ذرا سوچیے
کرۂ ارض پر موسموں کی تبدیلی بھی ماحول میں ایسی تبدیلیاں لے کر آتی ہے جس سے ارضِ زمین پر بسنے والے متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا اگر آغاز سے مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوگا کہ کس انداز میں قطرہ قطرہ کرپشن کرتے کرتے پاکستان کے تمام اداروں کوکمزور ہی نہیں بلکہ بربادکیا گیا ۔آج ہمارا ملک جن بنیادوں پر کھڑا ہے اس میں دیمک لگی ہے، خدا کرے کہ اس کی بنیادیں سدا سلامت رہیں۔ (آمین)
پانی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی کا سفر ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی دشمنانِ ملک کی کوششیں تھیں کہ کسی طرح پاکستان کے پانیوں کو روک دیا جائے تاکہ ملک کی زرخیزی متاثر ہو، غیر تو غیر ہے اپنے بھی اس عمل میں کسی نہ کسی طرح دشمن ہی ثابت ہوئے، ہر سال بارشیں ہوتی ہیں، قدرتی طور پر ہونے والی ان بارشوں کا پانی میٹھا اور صحت بخش ہوتا ہے، اس پانی کو محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کرۂ ارض پر موسموں کی تبدیلی بھی ماحول میں ایسی تبدیلیاں لے کر آتی ہے جس سے ارضِ زمین پر بسنے والے متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور موسمیاتی تبدیلی کے آثار 80ء کی دہائی میں واضح ہونے شروع ہوئے، رقبے کے اعتبار سے پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے، لیکن اس میں دنیا کے تقریباً نوے فیصد بڑے گلیشئرز ہیں، دنیا کی بلند ترین چوٹیاں چودہ ہیں، جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں، دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام سندھ اور پنجاب میں ہے، یہاں کے میدان زرخیز ہیں، بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 3,47000 مربع کلومیٹر ہے، بلوچستان کے رقبے میں زیادہ تر پہاڑی علاقے ہیں جب کہ زرخیز میدان بھی کم نہیں ہیں، یہاں کی بہت سی زمین مناسب پانی اوردیکھ بھال کی منتظر ہے، لیکن افسوس ملک کے سب سے بڑے رقبے والے صوبے کی اس خوبی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہی نہ کی گئی، آبپاشی کا اس صوبے میں کوئی مناسب نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سی زمین بے کار پڑی ہے، آبپاشی کے لیے دریائے سندھ سے جو پانی یہاں آتا ہے، گدو بیراج کے مقام سے وہ چوری ہوجاتا ہے۔
گزشتہ چالیس برسوں میں نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب اورسندھ کے علاقوں میں جنگلات کو بیدردی سے کاٹا گیا، درخت جو بارشوں کے سلسلے میں ہوا کے کٹاؤکا باعث بنتے ہیں غائب ہوگئے ہیں، افغانستان میں بمباری سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا،عراق میں تیل کے کنوئیں آگ کی لپیٹ میں آگئے اور بلوچستان میں آلودہ بارش ہوئی اورگرمی بڑھتی گئی، زمین سے پانی خشک ہوتا گیا، اوپر سے غلط پلاننگ نے اس قدرتی نعمت اور مالی وسائل کو خوب برباد کیا۔
ہمارے اپنے دامن میں ایسے گوہرِ نایاب ہوئے ہیں، لیکن ہمیں ان کی قدر کا اندازہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ ہم اپنے ایسے سپوتوں کی محنت اور وفاداری کو آزمائش میں ڈال کر ایک کونے میں رکھ دیتے ہیں، اسے ہم اپنی جھوٹی انا کا مسئلہ کہیں یا اِدھر اُدھر سے خفیہ بکسوں میں جمع ہونے والی دولت کی کشش، جو ہمیں اپنے ملک کی ترقی نظر ہی نہیں آتی، بس ہم اپنے انداز سے چلنا چاہتے ہیں، اپنا مال بنانا چاہتے ہیں، انجینئر فتح اللہ گنداپور ایک بہت ہی ذہین پاکستانی ہیں جو اپنے کام سے محبت اور وطن سے وفاداری کا عہد نبھانا چاہتے ہیں، لیکن اور بہت سے محب وطنوں کی طرح ہم نے انھیں بھی ایک جانب کردیا، یہ آج کی بات نہیں ہے، 1961 میں انھوں نے ایک ماسٹر پلان بنایا جس میں زمینی پانی کے لیے ایک متناسب نظام تشکیل دیا گیا تھا جو نہ صرف اس وقت کی ضرورت تھی بلکہ اگر اسے اس وقت مکمل کر لیا جاتا تو آج نہ تو پاکستان میں بارشوں کا قیمتی پانی ضایع ہوتا اور نہ ہی سیلاب کی تباہ کاریوں سے انسانی جان ومال کا نقصان ہوتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کا یہ پلان اعلیٰ عہدیداران کی پسندیدگی اور امریکی ماہرین کی ٹیم کی چھ سال کی محنت کے بعد بھی جس طرح مستردکردیا گیا اس کا کیا جواز تھا؟سمجھ میں آنا مشکل ہے۔
