ایک مسلمان بادشاہ کی بچیوں کی عید
سلطنت کا مالک یا حکمران جب ایک دن گھر آیا تو اس کی ملکہ نے یاد دلایا کہ عید سر پرہے اور بچوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں
عید چند دنوں کی بات ہے۔ ہر مسلمان کے گھر میں حسب توفیق عید منائی جائے گی۔ ایسا ہی ایک مسلمان گھرانہ بھی تھا جس میں ملک کے سب سے بڑے اقتدار کا تخت بچھا ہوا تھا اور جب کسی گھر میں اقتدار خیمہ زن ہو تو پھر گنجائش کس بات کی رہ جاتی ہے اور اقتدار بھی ایسا جس کی قلمرو میں قریب قریب پوری دنیا شامل ہو۔ تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت جس کے بعد اس کی مثال نہ مل سکی۔
اس سلطنت کا مالک یا حکمران جب ایک دن گھر آیا تو اس کی ملکہ نے یاد دلایا کہ عید سر پر ہے اور بچوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں۔ بادشاہ نے گھبرا کر کہا کہ میں کیا کروں، تم ہی کوئی بندوبست کرو۔ یہ ملکہ بھی ایک شہزادی تھی اور بادشاہ اور ملکہ کی شادی محبت کی شادی تھی۔ دونوں شاہی خاندان کے فرد تھے۔ بادشاہ جو خلیفۃ المسلمین کہلاتا تھا اور ایک خلیفہ کی طرح سخت قوانین کا تابع فرمان تھا۔
ملکہ کی بات سن کر سخت پریشان ہو گیا ملکہ نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی بھی نیا کپڑا نہیں ہے، آپ ہی کچھ کیجیے۔ بچیاں بضد ہیں اور کہتی ہیں کہ ہمارے باپ کی بادشاہی اور خلافت ہمارے کس کام کی کہ عید پر نیا جوڑا بھی نہ مل سکے اور مجھے بھی سخت سست کہتی ہیں کہ آپ ایک بادشاہ کی بیٹی ہیں، آپ کی شہزادگی ہمارے کس کام کی بہر حال آپ بچیوں کی عید کا بندوبست کریں۔ یہ سن کر خلیفہ وقت عمر بن عبدالعزیز کو اور تو کچھ صورت نظر نہ آئی، اپنی مالی اوقات کا ان کو علم تھا، وہ سیدھے بیت المال پہنچے جہاں ان کا ایک بادشاہ جیسا استقبال کیا گیا۔ بیت المال کے نگران نے پوچھا کیا کوئی حکم ہے۔
جواب میں شرما کر کہا مجھے آپ ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس دے دیں۔ یہ سن کر بیت المال کے افسر نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں جو حکم ہو جتنا چاہیں آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں بس ایک گزارش ہے کہ پیشگی تنخواہ کی واپسی تک کیا آپ سلامت رہیں گے کہ آپ کی ایڈوانس تنخواہ بیت المال کو واپس مل سکے گی۔ بیت المال کیا پوری سلطنت کا مالک خلیفۃ المسلمین یہ سن کر خاموش ہو گیا اور صاحب بیت المال سے دعا سلام کے بعد رخصت ہو کر گھر آ گیا۔گھر میں سب ان کے انتظار میں تھے۔ خاموش صاحب خانہ نے اپنی بیگم سے کہا کہ کوئی صورت نہیں بن سکی۔ پرانے کپڑوں کو دھو کر بچیوں کو راضی کرو کہ اس بار عید اپنے پرانے صاف ستھرے کپڑوں میں کر لیں اور مجبور باپ کو معاف کر دیں۔
اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے کسی نے لکھا ہے کہ ظاہر ہے پہلے تو شہزادیاں بہت مایوس ہو گئیں لیکن انھیں جلد ہی اپنے عظیم والد کا خیال آ گیا اور وہ ان سے لپٹ گئیں۔ یہ شہزادیاں تو بظاہر مطمئن دکھائی دیں اور یوں لگا جیسے وہ پرانے کپڑوں میں ہی عید پر خوش ہیں لیکن اس وقت خلیفہ وقت کی آنکھیں نمناک تھیں، وہ اپنے چہرے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے جیسے بچیوں کو دلاسا دے رہے ہوں۔
