آن آف ہیڈ لائٹس
آپ یقین مانیے حیدرآباد کو آپ پیدل دونوں سمتوں سے پورا کرسکتے ہیں
ISLAMABAD/لاہور:
آپ یقین مانیے حیدرآباد کو آپ پیدل دونوں سمتوں سے پورا کرسکتے ہیں ہمارا شمار ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے ان افسران میں بھی ہوتا ہے جن کے زیر تحت آمد و رفت کی سرکاری سہولت مدتوں رہی ہے مگر لوگوں نے ہمیں گرما، سرما میں پیدل آتے جاتے ہزاروں بار دیکھا ہے اور ہم اکیلے ہی نہیں تھے مراد علی مرزا، سکندر بلوچ، کم ازکم یہ دو دوست ہمیں یاد ہیں جو پھلیلی سے ریڈیو اسٹیشن پیدل آتے جاتے تھے، ہم لطیف آباد نمبر 10 سے بھی ریڈیو پیدل آتے جاتے رہے ہیں۔ حیدر آباد کے لوگ اس فاصلے کو سمجھ سکتے ہیں۔
شاید یہ سخی حسن کراچی سے بندر روڈ ریڈیو اسٹیشن سے کچھ ہی کم ہوگا، مگر کراچی میں یہ مواقعے ہمیں کبھی نہیں ملے۔ کراچی میں احباب نے خاص طور پر عفت نقی اور ہارون جعفری نے آمد ورفت کی مہمانداری تمام عرصے نبھائی۔ جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ محبت کے یہ رشتے آج تک قائم ہیں نہ وہ بھولے نہ ہم! کچھ لوگ اس پر شاید حیران بھی ہوں مگر سچ تو سچ ہے۔ آپ کو دفتری تعلقات اور ذاتی تعلقات کو الگ الگ رکھنا پڑتا ہے تب آپ اخلاص اور محبت کو قائم رکھ سکتے ہیں اور ہمیشہ رکھ سکتے ہیں۔ ہارون جعفری لاجواب آفیسر تھے اور بہترین دوست۔ عفت اور ہم دونوں برابر کے آفیسر تھے مگر وہ سینئر تھیں، ہم تمام تر محبت اور اخلاص کے باوجود ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دونوں ان کو سینئر ہی سمجھتے ہیں حالانکہ اب وہ جہاں کہاں!
بات صبح کی سیر سے ہوکر کراچی تک چلی گئی اور دوست یاد آجائیں تو قلم کا سفر رک جاتا ہے تو واپس آتے ہیں حیدرآباد۔ تو جب ہم سیر یا Walk سے واپس آتے ہیں تو راستے میں اوسطاً ہر دس میں سے ایک موٹرسائیکل کی لائٹس On ہوتی ہیں جب کہ سورج کافی اونچا بھی ہوچکا ہوتا ہے ساڑھے آٹھ کا وقت ہوتا ہے۔ تو ہم تو خیر اخلاقاً ہر ایک کو جس کی لائٹ روشن ہوتی ہے بند کرنے کا اشارہ دیتے ہیں یعنی بتاتے ہیں آپ کی لائٹ جل رہی ہے تو یہاں سوشیالوجی اور جنرل ازم میں ہمارے کیے ہوئے M.A بھی کام نہیں آتے اور صورتحال کو ہم سوچتے رہتے ہیں جنرل ازم والا کام تو یہ ہم اس وقت کر رہے ہیں۔
سماجی رویہ سوشیالوجی کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا بہت کم لوگ مسکراتے ہوئے، گردن کو خم کرکے، آنکھوں سے تشکر کا اظہار کرتے ہوئے یا لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے نظر آتے ہیں حالانکہ ہم ہر گز اس کی خواہش نہیں رکھتے مگر بات رویے کی ہے اور قانون کی ۔ ٹریفک کے قانون کے مطابق اگر ہیڈ لائٹس جل رہی ہیں یا جل رہی ہے تو بیک لائٹ بھی جل رہی ہوگی اور یہ کسی نہ کسی چیز کا سگنل ہے جس پر دوسرا عمل کرے گا اور آپ بے خبر کو حادثہ یقینی! اس وجہ سے ہم یہ بتاتے ہیں کہ لائٹ جل رہی ہے بند کرلیجیے اور اسٹینڈ تو اگر نیچے ہو اور آپ اس طرف ہی مڑ جائیں تو خود پیدا کردہ حادثہ یقینی ہے اور خاصا خطرناک بھی ہوگا۔ ہمارے پیروں پر ان غلطیوں کے انمٹ نقوش موجود ہیں جس کا جی چاہے دیکھ لے۔
