صہیونی طاقتیں اور فلسطینی
سپر پاورطاقتیں جس طرح چاہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو محض دولت کے ذریعے اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں
پوری دنیا میں مسلمان ہر طرح سے اورہر محاذ پر پسپا ہورہے ہیں۔
اگرکہیں تھوڑی بہت کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے تو اس کامیابی وفتح کو ناکامی میں بدلنے کے لیے دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے اور مسلمانوں کو ہر طرح سے شکستِ فاش دینے کے لیے سالہا سال منصوبہ بندی کرتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ اس کے مذموم مقاصد سے بے خبر رہتی ہے اور اگر معلومات حاصل ہو بھی جائیں تب حفاظتی اقدامات کرنے سے بھی غفلت برتی جاتی ہے۔
سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں اور ان کے حکمران تعیشات زندگی میں مست نظرآتے ہیں انھیں چھوٹے اور معیشت و طاقت کے اعتبار سے کمزور ملکوں کی ذرا پرواہ نہیں ہے۔ سپر پاورطاقتیں جس طرح چاہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو محض دولت کے ذریعے اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں اور جو حکمران محب وطن ہوتے ہیں غیور اور دینی حمیت سے مالا مال ہوتے ہیں وہ امریکا کے اشاروں پر ہرگز نہیں ناچتے بلکہ منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایران ہے۔
ایران کی موجودہ اقتصادی حالت پر ایرانی صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کا ایٹمی جوہری پروگرام طے شدہ ہدف کے مطابق تکمیل کو پہنچے گا،لیکن امریکا، اسرائیل کا گٹھ جوڑ، ایرانی کرنسی کی گرتی ہوئی ساکھ، غیر ملکی کمپنیوں کا ایران سے سرمایہ نکالنے کا عمل اس بات کی گواہی ہے کہ ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کی یہ بھی کوشش ہے کہ ایران پر فوجی جارحیت جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد کی جائے اور ایران پر زمینی حملوں کی بجائے فضائی حملے کیے جائیں تاکہ یورینیم کی افزودگی کے کارخانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جائے ۔ امریکا اور اسرائیل کی مسلم امہ سے گہری دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلم ممالک میں پاکستان کے بعد عراق، ایران اور لیبیا کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے سالہا سال قبل منصوبہ بندی کی گئی تھی، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایٹمی طاقت اس لیے نہ بننے دیا جائے کہ یہ اسلامی ایٹمی قوتیں غالب نہ آجائیں اور شاید اسی ڈر کی وجہ سے امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا ہے اور اب یہ طاقتیں اپنی ناپاک سازشوں کے تحت مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے پر تُلی ہوئی ہیں اور جہاں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں یہ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ ان مواقع پر مسلم امہ اپنی حفاظت کے لیے دشمن کو پسپا کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کرتے ہیں۔
یہودی 1948 میں اقلیت میں تھے اور اپنے قدم امریکا اور افریقہ میں جمانے کے متمنی تھے لیکن وہ لوگ یہودیوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف تھے لہٰذا ہٹلر نے ان کی کوششوں کو نہ صرف یہ کہ ناکام بنایا بلکہ یہودیوں کو چُن چُن کر مارا اور بقول ہٹلر کے کہ ''میں نے بہت سوں کو مار دیا ہے لیکن چند کو اس لیے چھوڑا ہے کہ دنیا دیکھ سکے کہ میں نے انھیں کیوں چھوڑا؟''
امریکا اور افریقہ میں جب یہودیوں کو جائے پناہ نظر نہ آئی تو ان کے قدم فلسطین کی طرف بڑھے، اگر اسی وقت سعودی عرب کی حکومت ان کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملا دیتی، انھیں نکالنے کی بھرپور کوشش کرتی تو آج فلسطین میں اس قدر قتل و غارت گری ہرگز نہ ہوتی۔
غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کی دشمن رہی ہیں، صلیبی جنگیں بھی اس بات کا ثبوت ہیں، چنانچہ اسرائیل کی حمایت میں 1947 میں یونائیٹڈ نیشن نے یہ اعلان کیا کہ فلسطین کا 55 فیصد حصہ یہودیوں کو ملے جب کہ اسرائیلی 33 فیصد تھے۔ اس موقعے پر عرب آرمی کی بھی جدوجہد سامنے آئی کہ انھوں نے 1947 سے 1949 تک اسرائیل سے جنگ لڑی، لیکن بدقسمتی سے عرب آرمی کامیابی حاصل نہ کرسکی اور یہودیوں نے اپنی ہٹ دھرمی دکھائی ۔ مغربی طاقتوں کی امداد اور حمایت نے انھیں مزید شہ دی، اس طرح انھوں نے نہتے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمارکرنا، بچوں اور نوجوانوں کو اغواء کرنا شروع کردیا اور مظالم کی انتہا کردی۔
اور فلسطین کے 78 فیصد علاقے پر قابض ہوگئے اور فلسطینی اپنے ہی ملک میں مہاجرین کی صورت اختیار کرگئے۔ ان حالات میں بھی امن کی تمام تنظیمیں بشمول اقوام متحدہ خاموش رہیں چونکہ ان کا مطمع نظر یہی تھا کہ اسرائیل فلسطین پر قبضہ کرلے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور ذہنی و جسمانی کرب میں مبتلا ہیں۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اور بے شمار قید میں ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلہ بلند ہیں اور ان دنوں پھر فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، غزہ کی پٹی پر بم برسائے جارہے ہیں، معصوم پھول جیسے بچے موت کے منہ میں ڈال دیئے گئے ہیں اور سیکڑوں فلسطینی ایک ہفتے کے اندر جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ صہیونی فضائیہ نے پولیس ہیڈ کوارٹر اور رہائشی عمارات کو نشانہ بنایا، اسرائیل نے غزہ کے 80 مقامات پر 550 سے زائد میزائل برسائے جس سے ہر طرف تباہی مچ گئی۔
ترک وزیراعظم طیب رجب اردگان نے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے غزہ پر وحشیانہ بمباری نہیں رکوائی ہے اسی لیے قتل کی ذمے دار بھی اقوامِ متحدہ ہے۔ اسرائیل مسلسل حملے کر رہا ہے، ہر روز بے گناہ، بے قصور فلسطینی قتل کیے جارہے ہیں، مرنے والوں کے جسموں پر یہ تحریر لکھ دیتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے مخبری کرنے پر قتل کیا گیا، جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری سفارتی کوششیں کچھ رنگ لائی ہیں اور وقتی طور پر حملے روک دیے گئے لیکن نہ جانے کب دوبارہ یہ شروع کردیے جائیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
جو قوم اللہ کے احکامات کو ماننے سے انکار کرتی تھی اور ہر حکم کے موقعے پر اپنی فراست کا مظاہرہ کرتی ہیں اور ربّ کائنات کے احکامات کی نفی کرتی ہیں ان کا انجام عبرتناک ہوا اور جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
ہمارے اپنے ملک کا حال دوسرے ممالک سے زیادہ عبرتناک ہے کہ جس مقصد کے لیے وطنِ عزیز کی تعمیر ہوئی تھی اس تعمیر کو تخریب میں بدل دیا اور مسلمان آپس میں ہی ایک دوسرے کا خون بہانے لگے، اس طرح نہ شہادت نصیب ہوئی اور نہ غازی بننے کا مرتبہ حصے میں آیا، بلکہ جہنم کے دروازے اپنے لیے کھلوا لیے اور دنیا میں بھی رسوائی مقدر بن گئی۔ 6 محرم الحرام کو چار شہروں میں دھماکے کیے گئے، کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی اور شانگلہ میں 21 افراد جاں بحق ہوئے اور 100 کے قریب لوگ زخمی ہوئے، کیا اسی طرح حق کا پرچم لہرایا جاتا ہے؟ کہ آپس میں ہی قتل و غارت شروع کردیا جائے، ان سانحات کے پس منظر میں ایک بات بڑی اہم اور قابلِ غور ہے حکومت کہتی ہے کہ اسے دہشت گردی کی اطلاع تھی۔
پولیس افسران کا بھی یہی کہنا ہے، تب تو احتیاطی تدابیر ناگزیر تھی، ہم نے ایک نجی چینل پر دیکھا کہ جس اسپتال میں زخمیوں کو لایا جارہا تھا، وہاں صرف ایک پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی پر تھا باقی رینجرز کا پتہ نہیں تھا اور پھر ایک عینی شاہد نے مشکوک شخص کی نشاندہی بھی کی اور رینجرز کے سپاہی کو اطلاع دی لیکن کسی نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا، غفلت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، جو مرگئے وہ خوف سے آزاد ہوگئے اور جو زندہ ہیں وہ خوف کے سائے تلے ہیں اور جینا انھیں مشکل ہورہا ہے، لیکن زندہ رہنے پر مجبور ہیں کہ سانسیں اللہ کی بخشی ہوئی ہیں۔