یہ وہی خلیفہ المسلمین تھے جن کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ ان کا شمار خلفائے راشدین میں کیا جاتا ہے کیونکہ حکمرانی میں یہ اپنے ان پیشرو خلفاء کو ہر وقت سامنے رکھتے تھے۔ آج کے قارئین تو ہنستے ہوں گے کہ ایک حاکم وقت کو تنخواہ بھی ایڈوانس میں نہ مل سکی کیونکہ اس ایڈوانس کی واپسی کا کوئی یقینی ذریعہ موجود نہ تھا۔ اس خلیفہ نے خلافت کا حلف اٹھانے کے بعد مسجد کے منبر پر بیٹھ کر اپنے خاندان کی وہ تمام دستاویز طلب کر لیں جو دوسروں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے متعلق تھیں اور پھر ان تمام دستاویزات کو مسجد میں ہی قینچی سے کتر ڈالا اور اس طرح اپنے شاہی خاندان کو کنگال کر دیا۔ ان کی اپنی حالت بھی اپنے خاندان کی سی ہو گئی۔
ان کی ایک پھوپھی تھیں جو اس وقت واویلہ کر رہی تھیں کہ میں عمر کے والدین سے کہتی رہی کہ شادی کرتے وقت سوچ سمجھ لینا لیکن عمر کے والدین نے اپنا رشتہ ابن خطاب کے خاندان میں کر دیا جس کا نتیجہ عمر بن العزیز کی صورت میں سامنے آیا ہے، یہ اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے جس نے ماں کے کہنے پر دودھ میں پانی نہیں ملایا کہ عمر نہیں تو عمر کا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ رات کی گشت پر حضرت عمر نے یہ بات سن لی اور اپنے ایک بیٹے سے کہا کہ تم چاہو تو فلاں گھر میں اپنا رشتہ کر دو۔ اللہ برکت دے گا۔ عمر بن عبدالعزیز اس کی اولاد میں سے تھے اور ان کی خلافت کا حلف لینے کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کی جائیداد سے جو سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک حیران کن حصہ بن گیا۔
یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلامی سلطنت کو نہ جانے کس قدر مضبوط کر دیا تھا۔ یہ وہ لوگ جنھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے اپنے خاندان پر ہاتھ ڈالا اور اس قدر دیانت و امانت کا نمونہ پیش کیا کہ ان کی بیٹیاں عید پر نئے کپڑوں کو ترستی رہیں۔ اور اب ہم جو کچھ ہیں اس کا تذکرہ کرنا بھی قابل برداشت نہیں ہے۔
اس سلطنت کا مالک یا حکمران جب ایک دن گھر آیا تو اس کی ملکہ نے یاد دلایا کہ عید سر پر ہے اور بچوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں۔ بادشاہ نے گھبرا کر کہا کہ میں کیا کروں، تم ہی کوئی بندوبست کرو۔ یہ ملکہ بھی ایک شہزادی تھی اور بادشاہ اور ملکہ کی شادی محبت کی شادی تھی۔ دونوں شاہی خاندان کے فرد تھے۔ بادشاہ جو خلیفۃ المسلمین کہلاتا تھا اور ایک خلیفہ کی طرح سخت قوانین کا تابع فرمان تھا۔
ملکہ کی بات سن کر سخت پریشان ہو گیا ملکہ نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی بھی نیا کپڑا نہیں ہے، آپ ہی کچھ کیجیے۔ بچیاں بضد ہیں اور کہتی ہیں کہ ہمارے باپ کی بادشاہی اور خلافت ہمارے کس کام کی کہ عید پر نیا جوڑا بھی نہ مل سکے اور مجھے بھی سخت سست کہتی ہیں کہ آپ ایک بادشاہ کی بیٹی ہیں، آپ کی شہزادگی ہمارے کس کام کی بہر حال آپ بچیوں کی عید کا بندوبست کریں۔ یہ سن کر خلیفہ وقت عمر بن عبدالعزیز کو اور تو کچھ صورت نظر نہ آئی، اپنی مالی اوقات کا ان کو علم تھا، وہ سیدھے بیت المال پہنچے جہاں ان کا ایک بادشاہ جیسا استقبال کیا گیا۔ بیت المال کے نگران نے پوچھا کیا کوئی حکم ہے۔