اب رویے میں بھی دو باتیں یا تو یہ سردمہری کہ آپ اطلاع دینے والے کا شکریہ ادا نہ کریں نادانستہ ہے کہ آپ ذہنی طور پر سفر میں ہیں اور توجہ وہاں ہی ہے جو ایک اور خطرناک رجحان ہے کہ آپ غیر محتاط ڈرائیونگ کر رہے ہیں یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اطلاع دینے والے کو شکریہ ادا کرکے اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں کہ میری مرضی، میں لائٹ جلاؤں یا بند کروں یا یہ کہ اگر شکریہ ادا کیا تو یہ انسان بڑا ہوجائے گا اور میں چھوٹا۔
ایک بات اور بھی یہاں جو میں سوچتا ہوں کہ زیادہ قرین قیاس ہے بلکہ اپنی تسلی کے لیے میں ہمیشہ اسے ہی پہلی وجہ قرار دیتا ہوں کہ اس طرح ہم دونوں خوش ہوسکتے ہیں وہ شکریہ ادا نہ کرکے اور میں یہ عادت نہ چھوڑ کے۔ اور وہ وجہ ہے میرے خیال کے مطابق جو درست ہونا چاہیے کہ انسانوں کو حالات نے اس قدر مبتلائے آزار کر رکھا ہے کہ ان کے ہوش اڑے رہتے ہیں۔
بجلی کا بل، مکان کا کرایہ، خوراک کا خرچہ، ٹرانسپورٹ، کپڑوں کے اخراجات اور پھر تعلیم کا شوق۔ ظاہر ہے اب فیسوں کو دیکھ کر تو یہ شوق ہی ہے وزیر اعلیٰ تو کہہ ہی چکے ہیں تمام اسکولوں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے۔ پولیس انھیں خود کم پڑ رہی ہے اپنی سیکیورٹی کے لیے تو پھر سیکیورٹی تو وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی قیمتی چیز ہو نادر، انوکھی، جیسے وزیر اعلیٰ۔ تو تعلیم کی فیس بتاتی ہے کہ نادر ہے ہر ایک کے بس میں نہیں۔
تو شاید اس وجہ سے ہر شخص سفر کرتے ہوئے انگریزی اور اردو دونوں میں اخلاقیات کا مسئلہ یاد نہیں رکھتا اس وجہ سے انھیں یہ یاد ہی نہیں ہوتا کہ گاڑی اسٹارٹ کرکے پہلے چیک کرتے ہیں کہ سب کچھ ٹیک ہے پھر سفر کرتے ہیں مگر اب تو پوری قوم ایک کک ہے تو یہ گاڑی بھی Kick کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھنے دیتی اور اس کا چلانے والا جب اس کے ساتھ ہوتا ہے تو ذہن اس کا مسائل میں الجھا ہوتا ہے اور وہ سفر کے دوران بھی ان کے حل ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کچھ ضروری کام کرنے ہوتے ہیں تو یاد آتے ہیں اور توجہ ان پر ہی رہتی ہے تو یہ کس کو یاد رہتا ہے کہ موٹرسائیکل کی لائٹ بند ہے یا On ہے۔
کس کو کہیں یہ حال اس کا کس نے کیا ہے؟ خود اس نے خود! ضرورتیں بڑھا کر، وزیر اعلیٰ کہتے ہیں سفر میں آدمی کیوں نہیں مرتے بچے ہی کیوں مرتے ہیں، بچوں کو شوق ہے مرنے کا۔ یہ غذائی قلت نہیں ہے یہ ہے ہمارا نظام جس کی ایک مثال تھر ہے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ پورا صوبہ ہی تھر ہوگیا ہے اب صرف ملک کا تھر ہونا باقی ہے۔
یہ لائٹ یوں جلتی رہتی ہے کہ سکون نہیں ہے معاشرے میں خوف میں مبتلا ہیں شہری سارے اور بے شمار اور ان دیکھے خوف ہیں، جس میں ایک حکومتوں کی نااہلی کا خوف ہے کہ اس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ دیکھا آپ نے ایک پرسکون معاشرے میں آپ یہی دیکھتے ہیں کہ وہاں دن میں گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس On نہیں بلکہ Off رہتی ہیں اور اخلاقی اور سماجی رویے کے Glow کرنے کی وجہ سے جو لائٹ دن میں بھی روشن نظر آتی ہے وہ انسان کی ترقی کی روشنی ہے، کب ہوگی ہمارے یہاں یہ روشنی کہ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس دن میں Off رہا کریں گی؟
