چھوٹاسا مہدی حسن کسی تربیت کے بغیر آوازکا جادو جگانے والا کچے گھر کا مکین بچہ ابرارناصر

وہ مشکل سے مشکل گانا اور غزل آسانی سے گالیتا ہے، موسیقی کے سنیئر فن کار خداداد صلاحیت پر حیران

وہ مشکل سے مشکل گانا اور غزل آسانی سے گالیتا ہے، موسیقی کے سنیئر فن کار خداداد صلاحیت پر حیران ۔ فوٹو : فائل

خوب صورت آواز اُس کے لیے قدرت کا تحفہ ہے، سُر اور لَے میں بھی ہے، مگر کوئی ساز خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، ہاں، مٹی کا گھڑا مل جاتا ہے اور وہ اسی کو غنیمت جانتا ہے۔ خواب تو اس کی آنکھوں میں بھی بہت سے ہیں، مگر اس نے شاید ہی مہدی حسن، نصرت فتح علی یا کسی اور بڑے گایک کی طرح خود کو مستقبل میں کسی مقام پر دیکھا ہو۔ بس، اپنے ہم عمروں یا گلی محلے میں کسی کی فرمائش پر کوئی مشہور غزل یا گیت اپنی آواز میں چھیڑ دی اور داد و ستائش سمیٹ کر دوبارہ اپنی جھونپڑ پٹی کا رُخ کرلیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے ساتھ گلوکاری کا شوق بھی، مگر بنیادی خواہش اور آرزو اس شوق کے برعکس یہ ہے کہ کہیں سے بہت سارا پیسہ آجائے اور گھر والوں کو غربت یا معاش کی تنگی سے چھٹکارا مل جائے۔ یہ کہانی ہے کراچی کی کچی آبادی میں رہنے والے گیارہ سالہ بچے ابرار ناصر کی۔

ابرار ناصر سے پہلی ملاقات اتفاقیہ ہوئی۔ مختلف این جی اوز سے وابستگی کی وجہ سے کراچی کے پس ماندہ علاقوں میں بسنے والوں کی زندگی کو نہایت قریب سے دیکھنے کے مواقع پہلے بھی کئی بار ملے۔ اس بار ہم نیو کراچی کی ایک کچی آبادی میں رمضان کا راشن تقسیم کرنے کے لیے موجود تھے۔

اطراف میں ننگ دھڑنگ گھومتے بچے، اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتی ماؤں کی آواز سے ماحول میں ایک شور سا تھا، اسی شور سے ابھرتی ایک مدھر آواز نے ہماری سماعتوں میں رس گھولنا شروع کردیا، یہ آواز بچوں اور بڑوں کے ہجوم میں گھرے ابرار کی تھی، جو جذب کے عالم میں آنکھیں بند کیے نصرت فتح علی خان کی مشہور حمد 'کوئی تو ہے جو نظام ِ ہستی چلا رہا ہے' گا رہا تھا۔ اپنے گردو پیش سے بے خبر یہ بچہ آنکھیں بند کیے اپنی ہی دھن میں گائے جا رہا تھا۔ اسے شاید خود بھی احساس نہیں تھا کہ خدا نے اسے کتنی خوب صورت آواز سے نوازا ہے۔ ابرار کے پاس جاکر ہم نے اس سے پوچھا کہ کس کس گلوکار کے گانے یاد ہیں تو اس کے جواب نے ہمیں ششدر کردیا۔



اس نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا کہا'مہدی حسن صاحب کی غزل سناؤں؟'

ابرار کا یہ جواب ہمارے لیے بہت غیرمتوقع تھا، کیوں کہ خان صاحب کی غزل گانے سے اچھے اچھے غزل گایک گھبراتے ہیں۔ ہماری طر ف سے اشارہ ملتے ہی اس کی آواز ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے لگی،
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اُترگیا کیسے

کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ
وہ میرا ہاتھ دبا کے گزر گیا کیسے

ضرور اُس کی توجہ کی رہبری ہوگی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے

جسے بھلائے کئی سال ہوگئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر گیا کیسے

