پاکستان ڈاٹ کام
اپنے گھر میں رہتے ہوئے کمپیوٹر اسکرین سے کچھ بھی خرید لینے سے زندگی میں آسانیاں آگئیں۔
ای کامرس کا نام آپ نے ضرورسنا ہوگا،آسان زبان میں انٹرنیٹ سے کچھ بھی خریدنے یا بیچنے کو ''ای کامرس'' کہا جاتا ہے۔ یہ ای کامرس دنیا کے لیے کچھ نئی ہو، لیکن دراصل یہ پچھلے اُنتیس (29) سال سے موجود ہے۔
Compserve نامی کمپنی نے 1985ء میں اپنا ای۔کامرس اسٹور بنایا تھا، اسی طرح ایک اور کمپنی نے بھی اپنے ڈیلرز اورکسٹمرز کو گاڑیاں خریدنے کی سہولت انٹرنیٹ پر دی تھی۔
1995ء میں ای کامرس ایک نئے انداز سے انٹرنیٹ پر شروع ہوئی، ''ماس ای کامرس'' جہاں دو چار لوگ کسی ویب سائٹ سے چیزیں خریدنے کے بجائے لاکھوں لوگ ای کامرس کا حصہ بن گئے، ای بے اور امیزون جیسی سائٹس نے ای کامرس کو گھر گھر پہنچا دیا۔
سترہ سال پہلے بنی "Ebay" آج دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ پلیس ہے، ای۔بے آسان لفظوں میں انٹرنیٹ کا کباڑخانہ ہے ۔
امریکا میں ایک ایرانی امیگرنٹ مُراد اُمیدیار (Morad Omidyar) جو اٹھائیس سال کے تھے تین دن آفس سے چھٹی کی وجہ سے اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ایک سائٹ بنانے کا سوچ رہے تھے، انھیں خیال آیا کہ انٹرنیٹ پر ایک ایسی سائٹ بنائی جائے جہاں لوگ اپنی وہ پرانی چیزیں بیچ سکیں جن کی انھیں اب ضرورت نہیں۔
1995ء لیبر ڈے ویک اینڈ کو ای۔بے کی پیدائش ہوئی جس کے بعد امریکنز آہستہ آہستہ انٹرنیٹ سے چیزیں خریدنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
ای۔بے کے بعد آیا Amazon جہاں نہ صرف آپ اپنی چیزیں بیچ سکتے تھے بلکہ بڑی بڑی دوسری کمپنیوں سے چیزیں خرید بھی سکتے تھے، اسی طرح ہر ہفتے بڑی بڑی ویب سائٹس انٹرنیٹ پر آنے لگیں اور یہ کمپیوٹر کے ذریعے ٹریڈنگ صرف مشغلے سے بلین ڈالر بزنس بن گئی۔
صرف کمپنیوں کے لیے ہی نہیں عام لوگوں کے لیے بھی انٹرنیٹ پر آن لائن شاپنگ بہت فائدے مند ثابت ہوئی، اپنے گھر میں رہتے ہوئے کمپیوٹر اسکرین سے کچھ بھی خرید لینے سے زندگی میں آسانیاں آگئیں، پچھلے سترہ سال میں امریکا میں کم سے کم 80% لوگ ایسے ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدا ہے، صرف 2012ء میں ہی انٹرنیٹ سے تقریباً 167 بلین ڈالرز کی چیزیں خریدی گئی ہیں، صرف امریکا میں نہیں ای کامرس کا بزنس ماڈل اور ٹریڈ دنیا کے کئی ممالک میں عام ہوچکا ہے، لیکن پاکستان ابھی بھی ای کامرس کی دنیا سے بہت دور ہے، ابھی تک پاکستان میں لوگوں کو لگتا ہے کہ دکانوں پر جانا، بحث کرکے دس دس روپے چیزوں کی قیمت میں کم کرانا ہی شاپنگ کرنے کا بہترین طریقہ ہے، پاکستان میں لوگوں کا سوچنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہے جس میں بیش وقت انھیں لگتا ہے کہ دکاندار سامان بیچنے کے لیے غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر پوری تسلی کرکے ہی سامان خریدنا چاہیے۔