آپ یقین مانیے حیدرآباد کو آپ پیدل دونوں سمتوں سے پورا کرسکتے ہیں ہمارا شمار ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے ان افسران میں بھی ہوتا ہے جن کے زیر تحت آمد و رفت کی سرکاری سہولت مدتوں رہی ہے مگر لوگوں نے ہمیں گرما، سرما میں پیدل آتے جاتے ہزاروں بار دیکھا ہے اور ہم اکیلے ہی نہیں تھے مراد علی مرزا، سکندر بلوچ، کم ازکم یہ دو دوست ہمیں یاد ہیں جو پھلیلی سے ریڈیو اسٹیشن پیدل آتے جاتے تھے، ہم لطیف آباد نمبر 10 سے بھی ریڈیو پیدل آتے جاتے رہے ہیں۔ حیدر آباد کے لوگ اس فاصلے کو سمجھ سکتے ہیں۔
شاید یہ سخی حسن کراچی سے بندر روڈ ریڈیو اسٹیشن سے کچھ ہی کم ہوگا، مگر کراچی میں یہ مواقعے ہمیں کبھی نہیں ملے۔ کراچی میں احباب نے خاص طور پر عفت نقی اور ہارون جعفری نے آمد ورفت کی مہمانداری تمام عرصے نبھائی۔ جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ محبت کے یہ رشتے آج تک قائم ہیں نہ وہ بھولے نہ ہم! کچھ لوگ اس پر شاید حیران بھی ہوں مگر سچ تو سچ ہے۔ آپ کو دفتری تعلقات اور ذاتی تعلقات کو الگ الگ رکھنا پڑتا ہے تب آپ اخلاص اور محبت کو قائم رکھ سکتے ہیں اور ہمیشہ رکھ سکتے ہیں۔ ہارون جعفری لاجواب آفیسر تھے اور بہترین دوست۔ عفت اور ہم دونوں برابر کے آفیسر تھے مگر وہ سینئر تھیں، ہم تمام تر محبت اور اخلاص کے باوجود ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دونوں ان کو سینئر ہی سمجھتے ہیں حالانکہ اب وہ جہاں کہاں!
بات صبح کی سیر سے ہوکر کراچی تک چلی گئی اور دوست یاد آجائیں تو قلم کا سفر رک جاتا ہے تو واپس آتے ہیں حیدرآباد۔ تو جب ہم سیر یا Walk سے واپس آتے ہیں تو راستے میں اوسطاً ہر دس میں سے ایک موٹرسائیکل کی لائٹس On ہوتی ہیں جب کہ سورج کافی اونچا بھی ہوچکا ہوتا ہے ساڑھے آٹھ کا وقت ہوتا ہے۔ تو ہم تو خیر اخلاقاً ہر ایک کو جس کی لائٹ روشن ہوتی ہے بند کرنے کا اشارہ دیتے ہیں یعنی بتاتے ہیں آپ کی لائٹ جل رہی ہے تو یہاں سوشیالوجی اور جنرل ازم میں ہمارے کیے ہوئے M.A بھی کام نہیں آتے اور صورتحال کو ہم سوچتے رہتے ہیں جنرل ازم والا کام تو یہ ہم اس وقت کر رہے ہیں۔
سماجی رویہ سوشیالوجی کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا بہت کم لوگ مسکراتے ہوئے، گردن کو خم کرکے، آنکھوں سے تشکر کا اظہار کرتے ہوئے یا لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے نظر آتے ہیں حالانکہ ہم ہر گز اس کی خواہش نہیں رکھتے مگر بات رویے کی ہے اور قانون کی ۔ ٹریفک کے قانون کے مطابق اگر ہیڈ لائٹس جل رہی ہیں یا جل رہی ہے تو بیک لائٹ بھی جل رہی ہوگی اور یہ کسی نہ کسی چیز کا سگنل ہے جس پر دوسرا عمل کرے گا اور آپ بے خبر کو حادثہ یقینی! اس وجہ سے ہم یہ بتاتے ہیں کہ لائٹ جل رہی ہے بند کرلیجیے اور اسٹینڈ تو اگر نیچے ہو اور آپ اس طرف ہی مڑ جائیں تو خود پیدا کردہ حادثہ یقینی ہے اور خاصا خطرناک بھی ہوگا۔ ہمارے پیروں پر ان غلطیوں کے انمٹ نقوش موجود ہیں جس کا جی چاہے دیکھ لے۔
