اب امجد صابری
ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ان شہدا میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔
اس شہر کے قاتل کو دیکھا نہیں کسی نے مگر
لاشوں سے اندازہ ہوتا ہے قاتل پر جوانی ہے
کوئی آٹھ برس قبل کا ذکر ہے جب میں غم روزگار کے سلسلے میں کراچی سے صادق آباد گیا تو مندرجہ بالا شعر میں نے ایک شربت فروش کی ریڑھی پہ لکھا ہوا دیکھا یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ اس عوامی شعر کا خالق کون ہے۔ البتہ یہ شعر پڑھنے و سماعت کرنے والا بغیر کوئی لمحہ ضایع کیے فوراً کہہ دے گا یہ شعر تو شاعر نے فقط کراچی شہر کے لیے اس شہر کے فسادات زدہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا ہے۔ یہ وہی کراچی ہے جس کے بارے میں ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کراچی شام کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ کراچی کی بیداری صبح طلوع آفتاب تک جاری رہتی تھی پھر اسی زمانے میں یہ بھی کہا جاتا کہ کراچی عروس البلاد ہے یعنی شہروں کی دلہن ۔ یہ لقب کراچی کو اس کی خوبصورتی کے باعث دیا گیا مزید یہ کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے ۔
کراچی شہرکی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ غم روزگارکے سلسلے میں ملک کے کسی بھی کونے سے آنے والے کوکراچی نے ایک شفیق ماں کی مانند اپنی آغوش میں لے لیا اور روزگار کے طالب کو اس کی تمام تر امیدوں سے دوچند دیا، مگر یہ کوئی 1974 کے آس پاس کا زمانہ تھا جب کراچی میں دو بڑے پروجیکٹ شروع ہوئے جن میں ایک پروجیکٹ پورٹ قاسم بندرگاہ جب کہ دوسرا پروجیکٹ پاکستان اسٹیل ملز۔ یہ دو پروجیکٹس شروع ہوئے تو ملک کے دیگر حصوں سے نقل مکانی کا رجحان بھی بڑھا۔ دیگر یہ کہ 1979 کے اختتام پذیر ہونے میں دوچار روز ہی باقی تھے کہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں انقلاب برپا ہوگیا ۔
جس کے باعث افغانستان کی ایک بڑی آبادی نے پاکستان کی جانب رخ کیا ان میں اکثریت افغان مہاجرین کی ایسی تھی جنھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دی بلاشبہ آبادی کا یہ بڑھتا ہوا دباؤ کراچی برداشت نہ کرپایا نتیجہ یہ کہ کراچی میں جرائم کی شرح بڑھنے لگی ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی لوگ دو خطرناک چیزوں سے متعارف ہوئے ان میں پہلی چیز تھی ایک ہلاکت خیز نشہ ہیروئن جب کہ دوسری چیز تھی کلاشنکوف۔ اب ان دونوں چیزوں میں زیادہ خطرناک کون سی چیز ہے یہ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی ان دونوں چیزوں کی آمد بھی شروع ہوگئی تھی چنانچہ یہی وہ زمانہ تھا جب کراچی میں آباد مختلف قومیتوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی اس موقعے پر قوم پرست ذہنیت رکھنے والوں نے خوب اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائیں۔
کیفیت یہ تھی کہ 1986 کے آخر تک کسی سیاستداں کو مہاجر حقوق کی فکر تھی تو کسی کو پختونوں کا غم کھائے جا رہا تھا پنجابیوں کے ہمدرد بھی سینہ تان کر سامنے آگئے، عملی طور پر کراچی لسانی بنیادوں میں تقسیم ہوگیا اور یہ تقسیم آج تک قائم ہے۔ کیونکہ آج بھی یہ کیفیت ہے کہ ایک زبان بولنے والا ایسے علاقوں میں جانے سے گریزاں ہے جہاں دوسری زبان بولنے والوں کی اکثریت ہو۔ بہرکیف زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے والا یہ تضاد 1986 کے آخر تک کھل کر سامنے آگیا کیونکہ اس وقت کیفیت یہ تھی کہ ایک دوسرے کی املاک کو جن میں سفری مزدائیں، بسیں و چھوٹی چھوٹی دکانیں تک نذرآتش کردینا معمول کی بات تھی سانحہ علی گڑھ، واقعہ قصبہ کالونی نے جلتی پر تیل کا کام کیا کراچی میں آئے روز فسادات ہونے لگے کیفیت یہ کہ عام محنت کش ہاتھ میں توشہ دان لے کر نکلتا مگر اسے بس اسٹاپ پر پہنچ کر معلوم ہوتا کہ آج تو شہر بھر میں ہڑتال ہے کیونکہ آج فلاں سیاسی جماعت کے فلاں یونٹ کے ایک کارکن کا قتل ہوگیا ہے۔
