تاجر بھی بارڈر مینجمنٹ کے حق میں ہیں
اکثر نے کہا کہ اب حکومت کو پاکستان آرمی کے اقدامات کو مزید آگے بڑھانا چاہیے
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ گذشتہ ہفتہ لکھے جانے والے کالم پر سیکڑوں قارئین نے اپنی رائے کا کھل کا اظہار کیا زیادہ تر بلکہ اٹھانوے فیصد کالم کے مندرجات سے متفق تھے خاص طور پر ان کا تعلق پشاور اور صوبہ خیبر پختون خوا سے تھا اور مجھے بھی پہلی بار احساس ہوا کہ اس صوبے کے شہری افغان مہاجرین کے حوالے سے کس قدر تحفظات رکھتے ہیں مگر بوجوہ وہ اپنی رائے حکام بالا تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے بعض کا تو یہ خیال تھا کہ پاکستان آرمی نے بارڈر مینجمنٹ کے لیے جو اقدامات اب کیے ہیں وہ آخر قیام پاکستان کے بعد سے کیوں شروع نہیں کیے جا سکے ۔
اکثر نے کہا کہ اب حکومت کو پاکستان آرمی کے اقدامات کو مزید آگے بڑھانا چاہیے، یہی موقع ہے کہ معاملات کو درست سمت میں لیجایا جائے۔پشاور سے محمد اقبال نے لکھا کہ افغان مہاجرین یہ نہ سمجھیں کہ ہم ان کے خلاف ہیں بلکہ ہمیں تواپنی حکومت سے شکایت ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کا قیام پاکستان سے اب تک پتہ ہی نہیں چل پایا، ساری دنیا کے ممالک بشمول سپر پاور اپنی خارجہ پالیسی اپنے ملک و قوم کے فائدے کے لیے بناتی ہے اور بدقسمتی سے ہم نے اپنی خارجہ پالیسی دوسروں کے مفاد کے لیے بنائی اور اس کا ثبوت آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے پاس فل ٹائم وزیر خارجہ ہی نہیں۔
ثوبیہ وحید نے پاک افغان طورخم سرحد پر گیٹ لگانے اور دستاویزات کے بغیر کسی کو بھی پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے اقدام کو پاکستان کے بہتر مستقبل کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صرف ایک بارڈر پر سختی سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ وہ تما م راستے جہاں سے غیر قانونی طور پر افغان باشندے پاکستان آتے ہیں انھیں کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حیات آباد سے عالم زیب نے ایک نجی اسپتال میں پیش آنے والا واقعہ لکھا ہے جس کا لب لباب یہی ہے کہ ہمیں اپنی بہتری کے لیے سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔بی بی سی کے رفعت اللہ مہمند کا خیال ہے کہ افغان پاکستانیوں کے خیر خواہ ہیں یہ ان کی رائے ہے ،سابق صحافی دوست امیر محمد خان نے لکھا کہ جب افغان بابا جی نے پاکستان میں ہونے والے سلوک کو اچھا قرار دیا تو پھر پاکستان کو کیوں برا بھلا کہا، اسی طرح کے بہت سارے ایس ایم ایس اور فیس بک کے علاوہ ٹوئیٹر پر ملنے والے پیغامات اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستانی گذشتہ سولہ برسوں سے جس طرح دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ انھیں ہر قیمت پر امن اور سکون دیا جائے۔
دستاویزات کے حوالے سے بہت سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر کون سی دستاویزات ہیں جو پاکستان داخلے کے لیے ضروری ہیں؟اور کیا افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے سے مکمل طور پر روک دیا گیا ہے ایسی بعض خبریں حقائق کے منافی ہیں افغان بارڈر کچھ دن بند رہنے کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے ۔طورخم بارڈر پر امیگریشن کاؤنٹر قائم کر دیا گیا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے اہل کار تعینات کر دیے گئے ہیں، کسٹم اہلکار بھی تعینات ہیں جب کہ پاکستان آرمی یا پولیٹیکل انتظامیہ کا اب آنے جانیوالوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، پاکستان کی جانب سے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ افغان شہری پاکستان کا ویزہ لیے بغیر پاکستان نہیں جا سکیں گے جب کہ پاکستانیوں کو جو افغانستان جانا چاہتے ہیں امیگریشن حکام افغان ویزہ لیے بغیر سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔
