ہم پاکستانی
ہمارے یعنی پاکستان کے خلاف وارداتیں جاری ہیں۔ ایک ہی دن میں تین تین بار زبردست آگ ایک خوفناک واردات ہے
ہمارے یعنی پاکستان کے خلاف وارداتیں جاری ہیں۔ ایک ہی دن میں تین تین بار زبردست آگ ایک خوفناک واردات ہے۔ ایک سے زیادہ نامور پاکستانی شہید اور یوں لگتا ہے کہ دشمنوں نے ہمارے کئی پاکستانیوں کو نشانہ پر رکھ لیا ہے جو نامور پاکستانی بچے ہوئے ہیں ان کی خیریت پا کر تعجب ہوتا ہے۔ پاکستان کی زندگی کے ہر شعبے میں کسی کاری ضرب کی اطلاع نہ پا کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دشمنوں سے یہ شعبہ بچ کیسے گیا ہے یا ابھی انھیں اس پر حملے کی فرصت نہیں ملی۔ غرض یوں سمجھیں کہ پاکستان ایک وسیع حملے کی زد میں ہے اور یہ حملہ بلاتکلف جاری ہے۔
مارے دشمنوں نے اپنی فوجیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی بھی محاذ پر موقع پا کر چڑھ دوڑتی ہیں۔ جیسے ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ہمارا کوئی نامور پاکستانی جب ان حملہ آور دشمنوں کے قابو میں آ جاتا ہے تو ہم کئی دن تک اس کا سوگ مناتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے دلوں میں ہماری بے بسی کا کربناک احساس زندہ رہتا ہے کہ ہم اس قدر کمزور اور بے بس ہو گئے ہیں کہ جس دشمن کا جی چاہے وہ ہم پر اپنی سہولت کے مطابق حملہ کر دے اور ہمارے جس نامور پاکستانی کو چاہے زندگی سے محروم کر دے۔ ہم اور ہمارے حفاظتی ادارے صرف مذمت کے لیے باقی رہ جاتے ہیں اور سخت الفاظ میں افسوس کا اظہار کر کے گویا اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ یہ صورت حال یوں بے حد کربناک ہے کہ ہمارے پاس اس کا ازالہ نہیں ہے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود اپنے مخالفوں کے لیے ایک آسان نشانہ ہیں۔ کبھی تو ہم دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک تھے لیکن اپنا ایک حصہ یعنی مشرقی پاکستان گنوا دینے کے بعد ہم ایک مسلمان ملک بن کررہ گئے اور دعا ہے کہ ہم جو بچ گئے ہیں وہ سلامت رہیں کیونکہ ہم دنیا کے واحد ملک ہیں جو کسی نظریے کے تحت قائم کیے گئے ہیں اور یہ نظریہ ہماری طاقت ہے۔ دنیا میں مسلمان ملکوں کی تعداد تو بہت ہے لیکن یہ سب پہلے سے ایک مسلمان ملک چلے آ رہے ہیں اور اسی سے پہچانے جاتے ہیں مگر پاکستان وہ پہلا مسلمان ملک ہے جو بطور ایک مسلمان ملک کے موجود نہ تھا اسے برصغیر کے مسلمانوں نے تخلیق کیا اور ہندوستان کے ہندوؤں سے چھین لیا۔
یہاں کی ہندو آبادی کا خیال تھا بلکہ ایمان تھا کہ ہندوستان صرف ان کا ہے اور یہاں مسلمانوں کے عمل دخل کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن اس بڑے ملک کی آبادی میں اسلام نے بھی اپنی جگہ بنا لی اور اس طرح سے کہ مسلمان یہاں کے حکمران بھی بن گئے تھے اور انھوں نے صدیوں تک یہاں ہندوؤں پر حکومت کی اور اس ملک میں اپنا ایک مستقل نشان پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جس کا ایک نمونہ یہ ملک پاکستان ہے جس کے وجود کے سامنے بھارتی ہندو وزیراعظم اندرا گاندھی نے جل کر کہا تھا کہ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک ہم پر حکومت کی ہم اب اس طویل غلامی کا بدلہ لیں گے اور یہ ہم مسلمانوں کی کمزوری اور سیاسی بدعملی تھی کہ بھارت کے ہندو پاکستان کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ ہماری بزدلی تھی کہ ہم اپنے ہزار برس کے سابق غلاموں اور محکوموں کے طعنے برداشت کر گئے اور اپنا بنا بنایا ملک ان کے ہاتھوں تڑوا بیٹھے۔