیلی رائٹ اپ مہیا کروں گا۔مضمون میںمرتجز کا حسب نسب اور تاریخی پس منظر بیان کیاگیاہوکہ یہ امام حسینؓ کے پاس کہاں سے آیااورحضرت محمدﷺسے اس کی نسبت کیاتھی؟
مجھے یہ اندازہ تھاکہ ( مرتجز) اخبار کے لیے ایک غیر روایتی موضوع رہاہے ۔کیونکہ ا س سے قبل میں نے معروف قومی اخبارات کے خصوصی ایڈیشنز میں ذوالجناح پرکوئی تفصیلی مضمون نہیںپڑھا تھا۔لیکن میں تھوڑا مطمئن اس لیے تھاکہ میرا دوست اداکار ببوبرال مرحوم اس مضمون کی تیاری میں میری مدد کر سکتاتھا۔ببوبرال کا تعلق اہل تشیع سے تھا ، معروف شاعر اورذاکر محسن نقوی اس کے دوست تھے ۔میں نے اس بات کا ذکر ببوبرال سے کیاتو وہ مجھے امام بارگاہ کربلا گامے شاہ لے گیا جہاں میری ملاقات محسن نقوی مرحوم سے ہوئی۔محسن نقوی نے مرتجز سے متعلق جو کچھ بتایا وہ اہم تھا مگر مجھے چونکہ2000ہزارالفاظ کا مضمون لکھنا تھااس لیے ان سے پوچھاکہ اس موضوع کے حوالے سے مذید حوالہ جات کے لیے کہاںرجوع کروں؟ محسن نقوی نے مجھے کہاکہ میںمولانا نصیر الاجتہادی سے رابطہ کروں جو اتفاق سے لاہور آئے ہوئے تھے۔بڑی تگ ودو کے بعد میںمولانا سے وقت لینے میں کامیاب ہوا ۔
اجتہادی صاحب کو میں نے بتایاکہ مرتجزسے متعلق ایک تفصیلی مضمون لکھ رہاہوں،آپ جو جانتے ہیں وہ مجھے بتادیجئے اوراس حوالہ سے آپ کوئی مستند کتاب کا حوالہ دیں سکیں تو میرا کام آسان ہوجائے گا۔اجتہادی صاحب نے جو کچھ بتایاوہ بھی اتنا ہی تھاجو محسن نقوی مجھے پہلے بیان کرچکے تھے اس لیے ان کے درِدولت سے بے مراد لوٹ آیا۔
اب مجھے فکر ہوگئی تھی کہ میںاپنی یہ اسائن منٹ کیسے مکمل کروں گا اگرچہ پندرہ دن ختم ہونے میں ابھی تیرہ دن باقی تھے مگر مجھے پریشانی لاحق ہوگئی کہ مرتجز سے متعلق مطلوبہ مواد مجھے کہاںسے ملے گا؟ بعض سنیئر ز سے پوچھا تو انھوںنے مشورہ دیاکہ میںقائد اعظم لائبریری ،پنجاب پبلک لائبریری کے علاوہ دارالکتب رابطہ کروں۔مجھے یہ مشورہ بہترین لگا اوریقین ہوگیاکہ اب میرا مسئلہ حل ہوجائیگا ۔میںنے سب سے پہلے دارالکتب رجوع کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں اہل تشیع مسلک سے متعلق کتابیں وافر مقدار میں موجودتھیں۔ مگرمیری پریشانی ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی جب دودن گھنٹوں ڈھونڈنے پر بھی مرتجز سے متعلق کوئی مضمون اورمستند کتاب دستیاب نہ ہوسکی۔
اگلے دودن یہ ہوا کہ میں میگزین سیکشن کی صبح11بجے ہونے والی میٹنگ ختم کرنے کے بعد سیدھا قائد اعظم لائبریری جاتارہا۔مذکورہ لائبریری کا اسلامی کتابوں کا سیکشن میں نے صبح سے لے کر رات 8بجے تک دومرتبہ چھان مارا ۔لیکن معاملہ جوں کاتوں رہا۔اس سے اگلے دودن میںنے پنجاب پبلک لائبریری میںگذارے۔