کوئی بھی افغان شہری تب ہی پاکستان داخل ہو سکتا ہے جب اس کے پاسپورٹ پر کابل میں پاکستانی سفارتخانے یا پھر جلال آباد اور قندہار میں پاکستانی قونصل خانے سے ویزہ جاری کیا گیا ہو ۔پاکستانی سفارتخانے کے ذرایع کے مطابق افغان شہریوں کو ایک سے زیادہ بار پاکستان آنے جانے کے لیے ان کے مطالبے پر ملٹی پل ویزے جاری کیے جا رہے ہیں، ویزہ فارم کے ساتھ ان سے پاکستان میں رہائش سمیت کاروبار کی نوعیت کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور اطمینان کے بعد انھیں ویزہ جاری کر دیا جاتا ہے۔
امیگریشن حکام کے مطابق ویزہ لے کر آنیوالوں کے لیے پاکستان آنے میں کوئی دشواری نہیں تاہم پاکستان آمد پر بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح ان کا اندراج کیا جاتا ہے اور ان کی تصویر بنائی جا رہی ہے۔رواں سال یکم جون سے ویزے کی پابندی سے قبل روزانہ بیس سے پچیس ہزار افراد بارڈر کراس کرتے تھے جن کی تعداد پانچ ہزار رہ گئی ہے اسی طرح بغیر ویزہ کے آنے والوں کی کثیر تعداد بھی شامل تھی جب کہ اب ایک ہزار کے لگ بھگ افغان شہری ویزہ لے کر پاکستان آ رہے ہیں۔
ماضی میں افغانستان کی وزارت جسے قبائلو چار وزارت کہا جاتا ہے کی جانب سے پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کو بغیر ویزہ کے افغانستان میں داخلے کی اجازت تھی جو خیبر ایجنسی تک محدود کر دی گئی اور اب صرف شنواری قبائل کو سرحد کے اس پار جانے کی اجازت ہے۔ سرحد کے دونوں جانب رہنے والی شنواری قوم کے افراد راہداری پرمٹ کے ذریعے ایک دوسرے ملک آ جا سکتے ہیں یہ پرمٹ پاکستان کی جانب سے نادرا جاری کرتا ہے، سرحد کے اس پار افغانستان میں رہنے والے شنواری قبیلے کے کسی بھی ایک فرد کو دو پاکستانی شنواری قبائل کی ذمے داری پر پرمٹ جاری کیا جاتا ہے مجموعی طور پر نادرا کی جانب سے راہداری پرمٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد 12 ہزار7 سو33ہے۔
ذرایع کے مطابق راہداری پرمٹ کو بھی بتدریج ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے دوسری طرف پاکستان کی جانب سے ٹرانزٹ کا سامان لیجانے والے ٹرک ڈرائیور اگلے بیس روز تک ویزے کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں، مقررہ معیاد کے بعد انھیں ویزہ لینا ہو گا۔آجکل دو ہزارکے لگ بھگ ٹرک ٹرانزٹ اور ایکسپورٹ کا سامان لے کر افغانستان جانے والے ڈرائیور قومی شناختی کارڈ دکھا کر اگلے چند روز کے لیے بارڈر کراس کر سکتے ہیں ۔امیگریشن حکام کے مطابق پاکستانیوں کے لیے افغان حکومت کی جانب سے ویزے کی پابندی پہلے ہی عائد ہے اور بغیر ویزہ پکڑے جانے کی صورت میں انھیں افغان حکام جیل بھیج دیتے ہیں ۔
اس وقت بھی سیکڑوں پاکستانی جن کے پاس افغانستان کا ویزہ نہیں تھا جیلوں میں قید ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی امیگریشن حکام سرحد پار کرنے کے لیے کسی پاکستانی اور غیر ملکی کو ویزہ کے بغیر سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔پاکستانی اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے علاوہ پشاور ،کوئٹہ اور کراچی کے قونصل خانوں سے افغانستان کا ویزہ حاصل کر سکتے ہیں۔دوسری جانب طورخم بارڈر سے چند کلومیٹرپاکستانی حدود میں پاکستان آرمی نے ایک الگ چیک پوسٹ قائم کر دی ہے جہاں پشاور کی طرف جانے والے ہر غیر ملکی کا پاسپورٹ اور ویزہ چیک کیا جا رہا ہے جس کے بعد ہی انھیں سفر کی اجازت دی جاتی ہے اس چیک پوسٹ کے بعد بغیر دستاویزات افغان شہریوں کی پاکستان آمد مزید مشکل کر دی گئی ہے۔
