قوم کی بیماری اور بھوک کا خاتمہ کیجیے
پاکستانی قوم کی آدھی تعداد ’’ایک ڈالر فی کس‘‘ سالانہ آمدنی پر گزارا کرنے پر مجبور ہوں،
ایک جان لیوا بیماری سے صحت یابی کی طرف گامزن دنیا کا کتنا ہی طاقت ور اور امیر شخص کیوں نہ ہو اسے یہ احساس تو یقیناً ہوجاتا ہے کہ بیماری کتنا دردناک دورانیہ زندگی ہے، جس میں ایک انسان اپنے آپ کو کتنا بے بس و بے کس تصور کرتا ہے، ساری طاقت اور شاہانہ طبیعت ہرن ہوکر ایک ڈاکٹر کے رحم و کرم پر رہ جاتی ہے، یعنی حاکم وقت بھی بیماری میں ڈاکٹر سے متصادم کسی بھی ذاتی خواہش کو پورا کرنے کے اہل نہیں ہوتا۔ ہمارے محترم وزیراعظم صاحب اس کڑی آزمائش سے گزرنے کے بعد اب کم از کم مفلس اور بیمار لوگوں کا علاج مفت کرنے کا حکم دے کر اور اپنے باقی دو سال میں اس پر عمل درآمد کروا کر تاریخ میں اپنا نام اچھے حروف میں لکھوا سکتے ہیں اور قوم کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں۔
بیماری جس کا مناسب علاج نہ ہو تو وہ موت کا دوسرا نام ہے اور میرا خیال ہے کہ کم از کم کوئی پاکستانی بیماری سے مرنے کے بجائے اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے موت کو گلے لگانے میں فخر محسوس کرے گا۔
سچے اور عوام کا درد رکھنے والے جمہوری حکمران جان و مال کا تحفظ، خوراک کے بعد اپنا سب سے بڑا فرض اپنی عوام کو صحت کی سستی ترین سہولیات فراہم کرکے انھیں زندہ اور ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، چونکہ صحت سے بڑی کوئی نعمت نہیں یعنی زندگی کی تمام نعمتیں زندگی کے گرد طواف کرتی ہیں۔ زندگی سے زیادہ قیمتی چیز انسان کے پاس کوئی اور نہیں، رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے اس کی زندگی ہی سب سے بہترین تحفہ ہے، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر قومی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے، مگر ایک انسانی زندگی میں صحت کے بغیر کسی بھی قسم کی انفرا اسٹرکچر کی ترقی بھوک و بیماری اور افلاس سے بری طرح متاثر عوام کو حقیقی فائدہ پہنچانے سے قاصر رہتی ہے۔
پاکستانی قوم کی آدھی تعداد ''ایک ڈالر فی کس'' سالانہ آمدنی پر گزارا کرنے پر مجبور ہوں، زندگی مکمل طور پر بھوک افلاس اور بیماری کی وجہ سے دن بہ دن لاغر ہورہی ہو، تو بھلا ایسے لوگوں کو بلند و بالا عمارتوں، موٹر ویز، میٹرو، اورنج ٹرین کی تعمیر سے کسی طرح کی خوشی محسوس ہوتی ہوگی؟ یہ ایک عام آدمی خوب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمی مکمل تباہ و برباد ہوگیا تھا، وہاں پر انفرااسٹرکچر کو تعمیر کرنے سے پہلے اسپتالوں کو تعمیر کیا گیا۔ جاپان، برطانیہ، فرانس، پولینڈ ان سب ممالک کے حقیقی وطن پرست حکمرانوں نے قومی تعمیر میں سب سے زیادہ ترجیح ہیلتھ کے شعبے پر دی۔ پہلے اپنے ہم وطنوں کو صحت مند زندگی فراہم کرنے کے بھرپور عملی اقدامات اٹھائے اور اپنے ہم وطنوں کو صحت مند، طاقت ور و توانا بناکر اسے اپنے ملک کی انفرااسٹرکچر ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔
فہم و فراست اور دانش پر مبنی نقطہ نظر یہ ہے کہ پہلے اپنے وسائل کو قومی صحت کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جائے، یعنی Human Capital پر اخراجات کسی بھی قوم کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں نے اپنی قوم کو بیماری، بھوک سے نجات دلائی انھی لوگوں نے ان معاشروں کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم اور بھرپور کردار ادا کیا۔
