محترم المقام قبلہ وکعبہحضور والا
آپ حکومت ہیں، اقتدار ہیں، بادشاہت ہیں، طاقت ہیں، ہمت ہیں، جرأت ہیں، غنی ہیں،دولت مند، جاہ وحشم،عزت دار،اشرافیہ ہیں
آپ حکومت ہیں، اقتدار ہیں، بادشاہت ہیں، طاقت ہیں، ہمت ہیں، جرأت ہیں، غنی ہیں،دولت مند، جاہ وحشم،عزت دار،اشرافیہ ہیں، صاحب ذی وقارہیں اور میں عوام رعایا، فقیر شہر، بے وقعت،کمزور، نحیف ونزار،ضعیف و بے قرار، بزدل،کنگال، مفلوک الحال، بدعقل، بدشکل۔
حضور بخدا میرا اورآپ کا ساتھ میری خواہش پر نہیں ہوا۔ میں آپ کے لیے کبھی مسئلہ بننا نہیں چاہتا تھا، لیکن کب آپ کو خلق کیا گیا۔ کب مجھے ، کب ہمیں ملا دیا گیا؟ مجھے نہیں معلوم۔ ممکن ہے آپ جانتے ہوں۔ آپ کے پاس وسائل ہیں۔ بے اندازہ دولت ہے۔
میں تو صرف آپ کے زیر سایہ جینا چاہتا ہوں۔ آپ کے ہاتھوں مرنا چاہتا ہوں، معلوم ہے، آپ کفن دفن میں بہت سخی ہیں۔آپ جیوت کچھ دیں نہ دیں، مسرت بھر دیتے ہیں۔ حضور اللہ آپ کو مزید دے۔ اتنا دے کہ آپ رکھ کر بھول جائیں اور آپ کے بھولے ہوئے ہمیں پاجائیں۔
سچ اس سال پیٹ بھرکے گوشت کھانے کو بڑا من کر رکھا ہے۔ حضور نے دعوت کرنی ہی چھوڑدی۔جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ آپ نے بجا فرما۔ میں کم سے کم وقت لوں گا۔ سرکارکیا ہم نہیں جانتے آپ کی مصروفیت کو۔
ہم نے گودوں کھلایا آپ کو۔کیسے بھول سکتے ہیں۔ بچپن سے واقف ہیں۔آپ کو کیا اچھا لگتا ہے کیا برا۔ دیکھیں ناں آپ جنموں سے راجا ہم جنموں سے پرجا۔کیا خوبصورت دنیا بنائی بنانے والے نے۔ جی جی بتاتے ہیں۔
حضورکیا ہے کی آپ نے وہ کیا کہتے ہیں ۔ باہر سے سامان منگوانا اور باہر بھجوانا۔ آپ نے نئے بجٹ میں اس پر پیسا بڑھایا۔ وہ ہم کو معلوم نہیں۔ فریج، ٹی وی،کپڑے دھونے کی مشین، ٹھنڈی ہوا پھینکنے والی موٹر،ہمارے پاس ہے نہیں۔ کار، موٹرسائیکل پیسے والوں کا کام۔ سرکار! میں وہی بتا رہا ہوں۔ ہوا کیا۔آپ کے وزیر خزانہ صاحب جس نے فرمایا دال مت کھاؤ مرغی کھاؤ۔ حضور! دال مہنگی ہوئی تو کمر ٹوٹ گئی۔ آٹے کے پیسے بڑھے تو جان کے لالے پڑ گئے۔ ہم نے سنا تو بستی والے سمجھے سرکار نے مرغی والوں کو بول دیا کہ وہ ہمیں دال کے بھاؤ دیں۔ بستی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہمیں تو پہلے سے خبر ہے آپ دیالو ہیں۔ چھوٹے تھے سرکار! تو جس کھلونے سے جی بھر گیا یا ٹوٹ گیا تو کتنا ہی مہنگا ہو ہمیں دے دیا۔
ہمارے بچے خوش ہوگئے۔ سالوں کھیلے۔ یہ تو بچپن کی بات ہے۔ کیوں نہ یقین کرتے۔ دوڑے دوڑے شہر گئے مرغی والوں سے کہا مرغی دو۔ سرکار! انھوں نے کاٹ کے تول دی۔ لیکن پیسے دیے تو نہ لیے بولے یہ بھاؤ نہیں۔ ہم نے کہا ہمارے سرکار کے وزیر صاحب کا حکم ہے دال کی جگہ مرغی کھاؤ۔ بولے پاگل ہوئے ہو۔ ہمیں بہت برا بھلا بولے۔ گالیاں دیں۔ پھر تھوڑی مرغی دے کر باقی رکھ لی۔ اور بھگا دیا۔ یہ کہا دوبارہ ادھر نہیں آنا۔ نہ آئندہ وزیر کا بھاشن سننا۔ بتاؤ کیسا بداخلاق تھا وہ۔ ہم کیوں نہ سنیں سرکار کے وزیر ہیں۔ ہم تو سالوں سے ان کی چاکری کرتے ہیں۔ جب وہ حکم دیتے، ہم جلسوں میں کھڑے رہے۔ لائنوں میں کھڑے رہے۔ ووٹ دیے، خون دیا، کیا ہوا وزیر صاحب تھوڑا جلدی میں بول گئے۔ ہم کو آپ کو دیکھنا تھا۔ ہم وہی مرغی دو تین کلو دیگ میں ڈال کر پکاتے رہے۔ پکا کے ساری بستی کو شوربے سے کھلایا۔ لیکن آپ کی بات کو نہیں گرنے دیا سرکار!