پاکستان میں کئی لوگوں کے مقابلے میں بہترانٹرنیٹ اسپیڈ ہے،اس کے باوجود ہم اس انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو کسی بڑے ای کامرس فائدے میں نہیں لارہے ہیں،لوگوں کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ پر خریدنے سے لوگوں کو وہ چیز ویسی نہ ملے جس کے انھوں نے پیسے دیے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں ای کامرس سائٹ لانچ نہیں ہوئی، پچھلے چار پانچ سالوں میں درجنوں ویب سائٹس متعارف ہوئی ہیں، لیکن ان کی کوالٹی اور رسپانس ریٹ بہت خراب ہے، آپ انھیں فون کریں تو چار چار پانچ پانچ دن جواب ہی نہیں آتا۔
نہ صرف وہ جو پاکستان میں ای کامرس چلا رہے ہیں بلکہ وہ سائٹس بھی جو باہر رہنے والے پاکستانیوں کو سروس فراہم کرتی ہیں کوالٹی میں مارکھاتی ہیںجیسے دس سال پہلے آن لائن سروس کے ذریعے پاکستان میں کسی کو کیک بھیجنا تھا،آج بھی اتنا ہی ہے،کوالٹی،چیزکو پہنچانے کا وقت اور کسٹمر سروس ہر چیز ان سائٹس کی بُری ہے۔
ایک بڑی وجہ پاکستان میں ای کامرس کے کامیاب نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی کریڈٹ کارڈ انفارمیشن انٹرنیٹ پر ڈالنے سے جھجھکتے ہیں۔ پاکستان، ایران، انڈیا دنیا کے ان ٹاپ ٹین ممالک میں آتے ہیں جہاں کمپیوٹر Hacking کی جاتی ہے۔ حکومت کے قومی شناختی کارڈ سے لے کر اہم اور حساس اداروں تک کی سائٹ Hack ہوچکی ہے۔اب اگر ہزار روپے کی چیزخریدنے کے چکر میں آپ اپنی کریڈٹ کارڈ انفارمیشن ہیکرز کے ہاتھوں لگ جانے دیں تو پچاس روپے بچانے کے چکر میں ہزاروں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہی سوچ ہمارے ملک کے لوگوں کو ای کامرس جیسی سروس سے مستفید ہونے سے روک رہی ہے۔
اس وقت دنیا کی ہر بڑی کمپنی اور ان کے ای کامرس دفاتر میں انڈین اور پاکستانی کام کرنے والے آگے آگے ہیں یعنی کہ وہ دماغ رکھتے ہیں جن میں بزنس اور ای کامرس سمجھنے کی بہت اچھی صلاحیت ہے، پھر ہمارے ملک میں بھی اس کا رجحان ہونا چاہیے۔
ہم پاکستان میں ہر چیزکو بُرا بھلا کہتے رہے ہیں اورپھر ساتھ میں حکومت کو بھی قصور وار ٹھہراتے ہیں، اب میں اکیلا تو سسٹم بدل نہیں سکتا ہوں،بس مجھے کمزور عام آدمی کی طرح سوسائٹی کی مجبوریوں کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، اس طرح کی سوچوں سے باہر نکلیں اور یہ سمجھیں کہ آپ خود اکیلے کس طرح اپنی اور اپنے ملک کی اکنامکس کو بہتر کرسکتے ہیں۔
Amazon آج دنیا بھر سے سالانہ 38 بلین ڈالرز کماتی ہے اور ایمزون یا ای۔بے جیسی کمپنیاں شروع کرنے کے لیے کسی بھی خاص بڑے خرچے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف پانچ سو روپے کی ایک سائٹ خریدی جاسکتی ہے اور درجنوں انٹرنیٹ پر مفت ٹولز موجود ہیں جن سے آپ اپنی سائٹ مفت بناسکتے ہیں۔
لوگوں کو اگر انٹرنیٹ پر اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے سے ڈر لگتا ہے تو ایسا ماڈل نکالیں جیسا چائنا میں بڑی بڑی ویب سائٹس نے نکالا ہے،سیلر اپنی چیزیں بکنے کے بعد اس ویب سائٹ کے دفتر بھیجتا ہے اور چیک کرنے کے بعد کوریئر کیش آن ڈلیوری پر بائر کو چیز بھیجتا ہے۔
پاکستان میں ای۔ کامرس کے ترقی پانے کے بہت مواقعے ہیں جو اب تک کسی نے آزمائے نہیں، اگر ہم اپنے Consumers کو صحیح طرح بتائیں تو پاکستان میں خرچ ہونے والے پیسوں سے ایک بڑا حصہ انٹرنیٹ شاپنگ کی طرف لایا جاسکتا ہے اور یہ وہ انڈسٹری ہے جہاں کوئی بھی عام انسان اپنے کمپیوٹر کے ذریعے ای۔بے جیسی سائٹس پوری طرح کھڑی کرسکتا ہے، وہ ای۔بے جو سترہ سال پہلے ایک عام سی نوکری کرنے والے شخص نے اپنے لاؤنج سے شروع کی تھی اور آج وہ سو بلین ڈالر کی کمپنی ہے۔