مشہور مقولہ ہے کہ ایک صحت جسم میں ہی ایک صحت مند دماغ رہتا ہے اور ایک صحت مند ذہن ہی ایک انسان کو جدوجہد کے ذریعے اپنے آج اور کل کو روشن کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور صرف یہی قابل تقلید نسخہ قوموں کو غربت و افلاس کی دلدل سے باہر نکالنے میں کارگر ثابت ہوا ہے، لہٰذا التماس ہے کہ تمام وسائل کو بروئے کار لاکر قوم کو بھوک اور بیماری سے فوری نجات دلانے کے عملی اقدامات کیے جائیں، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے آنے والے برسوں میں ہمارے دشمنوں کے بجائے بھوک اور بیماری اپنی شدت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہوکر ہمیں بحیثیت ملک و قوم تباہی و بربادی کی طرف نہ دھکیل دیں۔
بھوک اور بیماری دو بنیادی اسباب ہوتے ہیں جو معاشروں میں بغاوت اور انقلاب یا خانہ جنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے معاشی امور کے ماہر Sir. W Beveridge کہتے ہیں کہ سچائی، عظمت اور ایمانداری کی توقع اس شخص سے نہیںکی جانی چاہیے جو اپنے بھوکے بچوں کے لیے دو وقت کا کھانا اور اپنی بیمار ماں باپ اور بیوی کے لیے تمام تر محنت اور جد وجہد کے باوجود دوائیں میسر نہ کرسکے۔
اس ریاست کی فطری حیثیت ہی خطرہ کا شکار ہوجاتی ہے جس کے رہنے والے بھوک اور بیماری کی وجہ سے تیزی سے موت کو گلے لگانے پر مجبور ہیں۔ حکومت وقت کو باقاعدہ طور پر ایک انڈیپنڈینٹ سروے کروا کر اس معاملے کی اہمیت اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس وقت بڑی بڑی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟ کیا اسپتالوں میں ایسی خطرناک جان لیوا بیماریوں کے علاج کی سہولت اور ادویات موجود ہیں یا نہیں؟
یقین کیجیے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ پچھلے کئی سال سے شدید بدحالی کا شکار ہے، لوگ اپنے گھر کا سامان بیچ کر اپنا علاج پرائیویٹ اسپتالوں میں کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران امرا اس اہم معاملے کی طرف توجہ دیں کہ جو حکومت اپنے عوام کی زندگی کی پرواہ نہ کررہی ہو وہ عوام کے باقی مسائل کیا حل کرے گی؟ حکومت وقت صحت کی موجودہ صورتحال سے متعلق اہم فیصلے کرے، عوام کو بھوک اور بیماری سے نجات دلائے، ورنہ عوام میں پائی جانے والی مایوسی غصے کی شکل اختیار کرکے حکومت وقت کے لیے نئی مشکلات نہ پیدا کردے۔
بیماری جس کا مناسب علاج نہ ہو تو وہ موت کا دوسرا نام ہے اور میرا خیال ہے کہ کم از کم کوئی پاکستانی بیماری سے مرنے کے بجائے اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے موت کو گلے لگانے میں فخر محسوس کرے گا۔
سچے اور عوام کا درد رکھنے والے جمہوری حکمران جان و مال کا تحفظ، خوراک کے بعد اپنا سب سے بڑا فرض اپنی عوام کو صحت کی سستی ترین سہولیات فراہم کرکے انھیں زندہ اور ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، چونکہ صحت سے بڑی کوئی نعمت نہیں یعنی زندگی کی تمام نعمتیں زندگی کے گرد طواف کرتی ہیں۔ زندگی سے زیادہ قیمتی چیز انسان کے پاس کوئی اور نہیں، رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے اس کی زندگی ہی سب سے بہترین تحفہ ہے، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر قومی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے، مگر ایک انسانی زندگی میں صحت کے بغیر کسی بھی قسم کی انفرا اسٹرکچر کی ترقی بھوک و بیماری اور افلاس سے بری طرح متاثر عوام کو حقیقی فائدہ پہنچانے سے قاصر رہتی ہے۔
