سوشل میڈیا اور گرتی اخلاقی قدریں

ہر کوئی اپنے نظریے کی حفاظت کی خاطر میدان عمل میں کود پڑا ہے پس اگر خیال نہیں تو صرف اس لڑکی کا نہیں جس نے کمرشل کیا۔

سوشل میڈیا پر اب اک طوفان بدتمیزی بپا ہے، اپنی ذہنیت اور تعلیمات لوگوں تک کیسے پہنچائی جارہی ہے، تف ہے ایسی حرکت کرنے والوں پر۔

BOSTON:
کافی عرصہ ہوا، ٹی وی نہیں دیکھا، اگر دیکھا بھی تو خبروں کی حد تک، ہاں شام میں ذرا فراغت پر سوشل میڈیا سے دن بھر کی خبروں کی جانکاری مل جاتی ہے۔ سوشل میڈیا بھی کمال کی چیز ہے، پچھلے زمانے کی پھاپے کٹنی کی طرح ہر خبر کو الگ نظریے سے پیش کرتا ہے اور گھر گھر میں باآسانی پھیل جاتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے کسی کی دل آزاری ہوگی، تہمت لگے گی، الزام آئے گا اور پھر کسی کی عزت اور جان بھی جاسکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر آپ کی پوسٹ، آپ کے ذہن اور سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔

ہم نے میڈیا میں رہتے ہوئے بھی کئی اخلاقی اقدار کو سیٹھوں کے کہنے پر پامال ہوتے دیکھا، لیکن ریٹنگ کا معاملہ تھا جناب۔ گندا ہے تو کیا ہوا دھندا ہے، بالآخر ملازمت کو خیر باد کہا، لیکن سوشل میڈیا پر تو کوئی کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتا، جہاں یہ نعمت ہے وہیں زحمت بھی ہے۔ گھر بیٹھے مختلف ویب سائٹس پر خبروں، کالم اور بلاگ کے انبار سمیت اخبارات آن لائن مل جاتے ہیں۔ لائیو ٹی وی اور کچھ لوگ تو خبروں کی آزادانہ ترسیل کے لیے اپنی تخلیقات بھی شامل کرلیتے ہیں۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر عروج پانے والے کچھ کالم نگار اور بلاگر ہتھے سے تقریباً اکھڑ ہی چکے ہیں۔ اُن کے دل و دماغ میں جو آتا ہے، صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں، نہ چھاپنے والا جاننا چاہتا ہے نہ کوئی پیمرا نامی قومی ادارہ حرکت میں آتا ہے، نہ ہی سوشل میڈیا استعمال کرنے والی ہماری عوام لکھنے والے سے پوچھتی ہے کہ میاں کیا کیچڑ اچھال رہے ہو؟ ماروی سرمد اور حافظ حمد اللہ کے الفاظ اور کردار آپ کے سامنے ہیں۔ کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ لیکن صرف اک سوال یہ کہ جب دونوں میں تُوتُو میں میں ہورہی تھی تو پروگرام کٹ کیوں نہیں کیا گیا؟ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس واقع کے بعد سوشل میڈیا پر دونوں کے مخالف اور حامی سرگرم ہوگئے، ویڈیو کو بار بار شئیر کیا گیا اور ایسے ایسے بیانات رائے اور تبصرے آنے لگے کہ سماجی موضوعات پر لکھنے والا ہمارا قلم بھی شرم محسوس کرنے لگا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس معاملے کو چینل کی ریٹنگ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ دستار اور شلوار کا معاملہ حل نہیں ہوا تھا کہ مفتی قوی اور قندیل کا اسکینڈل آگیا، متنازع خاتون کی حرکات اور الفاظ نے مفتی صاحب کی عزت کے پول کھول دئیے۔ لوگوں نے تو اسکینڈل سے اپنے جذبات گرمانے اور قندیلیں جلانا شروع کردیں۔ پھر وہی تبصرے اور عمدہ ذہنیت کے عکاس اسٹیٹس، اور اس کے بعد قندیل بلوچ نے سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز اپلوڈ کرکے مفتی صاحب کے خلاف ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا جس کہ بعد مفتی قوی کو رویت ہلال کمیٹی کی ممبر شپ سے بھی فارغ کردیا گیا۔