Compserve نامی کمپنی نے 1985ء میں اپنا ای۔کامرس اسٹور بنایا تھا، اسی طرح ایک اور کمپنی نے بھی اپنے ڈیلرز اورکسٹمرز کو گاڑیاں خریدنے کی سہولت انٹرنیٹ پر دی تھی۔
1995ء میں ای کامرس ایک نئے انداز سے انٹرنیٹ پر شروع ہوئی، ''ماس ای کامرس'' جہاں دو چار لوگ کسی ویب سائٹ سے چیزیں خریدنے کے بجائے لاکھوں لوگ ای کامرس کا حصہ بن گئے، ای بے اور امیزون جیسی سائٹس نے ای کامرس کو گھر گھر پہنچا دیا۔
سترہ سال پہلے بنی "Ebay" آج دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ پلیس ہے، ای۔بے آسان لفظوں میں انٹرنیٹ کا کباڑخانہ ہے ۔
امریکا میں ایک ایرانی امیگرنٹ مُراد اُمیدیار (Morad Omidyar) جو اٹھائیس سال کے تھے تین دن آفس سے چھٹی کی وجہ سے اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ایک سائٹ بنانے کا سوچ رہے تھے، انھیں خیال آیا کہ انٹرنیٹ پر ایک ایسی سائٹ بنائی جائے جہاں لوگ اپنی وہ پرانی چیزیں بیچ سکیں جن کی انھیں اب ضرورت نہیں۔
1995ء لیبر ڈے ویک اینڈ کو ای۔بے کی پیدائش ہوئی جس کے بعد امریکنز آہستہ آہستہ انٹرنیٹ سے چیزیں خریدنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
ای۔بے کے بعد آیا Amazon جہاں نہ صرف آپ اپنی چیزیں بیچ سکتے تھے بلکہ بڑی بڑی دوسری کمپنیوں سے چیزیں خرید بھی سکتے تھے، اسی طرح ہر ہفتے بڑی بڑی ویب سائٹس انٹرنیٹ پر آنے لگیں اور یہ کمپیوٹر کے ذریعے ٹریڈنگ صرف مشغلے سے بلین ڈالر بزنس بن گئی۔
صرف کمپنیوں کے لیے ہی نہیں عام لوگوں کے لیے بھی انٹرنیٹ پر آن لائن شاپنگ بہت فائدے مند ثابت ہوئی، اپنے گھر میں رہتے ہوئے کمپیوٹر اسکرین سے کچھ بھی خرید لینے سے زندگی میں آسانیاں آگئیں، پچھلے سترہ سال میں امریکا میں کم سے کم 80% لوگ ایسے ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدا ہے، صرف 2012ء میں ہی انٹرنیٹ سے تقریباً 167 بلین ڈالرز کی چیزیں خریدی گئی ہیں، صرف امریکا میں نہیں ای کامرس کا بزنس ماڈل اور ٹریڈ دنیا کے کئی ممالک میں عام ہوچکا ہے، لیکن پاکستان ابھی بھی ای کامرس کی دنیا سے بہت دور ہے، ابھی تک پاکستان میں لوگوں کو لگتا ہے کہ دکانوں پر جانا، بحث کرکے دس دس روپے چیزوں کی قیمت میں کم کرانا ہی شاپنگ کرنے کا بہترین طریقہ ہے، پاکستان میں لوگوں کا سوچنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہے جس میں بیش وقت انھیں لگتا ہے کہ دکاندار سامان بیچنے کے لیے غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر پوری تسلی کرکے ہی سامان خریدنا چاہیے۔
پاکستان میں کئی لوگوں کے مقابلے میں بہترانٹرنیٹ اسپیڈ ہے،اس کے باوجود ہم اس انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو کسی بڑے ای کامرس فائدے میں نہیں لارہے ہیں،لوگوں کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ پر خریدنے سے لوگوں کو وہ چیز ویسی نہ ملے جس کے انھوں نے پیسے دیے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں ای کامرس سائٹ لانچ نہیں ہوئی، پچھلے چار پانچ سالوں میں درجنوں ویب سائٹس متعارف ہوئی ہیں، لیکن ان کی کوالٹی اور رسپانس ریٹ بہت خراب ہے، آپ انھیں فون کریں تو چار چار پانچ پانچ دن جواب ہی نہیں آتا۔