چنانچہ ہڑتال تو ایک کارکن کے قتل کے خلاف ہوتی مگر یہ ہڑتال کراچی شہر کے 25 سے 30 باسیوں کی جان لے لیتی۔ اسی طرح 30 سے 40 بسوں کو نذرآتش کردیا جاتا یہ سلسلہ اب سے کوئی دو چار برس قبل تک جاری رہا چنانچہ 1986 میں خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ 2014 تک لگ بھگ 60 سے70 ہزار کراچی کے باسیوں کو نگل چکا تھا، تاوقتیکہ رینجرز نے آرمی کی مدد سے آپریشن ضرب عضب شروع کردیا جس کے بعد کراچی میں حالات میں بہتری پیدا ہوئی مگر جب ہم 1986 سے 2014 تک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ان شہیدوں کے چہرے ہمارے سامنے آتے ہیں جنھیں سفاکانہ طریقے سے موت کی وادیوں میں پہنچا دیا گیا۔
ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ان شہدا میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔ صحافی حضرات میں سے اصلاح الدین، ولی خان بابر، پولیس والوں میں نہایت نفیس انسان جن سے میرے ذاتی مراسم تھے جناب DSP صادق حسین شاہ کو جواں سال بیٹے S.I عابد حسین شاہ سمیت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ 18 برس بعد ان دونوں باپ و بیٹے کے قاتلوں کو پھانسی دے دی گئی ان کے علاوہ عزیز الرحمن کے دو صاحبزادے ذیشان حیدر کاظمی، DSP اسلم چوہدری کے علاوہ ہزاروں پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
جب کہ 1996 کے جون کے مہینے میں 40 پولیس والے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے جب کہ طب کے شعبے میں محترم حکیم محمد سعید جیسے فرشتہ صفت انسان کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ نفلی روزے کی حالت میں غریب لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل تھے ان کے علاوہ سیکڑوں دیگر ڈاکٹرز موت کے منہ میں چلے گئے۔ سیاسی میدان میں عظیم احمد طارق، زہیر اکرم ندیم، زارا شاہد، منور سہروردی، طارق خان، محسن صدیقی، واجد کریم داد، عبداللہ مراد جیسے لوگ بھی زندگی کی بازی ہارگئے۔
سماجی خدمات کے صلے میں عبدالرزاق ٹیسٹی، پروین رحمن، سبین محمود بھی ٹارگٹ کلنگ سے محفوظ نہ رہ سکے جب کہ یہ 1994 کے دسمبر کے مہینے میں امن کے پیامبر و خدمت خلق کے جذبے سے سرشار صد قابل احترام عبدالستار ایدھی صاحب کو لندن جلاوطن ہونا پڑا کیونکہ یہاں ان کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں جب کہ PTV فنکار خوبرو سلطان خان بھی دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے میں نے اختصار کے ساتھ چند لوگوں کا ذکر کیا بصورت دیگر یہ فہرست خاصی طویل ہے جب کہ شہدا، علما کرام میں سلیم قادری، یوسف لدھیانوی، مفتی شامزئی، حسن ترابی، وحید قادری وغیرہ کے نام بھی سرفہرست ہیں جب کہ سانحہ نشتر پارک، سانحہ 12 مئی 2007، سانحہ کارساز، سانحہ عباس ٹاؤن، سانحہ صفورا گوٹھ کون اپنے ذہن سے محو کرسکتا ہے؟ ٹھہریے! اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ کرلیں۔ یہ ہے دنیا کا مقبول ترین قوال امجد صابری۔ اس عاشق رسولؐ و درویش آدمی کا قصور یہ تھا کہ وہ سو فیصد بے قصور تھا۔ امجد صابری کا یہ بھی قصور تھا کہ وہ لوگوں کو آپس میں پیار و محبت و یگانگت کا درس دیتا تھا حق تو یہ ہے کہ امجد صابری نے اپنے والد محترم غلام فرید صابری کا ولی عہد و جانشین ہونے کا حق ادا کردیا تھا اور یہ درویش منش آدمی فن قوالی کو فروغ دے رہا تھا۔ امجد صابری کی اس طرح ٹارگٹ کلنگ میں شہادت ایسی موت نہیں جسے الفاظ میں بیان کیا جاسکے۔
روایتی انداز میں مذمت کرنے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر کراچی کے مسائل پر توجہ دی جائے اور ایسے عناصرکو کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں جو گزشتہ 30 برس سے کراچی کے امن و امان سے کھیل رہے ہیں ۔کراچی کے باسیوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ پرامن طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے اپنے حقوق طلب کریں کیونکہ دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ سے پاک و لسانی بنیادوں پر سیاست سے ماورا کراچی سب کی ضرورت ہے۔
