شاید ہماری زندگی کا یہ آخری رمضان ہو
اگر کسی کو اس کی طلب کے مطابق نہیں ملتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حق دار ہی اتنے کا ہے
رمضان المبارک ہمارا امتحان لیتا ہوا گزر جاتا ہے، اس کی برکات اور مہربانیوں میں کوئی کمی نہیں، اسلامی تعلیمات کی تحریریں اس مبارک مہینے کی فضیلت سے بھری ہوئی ہیں۔ اس کی رحمت اور عنایات خسروانہ کے خزانے کھلے ہوئے ہیں اور وہ ہماری راہ تک رہا ہے کہ کون کس قدر خوش نصیب ہے جو میرے ان کھلے خزانوں پر ہاتھ ڈالے گا اور اپنی جھولی بھر کر لے جائے گا۔
عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف دنیا جہان کی نعمتوں کے در کھلے ہیں اور اپنے کسی لٹیرے کے انتظار میں ہیں جو اپنی دونوں زندگیوں کے لیے جتنی لوٹ مار کر سکتا ہے کر لے اس کی خواہش تب بھی پوری نہ ہو تو دینے والا موجود ہے اس سے مانگتا رہے مایوس نہیں ہو گا لیکن ایک بات یاد رہے جو بار بار کہی گئی ہے مگر بھلا دی گئی ہے کہ کسی مانگنے والے کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا وہ حق دار ہو۔ کسی کو اس کے حق سے کم یا زیادہ نہیں ملتا اور جو بھی ملتا ہے اس کا فیصلہ دینے والا کرتا ہے کہ اس کا مانگنے والا کس قدر اور کتنا حق دار ہے۔
اگر کسی کو اس کی طلب کے مطابق نہیں ملتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حق دار ہی اتنے کا ہے۔ ہم لوگ اپنی خواہش سے کم ملنے یا نہ ملنے پر مایوس اور ناراض ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت ہم حق دار ہی اتنے کے ہوتے ہیں جتنا کچھ ہمیں مل جاتا ہے اور اگر نہیں ملتا تو مطلب ہے ہم اس کے حق دار ہی نہیں ہیں۔ ہمارے اختیار میں صرف مانگنا ہے، دینا نہ دینا اس کے اختیار میں ہے اور وہ دینے والا ہمارے حالات سے ہم سے زیادہ واقف ہے۔ ہمیں صبر اختیار کرنا چاہیے جو ہمارے اختیار میں ہے اس کا بھی اجر ملتا ہے۔
میں یہ باتیں الٰہی علوم کے ماہر لوگوں کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں اور ذاتی طور پر ان پر یقین رکھتا ہوں۔ اللہ تبارک و تعالی نیتوں کا مالک ہے اور ہر انسان کو اس نے فیصلے کی طلب کا اختیار دے رکھا ہے جس کی جو نیک خواہش ہوتی ہے اس کو مل جاتی ہے۔ صوفیاء نے فرمایا ہے کہ مانگنے سے پہلے اپنی خواہشوں کو مانگنے کے قابل بناؤ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ایسا ہے جو اپنے مانگنے والوں کے لیے سرتاپا انتظار میں رہتا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ اس سخی مہینے سے ہم کیا لے سکتے ہیں اور کس سے محروم رہتے ہیں۔ ویسے قدرت کا اصول یہی ہے کہ جو مانگے اس کو مایوس نہ کرو لیکن اس کا بھی فرض ہے کہ اس سے جو توقع کی جاتی ہے وہ اس پر پورا اترے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی اوقات پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم خود کس قابل ہیں اور اپنے دین کی طرف سے ہم پر جو فرائض نافذ ہوئے ہیں کیا ہم ان کی پابندی کرتے ہیں۔ یک طرفہ معاملہ نہیں چل سکتا اور اگر آپ کبھی غور کریں تو کسی مسلمان پر اس کی توفیق سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اس بے انصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ہے کہ کسی انسان میں اتنی طاقت نہ ہو جتنا اس پر بوجھ ڈال دیا جائے اور رمضان المبارک کا مہینہ تو ہے ہی انصاف اور عدل کا مہینہ۔ اس مہینے میں کسی سے بے انصافی کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سال بھر میں مسلمانوں کو ایک مہینہ مکمل انصاف کا ملتا ہے۔ اب یہ ہماری قسمت ہے کہ ہم عدل اور انصاف کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں یا نہیں۔
قرآن و حدیث میں انسانوں کے لیے انصاف اور عدل کا ذکر ہی ملتا ہے۔ حکمران تو اپنی جگہ جو ہوتے ہیں عدل و انصاف کے لیے ہیں۔ عام لوگوں کو بھی زندگی میں انصاف کی تلقین کی جاتی ہے اور یہ واضح کر دیا جاتا ہے اگر کسی کا حق کھا لیا جائے گا تو یہ صرف حق دار ہی معاف کر سکتا ہے کوئی اور نہیں، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے کسی حق دار کی حق تلفی کا ازالہ کرتا رہے۔
قرآن و حدیث میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی کسی نافرمانی کو معاف کر سکتا ہے کہ یہ اس کے اختیار میں ہے لیکن کسی انسان کی حق تلفی کو صرف وہی معاف کر سکتا ہے جس کی حق تلفی کی گئی ہو۔ ہم ان دنوں جس مہینے سے گزر رہے ہیں اور دن رات جس کی عبادت میں بھوکے پیاسے رہتے ہیں بس اسی سے مانگیں اور جی بھر کر مانگیں۔ اس سے قبل کہ یہ مہینہ گزر جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ رمضان المبارک اس محرومی پر ناخوش ہو گا کہ ہماری رات دن مغفرت کے دن رات تھے اب کوئی محروم ہے تو ہم اس کا ماتم کیوں کریں۔