مجھے یوں محسو س ہورہاتھاکہ لائبریوں سے میرا جنم ،جنم کا ساتھ ہے میں ہمیشہ سے کتابوں میںہی رہتا آیا ہوں۔ دوسری طرف حالات یہ تھے کہ میرے بعض ساتھیوں نے اپنے ذمے اسائن منٹس جمع بھی کرادی تھیں۔ایڈیٹر صاحب کی سیکریٹری سمیرا مجھ سے دریافت کر چکی تھی کہ میں اپنی اسائن منٹ کب جمع کراوں گا؟میں لاہور کی لائبریروں اورکتب ڈپو میں غرق ہوچکا تھامگر مجھے کنارا نہیںمل رہا تھا۔میری نظریںتو کتابوں کے جتھوں کے جتھوںمیںمرتجز سے منسوب کوئی تحریر اورمضمون ڈھونڈ رہی تھیںلیکن چشم زدن میںوہ منظر بھی آنکھوںچبھنے لگتا تھا کہ جس دن میگزین سکیشن کی مشترکہ میٹنگ میں میری ''پیشی'' ہونے والی تھی ۔ مجھے یوں لگتا اس دن مجھ پر توہین صحافت کا جرم ثابت کردیاجائے گا اوراس جرم کی پاداش میںمجھے صحافت کے منصب سے ہمیشہ کے لیے ''نااہل'' قرار دے کر مجھے میرے آبائی شہر گجرانوالہ واپس بھیج دیاجائے گا۔
اس حقیقی کہانی کا ڈارپ سین بھی سن لیجیے۔۔۔۔ میںنے آخری کوشش کے طور پر اپنا یہ مسئلہ اپنے عزیز اوربھائی پروفیسر جنیداکرم بٹ سے بیان کیاجو معروف اداکار سہیل احمد کے سگے چھوٹے بھائی ہیں۔ جنید نے میری بات سنتے ہی موٹرسائیکل کو کک ماری اور اپنے پیچھے آنے کااشارہ کیا۔نیوکیمپس سے مال روڈ اور پھر ہم محلہ اسلام پورہ واقع اسلامی کتب کے بہت بڑے ڈپو پر پہنچے۔ جنید اکرم کی وساطت سے مجھے دوپہر 12بجے سے رات 12بجے تک ڈپو میں کتاب تلاش کرنے کی اجازت مل گئی تھی ۔بارہ گھنٹے بعد بھی مجھے متعلقہ کتاب یا مضمون نہ مل سکا ادھر مذکورہ بک ڈپو کا شٹر ڈاون کرنے کا وقت ہو گیا تھا۔رات بارہ بجے تک میںڈپو کی پچھتر فیصد کتابیں چھان چکا تھا۔ لیکن مسلسل مایوسی کے بعد بھی مجھے کوئی انجانی طاقت کہہ رہی تھی کہ میں کوشش جاری رکھوں۔میری درخواست پر ڈپو کے مالک نے روشنی کے لیے ایک بلب آن رکھنے کی اجازت دے کر شٹرگرادیا۔
ڈپو کے مالک اوردیگر کارکنوں نے صبح 10بجے واپس لوٹنا تھا ۔ وہاں اب میں تھااورمیرے چارسو کتابیں ہی کتابیںتھیں۔ لگ بھگ رات کے ساڑھے 12بجے میںنے دوبارہ سے ڈپو کی تمام کتابوں کے عنوانات اورفہرستیں دیکھنا شروع کیں۔حالانکہ میں وہ شیلفیں پہلے بھی دیکھ چکاتھامگر میرے جنون نے میرے اندر کی تمام تھکاوٹوں اور ہارتے ہوئے ارادوں کو شکست دی۔ میںنے ایک کے بعد دوسری اورتیسری شیلف چھان لی اورپھر چوتھی اورآخری شیلف سے کتابیں اٹھانے لگا۔رات کا نجانے کون سا پہراورکونسا لمحہ تھاکسی شیلف کے بالائی حصہ سے ایک کتاب لڑکھتی ہوئی میرے سامنے کتابوں کے ڈھیرپر آن گری۔وہ کتاب اس طرح سے گری کہ اس کا وسطی باب کھل گیا تھا ۔یہ کیامعجزہ تھاکہ میرے سامنے عیاں باب کا عنوان تھاکہ۔۔۔۔مرتجز ، امام عالی مقام کا سچا ساتھی۔۔۔۔یہ دیکھتے ہوئے مجھ پر سکتے کا ساعالم طاری ہوگیا، پھر آنکھوں میںآنسو آئے تو یقین ہوگیاکہ میںنے اپنی منزل پالی ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ اس کتاب میں مرتجز سے متعلق دوطرفہ 35عدد صفحات پر مرتجز سے متعلق میرے ہر سوال کا جواب موجود تھا، میںنے صبح ہونے کا انتظار کیے بغیر ایک ایک لفظ حتیٰ کہ زیر زبر کے بھی نوٹس بنا لیے ۔