لاشوں سے اندازہ ہوتا ہے قاتل پر جوانی ہے
کوئی آٹھ برس قبل کا ذکر ہے جب میں غم روزگار کے سلسلے میں کراچی سے صادق آباد گیا تو مندرجہ بالا شعر میں نے ایک شربت فروش کی ریڑھی پہ لکھا ہوا دیکھا یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ اس عوامی شعر کا خالق کون ہے۔ البتہ یہ شعر پڑھنے و سماعت کرنے والا بغیر کوئی لمحہ ضایع کیے فوراً کہہ دے گا یہ شعر تو شاعر نے فقط کراچی شہر کے لیے اس شہر کے فسادات زدہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا ہے۔ یہ وہی کراچی ہے جس کے بارے میں ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کراچی شام کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ کراچی کی بیداری صبح طلوع آفتاب تک جاری رہتی تھی پھر اسی زمانے میں یہ بھی کہا جاتا کہ کراچی عروس البلاد ہے یعنی شہروں کی دلہن ۔ یہ لقب کراچی کو اس کی خوبصورتی کے باعث دیا گیا مزید یہ کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے ۔
کراچی شہرکی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ غم روزگارکے سلسلے میں ملک کے کسی بھی کونے سے آنے والے کوکراچی نے ایک شفیق ماں کی مانند اپنی آغوش میں لے لیا اور روزگار کے طالب کو اس کی تمام تر امیدوں سے دوچند دیا، مگر یہ کوئی 1974 کے آس پاس کا زمانہ تھا جب کراچی میں دو بڑے پروجیکٹ شروع ہوئے جن میں ایک پروجیکٹ پورٹ قاسم بندرگاہ جب کہ دوسرا پروجیکٹ پاکستان اسٹیل ملز۔ یہ دو پروجیکٹس شروع ہوئے تو ملک کے دیگر حصوں سے نقل مکانی کا رجحان بھی بڑھا۔ دیگر یہ کہ 1979 کے اختتام پذیر ہونے میں دوچار روز ہی باقی تھے کہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں انقلاب برپا ہوگیا ۔
جس کے باعث افغانستان کی ایک بڑی آبادی نے پاکستان کی جانب رخ کیا ان میں اکثریت افغان مہاجرین کی ایسی تھی جنھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دی بلاشبہ آبادی کا یہ بڑھتا ہوا دباؤ کراچی برداشت نہ کرپایا نتیجہ یہ کہ کراچی میں جرائم کی شرح بڑھنے لگی ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی لوگ دو خطرناک چیزوں سے متعارف ہوئے ان میں پہلی چیز تھی ایک ہلاکت خیز نشہ ہیروئن جب کہ دوسری چیز تھی کلاشنکوف۔ اب ان دونوں چیزوں میں زیادہ خطرناک کون سی چیز ہے یہ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی ان دونوں چیزوں کی آمد بھی شروع ہوگئی تھی چنانچہ یہی وہ زمانہ تھا جب کراچی میں آباد مختلف قومیتوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی اس موقعے پر قوم پرست ذہنیت رکھنے والوں نے خوب اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائیں۔
کیفیت یہ تھی کہ 1986 کے آخر تک کسی سیاستداں کو مہاجر حقوق کی فکر تھی تو کسی کو پختونوں کا غم کھائے جا رہا تھا پنجابیوں کے ہمدرد بھی سینہ تان کر سامنے آگئے، عملی طور پر کراچی لسانی بنیادوں میں تقسیم ہوگیا اور یہ تقسیم آج تک قائم ہے۔ کیونکہ آج بھی یہ کیفیت ہے کہ ایک زبان بولنے والا ایسے علاقوں میں جانے سے گریزاں ہے جہاں دوسری زبان بولنے والوں کی اکثریت ہو۔ بہرکیف زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے والا یہ تضاد 1986 کے آخر تک کھل کر سامنے آگیا کیونکہ اس وقت کیفیت یہ تھی کہ ایک دوسرے کی املاک کو جن میں سفری مزدائیں، بسیں و چھوٹی چھوٹی دکانیں تک نذرآتش کردینا معمول کی بات تھی سانحہ علی گڑھ، واقعہ قصبہ کالونی نے جلتی پر تیل کا کام کیا کراچی میں آئے روز فسادات ہونے لگے کیفیت یہ کہ عام محنت کش ہاتھ میں توشہ دان لے کر نکلتا مگر اسے بس اسٹاپ پر پہنچ کر معلوم ہوتا کہ آج تو شہر بھر میں ہڑتال ہے کیونکہ آج فلاں سیاسی جماعت کے فلاں یونٹ کے ایک کارکن کا قتل ہوگیا ہے۔