ادھر جگہ جگہ لوگ بول رہے سرکار نے مال کھایا۔ لندن میں رکھا۔ بٹیا کے نام پر، بیٹوں کے نام پر۔ اپوزیشن والے بولتے ہیں ہم ہڑتال کریں گے، دھرنا دیں گے۔ میں نے ایک آدمی سے کہا۔ تو کیا بول رہا ہے۔ سرکار جب سے دنیا بنی جب سے امیر ہیں۔ انھوں کے پاس پاکستان بننے سے پہلے فیکٹریاں تھیں۔ اللہ نے ان کو دولت مند بنایا، عزت دی۔ ہمارا فرض ہے ہم اللہ کی بات مانیں۔ سرکار ہمارے بادشاہ ہیں۔ پیسہ کدھر بھی رکھیں۔ وہ بولا پہلے تُو بتا تیرے سرکار کے پاس پیسہ آیا کہاں سے؟ میں نے اس کو کیا جواب دیا۔
جواب نہیں بنا تو بولا تیرے سرکار نے کہا تھا بجلی پوری کرکے دے گا۔ دی؟ ابھی بھی جا رہی ہے۔ میں نے اس کو پھر کڑک جواب دیا۔ میں نے کہا پہلی بات ہمارے پاس نہ پنکھا نہ بلب، بجلی سے ہم کو فرق نہیں پڑتا۔ آگے بول۔ کہنے لگا شہر میں تو فرق پڑتا ہے ناں۔ ادھر سب کچھ ہے۔ میں نے اس کو بولا۔ جب پاکستان بنا بجلی تھی؟ بولا تھی، کم تھی۔ میں نے کہا پاکستان اجالے میں بنا تھا۔ بجلی نے بنایا تھا؟
جب بجلی کم تھی اب کیا ضرورت پڑگئی۔ پھر جاکے وہ چپ ہوا۔
سرکار کسان بولتے ہیں بیج تھوڑا سستا کرو۔ اتنے میں وارا نہیں آتا۔ آٹا، دال کا پیسہ بھی گراؤ۔ گزارا مشکل ہوگیا ادھر گاؤں میں جو اسکول بنایا تھا ابھی اس میں وڈیرا بیٹھتا ہے۔ اس نے اوطاق بنایا۔ آپ صحیح کہتے ہیں ہم کو پڑھا کے کیا کرنا۔ کون سا بچے D.C لگ جائیں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ بچے اسکول جاتے تھے تو ہماری ان سے جان چھوٹ جاتی تھی۔ آدھا دن کی روٹی معاف نہیں تو صبح سے روٹی دو۔ چائے دو اور تو اور پراٹھا دو۔ ابھی ان کو سمجھائے کون۔ حضورکیا کر رہے ان کے لیے۔ میٹرو بس، میٹرو ٹرین، مالٹے کے رنگ والی، بڑے بڑے پل، ان کی صفائی کون کرے گا۔ ہمارے بچے لوگ۔ روزگار ملے گا۔ وہ پاگل کو دیکھو۔ بولتا شہر جاکے بچے بیچوں گا۔ میرے سے نہیں پلتے۔ دوسرا پال لے گا۔ میں نے پوچھا پیسوں کا کیا کرے گا؟ پاگل رونے لگ گیا۔ بولا جس آدمی کو بچے بیچوں گا پیسے بھی اسی کو لوٹا دوں گا۔ آخر میں بچوں کا باپ ہوں۔ سارے ذمے داری خریدارکی تو نہیں مجھے بھی اپنا فرض نبھانا ہے۔
حضور بخدا میرا اورآپ کا ساتھ میری خواہش پر نہیں ہوا۔ میں آپ کے لیے کبھی مسئلہ بننا نہیں چاہتا تھا، لیکن کب آپ کو خلق کیا گیا۔ کب مجھے ، کب ہمیں ملا دیا گیا؟ مجھے نہیں معلوم۔ ممکن ہے آپ جانتے ہوں۔ آپ کے پاس وسائل ہیں۔ بے اندازہ دولت ہے۔