میں یہ الفاظ اس دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنی اس شکست کو قبول کر لیا اور جو بچ گیا تھا اسی کو پورا پاکستان سمجھ کر بیٹھ گئے جب کہ ملکوں اور قوموں کی شکست محدود نہیں ہوتی یہ چلتی رہتی ہے۔ بس یہ پرانی بات جسے ہم پاکستان بھول ہی گئے ہیں میں یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس امید پر کہ اس پاکستان میں کچھ ایسے باغیرت اور جرانمرد پیدا ہوں گے جو نہ صرف ماضی کے بدلے لیں گے بلکہ پاکستان کو ایک ناقابل شکست ملک بنا دیں گے۔
اور اس کا آغازہو گیا ہے۔ ایک مہاجر پاکستانی نے جس کو خدا نے ہمت دی اور اتنی ایمانی طاقت دی کہ آج یہ ملک ایک ایٹمی ناقابل تسخیر ملک بنا دیا ہے۔ اب کسی کی جرات نہیں کہ ہمیں ہزاروں سالہ حکمرانی کا طعنہ دے ہم جب بھی چاہیں اپنی قوت ایمانی سے اپنے ماضی کو زندہ کر سکتے ہیں اور اپنے ماضی کو زندہ کرنے کے لیے یہ قوم بے تاب ہے۔ ان دنوں جو مبارک مہینہ گزر رہا ہے وہ اپنے ان نام لیواؤں کے دلوں میں ایمانی طاقت کا ایک طوفان برپا کر دیتا ہے اور ہم اس طوفان کو اپنے سینوں میں بند نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں صرف ایک ایماندار اور جاندار قیادت چاہیے جو ہمارے دلوں میں تڑپتے ہوئے ارمانوںاور تمناؤں کو سامنے لا سکے اور انکو باعمل کر سکے۔ یہی وہ وقت ہے جس کا پوری مسلمان قوم کو انتظار ہے۔
یہ وقت ہم مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے، قدرت نے پاکستان کو پہلے تو ایک معجزہ دکھا کر قائم کیا پھر اسے دشمنوں کے لیے ناقابل تسخیر بنا کر دکھا دیا۔اب یہ سب ہم پاکستانیوں پر منحصر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ان کرمفرمائیوں کو کس ایمانی قوت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں بہت کچھ دے دیا ہے اب یہ سب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس طاقت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور کس طرح اپنے آپ کو اس کا مستحق گردانتے ہیں۔
مارے دشمنوں نے اپنی فوجیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی بھی محاذ پر موقع پا کر چڑھ دوڑتی ہیں۔ جیسے ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ہمارا کوئی نامور پاکستانی جب ان حملہ آور دشمنوں کے قابو میں آ جاتا ہے تو ہم کئی دن تک اس کا سوگ مناتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے دلوں میں ہماری بے بسی کا کربناک احساس زندہ رہتا ہے کہ ہم اس قدر کمزور اور بے بس ہو گئے ہیں کہ جس دشمن کا جی چاہے وہ ہم پر اپنی سہولت کے مطابق حملہ کر دے اور ہمارے جس نامور پاکستانی کو چاہے زندگی سے محروم کر دے۔ ہم اور ہمارے حفاظتی ادارے صرف مذمت کے لیے باقی رہ جاتے ہیں اور سخت الفاظ میں افسوس کا اظہار کر کے گویا اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ یہ صورت حال یوں بے حد کربناک ہے کہ ہمارے پاس اس کا ازالہ نہیں ہے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود اپنے مخالفوں کے لیے ایک آسان نشانہ ہیں۔ کبھی تو ہم دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک تھے لیکن اپنا ایک حصہ یعنی مشرقی پاکستان گنوا دینے کے بعد ہم ایک مسلمان ملک بن کررہ گئے اور دعا ہے کہ ہم جو بچ گئے ہیں وہ سلامت رہیں کیونکہ ہم دنیا کے واحد ملک ہیں جو کسی نظریے کے تحت قائم کیے گئے ہیں اور یہ نظریہ ہماری طاقت ہے۔ دنیا میں مسلمان ملکوں کی تعداد تو بہت ہے لیکن یہ سب پہلے سے ایک مسلمان ملک چلے آ رہے ہیں اور اسی سے پہچانے جاتے ہیں مگر پاکستان وہ پہلا مسلمان ملک ہے جو بطور ایک مسلمان ملک کے موجود نہ تھا اسے برصغیر کے مسلمانوں نے تخلیق کیا اور ہندوستان کے ہندوؤں سے چھین لیا۔