پاکستانی قوم کی آدھی تعداد ''ایک ڈالر فی کس'' سالانہ آمدنی پر گزارا کرنے پر مجبور ہوں، زندگی مکمل طور پر بھوک افلاس اور بیماری کی وجہ سے دن بہ دن لاغر ہورہی ہو، تو بھلا ایسے لوگوں کو بلند و بالا عمارتوں، موٹر ویز، میٹرو، اورنج ٹرین کی تعمیر سے کسی طرح کی خوشی محسوس ہوتی ہوگی؟ یہ ایک عام آدمی خوب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمی مکمل تباہ و برباد ہوگیا تھا، وہاں پر انفرااسٹرکچر کو تعمیر کرنے سے پہلے اسپتالوں کو تعمیر کیا گیا۔ جاپان، برطانیہ، فرانس، پولینڈ ان سب ممالک کے حقیقی وطن پرست حکمرانوں نے قومی تعمیر میں سب سے زیادہ ترجیح ہیلتھ کے شعبے پر دی۔ پہلے اپنے ہم وطنوں کو صحت مند زندگی فراہم کرنے کے بھرپور عملی اقدامات اٹھائے اور اپنے ہم وطنوں کو صحت مند، طاقت ور و توانا بناکر اسے اپنے ملک کی انفرااسٹرکچر ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔
فہم و فراست اور دانش پر مبنی نقطہ نظر یہ ہے کہ پہلے اپنے وسائل کو قومی صحت کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جائے، یعنی Human Capital پر اخراجات کسی بھی قوم کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں نے اپنی قوم کو بیماری، بھوک سے نجات دلائی انھی لوگوں نے ان معاشروں کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم اور بھرپور کردار ادا کیا۔
مشہور مقولہ ہے کہ ایک صحت جسم میں ہی ایک صحت مند دماغ رہتا ہے اور ایک صحت مند ذہن ہی ایک انسان کو جدوجہد کے ذریعے اپنے آج اور کل کو روشن کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور صرف یہی قابل تقلید نسخہ قوموں کو غربت و افلاس کی دلدل سے باہر نکالنے میں کارگر ثابت ہوا ہے، لہٰذا التماس ہے کہ تمام وسائل کو بروئے کار لاکر قوم کو بھوک اور بیماری سے فوری نجات دلانے کے عملی اقدامات کیے جائیں، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے آنے والے برسوں میں ہمارے دشمنوں کے بجائے بھوک اور بیماری اپنی شدت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہوکر ہمیں بحیثیت ملک و قوم تباہی و بربادی کی طرف نہ دھکیل دیں۔
بھوک اور بیماری دو بنیادی اسباب ہوتے ہیں جو معاشروں میں بغاوت اور انقلاب یا خانہ جنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے معاشی امور کے ماہر Sir. W Beveridge کہتے ہیں کہ سچائی، عظمت اور ایمانداری کی توقع اس شخص سے نہیںکی جانی چاہیے جو اپنے بھوکے بچوں کے لیے دو وقت کا کھانا اور اپنی بیمار ماں باپ اور بیوی کے لیے تمام تر محنت اور جد وجہد کے باوجود دوائیں میسر نہ کرسکے۔
اس ریاست کی فطری حیثیت ہی خطرہ کا شکار ہوجاتی ہے جس کے رہنے والے بھوک اور بیماری کی وجہ سے تیزی سے موت کو گلے لگانے پر مجبور ہیں۔ حکومت وقت کو باقاعدہ طور پر ایک انڈیپنڈینٹ سروے کروا کر اس معاملے کی اہمیت اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس وقت بڑی بڑی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟ کیا اسپتالوں میں ایسی خطرناک جان لیوا بیماریوں کے علاج کی سہولت اور ادویات موجود ہیں یا نہیں؟
یقین کیجیے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ پچھلے کئی سال سے شدید بدحالی کا شکار ہے، لوگ اپنے گھر کا سامان بیچ کر اپنا علاج پرائیویٹ اسپتالوں میں کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران امرا اس اہم معاملے کی طرف توجہ دیں کہ جو حکومت اپنے عوام کی زندگی کی پرواہ نہ کررہی ہو وہ عوام کے باقی مسائل کیا حل کرے گی؟ حکومت وقت صحت کی موجودہ صورتحال سے متعلق اہم فیصلے کرے، عوام کو بھوک اور بیماری سے نجات دلائے، ورنہ عوام میں پائی جانے والی مایوسی غصے کی شکل اختیار کرکے حکومت وقت کے لیے نئی مشکلات نہ پیدا کردے۔