ایکسپریس نیوز نے حفاظتی انتظامات کے دعوئوں کا پول کھول دیا
لاہور داخلے پر گاڑی کی چیکنگ نہیں کی گئی،نوجوان،ہردفعہ ہماری بس چیک نہیں ہوتی، کنڈکٹر
محرم الحرام کے موقع پر لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں پر سخت حفاظتی انتظامات کے دعوے تو کیے گئے لیکن ایکسپریس نیوز کے پروگرام تکرار کی ٹیم نے ان دعووں کا پول کھول دیا۔
پروگرام تکرار کی ٹیم نے اینکرپرسن عمران خان کی قیادت میں لاہور کے مختلف داخلی اورخارجی راستوں پر شہر میں داخل ہونے والے اور شہر سے باہر جانے والوں سے سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے گفتگو کی۔ ایک نوجوان نے کہاکہ میری گاڑی کی چیکنگ نہیں کی گئی شائد پولیس اہلکار سمجھے ہوں گے کہ میں ایک شریف شہری ہوں لیکن یہ طریقہ کاردرست نہیں، ان کو ہر گاڑی کو چیک کرکے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینی چاہئے، کوئی بھی دھوکہ دے سکتا ہے ۔ایک شخص نے کہاکہ میری گاڑی کو چیک کیا گیا ہے مجھے اچھا لگا کیونکہ ہم جن حالات کا شکار ہیں اس میں سکیورٹی کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ ایک بس کنڈیکٹر نے کہاکہ ان کی گاڑی کو ہر دفعہ چیک نہیں کیا جاتا۔
ایک مسافر نے کہاکہ میں نے بوری میں کچھ کپڑے رکھے ہوئے ہیں لیکن مجھے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس میں کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح بوری میں کوئی کچھ بھی لے کر جا سکتا ہے۔ بریگیڈئر ریٹائرڈاور ماہر سیکیورٹی امور غضنفر علی نے کہاکہ تعینات نفری کو ٹیکنیکل سپورٹ ملنی چاہئے۔ کیپٹن رومیل نے کہاکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشتگردی کے خطرات کو 100فی صد ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم درکاروسائل کی موجودگی میں بہتر سے بہتر چیکنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ٹریفک کا فلو بہت زیادہ ہے اگر ہر گاڑی کو تفصیل سے چیک کیا جائے تو ملتان تک گاڑیوں کی لائن لگ جائے، جس گاڑی پر شک ہوتا ہے یا انٹیلی جنس اطلاعات ملتی ہیں تو پھر اس گاڑی کو الگ کرلیا جاتا ہے اور تفصیل سے چیک کرکے چھوڑا جاتا ہے ۔ ڈی ایس پی محمد اقبال نے کہاکہ اللہ کاشکر ہے ہمارااتنا تجربہ ہوچکا ہے کہ ہم چہرہ دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ بندہ مشکوک ہے یا نہیں ویسے بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ہر گاڑی کوچیک کرکے ہی جانے دیں ۔
اگر کسی گاڑی میں خواتین بیٹھی ہوں یا بچے ہوں تو اس کو جانے دیا جاتا ہے لیکن جس گاڑی میں نوجوان زیادہ بیٹھے ہوں ان کو چیک کرکے ہی جانے دیا جاتا ہے ۔لاہور میں داخل ہونے والی ساری گاڑیوں کی چیکنگ ممکن نہیں ہے ہمارے پاس کوئی ایسے آلات بھی نہیں ہیں لیکن ہم جو بھی وسائل ہیں ان کی موجودگی میں پوری کوشش کرتے ہیں کہ کوئی مشکوک گاڑی شہر میں داخل نہ ہوسکے۔ گن سنبھالے پولیس اہلکار نے کہا کہ اگر کوئی گن لے کر آتا ہے اس کو تو میں جانے نہیں دوں گا لیکن اگر کوئی بڑا دھماکہ کردیتا ہے اس کے سامنے میری گن چھوٹی ہے لیکن میں پھر بھی آخری دم تک اس کا مقابلہ کروں گا۔
پروگرام تکرار کی ٹیم نے اینکرپرسن عمران خان کی قیادت میں لاہور کے مختلف داخلی اورخارجی راستوں پر شہر میں داخل ہونے والے اور شہر سے باہر جانے والوں سے سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے گفتگو کی۔ ایک نوجوان نے کہاکہ میری گاڑی کی چیکنگ نہیں کی گئی شائد پولیس اہلکار سمجھے ہوں گے کہ میں ایک شریف شہری ہوں لیکن یہ طریقہ کاردرست نہیں، ان کو ہر گاڑی کو چیک کرکے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینی چاہئے، کوئی بھی دھوکہ دے سکتا ہے ۔ایک شخص نے کہاکہ میری گاڑی کو چیک کیا گیا ہے مجھے اچھا لگا کیونکہ ہم جن حالات کا شکار ہیں اس میں سکیورٹی کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ ایک بس کنڈیکٹر نے کہاکہ ان کی گاڑی کو ہر دفعہ چیک نہیں کیا جاتا۔
ایک مسافر نے کہاکہ میں نے بوری میں کچھ کپڑے رکھے ہوئے ہیں لیکن مجھے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس میں کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح بوری میں کوئی کچھ بھی لے کر جا سکتا ہے۔ بریگیڈئر ریٹائرڈاور ماہر سیکیورٹی امور غضنفر علی نے کہاکہ تعینات نفری کو ٹیکنیکل سپورٹ ملنی چاہئے۔ کیپٹن رومیل نے کہاکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشتگردی کے خطرات کو 100فی صد ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم درکاروسائل کی موجودگی میں بہتر سے بہتر چیکنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ٹریفک کا فلو بہت زیادہ ہے اگر ہر گاڑی کو تفصیل سے چیک کیا جائے تو ملتان تک گاڑیوں کی لائن لگ جائے، جس گاڑی پر شک ہوتا ہے یا انٹیلی جنس اطلاعات ملتی ہیں تو پھر اس گاڑی کو الگ کرلیا جاتا ہے اور تفصیل سے چیک کرکے چھوڑا جاتا ہے ۔ ڈی ایس پی محمد اقبال نے کہاکہ اللہ کاشکر ہے ہمارااتنا تجربہ ہوچکا ہے کہ ہم چہرہ دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ بندہ مشکوک ہے یا نہیں ویسے بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ہر گاڑی کوچیک کرکے ہی جانے دیں ۔
اگر کسی گاڑی میں خواتین بیٹھی ہوں یا بچے ہوں تو اس کو جانے دیا جاتا ہے لیکن جس گاڑی میں نوجوان زیادہ بیٹھے ہوں ان کو چیک کرکے ہی جانے دیا جاتا ہے ۔لاہور میں داخل ہونے والی ساری گاڑیوں کی چیکنگ ممکن نہیں ہے ہمارے پاس کوئی ایسے آلات بھی نہیں ہیں لیکن ہم جو بھی وسائل ہیں ان کی موجودگی میں پوری کوشش کرتے ہیں کہ کوئی مشکوک گاڑی شہر میں داخل نہ ہوسکے۔ گن سنبھالے پولیس اہلکار نے کہا کہ اگر کوئی گن لے کر آتا ہے اس کو تو میں جانے نہیں دوں گا لیکن اگر کوئی بڑا دھماکہ کردیتا ہے اس کے سامنے میری گن چھوٹی ہے لیکن میں پھر بھی آخری دم تک اس کا مقابلہ کروں گا۔