صبح ہوئی بک ڈپو کا شٹر اٹھایا گیا تو میں اپنے محسن کا شکریہ ادا کرکے میگزین سیکشن کی میٹنگ میں پہنچا۔ اگلے روز میںنے مرتجز سے متعلق اپنی یہ اسائن منٹ جمع کرا دی۔ مرتجز سے متعلق یہ تفصیلی مضمون متذکرہ اخبار کی لائبریری میں موجود ہوگا۔جس میں بیان کیاگیاتھاکہ مرتجز حضرت محمدﷺنے حضرت علی علیہ ٰالسلام کو تحفہ دیا تھااوریہ وراثت میں امام عالی مقام کو میسر آیا تھا۔ مذکورہ مضمون میںمرتجز کا حسب نسب بھی بیان کیا گیا تھا جسے جاننا اورسننا عقیدت مندوں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہوگا ۔آیندہ کوشش کروں گا کہ کسی وقت اس انمول مضمون کو آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں۔
میٹنگ کا ایجنڈا یہ تھا کہ عاشورہ محرم کی آمد پر اخبار کے خصوصی ایڈیشنز اورجمعہ میگزین کو اس طرح شایع کیا جائے کہ اس کے ادارتی مندرجات کے ساتھ،ساتھ اخبار کا بصری تاثر غم اورسوگ کی غمازی کرے ۔ ان دنوں اخبار کے نیوز صفحات کے ساتھ، ساتھ رنگین صفحات کی تیاری کے لیے بھی بڑی محنت کی جاتی تھی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت تک ملک میں اخبار اورالیکٹرانک میڈیا کی تقسیم نہیں ہوئی تھی ''اسٹار اورمیگا اسٹارصحافی'' باہم مل کر صرف اخبار کی صحافتی شان وشوکت بڑھانے پر مامور تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس میٹنگ میں ایڈیٹر صاحب نے صحافی افضال شاہد کی ادارت میں عاشورہ کے موقعے پر شایع کیے گئے جمعہ میگزین کی تعریف کرتے ہوئے ہمیں یہ ٹاسک دیاتھاکہ ہم سب کو مل کر ان جیسا شمارہ تیار کرنا ہے ۔ افضال شاہد مرحوم ان دنوں مذکورہ اخبار سے علیحدگی اختیار کرچکے تھے اس لیے ہمیں یہ ٹاسک ان کی سرپرستی کے بغیر ہی سرانجام دینا تھا۔ میٹنگ میں تھوڑی بہت مشاورت سے فیچر رائٹرز سمیت مختلف ایڈیشنز کے انچارج صاحبان کو مختلف اسائن منٹس دی گئیں۔ مجھے کہاگیاکہ حضرت امام حسینؓ کی سواری ذوالجناح جسے مرتجز بھی کہاجاتاہے اس کے بارے میں کم از کم پندرہ سو سے دوہزار الفاظ پر مشتمل تفصیلی رائٹ اپ مہیا کروں گا۔مضمون میںمرتجز کا حسب نسب اور تاریخی پس منظر بیان کیاگیاہوکہ یہ امام حسینؓ کے پاس کہاں سے آیااورحضرت محمدﷺسے اس کی نسبت کیاتھی؟
مجھے یہ اندازہ تھاکہ ( مرتجز) اخبار کے لیے ایک غیر روایتی موضوع رہاہے ۔کیونکہ ا س سے قبل میں نے معروف قومی اخبارات کے خصوصی ایڈیشنز میں ذوالجناح پرکوئی تفصیلی مضمون نہیںپڑھا تھا۔لیکن میں تھوڑا مطمئن اس لیے تھاکہ میرا دوست اداکار ببوبرال مرحوم اس مضمون کی تیاری میں میری مدد کر سکتاتھا۔ببوبرال کا تعلق اہل تشیع سے تھا ، معروف شاعر اورذاکر محسن نقوی اس کے دوست تھے ۔میں نے اس بات کا ذکر ببوبرال سے کیاتو وہ مجھے امام بارگاہ کربلا گامے شاہ لے گیا جہاں میری ملاقات محسن نقوی مرحوم سے ہوئی۔محسن نقوی نے مرتجز سے متعلق جو کچھ بتایا وہ اہم تھا مگر مجھے چونکہ2000ہزارالفاظ کا مضمون لکھنا تھااس لیے ان سے پوچھاکہ اس موضوع کے حوالے سے مذید حوالہ جات کے لیے کہاںرجوع کروں؟ محسن نقوی نے مجھے کہاکہ میںمولانا نصیر الاجتہادی سے رابطہ کروں جو اتفاق سے لاہور آئے ہوئے تھے۔بڑی تگ ودو کے بعد میںمولانا سے وقت لینے میں کامیاب ہوا ۔