مائیک کے بغیر، بنا کسی ساز کے اس کی سُریلی آواز دل میں اُتر رہی تھی، سماعتیں اس بات کا یقین کرنے سے قاصر تھیں کہ یہ غزل گیارہ بارہ سال کا ایک ایسا بچا گا رہا ہے جس کے خاندان میں آج تک کسی نے گنگنانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایک ایسا بچہ جو ابھی صرف چوتھی کلاس کا طالب علم ہے، اسے نہیں پتا کہ غزل کیا ہے، سُر کیا ہے، سرگم کیا ہے، لیکن جب گاتا ہے تو لگتا ہے کہ اس آواز کے زیروبم کے پیچھے برسوں کی تربیت ہے۔ کلاسیکی موسیقی سے بہت زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باوجود ابرار کی آواز کا اتار چڑھاؤ، تال میل، خان صاحب ہی کے انداز میں ہاتھوں اور منہ کو حرکت دینا، ہر چیر اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ اس بچے میں کچھ تو خاص ہے!

ابھی ہم حیرت و استعجاب سے دانتوں تلے انگلیاں دبائے بیٹھے تھے کہ ابرار نے ایک اور جملہ کہہ کر دوبارہ سے حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن کردیا۔ 'میرے ڈھولنا سناؤں؟' بھارتی فلم 'بھول بھلیاں' کے اس کلاسیکل گانے کو بھی ماہرین موسیقی ایک مشکل گانا قرار دیتے ہیں۔

ہمارا جواب سننے سے پہلے ہی ابرار کی آواز کمرے میں گونجنا شروع ہوگئی۔ اس وقت ہمارے سامنے بیٹھا یہ بچہ مہدی حسن کی غزل گانے والے بچے سے یکسر مختلف تھا۔ وہ اب ایک نئے روپ میں ڈھل چکا تھا۔ سرگم کے لفظی معنوں سے لاعلم ابرار کی آواز راگ الاپ رہی تھی۔

میرے ڈھولنا سُن ، میرے پیار کی دُھن
سانی دا
نی دا ما
ما گا سا نی دا نی سا گا ما
ما گا سا نی دا نی سا گا
ما گا سا نی دا نی سا گا
ماگا ماگا
سا نی دا ما گا پا دانی
سا نی دا ما گا پا دانی
سانی دا نی
دا نی سا۔۔۔دانی سا
دا نی سا۔۔۔دانی سا
ما دا نی۔۔۔ ما دا نی
ما دا نی۔۔۔ ما دا نی
دا نی سا
دانی سا
دا نی سا
ما دا نی
ما دا نی
ما دا نی
ما دا نی ساما دا نی سا
ما دا نی ساما دا نی سا
سا نی دا ما سا نی دا ما
سا نی دا ما سا نی دا ما
ما ما گا گا سا سا نی نی سا سا نی نی دا دا نی نی سا سا نی نی دا داما ما گا گا سانی دا
دانی سا سا سا
نی دا سا سا سا
ما گا سا سا سا
آنکھیں بند کرکے اتنا لمبا راگ الاپنے کے بعد ابرار نے گانا شروع کیا۔

میرے ڈھولنا۔۔۔ سُن
میرے پیار کی دُھن
میرے ڈھولنا۔۔۔سُن

میری چاہتیں تو۔۔۔فضا میں بہیں گی۔۔۔
زندہ۔۔۔ رہے گی۔۔۔ہوکے فنا۔۔۔

تانا نا نا تم۔۔۔ تانا نا نا تم
تانا نا نا تم۔۔۔ تانا نا نا تم

سانسوں میں سانسوں میں تیری سرگمیں ہیں
اب رات دن۔۔۔
زندگی میری تو کچھ نہ
اب تیرے بن۔۔۔۔

ایک غیرتربیت یافتہ بچے کا اتنے مشکل گانے کو بنا رُکے گانے کا یہ مظاہرہ ہم سب کے لیے ناقابل یقین تھا۔ اپنی اس خداداد صلاحیت پر ابرار کا کچھ یوں کہنا ہے،'میں ٹی وی پر دیکھ کر سُن کر ایک سے دو گھنٹے میں گانا یاد کرلیتا ہوں۔' ابرار کی آنکھوں میں چمکتی ذہانت اور بلا کا اعتماد اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس بچے کا مستقبل بھی بہت روشن ہے، یہ بچہ 'گدڑی میں لعل ' کی کہاوت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔

ابرار مستقبل میں ایک گلوکار بننے کے لیے پُر عزم ہے، اس کا کہنا ہے کہ اگر سنگر نہ بن سکا تو پھر انجنیئرنگ کو بہ طور پیشہ منتخب کروں گا۔ روزانہ ایک سے دو گھنٹے گانے کی مشق کر نے والے ابرار کو کھانے میں بھنڈی گوشت بہت پسند ہے، سائنس پسندیدہ موضوع ہے، فلموں کا شیدائی، فلمیں دیکھ کر گانے بھی یاد کرلیتا ہے۔ گانا گانے اور چھوٹی موٹی شرارتوں پر بڑے بھائیوں اور اماں سے پٹائی بھی لگتی رہتی ہے۔

چھے بہنوں اور تین بھائیوں کے لاڈلے بھائی ابرار ناصر کی والدہ کا کہنا ہے کہ ابرار نے تین چار سال کی عمر ہی میں گانا شروع کردیا تھا۔ محلے اور خاندان کی تقریبات میں لوگ اس سے گانا گانے کی فرمائش کرتے، اور یہ ان کی فرمائش پر دو دو، تین تین گھنٹے تک گاتا۔ اس بات پر میں اکثر اس کی پٹائی بھی کرتی تھی کیوں کہ میرے سسرال اور میکے میں کسی کو بھی گلوکاری تو کجا گنگنانے تک کا شوق نہیں ہے۔

شادی بیاہ میں لوگ اس کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے اور موبائل پر اس کی ویڈیو بنانا شروع کردیتے۔ سب لوگ ہی اس کی آواز کی تعریف کرتے لیکن ہم نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ بعض اوقات تو اس کی بہنیں بھی چڑ جاتی ہیں اسے ڈانتی ہیں کہ'کیا ہر وقت گانا گاتے رہتے ہو۔' ابرار ہمارے گھر کا واحد بچہ ہے جو تعلیم حاصل کررہا ہے، اور اس کا سہرا ادارہ الخیر ٹرسٹ کو جاتا ہے جو گذشتہ تیس سالوں سے کچرا چُننے والے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔ چوتھی کلاس میں زیرتعلیم ابرار کا حافظہ اتنی کم عمری میں بھی غضب کا ہے۔



وہ کوئی بھی گانا، غزل، حمد یا نعت ایک دو بار پڑھ کر یا سُن کر یاد کرلیتا ہے۔ گانا یا غزل کتنی بھی مشکل ہو وہ اسے اس کے تمام تر لوازمات سُر تال، لے تک کے ساتھ یاد کرلیتا ہے۔ ابرار کے انداز موسیقی اور گلوکاری کی تمام تر جزیات کا تیکنیکی جائزہ لینے کے لیے ہم ابرار کو اپنے ساتھ لے کر گئے اور مختلف ماہرین موسیقی، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنس آرٹ (ناپا) میں کلاسیکل موسیقی کی تعلیم دینے والے اساتذہ، آرٹس کونسل آف پاکستان کے عہدے داروں کے سامنے اس بچے نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ابرار کے فن کے بارے میں ان شخصیات کے تاثرات درج ذیل ہیں۔

٭استاد سلامت حسین خان
ملک کے مشہور بانسری نواز اور دنیا بھر میں اپنے فن سے پاکستان کا نام روشن کرنے والے صدارتی'تمغہ برائے حسن کارکردگی' یافتہ استاد سلامت حسین کا کہنا ہے کہ اس بچے میں ایک اچھے غزل گایک کی تمام تر خصوصیات موجود ہیں۔ اس کی آواز بہت قیمتی ہے۔ اگر یہ اپنی آواز کا خیال رکھے، اس کے گلے کا خیال رکھا جائے، اسے زیادہ چخوایا نہیں جائے اور صحیح تربیت دی جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آگے چل کر یہ بچہ دنیا بھر میں گلوکاری اور خصوصاً کلاسیکل موسیقی میں پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ جب یہ بغیر سیکھے اتنا اچھا گا رہا ہے تو پھر کسی اچھے استاد کی تربیت اس کی صلاحیتوں کو چار چاند لگادے گی۔ اسے خدا نے اتنی خوب صورت آواز سے نوازا ہے، آپ یہ دیکھیں کہ اس کے گلے سے پورے سُر نکل رہے ہیں۔