میں تو صرف آپ کے زیر سایہ جینا چاہتا ہوں۔ آپ کے ہاتھوں مرنا چاہتا ہوں، معلوم ہے، آپ کفن دفن میں بہت سخی ہیں۔آپ جیوت کچھ دیں نہ دیں، مسرت بھر دیتے ہیں۔ حضور اللہ آپ کو مزید دے۔ اتنا دے کہ آپ رکھ کر بھول جائیں اور آپ کے بھولے ہوئے ہمیں پاجائیں۔
سچ اس سال پیٹ بھرکے گوشت کھانے کو بڑا من کر رکھا ہے۔ حضور نے دعوت کرنی ہی چھوڑدی۔جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ آپ نے بجا فرما۔ میں کم سے کم وقت لوں گا۔ سرکارکیا ہم نہیں جانتے آپ کی مصروفیت کو۔
ہم نے گودوں کھلایا آپ کو۔کیسے بھول سکتے ہیں۔ بچپن سے واقف ہیں۔آپ کو کیا اچھا لگتا ہے کیا برا۔ دیکھیں ناں آپ جنموں سے راجا ہم جنموں سے پرجا۔کیا خوبصورت دنیا بنائی بنانے والے نے۔ جی جی بتاتے ہیں۔
حضورکیا ہے کی آپ نے وہ کیا کہتے ہیں ۔ باہر سے سامان منگوانا اور باہر بھجوانا۔ آپ نے نئے بجٹ میں اس پر پیسا بڑھایا۔ وہ ہم کو معلوم نہیں۔ فریج، ٹی وی،کپڑے دھونے کی مشین، ٹھنڈی ہوا پھینکنے والی موٹر،ہمارے پاس ہے نہیں۔ کار، موٹرسائیکل پیسے والوں کا کام۔ سرکار! میں وہی بتا رہا ہوں۔ ہوا کیا۔آپ کے وزیر خزانہ صاحب جس نے فرمایا دال مت کھاؤ مرغی کھاؤ۔ حضور! دال مہنگی ہوئی تو کمر ٹوٹ گئی۔ آٹے کے پیسے بڑھے تو جان کے لالے پڑ گئے۔ ہم نے سنا تو بستی والے سمجھے سرکار نے مرغی والوں کو بول دیا کہ وہ ہمیں دال کے بھاؤ دیں۔ بستی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہمیں تو پہلے سے خبر ہے آپ دیالو ہیں۔ چھوٹے تھے سرکار! تو جس کھلونے سے جی بھر گیا یا ٹوٹ گیا تو کتنا ہی مہنگا ہو ہمیں دے دیا۔
ہمارے بچے خوش ہوگئے۔ سالوں کھیلے۔ یہ تو بچپن کی بات ہے۔ کیوں نہ یقین کرتے۔ دوڑے دوڑے شہر گئے مرغی والوں سے کہا مرغی دو۔ سرکار! انھوں نے کاٹ کے تول دی۔ لیکن پیسے دیے تو نہ لیے بولے یہ بھاؤ نہیں۔ ہم نے کہا ہمارے سرکار کے وزیر صاحب کا حکم ہے دال کی جگہ مرغی کھاؤ۔ بولے پاگل ہوئے ہو۔ ہمیں بہت برا بھلا بولے۔ گالیاں دیں۔ پھر تھوڑی مرغی دے کر باقی رکھ لی۔ اور بھگا دیا۔ یہ کہا دوبارہ ادھر نہیں آنا۔ نہ آئندہ وزیر کا بھاشن سننا۔ بتاؤ کیسا بداخلاق تھا وہ۔ ہم کیوں نہ سنیں سرکار کے وزیر ہیں۔ ہم تو سالوں سے ان کی چاکری کرتے ہیں۔ جب وہ حکم دیتے، ہم جلسوں میں کھڑے رہے۔ لائنوں میں کھڑے رہے۔ ووٹ دیے، خون دیا، کیا ہوا وزیر صاحب تھوڑا جلدی میں بول گئے۔ ہم کو آپ کو دیکھنا تھا۔ ہم وہی مرغی دو تین کلو دیگ میں ڈال کر پکاتے رہے۔ پکا کے ساری بستی کو شوربے سے کھلایا۔ لیکن آپ کی بات کو نہیں گرنے دیا سرکار!