یہاں کی ہندو آبادی کا خیال تھا بلکہ ایمان تھا کہ ہندوستان صرف ان کا ہے اور یہاں مسلمانوں کے عمل دخل کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن اس بڑے ملک کی آبادی میں اسلام نے بھی اپنی جگہ بنا لی اور اس طرح سے کہ مسلمان یہاں کے حکمران بھی بن گئے تھے اور انھوں نے صدیوں تک یہاں ہندوؤں پر حکومت کی اور اس ملک میں اپنا ایک مستقل نشان پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جس کا ایک نمونہ یہ ملک پاکستان ہے جس کے وجود کے سامنے بھارتی ہندو وزیراعظم اندرا گاندھی نے جل کر کہا تھا کہ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک ہم پر حکومت کی ہم اب اس طویل غلامی کا بدلہ لیں گے اور یہ ہم مسلمانوں کی کمزوری اور سیاسی بدعملی تھی کہ بھارت کے ہندو پاکستان کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ ہماری بزدلی تھی کہ ہم اپنے ہزار برس کے سابق غلاموں اور محکوموں کے طعنے برداشت کر گئے اور اپنا بنا بنایا ملک ان کے ہاتھوں تڑوا بیٹھے۔میں یہ الفاظ اس دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنی اس شکست کو قبول کر لیا اور جو بچ گیا تھا اسی کو پورا پاکستان سمجھ کر بیٹھ گئے جب کہ ملکوں اور قوموں کی شکست محدود نہیں ہوتی یہ چلتی رہتی ہے۔ بس یہ پرانی بات جسے ہم پاکستان بھول ہی گئے ہیں میں یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس امید پر کہ اس پاکستان میں کچھ ایسے باغیرت اور جرانمرد پیدا ہوں گے جو نہ صرف ماضی کے بدلے لیں گے بلکہ پاکستان کو ایک ناقابل شکست ملک بنا دیں گے۔
اور اس کا آغازہو گیا ہے۔ ایک مہاجر پاکستانی نے جس کو خدا نے ہمت دی اور اتنی ایمانی طاقت دی کہ آج یہ ملک ایک ایٹمی ناقابل تسخیر ملک بنا دیا ہے۔ اب کسی کی جرات نہیں کہ ہمیں ہزاروں سالہ حکمرانی کا طعنہ دے ہم جب بھی چاہیں اپنی قوت ایمانی سے اپنے ماضی کو زندہ کر سکتے ہیں اور اپنے ماضی کو زندہ کرنے کے لیے یہ قوم بے تاب ہے۔ ان دنوں جو مبارک مہینہ گزر رہا ہے وہ اپنے ان نام لیواؤں کے دلوں میں ایمانی طاقت کا ایک طوفان برپا کر دیتا ہے اور ہم اس طوفان کو اپنے سینوں میں بند نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں صرف ایک ایماندار اور جاندار قیادت چاہیے جو ہمارے دلوں میں تڑپتے ہوئے ارمانوںاور تمناؤں کو سامنے لا سکے اور انکو باعمل کر سکے۔ یہی وہ وقت ہے جس کا پوری مسلمان قوم کو انتظار ہے۔
یہ وقت ہم مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے، قدرت نے پاکستان کو پہلے تو ایک معجزہ دکھا کر قائم کیا پھر اسے دشمنوں کے لیے ناقابل تسخیر بنا کر دکھا دیا۔اب یہ سب ہم پاکستانیوں پر منحصر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ان کرمفرمائیوں کو کس ایمانی قوت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں بہت کچھ دے دیا ہے اب یہ سب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس طاقت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور کس طرح اپنے آپ کو اس کا مستحق گردانتے ہیں۔