بعض ذرایع کی جانب سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ تجارت پر فرق پڑے گا اور اسمگلنگ میں اضافہ ہو جائے گا ،تاجر پریشان ہیں تو اس پر پاک افغان چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر اور موجودہ ڈائریکٹر زاہد شنواری کا کہنا ہے کہ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بارڈر مینجمنٹ کا نظام ہونا چاہیے، نہ صرف تاجر بلکہ سارے قبائل ان اقدامات کے حق میں ہیں ان کے چند تحفظات ضرور ہیں کہ سختی بتدریج کی جاتی، مزید کچھ وقت دیا جاتا اور پھر دونوں طرف کے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کر کے ان کی رائے لی جاتی تو بہت بہتر ہوتا۔اس سلسلے میں کور کمانڈر پشاور کو ان تاجروں سے ضرور غیر رسمی ملاقات کرنی چاہیے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تاجر بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تاہم ان کے تحفظات پر بھی غور کیا جا سکتا ہے ۔
زاہد شنواری کا مؤقف تھا کہ بارڈر مینجمنٹ نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امن و امان کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو سکے تاہم طورخم کے علاوہ جن راستوں سے اسمگلنگ کا خطرہ ہے وہاں توجہ دی جائے، کاروباری قبائل جن کے سرحد کے اس پار نوے فیصد بزنس ہے انھیں آسانی فراہم کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے، کابل کے تاجروں کو ویزے کے لیے آسانیاں فراہم کی جائیں ،اور علاج کے لیے پاکستان آنے والے مریضوں کو بارڈر پر ویزے کی سہولت دی جائے اور خاص طور پر ان مریضوں کو سہولت دی جائے جن کے پاس ڈاکٹروں کی اپائنمنٹ ہو۔ زاہد شنواری کی یہ تجاویز معقول بھی ہیں اور قابل غور بھی ہیں، میرا خیال ہے کہ اس پر بات ہو سکتی ہے۔
اکثر نے کہا کہ اب حکومت کو پاکستان آرمی کے اقدامات کو مزید آگے بڑھانا چاہیے، یہی موقع ہے کہ معاملات کو درست سمت میں لیجایا جائے۔پشاور سے محمد اقبال نے لکھا کہ افغان مہاجرین یہ نہ سمجھیں کہ ہم ان کے خلاف ہیں بلکہ ہمیں تواپنی حکومت سے شکایت ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کا قیام پاکستان سے اب تک پتہ ہی نہیں چل پایا، ساری دنیا کے ممالک بشمول سپر پاور اپنی خارجہ پالیسی اپنے ملک و قوم کے فائدے کے لیے بناتی ہے اور بدقسمتی سے ہم نے اپنی خارجہ پالیسی دوسروں کے مفاد کے لیے بنائی اور اس کا ثبوت آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے پاس فل ٹائم وزیر خارجہ ہی نہیں۔
ثوبیہ وحید نے پاک افغان طورخم سرحد پر گیٹ لگانے اور دستاویزات کے بغیر کسی کو بھی پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے اقدام کو پاکستان کے بہتر مستقبل کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صرف ایک بارڈر پر سختی سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ وہ تما م راستے جہاں سے غیر قانونی طور پر افغان باشندے پاکستان آتے ہیں انھیں کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حیات آباد سے عالم زیب نے ایک نجی اسپتال میں پیش آنے والا واقعہ لکھا ہے جس کا لب لباب یہی ہے کہ ہمیں