افغان مہاجرین یا افغان پناہ گزین

پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو ’افغان مہاجر‘ قرار دے کر بلا روک ٹوک کاروبار کرنے کی اجازت دیدی گئی۔

پاکستان میں ہمیشہ افغانیوں کو ’’ہمارے بھائی‘‘ کہہ کر گلے سے لگایا گیا لیکن لیکن، تاریخ شاہد ہے کہ افغانیوں نے پاکستان کو کبھی اپنا وطن نہیں سمجھا۔ فوٹو: فائل

BULAWAYO:
اگر پاکستان میں مقیم افغانی ''مہاجرین'' ہیں تو پھر انہیں بالکل بھی واپس نہیں بھیجنا چاہئے اور اگر انہیں واپس بھیجنے کی باتیں ہورہی ہیں تو پھر انہیں مہاجرین نہیں بلکہ ''پناہ گزین'' کہنا چاہئے۔

آج کل ''افغان مہاجرین'' کے وطن واپس جانے کی خبریں بڑے تواتر سے نشر ہورہی ہیں اور یہ ناچیز حیرت کے سمندر میں بار بار غوطہ زن ہورہا ہے۔ اہلِ سیاست کی بات ہی چھوڑیئے، یہاں تو اہالیانِ ابلاغِ عامّہ تک اس نازک لیکن اہم غلطی کو بار بار دہرائے جارہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ''ہجرت'' کرنے والے افراد ''مہاجرین'' ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص بہتر روزگار کی خاطر پاکستان چھوڑ کر امریکا، کینیڈا یا برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرلے تو کیا وہ بھی ''مہاجر'' ہوگا؟ اور کیا اس کا یہ عمل ''ہجرت'' قرار دیا جاسکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ انگریزی الفاظ ''امیگرینٹ'' اور ''مائیگریشن'' میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ مہاجر اور ہجرت جیسے الفاظ کے مفہوم کا بوجھ اٹھاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ انگریزی الفاظ کے اردو ترجمے میں نقل مکانی اور ہجرت کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردیا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص ایک جگہ یا علاقے سے رہائش ترک کرکے کسی دوسری جگہ یا علاقے میں بود و باش اختیار کرلے تو اس عمل کو ''نقل مکانی'' کہا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ شخص کچھ وقت کے بعد اپنے ابتدائی رہائشی مقام پر واپس آجائے۔ ایسی صورت میں یہ نقل مکانی ''عارضی'' ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر وہ اپنے ابتدائی مقامِ سکونت کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر کہیں اور چلا جائے تو پھر یہ ''مستقل نقل مکانی'' کہلائے گی۔

عملی نقطہ نگاہ سے مستقل نقل مکانی اور ہجرت میں کوئی فرق نہیں، دونوں ہی میں کسی ایک جگہ کا رہنے والا فرد اپنا گھر بار ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر کسی دوسری جگہ کا باسی ہوکر رہ جاتا ہے۔ البتہ، نظریاتی اعتبار سے ہجرت اور مستقل نقل مکانی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کوئی بھی مستقل نقل مکانی اسی وقت ''ہجرت'' کے مرتبے پر فائز ہوسکتی ہے کہ جب اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ رب العزت کے حکم کی تعمیل ہو (جیسا کہ ہجرتِ مدینہ میں ہوا) یا پھر اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی و نفاذ اس سے مقصود ہو (قیامِ پاکستان کے وقت، بیسویں صدی کی سب سے بڑی ہجرت بھی انہی مقاصد کے تحت کی گئی تھی)۔

اگر آپ اس اظہارِ خیال کو ''ہرزہ سرائی'' سمجھ رہے ہیں تو ''فیلن'' اور ''پلَیٹس'' کی انگریزی اردو لغات کے علاوہ مولوی سیّد احمد دہلوی کی ''فرہنگِ آصفیہ'' بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ بیسویں صدی کی ابتداء میں شائع ہونے والی ان تینوں لغات میں ''ہجرت'' کو علیحدہ سے واضح کیا گیا ہے۔


اب چلتے چلتے ''مہاجر'' کا موازنہ ''پناہ گزین'' سے بھی کرلیتے ہیں۔ پناہ گزین کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو وقتی مجبوری کی بناء پر اپنے علاقے سے رہائش چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں جاکر عارضی طور پر مقیم ہوجائے۔ اپنے اصل وطن میں حالات سازگار ہوتے ہی وہ واپس چلا جائے گا۔ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔

لیکن شاید پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو ''افغان مہاجر'' قرار دے کر پورے ملک میں کہیں پر بھی بلا روک ٹوک (جائز و ناجائز، ہر طرح کا) کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی اور انہوں نے اس ملک کے وسائل بڑی بے دردی سے استعمال کئے۔ یہ سلسلہ 37 سال سے جاری ہے۔

شاید ہمیں یہ تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ جب ہیروئن، کلاشنکوف اور تشدد کا کلچر اپنے ساتھ لانے والے افغانی، پاکستان میں وارد ہوئے تو ہم نے انہیں ''ہمارے بھائی'' کہہ کر گلے سے لگایا۔ انہیں اپنے دلوں میں جگہ دی اور پاکستان میں کاروبار کرنے کی ایسی آزادی فراہم کی جو انہیں افغانستان میں بھی حاصل نہیں تھی۔

لیکن، تاریخ شاہد ہے کہ افغانیوں نے پاکستان کو کبھی اپنا وطن نہیں سمجھا۔ کراچی میں وہ ٹرانسپورٹ اور قبضہ مافیا بن گئے، انہوں نے پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کا گڑھ بنادیا، انہوں نے پاکستان سے بے حساب ہی نہیں، بلکہ بے دریغ پیسہ کمایا اور اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے خود کو کبھی پاکستانی نہیں کہا بلکہ وہ ''افغانی'' ہی رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی انہیں ''ہمارے بھائی'' ہی کہہ کر گلے لگایا جاتا ہے اور ان کے سارے جرائم سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے لیکن کمال دیکھیے کہ آج بھی جب انہیں واپس بھیجنے کا وقت آیا ہے تو اس وقت بھی ہم انہیں افغان تارکینِ وطن یا افغان پناہ گزینوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ ''افغان مہاجرین'' کی حیثیت سے واپس بھیجنے کی بات کررہے ہیں۔

[poll id="1161"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story