اجتہادی صاحب کو میں نے بتایاکہ مرتجزسے متعلق ایک تفصیلی مضمون لکھ رہاہوں،آپ جو جانتے ہیں وہ مجھے بتادیجئے اوراس حوالہ سے آپ کوئی مستند کتاب کا حوالہ دیں سکیں تو میرا کام آسان ہوجائے گا۔اجتہادی صاحب نے جو کچھ بتایاوہ بھی اتنا ہی تھاجو محسن نقوی مجھے پہلے بیان کرچکے تھے اس لیے ان کے درِدولت سے بے مراد لوٹ آیا۔
اب مجھے فکر ہوگئی تھی کہ میںاپنی یہ اسائن منٹ کیسے مکمل کروں گا اگرچہ پندرہ دن ختم ہونے میں ابھی تیرہ دن باقی تھے مگر مجھے پریشانی لاحق ہوگئی کہ مرتجز سے متعلق مطلوبہ مواد مجھے کہاںسے ملے گا؟ بعض سنیئر ز سے پوچھا تو انھوںنے مشورہ دیاکہ میںقائد اعظم لائبریری ،پنجاب پبلک لائبریری کے علاوہ دارالکتب رابطہ کروں۔مجھے یہ مشورہ بہترین لگا اوریقین ہوگیاکہ اب میرا مسئلہ حل ہوجائیگا ۔میںنے سب سے پہلے دارالکتب رجوع کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں اہل تشیع مسلک سے متعلق کتابیں وافر مقدار میں موجودتھیں۔ مگرمیری پریشانی ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی جب دودن گھنٹوں ڈھونڈنے پر بھی مرتجز سے متعلق کوئی مضمون اورمستند کتاب دستیاب نہ ہوسکی۔
اگلے دودن یہ ہوا کہ میں میگزین سیکشن کی صبح11بجے ہونے والی میٹنگ ختم کرنے کے بعد سیدھا قائد اعظم لائبریری جاتارہا۔مذکورہ لائبریری کا اسلامی کتابوں کا سیکشن میں نے صبح سے لے کر رات 8بجے تک دومرتبہ چھان مارا ۔لیکن معاملہ جوں کاتوں رہا۔اس سے اگلے دودن میںنے پنجاب پبلک لائبریری میںگذارے۔
مجھے یوں محسو س ہورہاتھاکہ لائبریوں سے میرا جنم ،جنم کا ساتھ ہے میں ہمیشہ سے کتابوں میںہی رہتا آیا ہوں۔ دوسری طرف حالات یہ تھے کہ میرے بعض ساتھیوں نے اپنے ذمے اسائن منٹس جمع بھی کرادی تھیں۔ایڈیٹر صاحب کی سیکریٹری سمیرا مجھ سے دریافت کر چکی تھی کہ میں اپنی اسائن منٹ کب جمع کراوں گا؟میں لاہور کی لائبریروں اورکتب ڈپو میں غرق ہوچکا تھامگر مجھے کنارا نہیںمل رہا تھا۔میری نظریںتو کتابوں کے جتھوں کے جتھوںمیںمرتجز سے منسوب کوئی تحریر اورمضمون ڈھونڈ رہی تھیںلیکن چشم زدن میںوہ منظر بھی آنکھوںچبھنے لگتا تھا کہ جس دن میگزین سکیشن کی مشترکہ میٹنگ میں میری ''پیشی'' ہونے والی تھی ۔ مجھے یوں لگتا اس دن مجھ پر توہین صحافت کا جرم ثابت کردیاجائے گا اوراس جرم کی پاداش میںمجھے صحافت کے منصب سے ہمیشہ کے لیے ''نااہل'' قرار دے کر مجھے میرے آبائی شہر گجرانوالہ واپس بھیج دیاجائے گا۔