نہ صرف وہ جو پاکستان میں ای کامرس چلا رہے ہیں بلکہ وہ سائٹس بھی جو باہر رہنے والے پاکستانیوں کو سروس فراہم کرتی ہیں کوالٹی میں مارکھاتی ہیںجیسے دس سال پہلے آن لائن سروس کے ذریعے پاکستان میں کسی کو کیک بھیجنا تھا،آج بھی اتنا ہی ہے،کوالٹی،چیزکو پہنچانے کا وقت اور کسٹمر سروس ہر چیز ان سائٹس کی بُری ہے۔
ایک بڑی وجہ پاکستان میں ای کامرس کے کامیاب نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی کریڈٹ کارڈ انفارمیشن انٹرنیٹ پر ڈالنے سے جھجھکتے ہیں۔ پاکستان، ایران، انڈیا دنیا کے ان ٹاپ ٹین ممالک میں آتے ہیں جہاں کمپیوٹر Hacking کی جاتی ہے۔ حکومت کے قومی شناختی کارڈ سے لے کر اہم اور حساس اداروں تک کی سائٹ Hack ہوچکی ہے۔اب اگر ہزار روپے کی چیزخریدنے کے چکر میں آپ اپنی کریڈٹ کارڈ انفارمیشن ہیکرز کے ہاتھوں لگ جانے دیں تو پچاس روپے بچانے کے چکر میں ہزاروں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہی سوچ ہمارے ملک کے لوگوں کو ای کامرس جیسی سروس سے مستفید ہونے سے روک رہی ہے۔
اس وقت دنیا کی ہر بڑی کمپنی اور ان کے ای کامرس دفاتر میں انڈین اور پاکستانی کام کرنے والے آگے آگے ہیں یعنی کہ وہ دماغ رکھتے ہیں جن میں بزنس اور ای کامرس سمجھنے کی بہت اچھی صلاحیت ہے، پھر ہمارے ملک میں بھی اس کا رجحان ہونا چاہیے۔
ہم پاکستان میں ہر چیزکو بُرا بھلا کہتے رہے ہیں اورپھر ساتھ میں حکومت کو بھی قصور وار ٹھہراتے ہیں، اب میں اکیلا تو سسٹم بدل نہیں سکتا ہوں،بس مجھے کمزور عام آدمی کی طرح سوسائٹی کی مجبوریوں کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، اس طرح کی سوچوں سے باہر نکلیں اور یہ سمجھیں کہ آپ خود اکیلے کس طرح اپنی اور اپنے ملک کی اکنامکس کو بہتر کرسکتے ہیں۔
Amazon آج دنیا بھر سے سالانہ 38 بلین ڈالرز کماتی ہے اور ایمزون یا ای۔بے جیسی کمپنیاں شروع کرنے کے لیے کسی بھی خاص بڑے خرچے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف پانچ سو روپے کی ایک سائٹ خریدی جاسکتی ہے اور درجنوں انٹرنیٹ پر مفت ٹولز موجود ہیں جن سے آپ اپنی سائٹ مفت بناسکتے ہیں۔
لوگوں کو اگر انٹرنیٹ پر اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے سے ڈر لگتا ہے تو ایسا ماڈل نکالیں جیسا چائنا میں بڑی بڑی ویب سائٹس نے نکالا ہے،سیلر اپنی چیزیں بکنے کے بعد اس ویب سائٹ کے دفتر بھیجتا ہے اور چیک کرنے کے بعد کوریئر کیش آن ڈلیوری پر بائر کو چیز بھیجتا ہے۔
پاکستان میں ای۔ کامرس کے ترقی پانے کے بہت مواقعے ہیں جو اب تک کسی نے آزمائے نہیں، اگر ہم اپنے Consumers کو صحیح طرح بتائیں تو پاکستان میں خرچ ہونے والے پیسوں سے ایک بڑا حصہ انٹرنیٹ شاپنگ کی طرف لایا جاسکتا ہے اور یہ وہ انڈسٹری ہے جہاں کوئی بھی عام انسان اپنے کمپیوٹر کے ذریعے ای۔بے جیسی سائٹس پوری طرح کھڑی کرسکتا ہے، وہ ای۔بے جو سترہ سال پہلے ایک عام سی نوکری کرنے والے شخص نے اپنے لاؤنج سے شروع کی تھی اور آج وہ سو بلین ڈالر کی کمپنی ہے۔