Survival Of The Fittest

’’امریکی عوام کے تعاون سے‘‘ کے نعرے پر منصوبوں کا اجراء ہو رہا ہے۔

خطرات واستقلال:تاریخ انسانی کے موجودہ ارتقائی مرحلے پرگروہوں میں بٹی عالم انسانیت یکساں طور پرجس بھیانک صورتحال سے دوچار ہے وہ حضرت انسان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی حضرت انسان اپنے ابتدائی ایام میں اپنی ارتقائی سطح کی انتہائی ہولناکیوں کو اپنی عظمتوں اور حوصلے سے دیکھ اور جھیل چکا ہے۔

قبل از تاریخ میں موسمیاتی تبدیلیوں نے صدیوں پر مشتمل تسلسل اور اس کے مختلف ارتقائی مراحل میں تہذیبوں اور جانداروں کی بہت سی اقسام کا خاتمہ کیا تھا۔ ڈائنوسار اور موئن جودڑو کی ہڈیوں (کھنڈرات) کی دریافت اس کی چھوٹی سی مثالیں ہیں، جب کہ معلوم تاریخ کے علاقائی تناظر میں تہذیبوں کے عروج و زوال اور باہمی ٹکراؤکی صورت میں ان کی تہذیب سمیت ناپید ہو جانے والے انسانی گروہوں اور ان کے معاشروں کے طرز تمدن کی نشانیاں بھی کرہ ارض پر انسانی عظمت و استقلال کی گواہی فراہم کرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔

مسائل کی عالمگیر شکل: چونکہ موجودہ ارتقائی مرحلے پر عالم انسانیت کی اجتماعی ترقی سے کرہ ارض کے ہر ایک کونے میں بسے انسانوں کے تمدنی سطح کے آپسی قریبی رابطوں و رشتوںکے بن جانے کے نتیجے میں اجتماعیت وعالمگیریت کوفروغ ملا ہے۔

اس لیے انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر دنیا میں بڑھتی جارحیت، دہشتگرد کارروائیاں، بھوک، افلاس و بیماریاں، معاشرتی سطح پر لوازمات تمدن کی فراہمی میں پہاڑ جیسی بدانتظامیاں دیکھی جا سکتی ہیں، انسانی گروہوں کے باہمی علاقائی و نظریاتی خونی تنازعات، جدید ترقی کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نباتات و حیوانات سمیت حیات انسانی اور موجودات کرہ ارض کو لاحق خطرات کی یکساں و اجتماعی شکل اختیارکر چکے ہیں۔ اس لیے موجودہ ارتقائی مرحلے پر کوئی ایک انسانی گروہ یا تہذیب کے متاثر ہونے کا سوال نہیں ہے بلکہ عالم انسانیت سمیت حیات کرہ ارض مکمل طور پر خطرات کی زد میںہے۔

سدباب کے منصوبے: حضرت انسان کا جدید ایجادات و ترقی کے اس مرحلے پر اپنے وجود کو لاحق ان بھیانک و نامساعد حالات کے خلاف ڈٹے رہنے کا عزم و حوصلہ پہلے سے کہیں زیادہ قابل داد ہے جس کی بنیاد پر وہ کرہ ارض پر کسی ناگزیر اور ناقابل برداشت موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہیوں کی صورت میں ظاہر ہونے والے خطرناک و جان لیوا عوامل سے نبرد آزماء ہے اور فلکی اجسام پر خود کے بسائے جانے کے منصوبے بنانے میںمصروف ہے۔ گو کہ تاحال انسانی آبادی کے لائق کوئی فلکی جسم دریافت نہیں کیا جا سکا ہے اس لیے کرہ ارض پر ممکنہ سونامی اور زلزلوںکی انتہائی تباہ کاریوں سے بچنے کی تدبیریں ہیں، اور موسمیاتی تبدیلیوں (قوانین مادہ نامی بپھرے ہوئے اژدہا) کے پرسکون ہو جانے تک کے عرصے پر محیط دورانیے میں دیوہیکل اور عظیم الجثہ آبدوز نماء بحری جہازوں کے وسیلے پانی میں انسانی بسیرا بنائے جانے کے امکانات کو عملی شکل دینے کے منصوبے بنانے میں مصروف کار ہے۔