اس حقیقی کہانی کا ڈارپ سین بھی سن لیجیے۔۔۔۔ میںنے آخری کوشش کے طور پر اپنا یہ مسئلہ اپنے عزیز اوربھائی پروفیسر جنیداکرم بٹ سے بیان کیاجو معروف اداکار سہیل احمد کے سگے چھوٹے بھائی ہیں۔ جنید نے میری بات سنتے ہی موٹرسائیکل کو کک ماری اور اپنے پیچھے آنے کااشارہ کیا۔نیوکیمپس سے مال روڈ اور پھر ہم محلہ اسلام پورہ واقع اسلامی کتب کے بہت بڑے ڈپو پر پہنچے۔ جنید اکرم کی وساطت سے مجھے دوپہر 12بجے سے رات 12بجے تک ڈپو میں کتاب تلاش کرنے کی اجازت مل گئی تھی ۔بارہ گھنٹے بعد بھی مجھے متعلقہ کتاب یا مضمون نہ مل سکا ادھر مذکورہ بک ڈپو کا شٹر ڈاون کرنے کا وقت ہو گیا تھا۔رات بارہ بجے تک میںڈپو کی پچھتر فیصد کتابیں چھان چکا تھا۔ لیکن مسلسل مایوسی کے بعد بھی مجھے کوئی انجانی طاقت کہہ رہی تھی کہ میں کوشش جاری رکھوں۔میری درخواست پر ڈپو کے مالک نے روشنی کے لیے ایک بلب آن رکھنے کی اجازت دے کر شٹرگرادیا۔
ڈپو کے مالک اوردیگر کارکنوں نے صبح 10بجے واپس لوٹنا تھا ۔ وہاں اب میں تھااورمیرے چارسو کتابیں ہی کتابیںتھیں۔ لگ بھگ رات کے ساڑھے 12بجے میںنے دوبارہ سے ڈپو کی تمام کتابوں کے عنوانات اورفہرستیں دیکھنا شروع کیں۔حالانکہ میں وہ شیلفیں پہلے بھی دیکھ چکاتھامگر میرے جنون نے میرے اندر کی تمام تھکاوٹوں اور ہارتے ہوئے ارادوں کو شکست دی۔ میںنے ایک کے بعد دوسری اورتیسری شیلف چھان لی اورپھر چوتھی اورآخری شیلف سے کتابیں اٹھانے لگا۔رات کا نجانے کون سا پہراورکونسا لمحہ تھاکسی شیلف کے بالائی حصہ سے ایک کتاب لڑکھتی ہوئی میرے سامنے کتابوں کے ڈھیرپر آن گری۔وہ کتاب اس طرح سے گری کہ اس کا وسطی باب کھل گیا تھا ۔یہ کیامعجزہ تھاکہ میرے سامنے عیاں باب کا عنوان تھاکہ۔۔۔۔مرتجز ، امام عالی مقام کا سچا ساتھی۔۔۔۔یہ دیکھتے ہوئے مجھ پر سکتے کا ساعالم طاری ہوگیا، پھر آنکھوں میںآنسو آئے تو یقین ہوگیاکہ میںنے اپنی منزل پالی ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ اس کتاب میں مرتجز سے متعلق دوطرفہ 35عدد صفحات پر مرتجز سے متعلق میرے ہر سوال کا جواب موجود تھا، میںنے صبح ہونے کا انتظار کیے بغیر ایک ایک لفظ حتیٰ کہ زیر زبر کے بھی نوٹس بنا لیے ۔صبح ہوئی بک ڈپو کا شٹر اٹھایا گیا تو میں اپنے محسن کا شکریہ ادا کرکے میگزین سیکشن کی میٹنگ میں پہنچا۔ اگلے روز میںنے مرتجز سے متعلق اپنی یہ اسائن منٹ جمع کرا دی۔ مرتجز سے متعلق یہ تفصیلی مضمون متذکرہ اخبار کی لائبریری میں موجود ہوگا۔جس میں بیان کیاگیاتھاکہ مرتجز حضرت محمدﷺنے حضرت علی علیہ ٰالسلام کو تحفہ دیا تھااوریہ وراثت میں امام عالی مقام کو میسر آیا تھا۔ مذکورہ مضمون میںمرتجز کا حسب نسب بھی بیان کیا گیا تھا جسے جاننا اورسننا عقیدت مندوں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہوگا ۔آیندہ کوشش کروں گا کہ کسی وقت اس انمول مضمون کو آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں۔