کیا سرکاری اسکولوں میں بہتری کا کوئی امکان نہیں
اسکولوں میں بچوں کے ابنارمل ہونے کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ صورتحال پرائیویٹ اسکولوں میں زیادہ ہے
سلطان محمود جنوبی پنجاب کی ایک قدرے ترقی یافتہ تحصیل سے ملحقہ ایک ایسی بستی میں رہائش پذیر ہے جہاں تعلیمی سہولیات بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں۔
سلطان محمود کے پانچ بچے ہیں جن میں دو بچے پرائمری شعبے کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور دو تاحال ایک پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ ان تمام بچوں کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ یہ ذہنی طور پر کم زور اور عام بچوں کی نسبت زیادہ حساس ہیں۔سلطان محمود اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے بے حد فکر مند ہے اسی لیے اس نے پہلے دو بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں داخل کرایا ۔ اس کا خیال تھا کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ دو بچے جن کی عمریں 10 اور 12 سال ہیں، چھ سال پرائمری شعبے میں رہنے کے باوجود تیسری جماعت میں نہیں جاسکے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچے محنت نہیں کرتے، اسکول سے غائب رہتے ہیں اور والدین ان بچوں پر مناسب توجہ نہیں دے رہے۔ والدین کا موقف ہے کہ بچے انتہائی ضدی ہوچکے ہیں، بات نہیں مانتے، ہر وقت لڑنے جھگڑنے میں مشغول رہتے ہیں اور کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے جب کہ بچوں کی ظاہری حالت بتاتی ہے اور ان سے ملنے کے بعد بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ بچے یا تو بے جا سختی کی وجہ سیشدید نفسیاتی رد عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں یا ان کا ذہنی تواز ن متاثر ہے اور یہ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔
ان مسائل کی وجہ سے یہ دونوں بچے اب گھر میں محصور ہیں اور کسی قیمت پرا سکول جانے کے لیے آمادہ نہیں جب کہ دوسرے دو بچے جو کچھ عرصہ پہلے پرائیویٹ اسکول میں داخل تھے ،رفتہ رفتہ اسی کیفیت کا شکار ہورہے تھے۔بچوں کی تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے سلطان محمود خود بھی نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ وہ جب دوسرے بچوں کوا سکول جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں کمتری کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بچے اسکول سے باغی ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں۔
اس دوران سلطان محمود کی ،جومقامی اسکول کونسل کا ممبر بھی ہے،سرکاری اسکول کے استاد سے ملاقات ہوتی ہے۔ استاد اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے اور حالات سن کر اسے بچوں کے اصل مسئلے کا پتہ چل جاتا ہے۔ استاد جو ماسٹر ڈگری کا حامل اور بہترین پروفیشنل تربیت یافتہ ہے ،اپنی خدمات کی پیش کش کرتا ہے۔
بچے پرائیویٹ اسکول چھوڑ کر سرکاری اسکول میں آجاتے ہیں اور یہاں سے ان بچوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں بچوں کو بڑی حد تک آزادی ہے۔پرائیویٹ اسکول کی طرح مینٹل ٹارچر نہیں ہے۔ یہاں ماحول میں بند کمروں کی گھٹن نہیں ہے۔ استاد ایک شفیق اور ہم درد دوست ہے، سخت گیر آمر نہیں۔یہاں تفریح واقعی تفریح ہے جس میں اساتذہ اور بچے دونوں مناسب طور پر شریک ہوتے ہیں۔
اس نئے ماحول کی وجہ سے بچوں کی زندگی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ یہ بچے جو شدید جذباتی بن چکے ہیں اب دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلتے ہیں۔ شرارتی بچوں سے حد درجہ خوف زدہ نہیں ہیں۔ یہ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر چھوٹی موٹی شرارتیں بھی سر انجام دیتے ہیں۔ اب انہیں ''ٹنگا ٹولی'' کرکے اسکول نہیں لایا جاتا بلکہ اپنی خوشی سے دوڑے چلے آتے ہیں۔