مجھے اپنی پاکستانی قوم کی اہلیت پر ہرگزشک نہیں ہے، بے شک نہ صرف پاکستان کی زمین بلکہ یہاں کے ذہن بھی بڑے زرخیز ہیں، اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے زرخیز دماغوں کو اتنا ذہنی ٹارچر دیتے ہیں کہ ان میں سے اکثر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بیرون ملک کی راہ لے لیتے ہیں، ہمارے قابل انجینئر نے جو بات 1962ء میں کی تھی اسے 1968ء میں چھ سال کی محنتوں کے بعد امریکی ماہرین نے ڈیکلیئر کیا، اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر پیٹر لیفٹینک(Dr. Peter Lieftnic) نے کیا اور انجینئر فتح اللہ گنڈا پور کے دریافت شدہ خط زارہ(Katzarah Dam) ڈیم کی تصدیق کی۔ یہ ڈیم دریائے سندھ کے سیلاب کو کنٹرول کرسکتا تھا، لیکن ان تمام کاوشوں کو پس پشت ڈال دیا گیا جو ہمارے اداروں کا کمال ہے۔
ہم انجینئرز نہیں ہیں، ہم عام سے لوگ ہیں، لیکن اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ جس پروجیکٹ کو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے شروع کیا گیا ہے اور جس پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے اسے مکمل کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ اس سے ملک مستفید ہوسکے، لیکن بے حسی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک ؟ پہلے بغیر کسی سروے اور تفتیش کے جس پلان کو شروع کیا گیا تھا جو بلوچستان میں کچی کے میدان کی آبپاشی کرتا، مٹھن کوٹ سے اس بے ترتیب پلان کی ابتداء کی، لیکن پھر اسے ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس پروجیکٹ پر اندازاً تیس بلین خرچ ہوئے جو بے سُود ہی گئے، بعد میں صدر نے اس کی انکوائری کا حکم دیا کیونکہ اخراجات بڑھ کر ستر بلین تک جا پہنچے تھے، مٹھن کوٹ میں ادھورا کام چھوڑنے کے بعد اسے تونسہ ہیڈ ورکس میں منتقل کیا گیا لیکن یہ مکمل ہوا یا نہیں کچھ خبر نہیں۔
بلوچستان میں پہلے کاریزیں سب سے بڑا نظامِ آبپاشی ہوا کرتی تھیں ، پھر صوبے میں ٹیوب ویلز لگ گئے جس کی وجہ سے ہزاروں کاریزیں خشک ہوگئیں اور زیر زمین پانی کی سطح بارہ سو فٹ نیچے چلی گئی، تقریباً پانچ بلین پر مشتمل ٹیوب ویلز کا پروجیکٹ بھی اس کی نذر ہوگیا اور ٹیوب ویلز خشک ہونا شروع ہوگئے، بلوچستان میں پانی کی کمی اورخاص کر پینے کی پانی کی کمی تو شروع ہوچکی ہے، لیکن مستقبل میں اس کے اثرات اور اُبھر کر سامنے آئیں گے،اس سلسلے میں ہماری حکومت اور ادارے کیا کر رہے ہیں؟ خدا جانے، لیکن اگر مزید اسی طرح منصوبے شروع کرکے ادھورے چھوڑ دیے جائیں خاص کر ایسے منصوبے جو صوبوں میں خوشحالی لاسکتے تھے، ملک کو تباہی کی جانب لے جانے میں پیش پیش ہیں۔
کالا باغ ڈیم کے بارے میں بچپن سے ہی ایک تکرار سنتے آرہے ہیں، اس اتنے بڑے پروجیکٹ میں کیا خامیاں ہیں جو اگر ایک عام انسان کو بھی بتایا جائے تو اس کی عقل میں سما جائے، لیکن ہمارے معزز ادارے کیا اتنے ہی کم فہم ہیں جو وہ اس طرح بے اعتنائی برت رہے ہیں؟ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف تین صوبائی اسمبلیاں قراردادیں منظور کرچکی ہیں تو دوسرے متبادل ذرایع آب کیوں تلاش نہیں کیے گئے۔ نئے ڈیم اور ذرایع ناگزیر ہیں، ہمارے ملک کی خوشحالی اور بربادی کے مینار ہیں، خدارا! انھیں اناڑی درزیوں کی نذر نہ کیا جائے جن کی کم یا زیادہ قینچی چل جانے سے کتنی معصوم زندگیاں فنا ہوسکتی ہیں۔ ذرا سوچیے اور سوچتے سوچتے سو نہ جائیے...!