اپنی بہتری کے لیے سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔بی بی سی کے رفعت اللہ مہمند کا خیال ہے کہ افغان پاکستانیوں کے خیر خواہ ہیں یہ ان کی رائے ہے ،سابق صحافی دوست امیر محمد خان نے لکھا کہ جب افغان بابا جی نے پاکستان میں ہونے والے سلوک کو اچھا قرار دیا تو پھر پاکستان کو کیوں برا بھلا کہا، اسی طرح کے بہت سارے ایس ایم ایس اور فیس بک کے علاوہ ٹوئیٹر پر ملنے والے پیغامات اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستانی گذشتہ سولہ برسوں سے جس طرح دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ انھیں ہر قیمت پر امن اور سکون دیا جائے۔
دستاویزات کے حوالے سے بہت سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر کون سی دستاویزات ہیں جو پاکستان داخلے کے لیے ضروری ہیں؟اور کیا افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے سے مکمل طور پر روک دیا گیا ہے ایسی بعض خبریں حقائق کے منافی ہیں افغان بارڈر کچھ دن بند رہنے کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے ۔طورخم بارڈر پر امیگریشن کاؤنٹر قائم کر دیا گیا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے اہل کار تعینات کر دیے گئے ہیں، کسٹم اہلکار بھی تعینات ہیں جب کہ پاکستان آرمی یا پولیٹیکل انتظامیہ کا اب آنے جانیوالوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، پاکستان کی جانب سے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ افغان شہری پاکستان کا ویزہ لیے بغیر پاکستان نہیں جا سکیں گے جب کہ پاکستانیوں کو جو افغانستان جانا چاہتے ہیں امیگریشن حکام افغان ویزہ لیے بغیر سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔
کوئی بھی افغان شہری تب ہی پاکستان داخل ہو سکتا ہے جب اس کے پاسپورٹ پر کابل میں پاکستانی سفارتخانے یا پھر جلال آباد اور قندہار میں پاکستانی قونصل خانے سے ویزہ جاری کیا گیا ہو ۔پاکستانی سفارتخانے کے ذرایع کے مطابق افغان شہریوں کو ایک سے زیادہ بار پاکستان آنے جانے کے لیے ان کے مطالبے پر ملٹی پل ویزے جاری کیے جا رہے ہیں، ویزہ فارم کے ساتھ ان سے پاکستان میں رہائش سمیت کاروبار کی نوعیت کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور اطمینان کے بعد انھیں ویزہ جاری کر دیا جاتا ہے۔
امیگریشن حکام کے مطابق ویزہ لے کر آنیوالوں کے لیے پاکستان آنے میں کوئی دشواری نہیں تاہم پاکستان آمد پر بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح ان کا اندراج کیا جاتا ہے اور ان کی تصویر بنائی جا رہی ہے۔رواں سال یکم جون سے ویزے کی پابندی سے قبل روزانہ بیس سے پچیس ہزار افراد بارڈر کراس کرتے تھے جن کی تعداد پانچ ہزار رہ گئی ہے اسی طرح بغیر ویزہ کے آنے والوں کی کثیر تعداد بھی شامل تھی جب کہ اب ایک ہزار کے لگ بھگ افغان شہری ویزہ لے کر پاکستان آ رہے ہیں۔
ماضی میں افغانستان کی وزارت جسے قبائلو چار وزارت کہا جاتا ہے کی جانب سے پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کو بغیر ویزہ کے افغانستان میں داخلے کی اجازت تھی جو خیبر ایجنسی تک محدود کر دی گئی اور اب صرف شنواری قبائل کو سرحد کے اس پار جانے کی اجازت ہے۔ سرحد کے دونوں جانب رہنے والی شنواری قوم کے افراد راہداری پرمٹ کے ذریعے ایک دوسرے ملک آ جا سکتے ہیں یہ پرمٹ پاکستان کی جانب سے نادرا جاری کرتا ہے، سرحد کے اس پار افغانستان میں رہنے والے شنواری قبیلے کے کسی بھی ایک فرد کو دو پاکستانی شنواری قبائل کی ذمے داری پر پرمٹ جاری کیا جاتا ہے مجموعی طور پر نادرا کی جانب سے راہداری پرمٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد 12 ہزار7 سو33ہے۔