یہ دنیا خصوصاً ہمارا معاشرہ آخر کس ڈگر پر رواں دواں ہے؟ کسے روکیں کسے سمجھائیں۔ والدین بچوں کے لئے پریشان رہتے تھے یہاں تو مفتی صاحبان بھی کچھ کم نہیں نکلے۔ ارے رکئے صاحب! جس مدعا کی جانب توجہ دلانے کے لئے لکھنے بیٹھے وہ ابھی باقی ہے، آپ نے بھی موبائل فون کا وہ اشتہار تو دیکھا ہی ہوگا۔ جب وہ دیکھا ہے تو پھر کیا کہا کونسا والا؟ اسکا مطلب اکثریت اِس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ خیر اچھا آپ نے اوریا مقبول جان صاحب کا اُس اشتہار کے حوالے سے پروگرام دیکھا؟ کونسا؟ وہی ''ذرا بچ کے'' پروگرام، اوریا کی عریانیت والا آرٹیکل پڑھا؟ کیا کہا، روزگار کے دھندوں نے وقت ہی نہیں دیا؟ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ آجکل ہاٹ ایشو ہے۔ ہر مرد و زن لبرل اور مذہبی سوچ رکھنے والا اس آگ پر ہاتھ سینک رہا ہے، اور اس کمال طریقے سے ایشو کے مندرجات، پروگرام کے حصوں، ایک دوسرے کی ذہنیت اور لڑکی کے بارے میں زبان دراز کی جارہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔

صرف ایک سوال کیا آپ کے کالم اور آرٹیکل، آپ کے گھر کی قندیلوں سوری مطلب والدہ، بہنیں پڑھتی ہیں؟ ان سے اس موضوع پر آپ کی کتنی بات ہوئی؟ ہوسکتا ہے کہ جواب ناں میں ہو اور ہاں بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ کچھ خواتین بھی تو کالم یا بلاگ لکھتے بھول گئیں کہ وہ کس سوچ کا پرچار کر رہی ہیں۔ جناب عرض یہ ہے کہ آپ لبرل ہوں یا مذہبی، عورت ہوں یا مرد آپ سے گزارش ہے کہ ذرا الفاظ کا چناؤ مناسب کرلیں، ہر اک کی ٹانگ کھینچنے کے چکر میں خود شائستگی کا دامن نہ چھوڑیں۔ اپنی اوقات مت دکھائیں، لیکن اس کے برعکس اتنے شاندار گھٹیا الفاظ و ذہنیت سے مزین آرٹیکلز لکھے جارہے ہیں کہ الامان الحفیظ ۔


آرٹیکلز اور ویڈیوز پر شئیر تو بنتا ہے۔ دھڑا دھڑ شئیرنگ، تبصرے اور آراء، بات کو بڑها کر اپنی ہوس پرست جبلت پوری کی جارہی ہے۔ ہر اک کو ریٹنگ کی فکر ہے۔ کوئی ویڈیو پر ریٹنگ چاہتا ہے، کوئی کالم پر، کوئی کمرشل پر، کوئی فیس بک اسٹیٹس پر، کوئی اخبار میں، کوئی نیوز چینل پر۔ غرض ہر کوئی اپنے نظریے کی حفاظت کی خاطر میدان عمل میں کود پڑا ہے پس اگر خیال نہیں تو صرف اس لڑکی کا نہیں جس نے کمرشل کیا، اس بیٹی کی عزت کتنی آسانی سے اچھالی جارہی ہے، جو بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ کی پناہ اور ایسے الفاظ ۔

اوریا مقبول جان نے اپنی سوچ کے مطابق کمرشل دیکھا تبصرہ کرنے والوں نے اسے مزید تجزیاتی بنیادوں پر پیش کیا کہ اگر کسی کو سمجھ نہیں آئی تو ان کے تبصروں سے افادہ حاصل کریں، سمجھ لیں، دیکھ لیں، رمضان میں اپنی آنکھوں کو، کانوں کو، روح کو، سیراب کرلیں اور جو کچھ نہ کرسکیں وہ الفاظ سے تقویت حاصل کریں۔ دوسروں کو اوقات دکھانے کے چکر میں ننگ دھڑنگ ناچ رہے ہیں اور ان کے پروانے، مداح واہ واہ کرکے اپنی خباثت کو تقویت دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اب اک طوفان بدتمیزی بپا ہے، اپنی ذہنیت اور تعلیمات لوگوں تک کیسے پہنچائی جارہی ہے، تف ہے۔

اب بھی وقت ہے سردھنیے صاحب، سر دھنیے کہ اپنی آنے والی نسل کو لیکر ہم آپ کس جانب جا رہے ہیں۔

[poll id="1153"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story