قیادت اور ناگزیر تعاون: بقائے حیات کو لاحق خطرات سے بچاؤ کی امکانی طور پر کی جانے والی عملی و تحقیقاتی کوششوں کے منظر نامے میں تیزی آئی ہے، امریکی تشخص رکھنے والے انسانی گروہ کوباقی ماندہ انسانی گروہوں کی قیادت کا حق منوانے میں سرگرم عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ موجودہ ایجادات کی تخلیق کے دم پر حاصل کردہ ترقی کا سہرا مغربی تشخص رکھنے والے انسانی گروہوں کے سر ہے چونکہ مغربی انسانوں نے مشترکہ طور پر انسانیت کے احترام میں مصائب سے مبراء پرتعیش حیات اور بقائے باہمی کے لیے جدید امریکی تہذیب اپنانے کو ناگزیر قرار دلایا ہوا ہے، چونکہ امریکیوں نے اپنی جنس سمیت کرہ ارض پر موجود جانداروں کو ہر ممکن عقلی طریقے سے قائم و دائم رکھنے کی کوششوں میںدیگر انسانی گروہوں پر ''سبقت'' حاصل کی ہے، موجودہ اجتماعیت پر مشتمل ارتقائی مرحلے پر انسانوں کے باہمی تعلقات و مسائل میں توازن پیدا کرنے کی اجتماعی ذمے داریوں کی ادائیگی پر مامور انتہائی جدید ایجاد و ٹیکنالوجی (اقوام متحدہ و قانون بین الاقوام) کو اپنے زیر نگیں کیا ہوا ہے۔

اس لیے انسانوں کی اکثریت میں امریکی نظام تمدن انسانی آسائش حیات کے بہترین ماڈل کے طور پر تسلیم کیا اور اپنایا جا رہا ہے جب کہ مغربی انسانوں کے دارالحکومت کا درجہ رکھنے والے امریکیوں کی جانب سے اس ایجاد کی معرفت کہی ہر بات دنیا کے لیے عالمگیر قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ امریکی دانشور موجودہ ارتقائی مرحلے پر عالم انسانیت کو معروضی فروعی اختلافات و ٹکراؤ سے ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مکمل تباہی سے بچانے کا عزم و حوصلہ پیدا کرنے، اقوم متحدہ کی معرفت وسیع النظری پر مبنی ایجاداتی تعلیم کو عام کر کے دنیا کے کونے کونے میں بسے انسانوں میںاپنی مدد آپ کے تحت ان خطرات کا سامنا کرنے کا شعور بیدار کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ لازمی سی بات ہے کہ اس کے ناگزیر نتیجے کے طور پر دہشتگردی سمیت اقوام عالم کی اکثریتی سرگرمیوں میں ''امریکی عوام کے تعاون سے'' کے نعرے پر منصوبوں کا اجراء ہو رہا ہے۔

اگلا مرحلہ اور جھکے ہوئے سر: یہ بات تو الم نشرح ہو چکی ہے کہ کرہ ارض پر موجودہ انسانوں کے معاشرتی مسائل کی اساسی ذمے داری اس غیر منصفانہ و استعمارانہ عالمی نظام پر عائد ہوتی ہے جس کا تحفظ امریکی انسانی گروہ کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمے داری بھی مغرب کی متعارف کردہ موجودہ ترقی پر عائد کی جا چکی ہے، جب کہ آج کا انسان پر امید ہے کہ کرہ ارض پر حالات کتنے بھی نامساعد ہو جائیں لیکن حضرت انسان کی جنس باقی رہے گی اور ان بھیانک حالات کے باعث کتنے جاندار زندہ رہنے میں کامیاب رہتے ہیں یا ڈائنوسارس کی طرح صفہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اس پر اگلے ارتقائی مرحلے کے اہل دانش ضرور تحقیقات کریں گے۔

انسان کی صدیوں پر مشتمل تاریخ اور اس کے بدلتے مراحل میں اپنی بقاء کو قائم و دائم رکھتے آنے والے حوالوں اور موجودہ روایات وانداز حیات کے غیر متبدل امکانات کی روشنی میں ببانگ دہل یہ کہا جا سکتا ہے کہ تباہی کا ایسا لاثانی مرحلہ ضرورآئے گا جس کے بعد وہ انسان محقق ہونگے جن کے آباؤ اجداد نے اپنے اس ارتقائی مرحلے میں بقا Survive کے ''لوازمات'' اپنے زیر تصرف رکھے ہونگے۔

شاید اس اگلے ارتقائی مرحلے کے انسان کو یہ تو معلوم نہ ہو سکے کہ گزشتہ ارتقائی مرحلے میں انسانوں کی قیادت کا حق منوانے والی اور اپنے مرحلے کی محبوب و مقبول ترین تہذیب نے اپنے نظام تمدن میں انسانی رشتوں کے تقدس کو بھی اپنی بقاء کی خاطر متعین کیے گئے قوانین پر قربان دیا تھا، یا جنہوں نے ماں باپ کو گھروں سے نکال کر بلیاں، کتے اور سور پال لیے تھے۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ جب اگلے ارتقائی مرحلے کے انسان کو اپنی تحقیقات سے یہ بات معلوم ہو گی کہ مجسمہ آزادی کے نشان والی تہذیب کے انسانوں نے اپنی بقاء Survival Of The Fittest کی خاطر اربوں انسانوں اور لاکھوں جانداروں کو ناپید کرنے کا سامان بھی خود ہی کیا تھا تو شایداس وقت ان کا سر شرمندگی سے جھک جائے۔
Load Next Story