تعلیمی لحاظ سے دوسروں کے مقابلے میں ذرا کم زور ہیں لیکن اب انہیں پہلے کی طرح کلاس میں بے عزت نہیں کیا جاتا۔ استاد انہیں دوسرے بچوں کی بہ نسبت کم سبق دیتا ہے تاکہ سہولت کے ساتھ مکمل کام کرکے لائیں۔ اب انہیں شرارت کرنے پر مارپیٹ اور لائن حاضر کرنے کی بجائے انفرادی توجہ دی جاتی ہے اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلایا جاتا ہے۔ یہ دونوں بچے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے ''بچپن'' کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب یہ حقیقت میں اپنے بچپن سے لطف اندوزہو ں گے۔
سرکاری اسکول کے استاد کا کہنا ہے کہ وہ ان کے دوسرے بھائیوں کو بھی دوبارہ اسکول میں لائیں گے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ اس خوشگوار تبدیلی کا سہرا در اصل سرکاری اسکول کے ٹیچرز کے سر جاتا ہے جو ''پروفیشنل ازم '' سے آگے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے زیادہ بھی کسی کی ہم دردی کر سکتے ہیں۔ جب کہ پرائیویٹ شعبے میں پروفیشنل ازم کا راج ہے اور دور دور تک اس کا سحر ٹوٹتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورت حال اور بھی کئی سرکاری اسکولوں میں دیکھی گئی ہے جہاں نجی تعلیمی اداروں سے بھاگے ہوئے طلبہ کو ریکور کیا جارہا ہے اور ان کے دل سے تعلیم کا خوف نکالا جارہا ہے۔
تازہ ترین تحقیق کے مطابق اسکول میں بچوں کے ابنارمل ہونے کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ صورتحال پرائیویٹ اسکولوں میں زیادہ ہے جہاں ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں بچوں سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور ان سے جڑا اکیڈمی سسٹم'' بزنس پھیلاؤ پالیسی ''پر عمل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں محض سرسری ہوتی ہیں اور پھر اکیڈمی میں داخلہ لینے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ جو بچے اکیڈمی جوائن کرتے ہیں وہ اسکول کے ٹاپر بن جاتے ہیں اور جو نہیں کرسکتے وہ کلاس کے نکمے طلبہ میں شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ اسکول انتظامیہ ہفتہ وار /ماہانہ رزلٹ والدین کے حوالے کرکے اپنے فرائض سے سبک دوش ہوجاتی ہے۔
اس عنصر نے اکیڈمی کلچر کو فروغ دیا ہے اور اسکول بس رسمی کارروائیوں تک محدود ہوکررہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل پیدا ہورہے ہیں جن کی بازگشت کچھ عرصے بعد سنائی دے گی۔ فی الحال سرکاری اسکولوں کی پرائیویٹائزیشن کا جو غلغلہ سنایا جارہا ہے ، اگر گورنمنٹ اپنی ''جان چھڑاؤ پالیسی'' پر عمل پیرا رہی اور سرکاری اسکول نجی تحویل میں جاتے رہے تو یہ مسائل بہت ہی جلد ہمارے سامنے آجائیں گے۔
سرکاری اسکول جہاں تعلیمی سرگرمیاں محض ذمہ داری سمجھ کرکی جاتی ہیں اوربزنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اگر یہ اسکول پرائیویٹ کردیے جاتے ہیں تو سلطان محمود کے بچوں جیسے بے شمار بچے جوہر بستی میں موجود ہیں اور مڈل پاس /میٹرک پاس اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کا پرسان حال کون ہوگا؟
اسکولوں کی پرائیویٹائزیشن کی سب سے بڑی ''مبینہ وجہ'' ناقص کارکردگی ہے۔ اس پر بس اتنا تبصرہ کافی ہے کہ ہم قومی سطح پر ایک غلط فہمی کا شکار ہوچکے ہیں اور ہم نے امتحانی نتائج کوکارکردگی سمجھ لیا ہے۔ کیا واقعی اسکولوں کی ذمہ داری صرف بہتر امتحانی نتائج کا حصول ہے؟اگر اس کا جواب ''ہاں ''میں ہے تو واقعی ہم ایسی قوم ہیں جس کی تعلیم سوداگروں کے ہاتھ میں جچتی ہے اور ہمارے بچوں کا بچپن واقعی اتنا سستا ہے کہ اسے بیچ کر ڈگریاں خریدلی جائیں۔