اس بچے میں سب سے بڑی صلاحیت یہ ہے کہ یہ ہر گانا گا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ غزل بہت اچھی گا سکتا ہے، اسے ابھی نہیں پتا کہ 'سا' کیا ہے، 'گا ' کیا ہے، 'ما' کیا ہے، لیکن گالیتا ہے۔ استاد سلامت حسین نے ابرار کی گایکی سے خوش ہوکر اسے مٹھائی بھی کھلائی۔ دنیائے موسیقی میں کسی سنیئر کی جانب سے نئے گلوکار کا منہ میٹھا کرانا بڑی فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اس کی آواز بہت قیمتی ہے۔ اگر یہ چاہے تو میں اسے بلامعاوضہ سکھانے کے لیے راضی ہوں۔

٭استاد ادریس حسین خان
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں کلاسیکی موسیقی پڑھانے والے ممتاز ہارمونیم نواز استاد ادریس حسین خان نے ابرار کی تعریف کچھ اس انداز میں کی۔اس عمر میں بچے عموماً ٹیمپو میں نہیں ہوتے لیکن اس نے مجھے ششدر کردیا ہے۔ اس کے حلق سے 'بیس' بھی نکل رہی ہے اور سُر بھی۔ اس بچے میں مجھے دوسرے خان صاحب (مہدی حسن خان ) نظر آرہے ہیں۔

اس میں بغیر سیکھے ہی مہدی حسن بول رہا ہے، کیوں کہ مہدی حسن کی یہ غزل (میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے) بغیر ساز کے وہی گا سکتا ہے جس کے اندر غیرمعمولی صلاحیت ہو۔ یہ اتنی مشکل ٹیون (دھن) ہے کہ بنا ساز کے کوئی اسے گلے سے ادا نہیں کرسکتا۔ اس کی آواز کا اتار چڑھاؤ، اس کی مینڈ، مُرکی یہ ساری چیزیں ا س کے گلے سے نکل رہی ہیں۔ یہ بغیر ساز کے گا رہا ہے جو ایک خداداد صلاحیت ہے، بس قدرت جسے نوازتی ہے اس میں کوئی گن پیدا کردیتی ہے۔

بعض لوگ تو سیکھ کر بھی اتنا اچھا نہیں گاتے۔ اگر یہ سیکھ جائے تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ یہ ہمارے ملک کا سرمایہ ہوسکتا ہے۔ اس کے من میں بہت کچھ ہے بس اسے ایک اچھے استاد کی ضرورت ہے یہ بہت اچھا فن کار ثابت ہوگا۔ استاد ادریس خان صاحب کا کہنا ہے کہ اس عمر میں بچوں کی آواز شارپ ہوتی ہے، لیکن ابرار کی آواز دونوں طرف سے اچھی ہے، اس کا بیس بھی ہے اور اس کا ٹیپ بھی ہے۔ اس میں گانے کے جراثیم پیدائشی ہیں۔ اس عمر میں بچے لے میں نہیں ہوتے یہ سر میں تو ہے ہی لیکن ٹیمپو میں بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں اس بچے کو وہ سب کچھ سکھانے کے لیے راضی ہوں جو میری عمر بھر کی کمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ 'پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں' تو اس بچے میں مجھے ایک بہترین گلوکار، غزل گایک نظر آرہا ہے۔ اس کی آواز کا اتار چڑھاؤ، انداز گائیکی اور موسیقی میں دلچسپی اس بات گواہی ہے کہ یہ مستقبل میں ہمارے ملک کا قابل فخر اثاثہ بنے گا۔ میں ابرار کی ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہوں، یہ میرے پاس آئے مجھ سے سیکھے میں اسے سکھاؤں گا۔ میں اس بچے کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے پر ایکسپریس کا بھی شکر گزار ہوں۔

٭محمد حسین
شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کے ساتھ تیس سال تک رہنے والے ممتاز ہارمونیم نواز محمد حسین نے ابرار سے دو تین مشکل گانے سننے کے بعد کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا: اس کی (ابرار) خوب صورت آواز خدا کی طرف سے تحفہ ہے، اس نے کہیں سے سیکھا نہیں ہے لیکن یہ جتنا بھی گا رہا ہے لاشعوری طور پر گا رہا ہے، اسے نہیں پتا کہ سُر، سرگم کیا ہے بس یہ گا رہا ہے۔

ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں، اس کی گایکی میں جو تھوڑی بہت خامیاں ہیں وہ اچھی تربیت سے دور ہوجائیں گی۔ ابھی یہ بچہ ہے اسے کافی کچھ سیکھنا ہے، یہ اپنی طبیعت سے ، روح سے پیدائشی گلوکار ہے، یہ سر میں بھی ہے، اگر اسے صحیح راہ نمائی ملی تو دنیائے موسیقی کا ایک روشن ستارہ بن کر سامنے آئے گا۔ اگر یہ چاہے تو میں اسے بلامعاوضہ سکھانے پر راضی ہوں۔

٭استاد گلاب خان
مشہور صوفی سنگر عابدہ پروین کی سنگت میں بیس سال سے زاید کا عرصہ بتانے والے مشہور طبلہ نواز استاد گلاب خان کا کہنا ہے، ابھی یہ بچہ ہے اور بچوں کے لحاظ سے اس کی آواز بہت اچھی ہے۔ ابھی اسے 'سا' کا پتا نہیں ہے، 'گا' کا نہیں پتا، لیکن یہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر گا رہا ہے۔ اس کی آواز اللہ کی طرف سے اس کے لیے تحفہ ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی آواز نکھرتی جائے گی۔

اس کے اندر گانے کے جراثیم ہیں بس اسے گانے کا طریقہ نہیں پتا۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ جہاں سے یہ 'استھائی' گا رہا ہے وہیں سے اسے 'انترہ' پکڑنے کا پتا ہے۔' اگر یہ پابندی سے ریاض کرے اور اسے صحیح تربیت دی جائے تو مستقبل میں بہ حیثیت کلاسیکل سنگر دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرسکتا ہے۔

٭محمد عمر قریشی
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنس آرٹس (ناپا) میں نئی نسل کو موسیقی کے اسرارورموز سے آشنا کرنے والے ممتاز موسیقار محمد عمر قریشی نے ابرار ناصر کی آواز کی بابت کچھ یوں کہا: ابرار کی آواز میں ایسا جادو ہے جو سننے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ یہ بہت باصلاحیت بچہ ہے لیکن اگر اس کی تربیت صحیح طرح نہیں کی گئی تو پھر یہ بھی دوسرے بہت سے فن کاروں کی طرح گم نامی کے اندھیروں میں گُم ہوجائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس بچے کو اچھی تربیت دے کر اس کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کریں۔

اسے بس ایک اچھے استاد کی ضرورت ہے، یہ تو پیدائشی گلوکار ہے، اسے کندن بنانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ یہاں میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں ٹیلینٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن افسوس کے ہم اس ٹیلنٹ کو صحیح طرح استعمال نہیں کر پاتے، ہمارے یہاں فن کو فروغ دینے کے لیے ، فن کاروں کے فن کو نکھارنے کے لیے اکیڈمیاں نہیں ہیں۔ کراچی میں ناپا کے بننے سے فن کاروں کو ایک اچھا پلیٹ فارم میسر آیا ہے لیکن صرف ایک ناپا پورے پاکستان کے فن کاروں کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس طرح کی اکیڈمیاں اور بننی چاہییں۔ پڑوسی ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں سیکڑوں کی تعداد میں اکیڈمیاں ہیں، جو کہ وہ اپنے ایک چھوٹے سے گلوکار، اداکار کو بھی بہت بلند پائے کا فن کار بنا دیتی ہیں۔

٭محمد احمد شاہ
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے عہدے دار اور ممتاز سماجی شخصیت محمد احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ابرار کی آواز میں ایک انوکھا پن ہے، یہ بہت اعتماد اور اور خوب صورتی کے ساتھ گانے پر عبور رکھتا ہے۔ ابرار اور ان جیسے بچے ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، میں ذاتی طور پر ابرار کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ ہے اور آرٹس کونسل ٹیلینٹ کے فروغ میں ہمیشہ آگے آگے رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ابرار آرٹس کونسل کی میوزک اکیڈمی میں تربیت حاصل کرے، مجھے امید ہے کہ یہ بچہ آگے چل کر بہت ترقی کرے گا۔

https://www.dailymotion.com/video/x4jhqa1
Load Next Story