اب رویے میں بھی دو باتیں یا تو یہ سردمہری کہ آپ اطلاع دینے والے کا شکریہ ادا نہ کریں نادانستہ ہے کہ آپ ذہنی طور پر سفر میں ہیں اور توجہ وہاں ہی ہے جو ایک اور خطرناک رجحان ہے کہ آپ غیر محتاط ڈرائیونگ کر رہے ہیں یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اطلاع دینے والے کو شکریہ ادا کرکے اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں کہ میری مرضی، میں لائٹ جلاؤں یا بند کروں یا یہ کہ اگر شکریہ ادا کیا تو یہ انسان بڑا ہوجائے گا اور میں چھوٹا۔
ایک بات اور بھی یہاں جو میں سوچتا ہوں کہ زیادہ قرین قیاس ہے بلکہ اپنی تسلی کے لیے میں ہمیشہ اسے ہی پہلی وجہ قرار دیتا ہوں کہ اس طرح ہم دونوں خوش ہوسکتے ہیں وہ شکریہ ادا نہ کرکے اور میں یہ عادت نہ چھوڑ کے۔ اور وہ وجہ ہے میرے خیال کے مطابق جو درست ہونا چاہیے کہ انسانوں کو حالات نے اس قدر مبتلائے آزار کر رکھا ہے کہ ان کے ہوش اڑے رہتے ہیں۔
بجلی کا بل، مکان کا کرایہ، خوراک کا خرچہ، ٹرانسپورٹ، کپڑوں کے اخراجات اور پھر تعلیم کا شوق۔ ظاہر ہے اب فیسوں کو دیکھ کر تو یہ شوق ہی ہے وزیر اعلیٰ تو کہہ ہی چکے ہیں تمام اسکولوں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے۔ پولیس انھیں خود کم پڑ رہی ہے اپنی سیکیورٹی کے لیے تو پھر سیکیورٹی تو وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی قیمتی چیز ہو نادر، انوکھی، جیسے وزیر اعلیٰ۔ تو تعلیم کی فیس بتاتی ہے کہ نادر ہے ہر ایک کے بس میں نہیں۔
تو شاید اس وجہ سے ہر شخص سفر کرتے ہوئے انگریزی اور اردو دونوں میں اخلاقیات کا مسئلہ یاد نہیں رکھتا اس وجہ سے انھیں یہ یاد ہی نہیں ہوتا کہ گاڑی اسٹارٹ کرکے پہلے چیک کرتے ہیں کہ سب کچھ ٹیک ہے پھر سفر کرتے ہیں مگر اب تو پوری قوم ایک کک ہے تو یہ گاڑی بھی Kick کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھنے دیتی اور اس کا چلانے والا جب اس کے ساتھ ہوتا ہے تو ذہن اس کا مسائل میں الجھا ہوتا ہے اور وہ سفر کے دوران بھی ان کے حل ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کچھ ضروری کام کرنے ہوتے ہیں تو یاد آتے ہیں اور توجہ ان پر ہی رہتی ہے تو یہ کس کو یاد رہتا ہے کہ موٹرسائیکل کی لائٹ بند ہے یا On ہے۔
کس کو کہیں یہ حال اس کا کس نے کیا ہے؟ خود اس نے خود! ضرورتیں بڑھا کر، وزیر اعلیٰ کہتے ہیں سفر میں آدمی کیوں نہیں مرتے بچے ہی کیوں مرتے ہیں، بچوں کو شوق ہے مرنے کا۔ یہ غذائی قلت نہیں ہے یہ ہے ہمارا نظام جس کی ایک مثال تھر ہے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ پورا صوبہ ہی تھر ہوگیا ہے اب صرف ملک کا تھر ہونا باقی ہے۔
یہ لائٹ یوں جلتی رہتی ہے کہ سکون نہیں ہے معاشرے میں خوف میں مبتلا ہیں شہری سارے اور بے شمار اور ان دیکھے خوف ہیں، جس میں ایک حکومتوں کی نااہلی کا خوف ہے کہ اس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ دیکھا آپ نے ایک پرسکون معاشرے میں آپ یہی دیکھتے ہیں کہ وہاں دن میں گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس On نہیں بلکہ Off رہتی ہیں اور اخلاقی اور سماجی رویے کے Glow کرنے کی وجہ سے جو لائٹ دن میں بھی روشن نظر آتی ہے وہ انسان کی ترقی کی روشنی ہے، کب ہوگی ہمارے یہاں یہ روشنی کہ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس دن میں Off رہا کریں گی؟