ہمیں رمضان کے اس مہینے میں بہت کچھ مانگنا چاہیے ورنہ تمام محرومی ہماری اپنی ہو گی اس مبارک مہینے کی نہیں۔ بس رمضان کو جانے نہ دیجیے۔ ہماری آپ کی زندگی میں یہ پھر نہ جانے کب آئے گا۔
عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف دنیا جہان کی نعمتوں کے در کھلے ہیں اور اپنے کسی لٹیرے کے انتظار میں ہیں جو اپنی دونوں زندگیوں کے لیے جتنی لوٹ مار کر سکتا ہے کر لے اس کی خواہش تب بھی پوری نہ ہو تو دینے والا موجود ہے اس سے مانگتا رہے مایوس نہیں ہو گا لیکن ایک بات یاد رہے جو بار بار کہی گئی ہے مگر بھلا دی گئی ہے کہ کسی مانگنے والے کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا وہ حق دار ہو۔ کسی کو اس کے حق سے کم یا زیادہ نہیں ملتا اور جو بھی ملتا ہے اس کا فیصلہ دینے والا کرتا ہے کہ اس کا مانگنے والا کس قدر اور کتنا حق دار ہے۔
اگر کسی کو اس کی طلب کے مطابق نہیں ملتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حق دار ہی اتنے کا ہے۔ ہم لوگ اپنی خواہش سے کم ملنے یا نہ ملنے پر مایوس اور ناراض ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت ہم حق دار ہی اتنے کے ہوتے ہیں جتنا کچھ ہمیں مل جاتا ہے اور اگر نہیں ملتا تو مطلب ہے ہم اس کے حق دار ہی نہیں ہیں۔ ہمارے اختیار میں صرف مانگنا ہے، دینا نہ دینا اس کے اختیار میں ہے اور وہ دینے والا ہمارے حالات سے ہم سے زیادہ واقف ہے۔ ہمیں صبر اختیار کرنا چاہیے جو ہمارے اختیار میں ہے اس کا بھی اجر ملتا ہے۔
میں یہ باتیں الٰہی علوم کے ماہر لوگوں کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں اور ذاتی طور پر ان پر یقین رکھتا ہوں۔ اللہ تبارک و تعالی نیتوں کا مالک ہے اور ہر انسان کو اس نے فیصلے کی طلب کا اختیار دے رکھا ہے جس کی جو نیک خواہش ہوتی ہے اس کو مل جاتی ہے۔ صوفیاء نے فرمایا ہے کہ مانگنے سے پہلے اپنی خواہشوں کو مانگنے کے قابل بناؤ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ایسا ہے جو اپنے مانگنے والوں کے لیے سرتاپا انتظار میں رہتا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ اس سخی مہینے سے ہم کیا لے سکتے ہیں اور کس سے محروم رہتے ہیں۔ ویسے قدرت کا اصول یہی ہے کہ جو مانگے اس کو مایوس نہ کرو لیکن اس کا بھی فرض ہے کہ اس سے جو توقع کی جاتی ہے وہ اس پر پورا اترے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی اوقات پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم خود کس قابل ہیں اور اپنے دین کی طرف سے ہم پر جو فرائض نافذ ہوئے ہیں کیا ہم ان کی پابندی کرتے ہیں۔ یک طرفہ معاملہ نہیں چل سکتا اور اگر آپ کبھی غور کریں تو کسی مسلمان پر اس کی توفیق سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اس بے انصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ہے کہ کسی انسان میں اتنی طاقت نہ ہو جتنا اس پر بوجھ ڈال دیا جائے اور رمضان المبارک کا مہینہ تو ہے ہی انصاف اور عدل کا مہینہ۔ اس مہینے میں کسی سے بے انصافی کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سال بھر میں مسلمانوں کو ایک مہینہ مکمل انصاف کا ملتا ہے۔ اب یہ ہماری قسمت ہے کہ ہم عدل اور انصاف کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں یا نہیں۔
قرآن و حدیث میں انسانوں کے لیے انصاف اور عدل کا ذکر ہی ملتا ہے۔ حکمران تو اپنی جگہ جو ہوتے ہیں عدل و انصاف کے لیے ہیں۔ عام لوگوں کو بھی زندگی میں انصاف کی تلقین کی جاتی ہے اور یہ واضح کر دیا جاتا ہے اگر کسی کا حق کھا لیا جائے گا تو یہ صرف حق دار ہی معاف کر سکتا ہے کوئی اور نہیں، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے کسی حق دار کی حق تلفی کا ازالہ کرتا رہے۔
قرآن و حدیث میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی کسی نافرمانی کو معاف کر سکتا ہے کہ یہ اس کے اختیار میں ہے لیکن کسی انسان کی حق تلفی کو صرف وہی معاف کر سکتا ہے جس کی حق تلفی کی گئی ہو۔ ہم ان دنوں جس مہینے سے گزر رہے ہیں اور دن رات جس کی عبادت میں بھوکے پیاسے رہتے ہیں بس اسی سے مانگیں اور جی بھر کر مانگیں۔ اس سے قبل کہ یہ مہینہ گزر جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ رمضان المبارک اس محرومی پر ناخوش ہو گا کہ ہماری رات دن مغفرت کے دن رات تھے اب کوئی محروم ہے تو ہم اس کا ماتم کیوں کریں۔
ہمیں رمضان کے اس مہینے میں بہت کچھ مانگنا چاہیے ورنہ تمام محرومی ہماری اپنی ہو گی اس مبارک مہینے کی نہیں۔ بس رمضان کو جانے نہ دیجیے۔ ہماری آپ کی زندگی میں یہ پھر نہ جانے کب آئے گا۔