ادھر جگہ جگہ لوگ بول رہے سرکار نے مال کھایا۔ لندن میں رکھا۔ بٹیا کے نام پر، بیٹوں کے نام پر۔ اپوزیشن والے بولتے ہیں ہم ہڑتال کریں گے، دھرنا دیں گے۔ میں نے ایک آدمی سے کہا۔ تو کیا بول رہا ہے۔ سرکار جب سے دنیا بنی جب سے امیر ہیں۔ انھوں کے پاس پاکستان بننے سے پہلے فیکٹریاں تھیں۔ اللہ نے ان کو دولت مند بنایا، عزت دی۔ ہمارا فرض ہے ہم اللہ کی بات مانیں۔ سرکار ہمارے بادشاہ ہیں۔ پیسہ کدھر بھی رکھیں۔ وہ بولا پہلے تُو بتا تیرے سرکار کے پاس پیسہ آیا کہاں سے؟ میں نے اس کو کیا جواب دیا۔
جواب نہیں بنا تو بولا تیرے سرکار نے کہا تھا بجلی پوری کرکے دے گا۔ دی؟ ابھی بھی جا رہی ہے۔ میں نے اس کو پھر کڑک جواب دیا۔ میں نے کہا پہلی بات ہمارے پاس نہ پنکھا نہ بلب، بجلی سے ہم کو فرق نہیں پڑتا۔ آگے بول۔ کہنے لگا شہر میں تو فرق پڑتا ہے ناں۔ ادھر سب کچھ ہے۔ میں نے اس کو بولا۔ جب پاکستان بنا بجلی تھی؟ بولا تھی، کم تھی۔ میں نے کہا پاکستان اجالے میں بنا تھا۔ بجلی نے بنایا تھا؟
جب بجلی کم تھی اب کیا ضرورت پڑگئی۔ پھر جاکے وہ چپ ہوا۔
سرکار کسان بولتے ہیں بیج تھوڑا سستا کرو۔ اتنے میں وارا نہیں آتا۔ آٹا، دال کا پیسہ بھی گراؤ۔ گزارا مشکل ہوگیا ادھر گاؤں میں جو اسکول بنایا تھا ابھی اس میں وڈیرا بیٹھتا ہے۔ اس نے اوطاق بنایا۔ آپ صحیح کہتے ہیں ہم کو پڑھا کے کیا کرنا۔ کون سا بچے D.C لگ جائیں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ بچے اسکول جاتے تھے تو ہماری ان سے جان چھوٹ جاتی تھی۔ آدھا دن کی روٹی معاف نہیں تو صبح سے روٹی دو۔ چائے دو اور تو اور پراٹھا دو۔ ابھی ان کو سمجھائے کون۔ حضورکیا کر رہے ان کے لیے۔ میٹرو بس، میٹرو ٹرین، مالٹے کے رنگ والی، بڑے بڑے پل، ان کی صفائی کون کرے گا۔ ہمارے بچے لوگ۔ روزگار ملے گا۔ وہ پاگل کو دیکھو۔ بولتا شہر جاکے بچے بیچوں گا۔ میرے سے نہیں پلتے۔ دوسرا پال لے گا۔ میں نے پوچھا پیسوں کا کیا کرے گا؟ پاگل رونے لگ گیا۔ بولا جس آدمی کو بچے بیچوں گا پیسے بھی اسی کو لوٹا دوں گا۔ آخر میں بچوں کا باپ ہوں۔ سارے ذمے داری خریدارکی تو نہیں مجھے بھی اپنا فرض نبھانا ہے۔