اگرکہیں تھوڑی بہت کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے تو اس کامیابی وفتح کو ناکامی میں بدلنے کے لیے دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے اور مسلمانوں کو ہر طرح سے شکستِ فاش دینے کے لیے سالہا سال منصوبہ بندی کرتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ اس کے مذموم مقاصد سے بے خبر رہتی ہے اور اگر معلومات حاصل ہو بھی جائیں تب حفاظتی اقدامات کرنے سے بھی غفلت برتی جاتی ہے۔
سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں اور ان کے حکمران تعیشات زندگی میں مست نظرآتے ہیں انھیں چھوٹے اور معیشت و طاقت کے اعتبار سے کمزور ملکوں کی ذرا پرواہ نہیں ہے۔ سپر پاورطاقتیں جس طرح چاہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو محض دولت کے ذریعے اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں اور جو حکمران محب وطن ہوتے ہیں غیور اور دینی حمیت سے مالا مال ہوتے ہیں وہ امریکا کے اشاروں پر ہرگز نہیں ناچتے بلکہ منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایران ہے۔
ایران کی موجودہ اقتصادی حالت پر ایرانی صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کا ایٹمی جوہری پروگرام طے شدہ ہدف کے مطابق تکمیل کو پہنچے گا،لیکن امریکا، اسرائیل کا گٹھ جوڑ، ایرانی کرنسی کی گرتی ہوئی ساکھ، غیر ملکی کمپنیوں کا ایران سے سرمایہ نکالنے کا عمل اس بات کی گواہی ہے کہ ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کی یہ بھی کوشش ہے کہ ایران پر فوجی جارحیت جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد کی جائے اور ایران پر زمینی حملوں کی بجائے فضائی حملے کیے جائیں تاکہ یورینیم کی افزودگی کے کارخانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جائے ۔ امریکا اور اسرائیل کی مسلم امہ سے گہری دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلم ممالک میں پاکستان کے بعد عراق، ایران اور لیبیا کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے سالہا سال قبل منصوبہ بندی کی گئی تھی، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایٹمی طاقت اس لیے نہ بننے دیا جائے کہ یہ اسلامی ایٹمی قوتیں غالب نہ آجائیں اور شاید اسی ڈر کی وجہ سے امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا ہے اور اب یہ طاقتیں اپنی ناپاک سازشوں کے تحت مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے پر تُلی ہوئی ہیں اور جہاں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں یہ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ ان مواقع پر مسلم امہ اپنی حفاظت کے لیے دشمن کو پسپا کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کرتے ہیں۔
یہودی 1948 میں اقلیت میں تھے اور اپنے قدم امریکا اور افریقہ میں جمانے کے متمنی تھے لیکن وہ لوگ یہودیوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف تھے لہٰذا ہٹلر نے ان کی کوششوں کو نہ صرف یہ کہ ناکام بنایا بلکہ یہودیوں کو چُن چُن کر مارا اور بقول ہٹلر کے کہ ''میں نے بہت سوں کو مار دیا ہے لیکن چند کو اس لیے چھوڑا ہے کہ دنیا دیکھ سکے کہ میں نے انھیں کیوں چھوڑا؟''
امریکا اور افریقہ میں جب یہودیوں کو جائے پناہ نظر نہ آئی تو ان کے قدم فلسطین کی طرف بڑھے، اگر اسی وقت سعودی عرب کی حکومت ان کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملا دیتی، انھیں نکالنے کی بھرپور کوشش کرتی تو آج فلسطین میں اس قدر قتل و غارت گری ہرگز نہ ہوتی۔
غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کی دشمن رہی ہیں، صلیبی جنگیں بھی اس بات کا ثبوت ہیں، چنانچہ اسرائیل کی حمایت میں 1947 میں یونائیٹڈ نیشن نے یہ اعلان کیا کہ فلسطین کا 55 فیصد حصہ یہودیوں کو ملے جب کہ اسرائیلی 33 فیصد تھے۔ اس موقعے پر عرب آرمی کی بھی جدوجہد سامنے آئی کہ انھوں نے 1947 سے 1949 تک اسرائیل سے جنگ لڑی، لیکن بدقسمتی سے عرب آرمی کامیابی حاصل نہ کرسکی اور یہودیوں نے اپنی ہٹ دھرمی دکھائی ۔ مغربی طاقتوں کی امداد اور حمایت نے انھیں مزید شہ دی، اس طرح انھوں نے نہتے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمارکرنا، بچوں اور نوجوانوں کو اغواء کرنا شروع کردیا اور مظالم کی انتہا کردی۔
اور فلسطین کے 78 فیصد علاقے پر قابض ہوگئے اور فلسطینی اپنے ہی ملک میں مہاجرین کی صورت اختیار کرگئے۔ ان حالات میں بھی امن کی تمام تنظیمیں بشمول اقوام متحدہ خاموش رہیں چونکہ ان کا مطمع نظر یہی تھا کہ اسرائیل فلسطین پر قبضہ کرلے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور ذہنی و جسمانی کرب میں مبتلا ہیں۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اور بے شمار قید میں ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلہ بلند ہیں اور ان دنوں پھر فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، غزہ کی پٹی پر بم برسائے جارہے ہیں، معصوم پھول جیسے بچے موت کے منہ میں ڈال دیئے گئے ہیں اور سیکڑوں فلسطینی ایک ہفتے کے اندر جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ صہیونی فضائیہ نے پولیس ہیڈ کوارٹر اور رہائشی عمارات کو نشانہ بنایا، اسرائیل نے غزہ کے 80 مقامات پر 550 سے زائد میزائل برسائے جس سے ہر طرف تباہی مچ گئی۔
ترک وزیراعظم طیب رجب اردگان نے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے غزہ پر وحشیانہ بمباری نہیں رکوائی ہے اسی لیے قتل کی ذمے دار بھی اقوامِ متحدہ ہے۔ اسرائیل مسلسل حملے کر رہا ہے، ہر روز بے گناہ، بے قصور فلسطینی قتل کیے جارہے ہیں، مرنے والوں کے جسموں پر یہ تحریر لکھ دیتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے مخبری کرنے پر قتل کیا گیا، جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری سفارتی کوششیں کچھ رنگ لائی ہیں اور وقتی طور پر حملے روک دیے گئے لیکن نہ جانے کب دوبارہ یہ شروع کردیے جائیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
جو قوم اللہ کے احکامات کو ماننے سے انکار کرتی تھی اور ہر حکم کے موقعے پر اپنی فراست کا مظاہرہ کرتی ہیں اور ربّ کائنات کے احکامات کی نفی کرتی ہیں ان کا انجام عبرتناک ہوا اور جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
ہمارے اپنے ملک کا حال دوسرے ممالک سے زیادہ عبرتناک ہے کہ جس مقصد کے لیے وطنِ عزیز کی تعمیر ہوئی تھی اس تعمیر کو تخریب میں بدل دیا اور مسلمان آپس میں ہی ایک دوسرے کا خون بہانے لگے، اس طرح نہ شہادت نصیب ہوئی اور نہ غازی بننے کا مرتبہ حصے میں آیا، بلکہ جہنم کے دروازے اپنے لیے کھلوا لیے اور دنیا میں بھی رسوائی مقدر بن گئی۔ 6 محرم الحرام کو چار شہروں میں دھماکے کیے گئے، کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی اور شانگلہ میں 21 افراد جاں بحق ہوئے اور 100 کے قریب لوگ زخمی ہوئے، کیا اسی طرح حق کا پرچم لہرایا جاتا ہے؟ کہ آپس میں ہی قتل و غارت شروع کردیا جائے، ان سانحات کے پس منظر میں ایک بات بڑی اہم اور قابلِ غور ہے حکومت کہتی ہے کہ اسے دہشت گردی کی اطلاع تھی۔
پولیس افسران کا بھی یہی کہنا ہے، تب تو احتیاطی تدابیر ناگزیر تھی، ہم نے ایک نجی چینل پر دیکھا کہ جس اسپتال میں زخمیوں کو لایا جارہا تھا، وہاں صرف ایک پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی پر تھا باقی رینجرز کا پتہ نہیں تھا اور پھر ایک عینی شاہد نے مشکوک شخص کی نشاندہی بھی کی اور رینجرز کے سپاہی کو اطلاع دی لیکن کسی نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا، غفلت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، جو مرگئے وہ خوف سے آزاد ہوگئے اور جو زندہ ہیں وہ خوف کے سائے تلے ہیں اور جینا انھیں مشکل ہورہا ہے، لیکن زندہ رہنے پر مجبور ہیں کہ سانسیں اللہ کی بخشی ہوئی ہیں۔