جواب میں شرما کر کہا مجھے آپ ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس دے دیں۔ یہ سن کر بیت المال کے افسر نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں جو حکم ہو جتنا چاہیں آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں بس ایک گزارش ہے کہ پیشگی تنخواہ کی واپسی تک کیا آپ سلامت رہیں گے کہ آپ کی ایڈوانس تنخواہ بیت المال کو واپس مل سکے گی۔ بیت المال کیا پوری سلطنت کا مالک خلیفۃ المسلمین یہ سن کر خاموش ہو گیا اور صاحب بیت المال سے دعا سلام کے بعد رخصت ہو کر گھر آ گیا۔گھر میں سب ان کے انتظار میں تھے۔ خاموش صاحب خانہ نے اپنی بیگم سے کہا کہ کوئی صورت نہیں بن سکی۔ پرانے کپڑوں کو دھو کر بچیوں کو راضی کرو کہ اس بار عید اپنے پرانے صاف ستھرے کپڑوں میں کر لیں اور مجبور باپ کو معاف کر دیں۔
اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے کسی نے لکھا ہے کہ ظاہر ہے پہلے تو شہزادیاں بہت مایوس ہو گئیں لیکن انھیں جلد ہی اپنے عظیم والد کا خیال آ گیا اور وہ ان سے لپٹ گئیں۔ یہ شہزادیاں تو بظاہر مطمئن دکھائی دیں اور یوں لگا جیسے وہ پرانے کپڑوں میں ہی عید پر خوش ہیں لیکن اس وقت خلیفہ وقت کی آنکھیں نمناک تھیں، وہ اپنے چہرے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے جیسے بچیوں کو دلاسا دے رہے ہوں۔
یہ وہی خلیفہ المسلمین تھے جن کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ ان کا شمار خلفائے راشدین میں کیا جاتا ہے کیونکہ حکمرانی میں یہ اپنے ان پیشرو خلفاء کو ہر وقت سامنے رکھتے تھے۔ آج کے قارئین تو ہنستے ہوں گے کہ ایک حاکم وقت کو تنخواہ بھی ایڈوانس میں نہ مل سکی کیونکہ اس ایڈوانس کی واپسی کا کوئی یقینی ذریعہ موجود نہ تھا۔ اس خلیفہ نے خلافت کا حلف اٹھانے کے بعد مسجد کے منبر پر بیٹھ کر اپنے خاندان کی وہ تمام دستاویز طلب کر لیں جو دوسروں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے متعلق تھیں اور پھر ان تمام دستاویزات کو مسجد میں ہی قینچی سے کتر ڈالا اور اس طرح اپنے شاہی خاندان کو کنگال کر دیا۔ ان کی اپنی حالت بھی اپنے خاندان کی سی ہو گئی۔
ان کی ایک پھوپھی تھیں جو اس وقت واویلہ کر رہی تھیں کہ میں عمر کے والدین سے کہتی رہی کہ شادی کرتے وقت سوچ سمجھ لینا لیکن عمر کے والدین نے اپنا رشتہ ابن خطاب کے خاندان میں کر دیا جس کا نتیجہ عمر بن العزیز کی صورت میں سامنے آیا ہے، یہ اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے جس نے ماں کے کہنے پر دودھ میں پانی نہیں ملایا کہ عمر نہیں تو عمر کا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ رات کی گشت پر حضرت عمر نے یہ بات سن لی اور اپنے ایک بیٹے سے کہا کہ تم چاہو تو فلاں گھر میں اپنا رشتہ کر دو۔ اللہ برکت دے گا۔ عمر بن عبدالعزیز اس کی اولاد میں سے تھے اور ان کی خلافت کا حلف لینے کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کی جائیداد سے جو سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک حیران کن حصہ بن گیا۔
یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلامی سلطنت کو نہ جانے کس قدر مضبوط کر دیا تھا۔ یہ وہ لوگ جنھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے اپنے خاندان پر ہاتھ ڈالا اور اس قدر دیانت و امانت کا نمونہ پیش کیا کہ ان کی بیٹیاں عید پر نئے کپڑوں کو ترستی رہیں۔ اور اب ہم جو کچھ ہیں اس کا تذکرہ کرنا بھی قابل برداشت نہیں ہے۔