پانی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی کا سفر ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی دشمنانِ ملک کی کوششیں تھیں کہ کسی طرح پاکستان کے پانیوں کو روک دیا جائے تاکہ ملک کی زرخیزی متاثر ہو، غیر تو غیر ہے اپنے بھی اس عمل میں کسی نہ کسی طرح دشمن ہی ثابت ہوئے، ہر سال بارشیں ہوتی ہیں، قدرتی طور پر ہونے والی ان بارشوں کا پانی میٹھا اور صحت بخش ہوتا ہے، اس پانی کو محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کرۂ ارض پر موسموں کی تبدیلی بھی ماحول میں ایسی تبدیلیاں لے کر آتی ہے جس سے ارضِ زمین پر بسنے والے متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور موسمیاتی تبدیلی کے آثار 80ء کی دہائی میں واضح ہونے شروع ہوئے، رقبے کے اعتبار سے پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے، لیکن اس میں دنیا کے تقریباً نوے فیصد بڑے گلیشئرز ہیں، دنیا کی بلند ترین چوٹیاں چودہ ہیں، جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں، دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام سندھ اور پنجاب میں ہے، یہاں کے میدان زرخیز ہیں، بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 3,47000 مربع کلومیٹر ہے، بلوچستان کے رقبے میں زیادہ تر پہاڑی علاقے ہیں جب کہ زرخیز میدان بھی کم نہیں ہیں، یہاں کی بہت سی زمین مناسب پانی اوردیکھ بھال کی منتظر ہے، لیکن افسوس ملک کے سب سے بڑے رقبے والے صوبے کی اس خوبی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہی نہ کی گئی، آبپاشی کا اس صوبے میں کوئی مناسب نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سی زمین بے کار پڑی ہے، آبپاشی کے لیے دریائے سندھ سے جو پانی یہاں آتا ہے، گدو بیراج کے مقام سے وہ چوری ہوجاتا ہے۔
گزشتہ چالیس برسوں میں نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب اورسندھ کے علاقوں میں جنگلات کو بیدردی سے کاٹا گیا، درخت جو بارشوں کے سلسلے میں ہوا کے کٹاؤکا باعث بنتے ہیں غائب ہوگئے ہیں، افغانستان میں بمباری سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا،عراق میں تیل کے کنوئیں آگ کی لپیٹ میں آگئے اور بلوچستان میں آلودہ بارش ہوئی اورگرمی بڑھتی گئی، زمین سے پانی خشک ہوتا گیا، اوپر سے غلط پلاننگ نے اس قدرتی نعمت اور مالی وسائل کو خوب برباد کیا۔
ہمارے اپنے دامن میں ایسے گوہرِ نایاب ہوئے ہیں، لیکن ہمیں ان کی قدر کا اندازہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ ہم اپنے ایسے سپوتوں کی محنت اور وفاداری کو آزمائش میں ڈال کر ایک کونے میں رکھ دیتے ہیں، اسے ہم اپنی جھوٹی انا کا مسئلہ کہیں یا اِدھر اُدھر سے خفیہ بکسوں میں جمع ہونے والی دولت کی کشش، جو ہمیں اپنے ملک کی ترقی نظر ہی نہیں آتی، بس ہم اپنے انداز سے چلنا چاہتے ہیں، اپنا مال بنانا چاہتے ہیں، انجینئر فتح اللہ گنداپور ایک بہت ہی ذہین پاکستانی ہیں جو اپنے کام سے محبت اور وطن سے وفاداری کا عہد نبھانا چاہتے ہیں، لیکن اور بہت سے محب وطنوں کی طرح ہم نے انھیں بھی ایک جانب کردیا، یہ آج کی بات نہیں ہے، 1961 میں انھوں نے ایک ماسٹر پلان بنایا جس میں زمینی پانی کے لیے ایک متناسب نظام تشکیل دیا گیا تھا جو نہ صرف اس وقت کی ضرورت تھی بلکہ اگر اسے اس وقت مکمل کر لیا جاتا تو آج نہ تو پاکستان میں بارشوں کا قیمتی پانی ضایع ہوتا اور نہ ہی سیلاب کی تباہ کاریوں سے انسانی جان ومال کا نقصان ہوتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کا یہ پلان اعلیٰ عہدیداران کی پسندیدگی اور امریکی ماہرین کی ٹیم کی چھ سال کی محنت کے بعد بھی جس طرح مستردکردیا گیا اس کا کیا جواز تھا؟سمجھ میں آنا مشکل ہے۔