سلطان محمود کے پانچ بچے ہیں جن میں دو بچے پرائمری شعبے کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور دو تاحال ایک پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ ان تمام بچوں کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ یہ ذہنی طور پر کم زور اور عام بچوں کی نسبت زیادہ حساس ہیں۔سلطان محمود اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے بے حد فکر مند ہے اسی لیے اس نے پہلے دو بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں داخل کرایا ۔ اس کا خیال تھا کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ دو بچے جن کی عمریں 10 اور 12 سال ہیں، چھ سال پرائمری شعبے میں رہنے کے باوجود تیسری جماعت میں نہیں جاسکے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچے محنت نہیں کرتے، اسکول سے غائب رہتے ہیں اور والدین ان بچوں پر مناسب توجہ نہیں دے رہے۔ والدین کا موقف ہے کہ بچے انتہائی ضدی ہوچکے ہیں، بات نہیں مانتے، ہر وقت لڑنے جھگڑنے میں مشغول رہتے ہیں اور کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے جب کہ بچوں کی ظاہری حالت بتاتی ہے اور ان سے ملنے کے بعد بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ بچے یا تو بے جا سختی کی وجہ سیشدید نفسیاتی رد عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں یا ان کا ذہنی تواز ن متاثر ہے اور یہ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔
ان مسائل کی وجہ سے یہ دونوں بچے اب گھر میں محصور ہیں اور کسی قیمت پرا سکول جانے کے لیے آمادہ نہیں جب کہ دوسرے دو بچے جو کچھ عرصہ پہلے پرائیویٹ اسکول میں داخل تھے ،رفتہ رفتہ اسی کیفیت کا شکار ہورہے تھے۔بچوں کی تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے سلطان محمود خود بھی نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ وہ جب دوسرے بچوں کوا سکول جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں کمتری کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بچے اسکول سے باغی ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں۔
اس دوران سلطان محمود کی ،جومقامی اسکول کونسل کا ممبر بھی ہے،سرکاری اسکول کے استاد سے ملاقات ہوتی ہے۔ استاد اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے اور حالات سن کر اسے بچوں کے اصل مسئلے کا پتہ چل جاتا ہے۔ استاد جو ماسٹر ڈگری کا حامل اور بہترین پروفیشنل تربیت یافتہ ہے ،اپنی خدمات کی پیش کش کرتا ہے۔
بچے پرائیویٹ اسکول چھوڑ کر سرکاری اسکول میں آجاتے ہیں اور یہاں سے ان بچوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں بچوں کو بڑی حد تک آزادی ہے۔پرائیویٹ اسکول کی طرح مینٹل ٹارچر نہیں ہے۔ یہاں ماحول میں بند کمروں کی گھٹن نہیں ہے۔ استاد ایک شفیق اور ہم درد دوست ہے، سخت گیر آمر نہیں۔یہاں تفریح واقعی تفریح ہے جس میں اساتذہ اور بچے دونوں مناسب طور پر شریک ہوتے ہیں۔
اس نئے ماحول کی وجہ سے بچوں کی زندگی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ یہ بچے جو شدید جذباتی بن چکے ہیں اب دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر کھیلتے ہیں۔ شرارتی بچوں سے حد درجہ خوف زدہ نہیں ہیں۔ یہ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر چھوٹی موٹی شرارتیں بھی سر انجام دیتے ہیں۔ اب انہیں ''ٹنگا ٹولی'' کرکے اسکول نہیں لایا جاتا بلکہ اپنی خوشی سے دوڑے چلے آتے ہیں۔