ذرایع کے مطابق راہداری پرمٹ کو بھی بتدریج ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے دوسری طرف پاکستان کی جانب سے ٹرانزٹ کا سامان لیجانے والے ٹرک ڈرائیور اگلے بیس روز تک ویزے کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں، مقررہ معیاد کے بعد انھیں ویزہ لینا ہو گا۔آجکل دو ہزارکے لگ بھگ ٹرک ٹرانزٹ اور ایکسپورٹ کا سامان لے کر افغانستان جانے والے ڈرائیور قومی شناختی کارڈ دکھا کر اگلے چند روز کے لیے بارڈر کراس کر سکتے ہیں ۔امیگریشن حکام کے مطابق پاکستانیوں کے لیے افغان حکومت کی جانب سے ویزے کی پابندی پہلے ہی عائد ہے اور بغیر ویزہ پکڑے جانے کی صورت میں انھیں افغان حکام جیل بھیج دیتے ہیں ۔
اس وقت بھی سیکڑوں پاکستانی جن کے پاس افغانستان کا ویزہ نہیں تھا جیلوں میں قید ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی امیگریشن حکام سرحد پار کرنے کے لیے کسی پاکستانی اور غیر ملکی کو ویزہ کے بغیر سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔پاکستانی اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے علاوہ پشاور ،کوئٹہ اور کراچی کے قونصل خانوں سے افغانستان کا ویزہ حاصل کر سکتے ہیں۔دوسری جانب طورخم بارڈر سے چند کلومیٹرپاکستانی حدود میں پاکستان آرمی نے ایک الگ چیک پوسٹ قائم کر دی ہے جہاں پشاور کی طرف جانے والے ہر غیر ملکی کا پاسپورٹ اور ویزہ چیک کیا جا رہا ہے جس کے بعد ہی انھیں سفر کی اجازت دی جاتی ہے اس چیک پوسٹ کے بعد بغیر دستاویزات افغان شہریوں کی پاکستان آمد مزید مشکل کر دی گئی ہے۔
بعض ذرایع کی جانب سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ تجارت پر فرق پڑے گا اور اسمگلنگ میں اضافہ ہو جائے گا ،تاجر پریشان ہیں تو اس پر پاک افغان چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر اور موجودہ ڈائریکٹر زاہد شنواری کا کہنا ہے کہ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بارڈر مینجمنٹ کا نظام ہونا چاہیے، نہ صرف تاجر بلکہ سارے قبائل ان اقدامات کے حق میں ہیں ان کے چند تحفظات ضرور ہیں کہ سختی بتدریج کی جاتی، مزید کچھ وقت دیا جاتا اور پھر دونوں طرف کے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کر کے ان کی رائے لی جاتی تو بہت بہتر ہوتا۔اس سلسلے میں کور کمانڈر پشاور کو ان تاجروں سے ضرور غیر رسمی ملاقات کرنی چاہیے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تاجر بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تاہم ان کے تحفظات پر بھی غور کیا جا سکتا ہے ۔
زاہد شنواری کا مؤقف تھا کہ بارڈر مینجمنٹ نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امن و امان کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو سکے تاہم طورخم کے علاوہ جن راستوں سے اسمگلنگ کا خطرہ ہے وہاں توجہ دی جائے، کاروباری قبائل جن کے سرحد کے اس پار نوے فیصد بزنس ہے انھیں آسانی فراہم کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے، کابل کے تاجروں کو ویزے کے لیے آسانیاں فراہم کی جائیں ،اور علاج کے لیے پاکستان آنے والے مریضوں کو بارڈر پر ویزے کی سہولت دی جائے اور خاص طور پر ان مریضوں کو سہولت دی جائے جن کے پاس ڈاکٹروں کی اپائنمنٹ ہو۔ زاہد شنواری کی یہ تجاویز معقول بھی ہیں اور قابل غور بھی ہیں، میرا خیال ہے کہ اس پر بات ہو سکتی ہے۔