مجھے اپنی پاکستانی قوم کی اہلیت پر ہرگزشک نہیں ہے، بے شک نہ صرف پاکستان کی زمین بلکہ یہاں کے ذہن بھی بڑے زرخیز ہیں، اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے زرخیز دماغوں کو اتنا ذہنی ٹارچر دیتے ہیں کہ ان میں سے اکثر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بیرون ملک کی راہ لے لیتے ہیں، ہمارے قابل انجینئر نے جو بات 1962ء میں کی تھی اسے 1968ء میں چھ سال کی محنتوں کے بعد امریکی ماہرین نے ڈیکلیئر کیا، اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر پیٹر لیفٹینک(Dr. Peter Lieftnic) نے کیا اور انجینئر فتح اللہ گنڈا پور کے دریافت شدہ خط زارہ(Katzarah Dam) ڈیم کی تصدیق کی۔ یہ ڈیم دریائے سندھ کے سیلاب کو کنٹرول کرسکتا تھا، لیکن ان تمام کاوشوں کو پس پشت ڈال دیا گیا جو ہمارے اداروں کا کمال ہے۔
ہم انجینئرز نہیں ہیں، ہم عام سے لوگ ہیں، لیکن اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ جس پروجیکٹ کو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے شروع کیا گیا ہے اور جس پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے اسے مکمل کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ اس سے ملک مستفید ہوسکے، لیکن بے حسی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک ؟ پہلے بغیر کسی سروے اور تفتیش کے جس پلان کو شروع کیا گیا تھا جو بلوچستان میں کچی کے میدان کی آبپاشی کرتا، مٹھن کوٹ سے اس بے ترتیب پلان کی ابتداء کی، لیکن پھر اسے ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس پروجیکٹ پر اندازاً تیس بلین خرچ ہوئے جو بے سُود ہی گئے، بعد میں صدر نے اس کی انکوائری کا حکم دیا کیونکہ اخراجات بڑھ کر ستر بلین تک جا پہنچے تھے، مٹھن کوٹ میں ادھورا کام چھوڑنے کے بعد اسے تونسہ ہیڈ ورکس میں منتقل کیا گیا لیکن یہ مکمل ہوا یا نہیں کچھ خبر نہیں۔
بلوچستان میں پہلے کاریزیں سب سے بڑا نظامِ آبپاشی ہوا کرتی تھیں ، پھر صوبے میں ٹیوب ویلز لگ گئے جس کی وجہ سے ہزاروں کاریزیں خشک ہوگئیں اور زیر زمین پانی کی سطح بارہ سو فٹ نیچے چلی گئی، تقریباً پانچ بلین پر مشتمل ٹیوب ویلز کا پروجیکٹ بھی اس کی نذر ہوگیا اور ٹیوب ویلز خشک ہونا شروع ہوگئے، بلوچستان میں پانی کی کمی اورخاص کر پینے کی پانی کی کمی تو شروع ہوچکی ہے، لیکن مستقبل میں اس کے اثرات اور اُبھر کر سامنے آئیں گے،اس سلسلے میں ہماری حکومت اور ادارے کیا کر رہے ہیں؟ خدا جانے، لیکن اگر مزید اسی طرح منصوبے شروع کرکے ادھورے چھوڑ دیے جائیں خاص کر ایسے منصوبے جو صوبوں میں خوشحالی لاسکتے تھے، ملک کو تباہی کی جانب لے جانے میں پیش پیش ہیں۔
کالا باغ ڈیم کے بارے میں بچپن سے ہی ایک تکرار سنتے آرہے ہیں، اس اتنے بڑے پروجیکٹ میں کیا خامیاں ہیں جو اگر ایک عام انسان کو بھی بتایا جائے تو اس کی عقل میں سما جائے، لیکن ہمارے معزز ادارے کیا اتنے ہی کم فہم ہیں جو وہ اس طرح بے اعتنائی برت رہے ہیں؟ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف تین صوبائی اسمبلیاں قراردادیں منظور کرچکی ہیں تو دوسرے متبادل ذرایع آب کیوں تلاش نہیں کیے گئے۔ نئے ڈیم اور ذرایع ناگزیر ہیں، ہمارے ملک کی خوشحالی اور بربادی کے مینار ہیں، خدارا! انھیں اناڑی درزیوں کی نذر نہ کیا جائے جن کی کم یا زیادہ قینچی چل جانے سے کتنی معصوم زندگیاں فنا ہوسکتی ہیں۔ ذرا سوچیے اور سوچتے سوچتے سو نہ جائیے...!