سمسٹر سسٹم قبول و رد کی بحث دم توڑ چکی۔۔۔

ماہرین کے نزدیک سالانہ نظام امتحان آرٹس کے چند مضامین کے لیے تو کارآمد ہوسکتا ہے، لیکن سائنس کے لیے نہیں ۔

سمسٹر سسٹم کی سب سے بڑی خصوصیت اس میں پائی جانے والی شفافیت ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی اقوام کے حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ آج وہ جس مقام پر ہیں، یہ سب ان کی محنت، مسلسل جدوجہد، اور مستقل مزاجی کا نتیجہ ہے۔

یہی نہیں بلکہ انھوں نے ہمیشہ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیا اور اپنے نظام میں ترامیم کر کے نئے نظام اور تصورات کو فروغ دیا۔ اسی وجہ سے انھیں کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر کام اس وقت کرتے ہیں، جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد افراتفری کے عالم میں کوئی منصوبہ بندی کیے بغیر ایک ایسا نظام نافذ کر دیتے ہیں، جسے ہمارا معاشرہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی نئے تجربے سے پہلے باقاعدہ ہوم ورک کرکے آہستہ آہستہ ہدف کی طرف بڑھا جائے تاکہ اس دوران اگر کوئی خامیاں نظر آئیں، تو انھیں پہلے مرحلے میں ہی دور کر لیا جائے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ مجوزہ نظام میں تو کوئی خامی نہیں ہوتی، لیکن اس کی وجہ سے جن لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے وہ اسے ناکام ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔

اس کی ایک مثال ملک کے تعلیمی اداروں میں سمسٹر سسٹم کے نفاذ کے بعد چھڑنے والی بحث ہے، جس میں سالانہ نظام تعلیم کی حمایت میں یہ کہا گیا کہ ہمارے ماحول میں سالانہ طریقۂ امتحان ہی بہتر ہے۔ سمسٹر سسٹم کے ناقدین کا کہنا ہے اس میں طلباء اور اساتذہ پر کام کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سمسٹر سسٹم کم وقت اور مقابلہ سخت والی بات ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات اساتذہ کی مصروفیات یا غیر متوقع چھٹیوں کی وجہ سے نصاب کی تکمیل کا عمل متأثر ہوتا ہے۔ اس کے حل کے لیے ٹیچرز طلباء کو نوٹس دے دیتے ہیں، جس سے امتحانی پرچہ تیار کیا جاتا ہے۔ یوں سمسٹر سسٹم کا مقصد فوت جاتا ہے۔


س لیے بہتر ہے کہ سالانہ طریقۂ امتحانات کو جاری رکھا جائے، کیوں کہ اس میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ کورس کا بعد میں احاطہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ وہ نمبر جو براہ راست ٹیچرز کی صواب دید پر ہوتے ہیں، ان کے معاملے میں اساتذہ کی ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے بھی طلبہ کا استحصال ہوتا ہے۔ جب کہ سالانہ طریقۂ امتحان میں اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

سمسٹر سسٹم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ہمیں سالانہ امتحانی نظام کی طرف لوٹنا چاہیے، جب کہ ماہرین ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سمسٹر سسٹم سے سالانہ نظام تعلیم کی طرف لوٹنا ایسے ہی ہے، جیسے ہم اندھیروں کی طرف سفر کا آغاز کر دیں۔

ماہرین کے مطابق سمسٹر سسٹم کی کام یابی کی سب سے زیادہ ذمے داری اساتذہ پر عاید ہوتی ہے، جس کے لیے انھیں خود کو تیکنیکی بنیادوں پر مضبوط بنانا ہوگا، جب کہ اخلاقی طور پر طلباء کا استحصال کرنے کا تصور بھی نہ کریں، کیوں کہ سمسٹر سسٹم کی سب سے بڑی خصوصیت اس میں پائی جانے والی شفافیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس سسٹم سے منسلک کوئی بھی فرد اختیارات کا غلط استعمال کرے گا تو وقت کے ساتھ ساتھ خود بہ خود بے نقاب ہوتا چلا جائے گا۔

ماہرین کے نزدیک سالانہ نظام امتحان آرٹس کے چند مضامین کے لیے تو کارآمد تو ہوسکتا ہے، لیکن سائنس اور آرٹس کے بہت سے مضامین کے لیے یہ کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ محض چند خامیوں کی وجہ سے سمسٹر سسٹم ترک کرنے سے بہتر ہے کہ مسائل کا حل تجویز کر کے اس پر عمل کیا جائے۔ اگرچہ ملک کے تعلیمی اداروں میں اس نظام کو متعارف ہوئے عرصہ گزر گیا، لیکن اب بھی اس کی مخالفت میں کوئی آواز سنائی دے جاتی ہے۔ تاہم مجموعی طور پر صورتِ حال بہتر نظر آتی ہے اور اس کے طلباء کو حاصل ہونے والے فوائد اور ان کی تعلیم پر پڑنے والے مثبت اور گہرے اثرات نے مخالفین کو قائل کر لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم دنیا بھر میں آزمائے ہوئے نظام کو ناکام ثابت کرنے کے بجائے خود کو نئے چیلنجز کے لیے تیار کریں تاکہ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کا سفر سہل ہو جائے۔
Load Next Story