تعلیمی لحاظ سے دوسروں کے مقابلے میں ذرا کم زور ہیں لیکن اب انہیں پہلے کی طرح کلاس میں بے عزت نہیں کیا جاتا۔ استاد انہیں دوسرے بچوں کی بہ نسبت کم سبق دیتا ہے تاکہ سہولت کے ساتھ مکمل کام کرکے لائیں۔ اب انہیں شرارت کرنے پر مارپیٹ اور لائن حاضر کرنے کی بجائے انفرادی توجہ دی جاتی ہے اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلایا جاتا ہے۔ یہ دونوں بچے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے ''بچپن'' کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب یہ حقیقت میں اپنے بچپن سے لطف اندوزہو ں گے۔
سرکاری اسکول کے استاد کا کہنا ہے کہ وہ ان کے دوسرے بھائیوں کو بھی دوبارہ اسکول میں لائیں گے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ اس خوشگوار تبدیلی کا سہرا در اصل سرکاری اسکول کے ٹیچرز کے سر جاتا ہے جو ''پروفیشنل ازم '' سے آگے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے زیادہ بھی کسی کی ہم دردی کر سکتے ہیں۔ جب کہ پرائیویٹ شعبے میں پروفیشنل ازم کا راج ہے اور دور دور تک اس کا سحر ٹوٹتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورت حال اور بھی کئی سرکاری اسکولوں میں دیکھی گئی ہے جہاں نجی تعلیمی اداروں سے بھاگے ہوئے طلبہ کو ریکور کیا جارہا ہے اور ان کے دل سے تعلیم کا خوف نکالا جارہا ہے۔
تازہ ترین تحقیق کے مطابق اسکول میں بچوں کے ابنارمل ہونے کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ صورتحال پرائیویٹ اسکولوں میں زیادہ ہے جہاں ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں بچوں سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور ان سے جڑا اکیڈمی سسٹم'' بزنس پھیلاؤ پالیسی ''پر عمل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں محض سرسری ہوتی ہیں اور پھر اکیڈمی میں داخلہ لینے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ جو بچے اکیڈمی جوائن کرتے ہیں وہ اسکول کے ٹاپر بن جاتے ہیں اور جو نہیں کرسکتے وہ کلاس کے نکمے طلبہ میں شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ اسکول انتظامیہ ہفتہ وار /ماہانہ رزلٹ والدین کے حوالے کرکے اپنے فرائض سے سبک دوش ہوجاتی ہے۔
اس عنصر نے اکیڈمی کلچر کو فروغ دیا ہے اور اسکول بس رسمی کارروائیوں تک محدود ہوکررہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل پیدا ہورہے ہیں جن کی بازگشت کچھ عرصے بعد سنائی دے گی۔ فی الحال سرکاری اسکولوں کی پرائیویٹائزیشن کا جو غلغلہ سنایا جارہا ہے ، اگر گورنمنٹ اپنی ''جان چھڑاؤ پالیسی'' پر عمل پیرا رہی اور سرکاری اسکول نجی تحویل میں جاتے رہے تو یہ مسائل بہت ہی جلد ہمارے سامنے آجائیں گے۔
سرکاری اسکول جہاں تعلیمی سرگرمیاں محض ذمہ داری سمجھ کرکی جاتی ہیں اوربزنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اگر یہ اسکول پرائیویٹ کردیے جاتے ہیں تو سلطان محمود کے بچوں جیسے بے شمار بچے جوہر بستی میں موجود ہیں اور مڈل پاس /میٹرک پاس اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کا پرسان حال کون ہوگا؟
اسکولوں کی پرائیویٹائزیشن کی سب سے بڑی ''مبینہ وجہ'' ناقص کارکردگی ہے۔ اس پر بس اتنا تبصرہ کافی ہے کہ ہم قومی سطح پر ایک غلط فہمی کا شکار ہوچکے ہیں اور ہم نے امتحانی نتائج کوکارکردگی سمجھ لیا ہے۔ کیا واقعی اسکولوں کی ذمہ داری صرف بہتر امتحانی نتائج کا حصول ہے؟اگر اس کا جواب ''ہاں ''میں ہے تو واقعی ہم ایسی قوم ہیں جس کی تعلیم سوداگروں کے ہاتھ میں جچتی ہے اور ہمارے بچوں کا بچپن واقعی اتنا سستا ہے کہ اسے بیچ کر ڈگریاں خریدلی جائیں۔