چنانچہ ہڑتال تو ایک کارکن کے قتل کے خلاف ہوتی مگر یہ ہڑتال کراچی شہر کے 25 سے 30 باسیوں کی جان لے لیتی۔ اسی طرح 30 سے 40 بسوں کو نذرآتش کردیا جاتا یہ سلسلہ اب سے کوئی دو چار برس قبل تک جاری رہا چنانچہ 1986 میں خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ 2014 تک لگ بھگ 60 سے70 ہزار کراچی کے باسیوں کو نگل چکا تھا، تاوقتیکہ رینجرز نے آرمی کی مدد سے آپریشن ضرب عضب شروع کردیا جس کے بعد کراچی میں حالات میں بہتری پیدا ہوئی مگر جب ہم 1986 سے 2014 تک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ان شہیدوں کے چہرے ہمارے سامنے آتے ہیں جنھیں سفاکانہ طریقے سے موت کی وادیوں میں پہنچا دیا گیا۔
ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ان شہدا میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔ صحافی حضرات میں سے اصلاح الدین، ولی خان بابر، پولیس والوں میں نہایت نفیس انسان جن سے میرے ذاتی مراسم تھے جناب DSP صادق حسین شاہ کو جواں سال بیٹے S.I عابد حسین شاہ سمیت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ 18 برس بعد ان دونوں باپ و بیٹے کے قاتلوں کو پھانسی دے دی گئی ان کے علاوہ عزیز الرحمن کے دو صاحبزادے ذیشان حیدر کاظمی، DSP اسلم چوہدری کے علاوہ ہزاروں پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
جب کہ 1996 کے جون کے مہینے میں 40 پولیس والے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے جب کہ طب کے شعبے میں محترم حکیم محمد سعید جیسے فرشتہ صفت انسان کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ نفلی روزے کی حالت میں غریب لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل تھے ان کے علاوہ سیکڑوں دیگر ڈاکٹرز موت کے منہ میں چلے گئے۔ سیاسی میدان میں عظیم احمد طارق، زہیر اکرم ندیم، زارا شاہد، منور سہروردی، طارق خان، محسن صدیقی، واجد کریم داد، عبداللہ مراد جیسے لوگ بھی زندگی کی بازی ہارگئے۔
سماجی خدمات کے صلے میں عبدالرزاق ٹیسٹی، پروین رحمن، سبین محمود بھی ٹارگٹ کلنگ سے محفوظ نہ رہ سکے جب کہ یہ 1994 کے دسمبر کے مہینے میں امن کے پیامبر و خدمت خلق کے جذبے سے سرشار صد قابل احترام عبدالستار ایدھی صاحب کو لندن جلاوطن ہونا پڑا کیونکہ یہاں ان کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں جب کہ PTV فنکار خوبرو سلطان خان بھی دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے میں نے اختصار کے ساتھ چند لوگوں کا ذکر کیا بصورت دیگر یہ فہرست خاصی طویل ہے جب کہ شہدا، علما کرام میں سلیم قادری، یوسف لدھیانوی، مفتی شامزئی، حسن ترابی، وحید قادری وغیرہ کے نام بھی سرفہرست ہیں جب کہ سانحہ نشتر پارک، سانحہ 12 مئی 2007، سانحہ کارساز، سانحہ عباس ٹاؤن، سانحہ صفورا گوٹھ کون اپنے ذہن سے محو کرسکتا ہے؟ ٹھہریے! اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ کرلیں۔ یہ ہے دنیا کا مقبول ترین قوال امجد صابری۔ اس عاشق رسولؐ و درویش آدمی کا قصور یہ تھا کہ وہ سو فیصد بے قصور تھا۔ امجد صابری کا یہ بھی قصور تھا کہ وہ لوگوں کو آپس میں پیار و محبت و یگانگت کا درس دیتا تھا حق تو یہ ہے کہ امجد صابری نے اپنے والد محترم غلام فرید صابری کا ولی عہد و جانشین ہونے کا حق ادا کردیا تھا اور یہ درویش منش آدمی فن قوالی کو فروغ دے رہا تھا۔ امجد صابری کی اس طرح ٹارگٹ کلنگ میں شہادت ایسی موت نہیں جسے الفاظ میں بیان کیا جاسکے۔
روایتی انداز میں مذمت کرنے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر کراچی کے مسائل پر توجہ دی جائے اور ایسے عناصرکو کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں جو گزشتہ 30 برس سے کراچی کے امن و امان سے کھیل رہے ہیں ۔کراچی کے باسیوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ پرامن طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے اپنے حقوق طلب کریں کیونکہ دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ سے پاک و لسانی بنیادوں پر سیاست سے ماورا کراچی سب کی ضرورت ہے۔